سجن جندال سے میاں نواز شریف کی ملاقات
(سید مجاہد علی)
بھارتی صنعتکار سجن جندال کی قیادت میں ایک تین رکنی وفد نے کل مری میں وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی ہے۔ اگرچہ نہ تو اس خبر کی تصدیق کی گئی ہے اور نہ ہی ملاقات کا ایجنڈا سامنے آیا ہے تاہم پاکستانی میڈیا میں خبر شائع کی گئی ہے کہ سجن جندال اپنے دو ساتھیوں سوکیت سنگھال اور وریندر ببر سنگھ کے ہمراہ کل صبح خصوصی جہاز میں کابل سے اسلام آباد پہنچے جہاں سے وہ تین گاڑیوں میں مری روانہ ہو گئے۔ مری میں اس وفد کی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے دوپہر کا کھانا بھی وزیراعظم کے ساتھ کھایا۔ خبروں میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سجن جندال نے وزیراعظم نریندر مودی کا ایک خط نواز شریف کو پہنچایا اور اس ملاقات میں شنگھائی تعاون تنظیم SCO کے اجلاس کے موقع پر دونوں لیڈروں کی ملاقات کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔
میاں نواز شریف اور سجن جندال کے درمیان دوستی اور تعلق کی خبریں ماضی میں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ دسمبر 2015 میں وزیراعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی کے موقع پر وزیراعظم مودی کی اچانک لاہور آمد کا انتظام بھی سجن جندال نے کیا تھا۔ ایک بھارتی وفد کی پاکستان آمد اور وزیراعظم سے ملاقات سے دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے اور مذاکرات شروع کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ تاہم اس وقت پاکستان کے سیاسی حالات، پاکستان کے معاملات میں بھارتی مداخلت کے الزامات اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پھانسی کی سزا کے تناظر میں بھارتی وفد کے اس اچانک دورہ کو شبہ کی نگاہ سے بھی دیکھا جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف نے خبر سامنے آنے کے فوری بعد اس کے خلاف قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کروا دی ہے۔ دوسرے اپوزیشن لیڈروں کی طرف سے بھی اس اچانک ملاقات کو وزیراعظم نواز شریف کی بھارت نوازی قرار دینے کی کوشش کی جائے گی۔ نواز شریف پاناما کیس کا فیصلہ آنے اور ڈان لیکس کی رپورٹ تیار ہونے کے بعد متعدد سیاسی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس لئے وہ بھارت کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے نہایت محتاط ہوں گے اور صرف وہی موقف اختیار کریں گے جو ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے بیانیہ کے مطابق ہوگا۔ دوسری طرف بھارت میں نریندر مودی حالیہ ریاستی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کی وجہ سے ایک طاقتور لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات اور دشمنی کی طویل تاریخ اور مسائل کی پیچیدگی اور حساسیت کی وجہ سے صرف ایسا لیڈر ہی کوئی ڈرامائی اقدام کرنے کا حوصلہ کر سکتا ہے جو سیاسی طور پر مضبوط ہو۔
2010 کے آخر میں پاکستان کے فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اسی قسم کی حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا تھا اور کشمیر کے سوال پر بعض غیر روایتی اقدامات قبول کرکے بھارت کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم یہ معاہدہ اس وقت بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کی بے یقینی اور قوت فیصلہ کی کمی کی وجہ سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا تھا۔ من موہن سنگھ اگرچہ ملک کے وزیراعظم تھے لیکن وہ سیاسی طور پر کمزور تھے اور ایک مسلمہ سیاسی پوزیشن سے ہٹ کر فیصلہ کرنے کے اہل نہیں تھے۔ اس طرح ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح دو طاقتور ہمسایہ ملکوں کے درمیان ایک اہم معاہدہ ہوتے ہوتے رہ گیا جو اس خطہ میں امن کی راہ ہموار کر سکتا تھا۔
