مشرقی تنقید کے اہم خد و خال
از، ڈاکٹر عالم اعظمی
(ایسوسی ایٹ پروفیسر شعبۂِ اردو خواجہ معینُ الدّین چشتی لینگوئیج یونی ورسٹی، لکھنؤ)
تنقید اپنے ابتدائی دور میں کسی فن پارے کی بے کم و کاست خوبی و خامی کے احتساب سے عبارت سمجھی جاتی تھی لیکن جیسے جیسے ادب کی افقی و عمودی جہات میں اضافہ ہوتا گیا، تنقید کے خد و خال بھی بدلتے گئے، یہاں تک کہ اب تنقید اپنے روایتی مفہوم کے تنگ نائے سے نکل کر ادب کے عرفان و ادراک سے تعبیر کی جانے لگی۔
سائنسی ترقیات نے زمان و مکان کے فاصلے اتنے کم کر دیے کہ دنیا ایک عالم گیر گاؤں میں تبدیل ہو کر رہ گئی جس کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر علوم و فنون کے اکتساب کا عمل آسان ہو گیا۔ اقطاع عالم میں مختلف سیاسی، سماجی، تہذیبی و ثقافتی حالات کے تحت مختلف الاقسام ادبی تخلیقات منظر عام پر آئیں اور ان کی جانچ پرکھ کے لیے مختلف تنقیدی مقیاس و میزان بھی وجود میں آئے۔ چوں کہ اردو نے تازہ و صحت بخش ہواؤں کے لیے اپنے دریچے ہمیشہ وا رکھے اس لیے عالمی تنقید کے تقریباً تمام نظریات کی شمولیت سے اردو تنقید کے سرمایے میں اضافہ ہوا۔
یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن رفتہ رفتہ مشکل یہ آن پڑی کہ اپنے ادبی سرمایہ کی تفہیم و تقویم کے لیے باہر سے درآمد شدہ نظریات کو معیار فرض کیا جانے لگا اور یہ حقیقت تقریباً نظر انداز ہو کر رہ گئی تھی کہ ہر ادب اپنی مخصوص علاقائی تہذیب و ثقافت کا زائیدہ اور پروردہ ہوتا ہے اور اس کے معیار کا تعین اسی تناظر میں کیا جانا چاہیے۔
اب جب کہ تنقید کے مختلف اطلاقی و غیر اطلاقی اور فہمیدہ و نا فہمیدہ نظریات کی بھول بھلیاں سے گزر کر تخلیق و تنقید کی دوئی کی بَہ جائے ان کی وحدت پر یقین کرنے لگی ہے اور یہ تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ خیال اور لفظ بَہ یک وقت شعر کے پیکر میں ڈھلتے ہیں تو اس روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ تخلیقِ شعر اور تنقید شعر کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔ لہٰذا تخلیق کی ابتدائی شکل میں ہی تنقید کے ابتدائی عناصر کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ چناں چہ جب ہم اردو شاعری کی ابتدائی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو شعراء کے تنقیدی شعور جا بہ جا اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں۔ مثلاً جب ملا وجہی (یہ بات تقریباً تمام شعرا پر صادق آتی ہے) سترہویں صدی کے آغاز میں ہی اچھے شعر کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہیں تو ان کے پیش نظر ایک صحت مند اور معتبر اصول نقد ہوتا ہے۔ چند اشعار دیکھیں:
جو بے ربط بولے تو بیتاں پچیس
بھلا ہے جو اک بیت بولے سلیس
جسے بات کے ربط کا نام نئیں
اسے شعر کہنے سے کچھ کام نئیں
ووکچ شعر کے فن میں مشکل اچھے
کہ لفظ ہور معنی یو سب مل اچھے
اگر نام ہے شعر کا تجکوں چند
چنے لفظ لیا ہور معنی بلند
ان اشعار کے آئینے میں وہ تنقیدی شعور اور اصول نقد عکس بار ہیں جن کا تقاضا آج کے جدید تنقیدی نظریات کرتے ہیں۔ لفظ اور معنی کی دوئی کا وحدت میں تبدیل ہونا بَہ ذات خود تخلیق و تنقید کے ربط باہم اور اشتراک عمل پر دلالت کرتا ہے۔
علاوہ ازیں ہمارے تذکرے بھی تنقید کا عمدہ نمونہ پیش کرتے ہیں۔ جدید تنقیدی نظریات کی عینک سے ان کا جائزہ لینا اور انھیں از کارِ رفتہ یا تنقید کی معمولی شکل دینا ادبی بد دیانتی پر محمول کیا جائے گا۔ تذکروں میں شعراء کے مختصر حالات زندگی اور ان کا منتخب کلام جمع کر دینا تنقیدی عمل ہی سے عبارت ہے۔ آخر کوئی تو تنقیدی پیمانہ رہا ہو گا جس کے پیش نظر تذکرہ نگاروں نے شعراء کے کلام کا انتخاب کیا ہو گا۔
ہم ایک چھوٹے بچے کو ایک مکمل جوان نہ سمجھتے ہوئے اس پر ناقص ہونے کا الزام نہیں عائد کرتے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ بچہ ہے لیکن اس کی ارتقائی منزل شباب ہے اور ایک دن یہ اپنی منزل سے ضرور ہم کنار ہو گا۔ اسی طرح ہمارے تذکرے ناقص و نا مکمل تنقید نہیں ہیں بل کہ ارتقائی منزل کے ابتدائی مرحلے ہیں۔ ہماری مٹی اور ہمارے ماحول میں آنکھیں کھولنے والے شاعر کی شاعری اپنی ذات اور گرد و پیش کے عناصر و مناظر کی جو بھی عکاسی کرتی ہے اس کی صحت و توانائی کی جانچ پرکھ یہیں کی آب و ہوا اور ماحول کی زائیدہ و پروردہ تنقید کرے گی۔
مغربی تخلیق اپنے تاریخی و جغرافیائی موسم و ماحول کی پیداوار ہے لہٰذا اس کے مقام و مرتبہ کا تعین وہیں کے حالات و ماحول کی ساختہ و پرداختہ تنقید کرے گی۔ اس حقیقت سے کوئی چشم پوشی نہیں کر سکتا کہ علمی و ادبی سطح پر درآمد و برآمد کا سلسلہ ایک فطری شے ہے لہٰذا باہر سے آنے والی فرحت بخش و جاں فزا ہواؤں کے استقبال کے لیے اپنے ذہن و دل کے دریچے ہمیشہ کھلے رکھنے چاہییں لیکن اندھی تقلید اور فیشن پرستی کی میزان پر مشرق کے ادبی ذخیرہ کو تول کر ان پر خوب زشت کا حکم لگانا غیر دانش مندانہ عمل ہے۔ اسی طرح مارکسی، تأثراتی، جمالیاتی، نفسیاتی، ساختیاتی، پس ساختیاتی، ساخت شکنی اور قاری اساس تنقید وغیرہ کی شکل میں تنقید کے حصے بخرے کرنا اور انھیں مخصوص و محدود نظریات کی کسوٹی پر کسی تخلیق کا پرکھنا اور جانچنا جس کا باطن بے شمار گفتہ و نا گفتہ اور دیدہ و نا دیدہ امکانات و جہات کا امین ہے، قطعی یک رخا، یک طرفہ بلطکہ غیر فطری عمل ہے۔
مغربی تنقید کے پروردہ نقاد مشرقی تنقید خصوصاً تذکرہ نگاروں پر حکم لگانے یا فیصلہ سنانے کا الزام عائد کرتے ہیں حالاں کہ یہی الزام مغرب میں سترہویں صدی سے قبل کی تنقیدی صورت حال پر عائد کیا گیا۔ جارج واٹسن نے اپنی مشہور کتاب The Literary Critics میں اس زمانے کی تنقید پر مقنن تنقید (Legislative Criticism) کا لیبل چسپاں کیا تھا۔ لیکن واضح رہے کہ اساتذہ کا فیصلہ کن تنقیدی انداز بے سبب نہیں تھا۔ ان کی پسند و نا پسند کا معیار بہت بلند تھا۔ وہ فن کے پاس دار تھے۔ ان کا فنی اور جمالیاتی شعور اس قدر بالیدہ اور پاکیزہ تھا کہ ان کا ذوق جمال فن میں کسی طرح کے عیب و سقم کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ معمولی فروگزاشتیں بھی انھیں تڑپا دیتی تھیں۔
