(سیدہ ہماء بتول)
سلمان حیدر سے 16 برس کی رفاقت میں کوئی ایک لمحہ، کوئی ایک دن ، کوئی ایک گھڑی ایسی نہیں ہے جِس گھڑی وہ اچھا نہیں تھا ، سچ گو نہیں تھا ، حق گو نہیں تھا۔
گورنمنٹ کالج میں ہم نےاپنی تعلیم کا سفر اکٹھے شروع کیا جو آج بھی جاری ہے۔ سلمان اتنا رفیق تھا کہ اب پہلی ملاقات بھی یاد نہیں کہ کہاں ہوئی، اتنا ضرور یاد ہے کہ وہ اپنی سوچ میں اور حب الوطنی میں ہم سے بہت آگے تھا۔ ہمیشہ کہتا تھا بات اصول کی ہے۔ اس ملک میں غریب کا بہت استحصال ہے ہم نہیں بدلیں گے تو کون بدلے گا اس کو، ہم نہیں بولیں گے تو کون بولے گا اس کے لئے، میں نے اس کے نظریات میں کبھی ذات کو اہم نہیں دیکھا تھا۔
بات کبھی اپنی کرتا ہی نہیں تھا بس اس معاشرے کی کرتا تھا۔ پاکستان کی کرتا تھا۔ رنجیدہ رہتا تھا کہ یہ وہ ملک نہیں ہے جس کے ہم حقدار ہیں۔ سلمان حیدر کی اس سوچ نے اور جذبے نے کیا نقصان پہنچایا ہے اس ملک کو یا اس کے باسیوں کو۔ لاپتہ افراد کے لئے آواز اُٹھانے سے یا افواج ِپاکستان پہ تنقید کرنے سے یا مذہبی دہشت گردوں پر تنقید کرنے سے کیا نقصان ہوا کِسی کا (سِوائے اس کے کہ کِسی کی دُم پہ پیر آگیا)۔ جنہوں نے تھوکنا تھا ہمارے منھ پر !میں آکر تُھوک گئے اور نقصان ہوگیا سلمان کا۔ واہ واہ
جھوٹ مت بولو اپنے جُرم کو چُھپا نے کے لئے، وہ کسی ایسے پیج کا ایڈمن نہیں تھا، مذہب بیچنا مسلمانوں کی پُرانی روایت ہے سو لگا لو مذہب کا سٹال خوب رش لگے گا۔ لیکن اب ہم سب سلمان ہیں۔ آواز روک کر دکھاؤ۔ اب سلمان اکیلا نہیں ہے ہم سب کی آوازیں ساتھ شامل ہیں اس کے۔ گواہی دو میرے دوستو! بتاؤ سب کو کہ سلمان کون ہے، سچ کیا ہے۔ سلمان حیدر کا جُرم بتاؤ ؟ سلمان کو اٹھالے جانے والو! جُرم بتاؤ اس کا۔ مجھے میرے اس سوال کا جواب چاہئے ۔ ہے کِسی کے پاس؟
کون سلمان حیدر؟ وہی سلمان حیدر جو گورنمنٹ کالج کے ایمفی تھیٹر کی سیڑھیوں پہ بیٹھ کے پاکستان کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھا کرتا تھا اور آج تک دیکھ رہا ہے ۔
قید میں بھی دیکھتا ہوگا۔ وہ سلمان حیدر جو ہمیشہ محمد و آلِ محمد کی ثناء کو اور اُن کے افکار کی تقلید کو مقصدِ حیات سمجھتا ہے اور اپنے ایمان پر اتنا مضبوط ہے کہ موت سے بھی نہیں گبھراتا ۔ یہ قید تنہائی کیا مارے گی اس کو۔
وہی سلمان حیدر؟ جو یہاں فاطمہ جناح یونیورسٹی میں بچوں کو نصاب سے نکل کر شعور کے معنی سمجھاتا ہے، سوچنا سکھا تا ہے۔ اپنے حق کے لئے آواز اٹھا نے کی روایت سکھاتا ہے۔ ارے ہاں وہی وہی سلمان حیدر کہ جو ہمیشہ اس معاشرے کی زبوں حالی کی وجوہات پر لمبی لمبی تقریریں کرنے کے بعد عہد کرتا کہ جب تک اس معاشرے میں بہتری نہیں آئے گی خاموش نہیں بیٹھوں گا۔
وہی تو جو موسلادھار بارشوں میں بھیگ کر اپنی چھتری دوستوں کو دے دیا کرتا تھا کہ تم محفوظ رہو میری خیر ہے۔
اور وہ سلمان حیدر جو سوندھی ٹرانسلیشن کے دفتر میں بیٹھ کر غالب کا کلام اس انداز میں سُناتا تھا کہ سُننے والے بہت دیر تک کچھ بھی سُننے کی خواہش نہیں کرتے تھے۔
وہی سلمان کہ جب فی البدیہہ تقریری مقابلوں میں بولتا تھا تو تمام دلائل کے بند توڑ دیا کرتا تھا۔ ایک ایک لفظ کا اتار چڑھاؤ ساغر کے تلاطم جیسا ہو تا تھا ۔ اُسے سنتے رہنے کا دل چاہتا تھا ۔ اور وہ ہمیشہ جیت جاتا تھا۔ میں نے اُس کے ساتھ بہت سے تقریری مقابلوں میں حِصّہ لیا ہماری جیت کا تاج ہمیشہ اُس کے سر پہ سجتا۔ اب بھی سجے گا دیکھ لینا۔
اور وہ سلمان حیدر جو دوستوں کا اتنا دوست تھا کہ اُن کو نیاز کے پراٹھے کھلا کر بھی اُن کے عقیدے یا ایمان کو میلی نظر سے نہیں دیکھتا تھا ۔ اپنے عقیدے کو مسلط کرنے والا وہ ہےنہیں ۔ بہت آزاد ہے وہ ، کہاں قید کر لیا اُس کو ۔
اور وہی جو دوست کے دوست کی میزبانی کے لئے چٹیل فرش پہ چادر اوڑھ کے سو جایا کرتا۔ اتنا فقیر منش ہے
بس سادہ سا انسان ہے ، معصوم سا ، پڑھنےلکھنے والا، سوچنے والا، سوال کرنے والا، سوالوں کے جواب مانگنے والا۔ غلط کو غلط کہنے والا، اپنے دین سے محبت کرنے والا ، اپنے لوگوں سے محبت کرنے والا۔ اپنے پاکستان سے محبت کرنے والا۔
عام آدمی وہ کبھی بھی نہیں تھا نہ ہے اور نہ ہو گا۔ یہی وہ سلمان حیدر ہے جس نے اوپر لکھے گئے تما م جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ سزا تو ضرور ملے گی ۔ تمہاری سزا یہی ہےسلمان حیدر کہ تُم سے ہم اور محبت کریں گے اور ہمیشہ کریں گے۔ میرے ساتھ ہو اس سزا کی تکمیل میں دوستو؟