نواز شریف اس وقت پاکستان میں سیاسی لحاظ سے بے حد کمزور ہیں۔ ان کی حیثیت شاید اس وقت بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ سے بھی زیادہ خراب ہے۔ ان پر بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد ہیں۔ سپریم کورٹ اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے اگرچہ ان کی نااہلی پر متفق نہیں ہوئی اور اکثریتی رائے سے وزیراعظم کو معزول کرنے کا فیصلہ مسترد کر دیا گیا ہے لیکن عدالتی فیصلہ کے نتیجہ میں مالی معاملات اور لین دین میں وزیراعظم کے کردار پر شبہات کا سایہ گہرا ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اگرچہ قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے اور نواز شریف کو پارٹی پر مکمل کنٹرول بھی ہے لیکن پاناما کیس کے فیصلہ سے ان کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیاں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف باہمی اختلافات کا شکار ہونے کے باوجود نواز شریف سے استعفیٰ مانگنے کے سوال پر یک زبان ہیں۔ اس بارے میں دن بدن سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملکی میڈیا کی اکثریت بھی اس مطالبہ کا ساتھ دے رہی ہے۔ ابھی نواز شریف اس مشکل سے بچ نکلنے کےلئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے کہ ڈان لیکس کی تحقیقاتی کمیٹی نے بھی رپورٹ پیش کر دی ہے جس میں بعض اعلیٰ سرکاری افسروں اور وزیراعظم کے معاون خصوصی کو قصور وار قرار دیا گیا ہے۔ ابھی یہ رپورٹ شائع نہیں ہوئی اور نہ ہی حکومت نے واضح کیا ہے کہ وہ اس رپورٹ کی روشنی میں کیا اقدامات کرے گی۔ تاہم وزیراعظم اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کریں گے، وہ فوج کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کا تعین کرے گا۔ فوج کی ناراضی وزیراعظم کےلئے نہایت مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔
اس دوران بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے اعترافات کی روشنی میں فوجی عدالت میں مقدمہ چلا کر اسے موت کی سزا دی جا چکی ہے۔ دوسری طرف بھارت نے اس سزا پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ’’بھارت کا بیٹا‘‘ قرار دیا ہے اور اس کی رہائی کےلئے کسی بھی حد تک جانے کا قصد ظاہر کیا ہے۔ اس بھارتی ردعمل کے بعد پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے ایک بیان میں واضح کیا گیا تھا کہ قومی سلامتی کے معاملات پر کسی قسم کی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔ عام طور سے سمجھا جا رہا تھا کہ یہ بیان دراصل بھارت کو جواب تھا اور فوج کے اس ارادے کا اظہار تھا کہ پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری میں ملوث بھارتی نیوی کے کمانڈر کلبھوشن یادیو کو بہرحال اس کے کئے کی سزا دی جائے گی۔ کلبھوشن کی رہائی کےلئے بھارتی وزیروں کے تند و تیز بیانات کی روشنی میں اب بھارتی وفد کی پاکستان آمد اور وزیراعظم سے ملاقات کو بھی اس سے جوڑنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ رائے سامنے آنے میں دیر نہیں لگے گی کہ بھارت نواز شریف کے ساتھ براہ راست مواصلت کے ذریعے کلبھوشن کے معاملہ میں رعایت مانگ رہا ہے۔ اس دوران پاک فوج نے تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کو گرفتار کیا ہے اور اس کا اعترافی بیان جاری کیا گیا ہے۔ اس بیان میں احسان اللہ احسان نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کی افغانستان میں موجود قیادت بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کےلئے کام کر رہی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے آج ایک پریس کانفرنس میں کلبھوشن یادیو کے اعترافات اور احسان اللہ احسان کے انکشافات کو اس بات کا ٹھوس ثبوت قرار دیا ہے کہ بھارت، پاکستان میں دہشت گردی کےلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتا ہے اور متعدد دہشت گرد گروہوں کو اس مقصد کےلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ترجمان نے گزشتہ دنوں افغانستان کے ننگر ہار کے علاقے میں امریکی سپر بم کے حملہ میں 13 بھارتی جاسوسوں کی ہلاکت کا دعویٰ بھی کیا اور کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کس طرح پاکستان کے خلاف سرگرم ہے۔