ایک مثال کے ذریعے اس کو واضح کرتا چلوں کہ مشرقی تنقید نے میرؔ کو خدائے سخن، راشد الخیری کو مصور غم، خواجہ حسن نظامی کو مصور فطرت، اکبر الہ آبادی کو لسان العصر، فانیؔ کو یاسیت کا امام، حسرتؔ کو رئیس المتغزلین، اور جگر کو شہنشاہ تغزل جیسے خطاب سے سرفراز کیا۔
کیا مغربی تنقید کے حامی ناقدین مشرقی تنقید کے اس (انھیں کی زبان میں) فیصلے پر خط بطلان پھیر سکتے ہیں! دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ موجودہ دور تنقید کا دور ہے۔ یہ دعویٰ درست بھی ہے، لیکن کیا ترقی کے بلند و بالا مقام کی حامل مغربی تنقید کی خوشہ چینی عصر حاضر کو کوئی میرؔ، غالبؔ یا کوئی اقبالؔ دے سکی۔
تخلیق کا یہ فقدان مغرب سے درآمد کردہ نظریات کے غیر اطلاقی ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ اگر تنقید کا عروج تخلیق کے زوال سے عبارت ہو تو تنقیدِ بے تخلیق بہتر ہے یا تخلیقِ بے تنقید! اب تو نوبت بہ ایں جاں رسید کہ ادب صرف تنقید کی بالادستی سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے اور تخلیق کی حیثیت صرف تنقید کی شکم پروری (فراہمئِ مواد) تک محدود ہو کر وہ گئی ہے۔
دوسری طرف ہماری اثر پذیری اور غیر نوازی کا یہ عالم ہے کہ ہم اپنے سرمایے کو بھی اس وقت تک معتبر نہیں سمجھتے جب تک کہ کوئی مغرب نواز نقاد اس پر مہر تصدیق ثب نہ کر دے۔ ہم آج بھی عملی تنقید کا امام آئی اے رچرڈز کو مانتے ہیں جن کی کتاب Practical Criticism 1927 میں شائع ہوئی جب کہ شبلیؔ کی عملی تنقید پر مشتمل تصنیف موازنۂِ انیس و دبیر رچرڈز کی تصنیف سے ربع صدی قبل شائع ہو چکی تھی۔ ہم آج بھی آزاد کی تنقید کو تذکرے سے آگے کی شے نہیں تسلیم کرتے حالاں کہ ان کا تنقیدی تصور جدید بھی تھا اور بڑی حد تک غیر مستعار بھی۔
آزاد ایک اجتہادی ذہن، فطرت شناس دل اور دور اندیش نگاہ کے مالک تھے۔ وہ ہوا کے رخ کو پہچاننے کے ساتھ ساتھ اپنی لسانی و ادبی ضرورت سے بھی واقف تھے۔ وہ مستقبل کے قدموں کی آہٹ بہت دور سے پہچان لینے پر قادر تھے۔ لیکن اس کے ساتھ اپنی جغرافیائی اور ثقافی اقدار سے بھی ان کا رشتہ بہت گہرا تھا۔ ممکن ہے کہ انگریزی زبان و ادب سے بَہ راہِ راست استفادے میں کرنل ہالرائز اور ماسٹر پیارے لال کا فیضان بھی شامل رہا ہو لیکن یہ استفادہ بھی طرز کہن پر اڑنے سے نہیں بل کہ آئین نو کے استقبال کا مرہون منت ہوا کرتا ہے۔
آزاد نے انجمن پنجاب کے جلسوں میں جو مقالات پیش کیے وہ اس قدر پر مغز اور جدت و ندرت سے لبریز تھے کہ ان سے اکتساب فیض کے بغیر اردو تنقید کی جدت کا تصور محال تھا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جدید اردو تنقید پر حالیؔ کا بہت بڑا احسان ہے لیکن اس کے ضمن میں اولیت کا سہرا آزادؔ کے سر ہے کیوں کہ آزادؔ کو حالیؔ پر زمانی تقدم حاصل ہے اور آب حیات، سخندان فارس، مقدمۂِ شعر و شاعری سے بہت پہلے منظر عام پر آ چکی تھیں۔ آزادؔ پہلے نقاد ہیں جنھوں نے اردو پر فارسی کے تسلط اور مقامی مناظر سے بے نیازی پر گرفت کی۔ ان کو بجا طور پر گلہ تھا کہ ہماری شاعری کے آئینے میں ایرانی آب و ہوا اور وہاں کے مناظر عکس بار ہیں اور یہ ہندوستانی رنگ و آہنگ سے خالی اور یہاں کے پرندوں کی چہک اور مقامی پھولوں کی مہک سے محروم ہے۔
اس طرح آزادؔ نے ادب کو ثقافتی پس منظر سے ہم آہنگ کیا۔ زبان سے زمینی رشتے استوار کرنے اور اس کے آئینے میں ثقافتی پس منظر کو عکس بار کرنے کے آزاد کے نقطۂِ نظر کو ڈاکٹر وزیر آغا نے بالکل نئے تنقیدی زاویے سے تعبیر کیا ہے جو اس زمانے میں آزاد کے علاوہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتا۔
ڈاکٹر موصوف نے آزاد کے اس تصور پر بھی کہ زبان اشارے، تقریر اور تحریر پر مشتمل ہوتی ہے، بہت اہم بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آزادؔ کا یہ کہنا کہ زبان میں اشارہ مضمر ہے، اس کے اشاراتی نظام (Sign System) ہونے کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے جو ایک بے حد جدید تصور ہے۔
آزادؔ کے بعد جس نقاد نے اردو تنقید کو بدیعی و اختراعی (اوریجنل) تصور سے روشناس کرایا وہ شبلیؔ تھے لیکن حالیؔ کو شبلیؔ پر زمانی تقدم حاصل ہے لہٰذا یہاں ان کے ذکر کو مؤخر کیا جاتا ہے۔
حالی کا تنقیدی تصور وہبی کم اور اکتسابی زیادہ ہے۔ حالیؔ کے تنقیدی شعور اور اردو تنقید کو ان کی عطا کا ناقدین و مؤرخین ادب نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور وہ بَہ جا طور پر اس کے مستحق بھی ہیں لیکن ان کے کمالات و فتوحات جب بھی زیر بحث آتے ہیں۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کی بابت کلیم الدین احمد کی وہ رائے ضرور ذہن میں گونجتی ہے جو حالیؔ کے بہت سخت احتساب پر مشتمل ہے۔ موصوف فرماتے ہیں:
حالیؔ کے خیالات ماخوذ، واقفیت محدود، نظر سطحی، فہم و ادراک معمولی، غور و فکر ناکافی، تمیز ادنیٰ، دماغ و شخصیت اوسط، یہ تھی حالیؔ کی کل کائنات۔
کلیم الدین احمد کے حالیؔ پر اس فیصلے کے دو رخ ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مِن حیث العموم یہ فیصلہ ہر چند کہ درست ہے لیکن سطحی، ادنیٰ، محدود اور معمولی جیسے الفاظ کے استعمال سے ایک اچھے نقاد کو ذرا احتیاط برتنی چاہیے۔ اگر حالیؔ کی کل کائنات یہی ہے تو ایک صاحب نظر کے لیے یہ لائق التفات ہی نہیں چہ جائی کہ ان کو اول درجے کے ناقدین کی صف میں جگہ دی جائے اور ان کے خیالات سے اردو تنقید کی سمت و رفتار کا تعین کیا جائے۔
ظاہر ہے کہ حالی کی کائنات صرف اتنی ہی نہیں جتنی پروفیسر موصوف فرما گئے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ حالی کے انوار مستعار سے اردو تنقید میں افراد ہی نہیں تحریکوں نے اپنے چراغ روشن کیے ہیں۔ ترقی پسند تحریک اور تحریک ادب اسلامی کو اس کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
یہاں شاید اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ترقی پسند تحریک نے حالی کی تحریک کی جزوی تقلید کی ہے یعنی مادیت، عقلیت اور حقیقت نگاری کی حد تک تو ترقی پسند تحریک سر سید کی تحریک (جس کے حالی تابع فرمان ہیں) سے استفادہ کرتی ہے لیکن نصب العین جداگانہ ہونے کے سبب اس کی راہیں جدا ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ سر سید تحریک اپنے شان دار ماضی کی بازیافت اور اس کی روشنی میں موجودہ حالات زار کی اصلاح سے عبارت تھی اور اس کا مقصد ایک اصلاحی و اخلاقی انقلاب لانا تھا جب کہ ترقی پسند تحریک ’بر شکم دارد بنائے انقلاب‘ کی مدعی تھی اور اسے ’بوئے خوں آتی تھی اس قوم کے افسانے سے‘ لہٰذا یہ ماضی فراموشی کی راہ پر عمل پیرا تھی۔ یہی وہ بنیادی فرق تھا جو ترقی پسند تحریک کو سر سید تحریک کی اقتدا میں آمین بالجہر کرنے سے روکتا تھا۔
حالیؔ کی تنقیدی کائنات بالعموم دو مثلثوں سے تشکیل پاتی ہے۔ ایک مثلث تخلیق کی خارجی ساخت اور دوسری داخلی ساخت پر مشتمل ہے۔ پہلی مثلث تخیل، مطالعۂِ کائنات اور تفحص الفاظ اور دوسری سادگی، اصلیت اور جوش سے متعلق ہے۔
تخیل کو حالی ایک ایسی قوت سے تعبیر کرتے ہیں جو ذہن میں پہلے سے موجود ذخیرۂِ معلومات کو ترتیب مکرر کے ذریعے ایک نئی شکل عطا کرتی ہے اور پھر اس کو متناسب و متوازن الفاظ کے دل کش پیرایے میں ڈھالتی ہے۔ یعنی متخیلہ کی ترتیب مکرر پہلے وجود پذیر ہوتی ہے اور بعد میں الفاظ کے پیرہن میں متشکل ہوتی ہے۔ یہ کہہ کر حالی نے متخیلہ پر قوت ممیزہ کا پہرہ دیا گیا ہے جو غیر فطری بھی ہے اور تخلیقی کارکردگی کے لیے مضر بھی۔
تاہم حالیؔ کا یہ نظریہ کہ متخیلہ ذہن میں پہلے سے موجود معلومات کے ذخیرہ کو ترتیب مکرر کے ذریعہ نئی شکل میں ڈھالنا ہے، مبنی بر حقیقت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ تصور کالرِج سے مستعار ہے۔
مطالعۂِ کائنات کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا نے بہت عمدہ بات کہی ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:
قوت متخیلہ کوئی شے بغیر مادہ کے نہیں پیدا کر سکتی بل کہ جو مسالہ اس کو خارج سے ملتا ہے اس میں وہ اپنا تصرف کر کے ایک نئی شکل تراشتی ہے۔ جتنے بڑے بڑے نام ور شاعر دنیا میں گزرے ہیں وہ کائنات یا فطرت انسانی کے مطالعہ میں ضرور غرق رہے ہیں۔ جب رفتہ رفتہ اس مطالعہ کی عادت ہو جاتی ہے تو ہر ایک چیز کو غور سے دیکھنے کا ملکہ ہو جاتا ہے۔
مولانا عالم دین تھے، قرآن و احادیث پر ان کی گہری نظر تھی، مطالعۂِ کائنات کا تصور اسلامی تعلیمات کا لازمی جزو ہے لہٰذا یہ ایک فطری امر ہے کہ ذوقِ غور و فکر ان کی رگ و پے میں تھا۔ قرآن میں کئی مواقِع پر دعوتِ غور و فکر دی گئی ہے، مثلاً فارجع البصر ثم ارجع البصر، انظروا ما فی السمٰوات و الارض۔ یا قرآن نے ایک موقع پر سند بھی دے دی ہے کہ اللہ کے نیک بندے ارض و سما میں غور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! تو نے یہ سب کچھ بے کار نہیں پیدا کیا ہے، ویتفکرون فی خلق السمٰوات وا لارض ج ربنا ماخلقت هذا باطلاً۔ حالیؔ سے بہت پہلے میرؔ کہہ چکے ہیں:
سرسری ہم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
علاوہ ازیں مطالعۂِ کائنات کا یہ تصور استدلالی تنقید (Discursive Criticism) کی صورت میں مغربی تنقید میں پہلے سے موجود تھا لیکن مولانا کی اولیت اس بات میں ہے کہ انھوں نے اس کو سب سے پہلے اردو تنقید کا جزو بنایا۔
اس مثلث کا آخری زاویہ تفحصِ الفاظ ہے۔ اس سلسلہ میں مولانا نے بعض اہم باتیں کہی ہیں، جو مختصراً درج ذیل ہیں:
”شاعری کا مدار جس قدر الفاظ پر ہے اس قدر معانی پر نہیں۔“
”اگر چہ شاعری کے متخیلہ کو الفاظ کی ترتیب میں بھی ویسا ہی دخل ہے جیسا کہ خیالات کی ترتیب میں، لیکن اگر شاعر زبان کے ضروری حصے پر حاوی نہیں ہے اور ترتیب شعر کے ساتھ صبر و استقلال کے ساتھ ساتھ الفاظ کا تتبع اور تفحص نہیں کرتا تو محض قوت متخیلہ کچھ کام نہیں کر سکتی۔“
”شعر میں دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک خیال دوسرے الفاظ۔ خیال۔ تو ممکن ہے شاعر کے ذہن میں فوراً ترتیب پا جائے مگر اس کے لیے الفاظ مناسب کا لباس تیار کرنے میں ضرور دیر لگے گی۔ یہ ممکن ہے کہ ایک مستری مکان کا نہایت عمدہ اور نرالا نقشہ ذہن میں فوراً تجویز کر لے مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ اس نقشہ پر مکان بھی ایک چشم زدن میں تیار ہو جائے۔“
مولانا کا یہ خیال کہ شاعری کا مدار معانی سے زیادہ الفاظ پر ہے یا ان کا یہ قول کہ شاعر اگر زبان پر قدرت نہیں رکھتا تو محض متخیلہ سے شاعری خلعت وجود حاصل نہیں کر سکتی، مبنی بر حقیقت ہے لیکن مولانا کا زور دے کر یہ کہنا کہ خیال فوراً ذہن میں آ سکتا ہے لیکن اس کے لیے الفاظ مناسب کا لباس تیار کرنے میں ضرور دیر لگے گی، درست نہیں اور اس سے زیادہ غیر درست خیال شاعر کو مستری کے مماثل قرار دینا ہے۔ اول تو بَہ قول اقبالؔ شعر میں خیال اور لفظ کی دوئی کا تصور غیر منطقی ہے۔ دونوں بَہ یک وقت اور بہ یک صورت وجود پذیر ہوتے ہیں جس کا ذکر آگے آئے گا۔
دوسری بات یہ کہ اگر بَہ فرض محال مولانا کی بات تسلیم بھی کر لی جائے تو خیال کے الفاظ میں ڈھلنے کی تعویق کو مستری کے خیال کے عمارت کی شکل اختیار کرنے کی تعویق سے کوئی نسبت نہیں۔ مولانا کی تنقید کا دوسرا مثلث تخلیق کی داخلی ساخت پر مشتمل ہے۔ اردو میں اس پر غور و خوض اور فکر و بحث ہو چکی ہے۔ یہ اردو کی تقریباً تمام جامعات میں شامل نصاب ہے اور ایک عام طالب علم اس بحث سے واقف ہے لہٰذا اس پر تفصیلی بحث سے گریز کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے ماخذ کے متعلق ایک ہلکا سا اشارہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
یہ مثلث ہے سادگی، اصلیت اور جوش۔ یہ حالی کا اپنا نظریہ نہیں ہے بل کہ یہ ملٹن کے الفاظ passionate, sensuous, simple کا ترجمہ ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حالیؔ نے ان تینوں الفاظ میں دو الفاظ یعنی sensuous اور passionate کا ترجمہ اصلیت اور جوش سے کیا ہے جو غلط ہے بَہ قول کلیم الدین sensuous کا ترجمہ حسی اور ممتاز حسین کے مطابق passionate کا ترجمہ ’پر شوق‘ یا ’دل سوز‘ ہونا چاہیے تھا۔
اس مثلث کے پہلے زاویے سادگی کے متعلق حالیؔ حالی کا اقتباس درج ذیل ہے:
سادگی کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ خیال کیسا ہی بلند ہو اور دقیق ہو مگر نا ہم وار نہ ہو اور الفاظ جہاں تک ممکن ہو روزمرہ کی بول چال کے قریب قریب ہوں۔ جس قدر شعر کی ترکیب معمول کی بول چال سے بعید ہو گی، اسی قدر سادگی کے زیور سے معطل سمجھی جائے گی۔