دوسری طرف بھارت مقبوضہ کشمیر میں احتجاج اور امن و امان کی بگڑی ہوئی صورتحال سے پریشان ہے اور مسلسل پاکستان پر اس کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ بھارتی لیڈر اور میڈیا یہ دعوے کرتا ہے کہ پاکستان نہ صرف دہشت گردوں کو سرحد پار بھیجتا ہے بلکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہڑتالیں اور احتجاج کرنے کےلئے نوجوانوں میں رقوم بھی تقسیم کرتا ہے۔ اگرچہ ان الزامات کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور فوج کے مظالم کی گواہی متعدد عالمی ادارے بھی دیتے ہیں۔ البتہ بھارت اس صورتحال کو پاکستان کے خلاف سفارتی حربے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اسی لئے پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی ہر پیشکش کو یہ کہہ کر مسترد کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان چونکہ دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے اس لئے اس کے ساتھ اس وقت تک بات نہیں ہو سکتی جب تک وہ اس تخریبی پالیسی کو تبدیل نہیں کرتا۔ ایک دوسرے پر جاسوسی اور تخریب کاری کے الزامات لگاتے ہوئے دونوں ملکوں کے قائدین بخوبی یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ایک نئی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ برصغیر میں کسی بھی جنگ کی صورت میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا شدید اندیشہ موجود رہے گا، اس لئے امریکہ اور دیگر ممالک بھی دونوں ملکوں کو صبر و تحمل سے کام لینے اور بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
اشتعال انگیزی اور تصادم کی اس صورتحال میں ایک ایسا بھارتی وفد پاکستان آیا تھا جس کی براہ راست وزیراعظم نریندر مودی تک رسائی ہے۔ وہ بھارتی وزیراعظم کا پیغام لے کر بھی آئے تھے اور شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر دونوں رہنماؤں کی ملاقات کی نوید بھی دی گئی ہے۔ دونوں ملکوں کےلئے اس خطے میں اشتعال اور بحران کی صورتحال کو ختم کرنے کےلئے تعاون شروع کرنے کا یہ اچھا موقع ہو سکتا ہے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ بھارتی وفد دراصل کلبھوشن یادیو کی رہائی کی خواہش لے کر پاکستان آیا ہو اور نواز مودی ملاقات کا پیغام اسی امید پر دیا گیا ہو کہ پاکستان اس حوالے سے کوئی مثبت فیصلہ کرے گا۔ تاہم پاکستان کو بھی اس بھارتی پیشکش کا سنجیدگی سے جائزہ لینے اور اپنی سیاسی، سفارتی اور اسٹریٹجک ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ سوچ سمجھ کر احتیاط سے قدم بڑھایا جا سکے۔ اس کےلئے ضروری ہوگا کہ ایک طرف ملک کے سیاسی لیڈر اس دورہ اور ملاقات کے حوالے سے غیر ضروری ہیجان پیدا کرنے سے باز رہیں تو دوسری طرف سیاسی اور عسکری قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنے اور مل کر ایک واضح حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ نئی دہلی تک ایک متحد اور طاقتور پاکستان کی آواز پہنچائی جا سکے۔
پاکستانی لیڈروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کلبھوشن یادیو کو پھانسی دینا اصل مقصد نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس اقدام سے علاقے میں قیام امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ البتہ اگر بھارت کو متنازعہ امور پر معاملات طے کرنے، بات چیت شروع کرنے اور تصادم کی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کیا جا سکے تو یہ پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کےلئے خوشگوار خبر ہو سکتی ہے۔
Courtesy: karwan.no