مولانا نے سادگی کی یہ تعریف جملہ شعریات کو پیش نظر رکھ کر نہیں کی، بل کہ یہ سہل ممتنع کی تعریف ہوئی۔ سہل ممتنع پر مشتمل اشعار اپنی سادگی و سلاست کے فیض سے یقیناً دل چسپ اور اثر انگیز ہوں گے اور اچھے شعر کی تعریف میں آئیں گے لیکن ان سے فکر کو بیدار کرنے کا کام نہیں لیا جا سکتا۔ ایہام و ابہام کے دامن میں جو معنوی تہہ داری کثیر الجہاتی موجود ہوتی ہے اس کا حق سادگی سے ادا نہیں ہو سکتا۔ اس مثلث کے دوسرے زاویے اصلیت کی تعریف کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں:
”اصلیت پر مبنی ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہر شعر کا مضمون حقیقت نفس الامری پر مبنی ہونا چاہیے، بل کہ یہ مراد ہے کہ جس بات پر شعری بنیاد رکھی گئی ہے وہ نفس الامر میں یا لوگوں کے عقیدے یا محض شاعر کے عندیہ میں فی الواقعہ موجود ہے… نیز اصلیت پر مبنی ہونے سے یہ بھی مقصود نہیں ہے کہ بیان میں اصلیت سے یک سرِ مُو تجاوز نہ ہو بل کہ یہ مطلب ہے کہ زیادہ تر اصلیت ہونی چاہیے۔ اس پر اگر شاعر نے اپنی طرف سے فی الجملہ کمی بیشی کر دی تو کچھ مضائقہ نہیں۔“
حالیؔ کے اس نقطۂِ نظر پر بھی کلیم الدین احمد نے اعتراض کیا ہے۔ انھوں نے پہلے اور دوسرے زاویے کو مبہم، پیچیدہ اور عسیر الفہم قرار دیا ہے۔ حالاں کہ ان میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے جو محتاج تعارف ہو۔ لہٰذا ان اعتراضات سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔
مثلث کا تیسرا زویہ ’جوش‘ ہے جس کی تعریف کرتے ہوئے مولانا کہتے ہیں:
”مضمون بے ساختہ الفاظ اور پیرایے میں بیان کیا جائے، جوش سے مراد یہ نہیں ہے کہ مضمون خواہ مخواہ نہایت زور دار اور جوشیلے لفظوں میں ادا کیا جائے۔ ممکن ہے کہ الفاظ نرم ملائم اور دھیمے ہوں مگر ان میں غایت درجے کا جوش چھپا ہوا ہو۔“
جیسا کہ مذکورہ ہوا، مولانا نے sensuous اور passionate کا لفظی ترجمہ غلط کیا ہو لیکن ان کی تنقیدوں کے بالاستیعاب مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اپنے ترجمے سے مراد وہی معنی لیے ہیں جو مذکورہ الفاظ کے حقیقی معانی ہیں۔
حالیؔ کی تنقید یا اس کی پیش کش میں ایک کمی یہ نظر آتی ہے کہ اکثر مواقع پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مسند ارشاد پر متمکن احکامات اور فیصلے صادر فرما رہے ہیں۔ کبھی ایسی قطعیت اور حتمیت سے بات کہہ جاتے ہیں جیسے وہ حرف آخر ہو۔
مذہبیات میں اس کی گنجائش ہو تو ہو لیکن ادیبات میں ایسا لب و لہجہ روا نہیں۔ مثلاً غزل کے بارے میں ان کا حکم کہ ”زمانہ بہ آواز بلند کہہ رہا ہے کہ یا عمارت کی ترمیم ہو گی یا عمارت خود نہ ہو گی۔“
مولانا نے یہاں اپنی ذاتی رائے کو زمانے کا حکم قرار دے دیا۔ لیکن آج زمانہ دیکھ رہا ہے کہ غزل نہ صرف یہ کہ زندہ و تابندہ ہے بل کہ اس نے جبین مرگ پر راز حیات تحریر کر دیا ہے۔ اور عصر حاضر کی غزل نے تو زندگی اور اس کی پیچیدگیوں کے تمام پہلو اپنے دامن میں سمیٹ لیے ہیں۔
علاوہ ازیں مولانا کے یہاں کہیں کہیں تضاد کی صورت نظر آتی ہے۔ ان کے عقیدے اور عمل کی کیفیت میں تضاد واضح ہے۔ وہ شاعری میں اعتقاد تو غالبؔ پر رکھتے ہیں لیکن تقلید میرؔ کی کرتے ہیں؛ حتیٰ کہ استفادہ شیفتہؔ سے کرتے ہیں۔ وہ شعر و سخن میں وجدان و الہام کے قائل ہیں لیکن منصوبہ بند طریقے سے سر سید کی اصلاحی تحریک کے لیے سر سید کے حکم پر مد و جزر اسلام جیسی مثنوی تصنیف کرتے ہیں جو آمد کی بَہ جائے سراسر آورد کا نمونہ ہے۔
مولانا کی اس متضاد روش پر محمد حسن عسکری نے اپنی مشہور کتاب ستارہ بادباں میں بڑی اچھی گرفت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
”حالی کی شخصیت میں جو اندرونی تضاد تھا اگر وہ اس سے آنکھیں چار کرنے کی جرأت پیدا کر لیتے تو ان کی شاعری کچھ اور بڑی ہوتی۔“
لیکن عسکری کی تنقید میں ایک کمی رہ گئی۔ یہاں تک تو بات درست ہے کہ حالی داخلی سطح پر تضاد کا شکار تھے لیکن ان کا یہ کہنا کہ اگر وہ اس سے آنکھیں چار کر لیتے تو ان کی شاعری کچھ اور بڑی ہوتی، یہ بات قابل تسلیم نہیں۔ شاعر کا داخلی تضاد در اصل اس کشاکش و کش مکش کا مُوجب بنتا ہے جو شعری عمل کو مزید فعال و متحرک کرتا ہے۔ ہاں تنقید اگر تضاد کا شکار ہو جائے تو یہ اس کی صحت کے لیے مضر ہے۔
جیسا کہ گزشتہ صفحات میں کہیں مذکور ہوا کہ آزادؔ کے بعد جس نقاد نے بدیعی اور اختراعی (اوریجنل) فکر کا مظاہرہ اپنی تنقیدوں میں کیا وہ شبلیؔ تھے لیکن زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کا ذکر حالیؔ کے بعد کیا جا رہا ہے۔
شبلیؔ کے تنقیدی نظریات کا کما حقہٗ احاطہ کرنے کے لیے ان کی شخصیت و مزاج پر ایک سرسری نظر ڈالنا ضروری ہے۔ شبلیؔ فطرتاً آزاد خیال اور جدت پسند تھے۔ انھیں ایک ایسا تخلیقی ذہن ودیعت ہوا تھا جو انھیں کسی طرح کی تقلید کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہ ان کا تحقیقی جذبہ ہی تھا جس نے انھیں اپنے ملک کے کتب خانوں اور درس گاہوں پر اکتفا کرنے کی بَہ جائے انھیں بیرونی ممالک کی خاک چَھنوائی۔
اصلیت کی تلاش اور اشیا کی حقیقت و ماہیت کے عرفان کے حصول کے بغیر انھیں چین نہ آتا تھا۔ ان کا تصور فن ان کی بصیرت کا زائیدہ تھا، رہین منت اغیار نہ تھا۔ حالیؔ، شبلیؔ سے پہلے تخیل کو شعر کی بنیاد قرار دے چکے تھے لہٰذا اولیت کا تاج حالیؔ ہی کے سر ہے لیکن شبلی کا متخیلہ حالی کی طرح ممیزہ کے تابع نہ تھا۔ انھوں نے بھی خرمن سر سید سے خوشہ چینی کی تھی لیکن حصول علم کے معاملہ میں وہ قناعت پسندی کے نہیں بل کہ ھل من مزید کے قائل تھے۔ وہ سر سید کے حد درجہ مداح تھے لیکن اصولی بنیادوں پر ان سے ہمیشہ اختلاف کیا۔ اس کے بر عکس حالیؔ سر سید کے فکری حصار سے تا عمر باہر نہ نکل سکے۔ سر سید کی تحریک و ترغیب پر انھوں نے مد و جزر اسلام لکھ کر توشۂِ آخرت تو تیار کر لیا لیکن پہلو میں عاشقانہ دل رکھتے ہوئے بھی عقل (سر سید) کی امامت میں نماز فن ادا کی۔ نتیجتاً ان کا جوہر پوری طرح آشکار نہ ہو سکا۔
اس کے بر خلاف شبلیؔ نے متخیلہ پر ایک جوہر شناس کی طرح مختلف پہلو سے مباحث پر روشنی ڈالی اور اس میں بڑی گہرائی و گیرائی پیدا کی۔ انھوں نے متخیلہ کو ایک وسیع تر اختراعی قوت قرار دیا اور کہا کہ شاعر جب اس کا حامل ہوتا ہے تو بے حس و بے جان اشیا میں زندگی کی روح پھونک دیتا ہے۔ دلِ فطرت شناس کا حامل ہونے کے سبب زمین و آسمان بل کہ ذرہ ذرہ اس سے باتیں کرتا ہے۔ بَہ قول ڈاکٹر وزیر آغا:
”یہ وہی animation کا تصور ہے جس کا مغربی تنقید میں شبلیؔ کے بہت عرصہ بعد اس قدر شہرہ ہوا۔“
شبلیؔ نے تخیل کی جو تعریف کی ہے یا جس قدر اس کی جہات دریافت کی ہیں اور جس طرح تخیل کی تخلیقی فعالیت کے کئی پہلو پر روشنی ڈالی ہے اس ضمن میں نہ صرف یہ کہ وہ یک و تنہا ہیں بل کہ ان کا ثانی بھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔
وہ کہتے ہیں کہ قوت تخیل کے استدلال کا طریق کار عام استدلال سے الگ ہوتا ہے۔ وہ ان باتوں کو جو اور طرح سے ثاب ہو چکی ہیں، نئے طریق سے ثابت کرتی ہے۔ چناں چہ سامع اس کی صحت و غلطی کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا بل کہ اس کی فطری دل فریبی سے مسحور ہو جاتا ہے۔
شبلیؔ قوت تخیل کی فعالیت اور کارکردگی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ”بَدیہی“ باتوں کو بھی چھو کر نئے نئے امکانات کا حامل قرار دے ڈالتی ہے۔ گویا ان کی ”بند کائنات“ کے دروازے کھول دیتی ہے؛ نیز وہ ایک چیز کو سو سو دفعہ دیکھتی ہے اور ہر دفعہ اس کو اس میں ایک نیا کرشمہ نظر آتا ہے۔ تخیل کے تعین سے تشخیص اور تشخص کے مختلف ابعاد و جہات کے حسین و جمیل و سِحر انگیز پہلو کی نشان دہی کا شعور شبلیؔ کو جدت و ندرت کی اس ہمالیائی بلندی پر فائز کرتا ہے جہاں پہنچنا تو دور، اس طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی کوشش میں بھی بڑے بڑے کج کلاہوں کی ٹوپیاں زمیں بوس ہو جائیں۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے شبلیؔ کے تصور تخیل پر بڑا عالمانہ تبصرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ”تخیل کے بارے میں شبلیؔ کی یہ توضیحات اپنے اندر بہت سے اجتہادی عناصر رکھتی ہیں۔ بالخصوص تخیل کے بارے میں ان کا یہ خیال کہ یہ موجودہ کائنات کو ایک ’کائنات دیگر‘ میں تبدیل کر دیتا ہے، ایک ایسا زرخیز خیال ہے جو شبلیؔ کے بعد روسی فارملزم کی تحریک میں making strange کے مؤقف میں نمودار ہوا اور پھر ایک طویل مدت تک بحث و تمحیص کا موضوع بنا رہا۔“
واضح رہے کہ making strange وہ فن کارانہ طرز پیش کش ہے جس کے ذریعہ عام اشیاء پر بھی انوکھے اور غیر مانوس انداز میں اس طرح روشنی ڈالی جاتی ہے کہ معمولی اور مانوس اشیاء کا عرفان و اداراک فزوں تر ہو جاتا ہے۔
making strange کا نظریہVictor SheLovsky نے اپنی تصنیف Art as device میں پیش کیا تھا۔ یہ کتاب 1917 میں شائع ہوئی۔ مصنف نے اس نظریہ کا تعارف ان الفاظ میں کروایا تھا:
It is the artistic way of presenting to audiences common things in an unfamiliar or strange way, in order to enhance perception familiar.
واضح رہے کہ شبلیؔ نے شاعری کی بنیاد دو چیزوں پر رکھی ہے۔ یعنی محاکات اور تخیل پر۔ یہاں بَہ وجوہ تخیل کا ذکر پہلے ہوا اور محاکات کی طرف اشہب قلم کا رخ بعد میں موڑا جاتا ہے۔
محاکات سے مراد شعری مصوری ہے جس کا مقام عام مصوری سے بلند ہے۔ شبلیؔ کے مطابق کسی چیز یا کسی حالت کا اس طرح ادا کرنا کہ اس شے کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے، محاکات ہے۔ انھوں نے تصویر اور محاکات کا فرق واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ تصویر میں اگر چِہ مادی اشیاء کے علاوہ حالات یا جذبات کی بھی تصویر کھینچی جا سکتی ہے، چناں چہ اعلیٰ درجہ کے مصور انسان کی ایسی تصویر کھینچ سکتے ہیں کہ چہرے سے جذبات انسانی مثلاً رنج، خوشی، تفکر، حیرت، استعجاب، پریشانی اور بے تابی ظاہر ہو۔
محاکات کے لیے شبلیؔ نے چند چیزوں کو لازمی قرار دیا ہے: مثلاً وزن کا تناسب، اصل کی مطابقت، شے کی جزئیات کا کما حقہٗ استقصا، محاکات کے شایان شان الفاظ کا انتخاب اور موضوع کی خصوصیات کی جداگانہ خصوصیات کے حامل الفاظ کا تعین وغیرہ، اور تخیل شبلیؔ کے نزدیک معنوی خصوصیات سے عبارت ہے۔ چناں چہ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مشہور نفسیاتی نقاد ریاض احمد لکھتے ہیں کہ شبلیؔ نے محاکات اور تخیل کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس کے مجموعی مطالعہ سے یہ تأثر پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام خصوصیات کو جو الفاظ اور طریق اظہار سے متعلق ہیں، شبلیؔ نے محاکات کے تحت رکھا ہے اور معنوی خصوصیات کو تخیل سے منسوب کیا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے ریاض احمد کے خیال سے اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اضافہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شبلیؔ کے نزیک تخیل کے دو حصے ہیں۔ ایک وہ جس کے تحت تخیل ارد گرد کی اشیا و نظائر کو از سر نو تخلیق کرتا ہے یعنی محض ان کی نقل نہیں اتارتا بل کہ اپنی خلاقانہ قوت سے کام لے کر ان میں اضافہ کر دیتا ہے۔ یوں اصل کے مقابلے نقل زیادہ خوش گوار اور قابل قبول نظر آنے لگتی ہے۔ ثانیاً وہ حصہ جب تخیل عام مشاہدات کے اعماق میں اتر کر جہان معنیٰ دریافت کرتا ہے اور اس ضمن میں خاک اور افلاک کے ما بین اشیاء اور مظاہر ہی کو اپنے پروں تلے سمیٹنے میں کام یاب نہیں ہوتا بل کہ بعض اوقات خاک سے منقطع ہوئے بَہ غیر افلاک کی حدوں کو پار بھی کر جاتا ہے۔
جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ محاکات یعنی لفظی یا شعری مصوری عام مصوری پر تفوق و تقدم رکھتی ہے۔ اس دعوے کے کئی دلائل شبلیؔ نے پیش کیے ہیں۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جہانگیر کے سامنے ایک مصور نے ایک عورت کی تصویر پیش کی تھی، جس کے تلوے سہلائے جا رہے ہیں۔ تلووں کے سہلاتے وقت چہرے پر گدگدی کا جو اثر طاری ہوتا ہے وہ تصویر کے چہرے سے نمایاں تھا، تاہم تصویر ہر جگہ محاکات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ سیکڑوں گونا گوں واقعات، حالات اور وارداتیں ہیں جو تصویر کی دست رس سے باہر ہیں۔ مثلاً قاآنی ایک موقع پر بہار کا سماں دکھاتے ہیں:
نرمک نرمک نسیم زیر گلاں می خزد
غبغب ایں می مکد عارضی آب می مزد
سنبل ایں می کشد گردن آں می گزد
گہ بہ چمن می چمد گہ بہ سمن می وزد
گاہ بہ شاخ درخت گہ بہ لب جوئے بار
شبلیؔ محولہ بالا بند کی محاکاتی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”ہلکی ہلکی ہوا آئی، پھولوں میں گھسی، کسی پھول کا گال چوم لیا، کسی کی ٹھوڑی چوس لی، کسی کے بال کھینچے، کسی کی گردن دانت سے کاٹی، کیاریوں میں کھیلتے کھیلتے چنبیلی کے پاس پہنچی اور درخت کی ٹہنیوں میں سے ہوتی ہوئی نہر کے کنارے پہینچ گئی۔“ اس سماں کو مصور تصویر میں کیوں کر دکھا سکتا ہے۔
محاکات اور مصوری کے ما بین امتیاز کرتے ہوئے شبلیؔ نے ایک اہم تخلیقی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”تصویر کی اصل خوبی یہ ہے کہ جس چیز کی تصویر کھینچی جائے اس کا ایک ایک خال و خط دکھایا جائے ورنہ تصویر نا تمام اور غیر مطابق ہو گی۔ بر خلاف اس کے شاعرانہ مصوری میں یہ التزام ضروری نہیں۔ شاعر اکثر صرف ان چیزوں کو لیتا ہے اور نمایاں کرتا ہے جن سے ہمارے جذبات پر اثر پڑتا ہے۔ باقی چیزوں کو وہ نظر انداز کرتا ہے یا ان کو دھندلا رکھتا ہے کہ اثر اندازی میں ان سے خلل نہ آئے۔ فرض کرو ایک پھول کی تصویر کھینچی ہو تو مصور کا کمال یہ ہے کہ ایک ایک پنکھڑی اور ایک ایک رگ و ریشہ دکھائے، لیکن شاعر کے لیے یہ ضروری نہیں، ممکن ہے وہ ان چیزوں کو اجمالی اور غیر نمایاں صورت میں دکھائے تاہم مجموعہ سے وہ اثر پیدا کر دے جو اصلی پھول کے دیکھنے سے پیدا ہوتا ہے۔“
شبلی نے مندرجہ بالا سطور میں تنقید کا وہ نادر اور انوکھا نکتہ پیش کیا جہاں تک طائر تخیل کی رسائی مشکل ہے؛ مثلاً تصویر کے بعض گوشوں کو نظر انداز کر دینا یا دھندلا رکھنا تصویر کی اثر انگیزی میں اضافے کا سبب ہے اور ایک پھول کی تصویر کشی میں پھول کے بعض پہلووں کو اس لیے اجمالی اور غیر نمایاں رکھنا کہ یہ اس مجموعی تأثر کو پیدا کرنے کا باعث ہے جو اصلی پھول کو دیکھنے سے پیدا ہوتا ہے، وہ نیا اور اچھوتا نقطۂِ نظر ہے جس سے عہد شبلیؔ کی اردو تنقید تو کیا مغربی تنقید بھی نا آشنا تھی۔
شبلیؔ کے اس نقطۂِ نظر سے متعلق ڈاکٹر وزیر آغا نے درست کہا ہے:
”یہ وہی جدید نظریہ ہے کہ شاعری اس مواد کا نام نہیں جو شعر میں بیان ہوتا ہے بل کہ اس مواد کا نام ہے جو شعر میں بیان نہیں ہوتا۔ مراد یہ کہ شاعر بیان نہیں کرتا بل کہ suggest کرتا ہے اور اچھے نقاد کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس suggestion کا دامن تھام کر شعر کے بطون میں سفر کرنا شروع کرے… شبلیؔ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ شاعر ارد گرد کی اشیاء سے صرف نظر کرطکے خود کو ایک نقطے پر مرتکز کرتے ہیں اور اس ارتکاز ہی میں پوری کائنات کو دریافت کر لیتے ہیں۔
مدتوں بعد ہسرل (Husserl) نے جب intentionality کا نظریہ پیش کیا تو اس کا لب لباب یہی تھا۔“
واضح رہے کہ ہسرل نے یہ نظریہ اپنے استاد Franz Brentano جن سے وہ بے حد متأثر تھے، سے مستعار لیا ہے اور خود ان کے استاد نے یہ نظریہ فلسفۂِ عہد وسطیٰ میں مستعمل اصطلاح intention سے اخذ کی تھی۔
در اصل intentionality لاطینی لفظ ‘intendere’ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ’to point to‘ کے ہیں۔ intentionality کی تعریف کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے:
Intentionality is a central concept in philosophy of mind and in Husserl’s phenomenology. Indeed, Husserl calls intentionality the “fundamental property of consciousness” and the “principle theme of phenomenology”.
Although ‘intentionality’ is a technical term in philosophy, it stands for something familiar to us all: a characteristic evident in what we commonly call being “conscious” or “aware”.
As conscious begins, or persons, we are not merely affected by the things in our environment; we are also conscious of these things- of physical objects and events, of our own selves and other persons, of abstract objects such as numbers and propositions, and of any thing else we bring before our minds. Many, perhaps most, of the events that make up our mental life- our perceptions, thoughts, beliefs, hopes, fears, and so on- have this characteristic feature of being “of” or “about” something and so giving us a sense of something in our world. When I see a tree, for example, my perception is a perception of a tree; when I think that 3+2=5, I am thinking of or about certain numbers and a relation among them; when I hope that nuclear war will never take place, my hope is about a possible future state or the world and so on. Each such mental state or experience is in this way a representation of something other than itself and so gives me a sense of something. This representational character of mind or consciousness – its being “of” or “about” something – is “intentionality.”
(مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
Ronald McIntyre and David woodruff smith کی تصنیف Husserl and Intentionality: A study of mind, meaning, and language)
در اصل اردو کے بیش تر ناقدین نے شبلیؔ کی تنقیدی جہات کا جائزہ لیتے وقت ذہنی مشقت و دیدہ ریزی سے گریز کیا اور سہل انگاری و تن آسانی پر اکتفا کرتے ہوئے ان کی تنقید کو محض شعر کے لفظی و ہیئتی تجزیہ سے تعبیر کیا۔
اسی طرح شبلیؔ کے تصور نقد کے ضمن میں وہ سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جو ان کے تنقیدی نقطۂِ نظر تک رسائی کے لیے ضروری تھی۔ حالیؔ کی سادہ و سہل زبان کے پیش نظر ان کو سادگی کا اور شبلیؔ کی رومانی طرز تحریر کے سبب ان کو پُرکاری کا نمائندہ قرار دے کر نہ صرف یہ کہ شبلیؔ کی تنقید کو حالیؔ کی تنقید کی ضد کے طور پر پیش کیا گیا بل کہ حالیؔ کو سائنٹفک اور شبلیؔ کو تأثراتی نقاد قرار دے کر حالیؔ کو شبلیؔ پر فوقیت دی گئی۔ مثلاً پروفیسر نورُ الحسن نقوی کا ارشاد کہ ”ان کی (شبلیؔ کی) تصانیف کا مطالعہ کیجیے تو قدم قدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے بیش تر خیالات حالیؔ کے خیالات کی ضد ہیں (حالاں کہ پروفیسر موصوف نے غزل سے متعلق حالی کے اعتراضات پر بھی گرفت کی ہے)۔
اس صورت حال کے پس پشت کچھ محرکات کارِ فرما ہیں جن میں سب سے اہم ترقی پسندوں کا حالیؔ کو اپنا آئیڈئیل تسلیم کرنا ہے۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ دوا مریض کو شفا دیتی ہے اور یقیناً دوران علاج مریض ترک لذات کی منزل میں داخل ہو جاتا ہے لیکن دوا نہ صرف یہ کہ غذا کی قائم مقام نہیں ہو سکتی بل کہ بَہ حالتِ صحت یہ متروک بھی ہو جاتی ہے۔
ہندوستان میں تاریخ نے تین اہم کروٹیں لی ہیں۔ پہلی 1707ء میں جب اورنگ زیب کا انتقال ہوا۔ اس وقت نہ صرف یہ کہ سلطنت مغلیہ کا آفتاب کمال آستانہ مغرب کی ناصیہ فرسائی پر مائل ہو رہا تھا بل کہ اس کی آنچ میں اتنی کمی آ گئی تھی کہ اس وقت کے سیاسی کور چشموں میں بھی اس سے آنکھیں ملانے کی جرأت پیدا ہو گئی تھی۔
تاریخ نے دوسری کروٹ 1857ء میں لی جب آفتاب مشرق غروب ہو گیا اور ہندوستان کے مطلع پر ماہتاب مغرب نے شب خون مار کر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ تاریخ نے سب سے آخری اور تباہ کن کروٹ 1947ء میں لی جب آزادی کے بھیس میں تقسیم کا ایک لمحہ صدیوں کی تہذیب کا قاتل بن گیا۔ یہ تضاد بہت سے مباحث کے در کھولتا ہے (جن کی تفصیل کا یہ محل نہیں) کہ جس مغربی تہذیب کے ظالم جبڑے گُلوئے مشرق میں پیوست تھے، حالیؔ پیروئِ مغربی کا اعلان کر کے اسی دمِ عیسوی سے امید مسیحائی وابستہ کیے ہوئے تھے۔ بلا شبہ 1857ء کے بعد قوم کی شریانوں میں منجمد خون کو حرارت و روانی کے لیے جس انقلابی پیغام کی ضرورت تھی اس کا وسیلہ سہل و سادہ زبان ہی ہو سکتی تھی لیکن وہ ایک موقتی و ہنگامی ضرورت تھی جس کی مداومت دوا کو غذا دینے کی مترادف تھی جو ظاہر ہے ایک صحت مند ادب کے حق میں مضر ہے۔
کچھ اسی طرح کی صورت حال ترقی پسند تحریک کے ظہور کے وقت تھی جب غلامی سے نجات دلانے کے لیے عوامی شعور کو بیدار کرنے کی ضرور تھی جس کے لیے عام فہم راست بیان کی حال زبان مفید مطلب تھی لیکن اس سہل و سادہ زبان کو اگر ادبی کلمہ قرار دے دیا جائے تو ظاہر ہے کہ تخلیق نہ صرف یہ کہ معنوی تہہ داری ور فکری ہمہ جہتی سے محروم ہو گی بل کہ اس کا زمانۂِ قیام بھی مختصر ہو گا۔ یہاں تک کہ یہ روش اگر مزید طول پکڑ جائے تو شاعری کی حیثیت ایک منظوم صحافت سے کچھ ہی زیادہ ہو گی۔
ترقی پسند شاعری اپنے وقت کی اہم آواز تھی جو تقریباً ایک رُبع صدی تک اپنی بہار دکھاتی رہی لیکن ترقی پسند تنقید کی بالادستی ایک طویل عرصے تک قائم رہی بل کہ آج تک کسی نہ کسی سطح پر اپنے وجود کا احساس دلاتی رہی ہے۔
حسن اتفاق سے اس تحریک کے علَم برداروں کو جامعات و کلیات میں مسند ارشاد ہاتھ آ گئی جہاں تنقید کو مختلف خانوں میں تقسیم کر کے ترقی پسند تنقید کو سائنٹفک تنقید کا درجہ عطا کیا گیا اور تأثراتی، جمالیاتی اور نفسیاتی تنقید وغیرہ کو غیر سائنٹفک تنقید کہہ کر چشم کم سے دیکھا گیا۔
اس تقسیم کی رو سے شبلیؔ تأثراتی، جمالیاتی اور رومانی طرز تنقید کے علم بردار قرار دیے گئے۔ یہ سلسلہ صرف ترقی پسند پروفیسروں کی نسل اوّلیں کی سبک دوشی تک محدود نہ رہا بل کہ ان کے تربیت یافتہ طلبہ کی شکل میں نسلاً بعد نسل آج تک جاری ہے۔ گو کہ اب اس کی مقبولیت کم اور گرفت کم زور پڑ گئی ہے۔
ترقی پسندوں نے اپنے آقا کارل مارکس جو اقبالؔ کی نظر میں پیغمبر حق شناس اور جن کا دین مساوات شکم کی بنیاد پر قائم ہے، کے نظریات کا ادب پر اطلاق کیا اور یہی نقطۂِ نظر تنقید کے ضمن میں بھی روا رکھا گیا۔ ان کی تنقید اسی فن کو معیاری قرار دیتی ہے جو روح و دل سے نہیں بل کہ آب و گِل سے رنگ و بو حاصل کرتا ہے۔ چوں کہ اس نظریے کے علم بردار مذہب بے زار اور خدا نا شناس ہیں لہٰذا شعر کے وہبی اور وجدانی پہلو تک ان کی نگاہ حسیر نہیں پہنچ سکی۔ ظاہر ہے حرف برہنہ کو کمالِ گویائی سے تعبیر کرنے والے حدیث خلوتیاں کے رمز و ایماء کے محرم کیسے ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری پر منصوبہ اور ممیزہ کا پہرہ بٹھانے والے ناقدین شبلیؔ کے متخیلہ کو جو درون ذات کے بے کراں جمالستان سے اکتساب نور کرتا ہے، حیطۂِ نظر میں نہیں لا سکے۔
شبلیؔ کا خیال ہے کہ شاعر متخیلہ کے فیض سے جن نا دیدہ جہانوں کی سیر کراتا ہے ان کی دید و وادید نت نئی تشبیہات و استعارات کی مرہون منت ہے کیوکہ کثرت استعمال سے تشبیہات و استعارات کی جذب و کشش اور ندرت و تازگی جاتی رہتی ہے۔
یہاں ڈاکٹر وزیر آغا کے اس خیال سے اتفاق نہ کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ ”یہ سب کچھ لکھ کر شبلیؔ اپنے دور کی تنقید سے بہت آگے نکل گئے تھے۔ شبلی نے جدید اردو تنقید میں کلیشے کے بارے میں اٹھائے گئے سوال کو آج سے نصف صدی پہلے ہی اٹھا دیا تھا۔“ Oxford Dictionaries میں کلیشے (cliche) کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
A phrase or opinion that is overused and betrays a lack of original thought.
مذکورہ مثالوں اور حوالوں کی روشنی میں شبلیؔ کے نظریۂ تنقید کے محض الفاظ کی مینا کاری، رنگین بیانی اور عبارت آرائی سے عبارت ہونے کا ابطال ہوتا ہے۔ یہ وہی خطرناک رویہ ہے جو روح اور مادے کو جدا جدا خانوں میں تقسیم کرتا ہے اور اس طرح شبلیؔ کو استردادِ مادہ کا مرتکب قرار دے کر ان کی تنقید کو ایک ایسی مریضانہ تأثراتی تنقید کا علم بردار قرار دیتا ہے جو زندگی کے مادی حقائق سے قطعِ تعلق کے سبب بہت جلد اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے۔
پروفیسر اسلوب احمد انصاری تأثراتی تنقید کو مریضانہ داخلیت اور تأثرات نقاد کو زندانِ داخلیت کا اسیر قرار دیتے ہیں۔ موصوف نے اردو میں تأثراتی تنقید کا علم بردار شبلیؔ ہی کو قرار دیا ہے۔ اب شبلیؔ پر تأثراتی تنقید کا ٹھپہ لگنے کے بعد ایک عام طالب علم شبلیؔ کو کس درجہ کا نقاد سمجھے گا یہ بات چنداں محتاج وضاحت نہیں۔ شبلیؔ کی تنقید داخلی رویے کی روشنی میں ذوقی، وجدانی اور وہبی انداز نظر سے فن کا تجزیہ کرتی ہے۔ اسے تأثراتی تنقید کے مروجہ معنیٰ کی میزان پر تولنا غلط ہے۔ جہاں تک ادب کے افادی پہلو کا تعلق ہے تو شبلیؔ اس کی اہمیت کے منکر نہیں تھے۔ وہ سر سید اور حالیؔ کی طرح اصلاح ادب و معاشرہ کے حق میں تھے لیکن وہ فن کی قربانی کی قیمت پر اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
شبلیؔ کا خیال یہ تھا کہ الفاظ کے صحیح انتخاب اور بَر محل استعمال سے معنیٰ کی تاثیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی نظر ادب کے جمالیاتی پہلو پر زیادہ تھی جو بالکل درست ہے کیوں کہ فن کے جمالیاتی پہلو کو نظر انداز کر کے ادب میں ادبیت باقی نہیں رہتی۔ موضوعات و مواد تو دیگر علوم میں بھی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے ناقدین کی تعداد بھی قابل ذکر ہے کہ جو حالیؔ اور شبلیؔ کی مشترکہ روایت کو آگے بڑھانے میں پیش پیش رہے۔
اس مشترکہ روایت کی توسیع کے طور پر جو تنقیدی سرمایہ وجود میں آیا وہ وحید الدین سلیم، سید امداد اثر اور مہدی افادی کے زور قلم کا نتیجہ تھا۔ ان ناقدین میں شبلیؔ اور حالی کی بہت سی اقدار مشترک ہیں تاہم ان تینوں میں ایک وصف ایسا بھی ہے جو انھیں حالیؔ کے مقابلے میں شبلیؔ سے زیادہ قریب کرتا ہے اور وہ یہ کہ یہ ناقدین حالی کے اخلاقی و افادی تنقیدی مؤقف کی بَہ نسبت آزاد کے ثقافتی اور شبلی کے جمالیاتی نقطۂِ نظر سے زیادہ قریب ہیں۔
ان کے علاوہ سید سلیمان ندوی، اقبال سہیل، عبدالسلام ندوی، مرزا احسان بیگ، عبدالماجد دریابادی جیسے ماہ پاروں نے شبلی ہی کے آفتابِ کمال سے اکتساب نور کیا۔ ملک زادہ منظور احمد لکھتے ہیں:
”اعظم گڑھ زمانۂِ قیام کے دوران میرے تصور میں دو شخصیتیں ابھرتی تھیں: ایک صاحب شعرُ الہند مولانا عبدُالسّلام ندوی اور دوسرے قفس نو کم بخت ٹوٹ جائے کا اسمبلی میں نعرہ لگانے والا مرد مجاہد سہیل۔
“ایک نے شبلیؔ کے جمالیاتی رنگ میں اپنی انفرادیت گھول کر نثر لکھی تھی اور دوسرے نے شبلیؔ کی طہارت نفس اور حکیمانہ ادراک کو اپنی نظموں اور غزلوں میں سمویا تھا۔ دونوں عجائبات قدرت میں سے تھے۔“
شبلیؔ کا تنقیدی شعور نسبتاً جامعیت اور توازن پر مشتمل تھا لہٰذا ان کی روش سے بغاوت اور علاحدگی کی صدا بلند نہیں ہوئی۔ اس کے بر عکس سر سید تحریک کی عقلیت، مادیت، خارجیت اور ناصحیت کے رد عمل کے طور پر اردو میں رومانی تحریک وجود میں آئی جو ادب کے ذوقی، وجدانی، وہبی اور ما ورائی تصور کی حامل تھی۔ اس تحریک کے علم برداروں میں سجاد حیدر یلدرم، سجاد انصاری، مہدی افادی، نیاز فتح پوری اور ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اسی طرح ترقی پسند تحریک کی انتہا پسندی، ادبی مسلک کی پابندی، ایک مخصوص نقطۂِ نظر کا پروپیگنڈہ اور غیر معتدل و غیر متوازن نعرہ بازی نے بہت جلد سنجیدہ ادباء کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اشتراکیت و اجتماعیت سے وابستگی فن کار کے انفرادی جوہر کو چمکنے کی آزادی نہیں دیتی۔ کسی مخصوص نظامِ فکر سے وفا داری سے موضوعات محدود اور افکار یک سانیت اور اکہرے پن کا شکار ہو جاتے ہیں جب کہ فطرت انسانی موضوعات کے تنوع اور اظہار کی رنگا رنگی سے عبارت ہے لہٰذا انسانی افکار و اظہار پر کسی طرح کی پابندی عائد کرنا ایک غیر فطری امر ہے۔
اس مکتب خیال کے ادباء نے اپنی ایک الگ جماعت تشکیل دی جو حلقۂِ ارباب ذوق کے نام سے موسوم ہوئی۔ اس کے علَم برداروں میں ڈاکٹر محمد دین تاثیر، میراجی، ن م راشد، ریاض احمد، محمد حسن عسکری، سلیم احمد، یوسف ظفر، انجم رومانی، شہرت بخاری، ڈاکٹر عندلیب شادانی، تصدق حسین خالد، حفیظ ہوشیار پوری اور مولانا صلاح الدین (ظاہر ہے یہ فہرست نا مکمل ہے) وغیرہ ایسے مَہ و نجوم تھے جن کے دَم سے اس وقت کا آسمان ادب روشن تھا۔
حلقے نے بہت جلد مقبولیت حاصل کر لی اور ہند و پاک کے علاوہ لندن اور نیویارک میں بھی اس کی شاخیں قائم ہوئیں۔ لیکن حلقے میں کچھ ایسے جانِ نا تواں بھی شامل تھے جو اس بھاری پتھر کو اٹھانے کے متحمل نہ تھے، لہٰذا انھوں نے ایک علاحدہ حلقے کی بنیاد ڈالی جس کا نام حلقۂِ اربابِ علم تجویز کیا گیا۔ عبدالحمید سالک نے ایک دل چسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں اس وقت دو حلقے ہیں۔ ایک حلقۂِ ارباب ذوق جس میں علم کی کمی ہے اور دوسرا حلقۂِ اربابِ علم جس میں ذوق کی کمی ہے۔
حلقے کے اغراض و مقاصد اور اس کی اہمیت کے بارے میں ہمارے ناقدین نے بہت کچھ لکھا ہے جس کی تفصیل کا یہ محَل نہیں، تاہم چند اقوال نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ن م راشد نے حلقے کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے لکھا کہ اس نے ادیبوں اور شاعروں کو ان غیر ادبی گروہوں کے غلبہ سے بچایا جو قاری کی عام انسانی کم زوری کا فائدہ اٹھا کر انھیں اپنے مخصوص یا سیاسی نظریات کا غلام بنانا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر شمیم حنفی نے بڑے نپے تلے انداز میں کہا کہ اس نے ادب کو سیاسی اور اخلاقی آمریت سے نجات دلائی۔
ڈاکٹر وزیر آغا کے نزدیک حلقۂِ ارباب ذوق کی ایک بڑی خدمت یہ ہے:
”اس نے شاعر کے لا شعور کو بل کہ اجتماعی لا شعور تک اترنے کے لیے لفظ کی ندرت اور تازگی اور نظم کے ساختیاتی تنوع اور بُو قلمونی پر زور دیا۔
“گویا حلقے کی تنقید نے اپنے زمانے کی تخلیق کی ادبی قدر و قیمت ہی کا تعین نہیں کیا بل کہ شُعَراء کی توجہ نئے تجربات کی طرف منعطف کرنے میں بھی بے مثال کامیابی حاصل کی۔“
اب تک تنقید کے جو نظریات زیر بحث لائے گئے ہیں، ان سے تنقید کے عہد بہ عہد ارتقاء کا ایک اجمالی اندازہ ہو جاتا ہے نیز امتدادِ زمانہ اور تغیرِ حالات کی روشنی میں اس کے تنوع اور بُو قلمونی، نظریات کے ترادفات و تضادات اور ناقدین کے عمل و رد عمل کے ہلکے ہلکے نقوش پردۂِ ذہن پر ابھر آتے ہیں جن سے ادب کی تفہیم اور فن کے تعیین میں کافی مدد ملتی ہے۔
تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مذکورہ تمام تنقیدی نظریات اپنے خلوص کے باوجود فن کے جملہ پہلووں کا کما حقہٗ احاطہ نہیں کرتے۔ چند متعین اور طے شدہ تنقیدی اصول اپنے مخصوص و محدود جولاں گاہ میں ہی اپنے قلم کی جولانیاں دکھا سکتے ہیں۔
اس حقیقت کے پیش نظر بیسویں صدی کے ربع آخر سے قبل ہی تمام مکاتب تنقید کی آمیزش و امتزاج کی ضرورت محسوس کی جانے لگی تھی اور یہ خیال عام ہونے لگا تھا کہ کسی ایک نقطۂِ نظر کی روشنی میں فن پارے کا تجزیہ اس کے جزوی اور یک رخ پہلو کی نشان دہی پر منتج ہو گا؛ لہٰذا ادب کی حقیقی تفہیم و تحسین کے لیے تنقید کے تمام اصولوں کو بَہ رُوئے کار لا کر ان کی امتزاجی مقیاس و میزان پر فن کو جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلہ میں خوش آئند بات یہ ہے کہ ترقی پسند تنقید نے فون کی عمودی جہت اور حلقۂِ ارباب ذوق نے فن کے افقی سمت میں پیش رفت کی ضرورت کو محسوس کیا ہے اور اس طرح نقد و انتقاد کے افقی و عمودی دونوں پہلووں کے امتزاج سے ایک تنقید کامل کی روش سامنے آتی ہے جس کی روشنی میں تخلیق کی نسبتاً بہتر تفہیم کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