ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ : سوچ میں پسماندگی
(ڈاکٹر افتخار بیگ)
پاکستانی معاشرے کی بنیادی الجھن اور جھنجھٹ یہ ہے کہ ہم روایت اور ماضی کے ساتھ جڑے ہوئے لوگ ہیں اور ہر سطح پر ماضی پرستی کا شکار ہیں،ہم’’ جدت اور جدیدیت‘‘ کے خلاف ایک عمومی مزاحمت کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے اس معاشرے میں آج تک ’’جدید ‘‘ کو قبول نہیں کیا گیا۔
روایت اور ماضی پرستی سے ہماری مراد صرف مذہب یا مذہبی روایات نہیں ہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہمارا رویہ ایسا ہی ہے، سیاست ہو ریاستی امور کا معاملہ، ادارہ جاتی قوانین کی صورتِ حال ہو ، یا تہذیبی اقدار کی نوعیت و کیفیت، ثقافت کا معاملہ ہو ، یا معاشیات کا، ہر جگہ یہی جملہ سننے کو ملتا ہے، ’’پہلے ایسا ہوتا تھا‘‘ یا ’’پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔‘‘ یہ جملے ہمارے اجتماعی لا شعور کی غمازی کرتے ہیں، کہ ہم ماضی کو لمحہء موجود سے زیادہ بہتر اور اہم سمجھتے ہیں۔
۱۸۵۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک نوے سال کا عرصہ ہماری غلامی اور غلامی کے خلاف آواز بلند کرنے کا دور ہے ، انفعالیت کے اس دور میں لمحہء موجود کی نفی کا رویہ اپنایا گیااور ماضی کی یادوں میں میں پناہ لے کر قوم کو مایوسی سے نکالنے کا نسخۂ کیمیا ایجاد کیا گیا، مگر مایوسی سے نجات کی بجائے بے عملی عام ہوتی چلی گئی اور ماضی کا کابوس اس قوم کے حواس پر چھاتا چلا گیا۔یہ رویہ دبے پاؤں ہمارے ’’آرکی ٹائپ ‘‘ کا حصہ بن کر رہ گیا۔اس کا اظہار یہ بڑے عجیب انداز میں سامنے آیا ۔ باوجود اس کے کہ ہم انگریز کے خلاف اپنے اندر ایک غصہ پالے ہوئے ہیں، یہ جملہ زبان زدِ عام رہا:’’انگریز کا دور بہت اچھا تھا۔‘‘
ہماری سول بیوروکریسی کی تربیت اور تربیت کے اصول انگریزوں کے دور میں جس انداز میں طے کئے گئے تھے،غلاموں کو اچھا غلام اور محکوموں کو اچھا محکوم بنانے کے جو نسخے انگریزوں نے تجویز کئے تھے وہ آج بھی اسی طرح جوں کے توں موجود ہیں۔ گویا ہماری سول بیوروکریسی ۱۹۴۷ء سے پہلے کے دور میں سانس لیتی ہے۔ طور طریقے انگریزوں والے مگر چالاکی سے ’’پان‘‘ مذہب کی لگائے پھرتے ہیں۔ عام آدمی کو آدمی سمجھنے کی کوئی روایت سول بیوروکریسی میں موجود نہیں ہے۔
مزید مطالعہ کے لئے دیکھئے: ہم کنفیوزڈ قوم ہیں
یہ بھی ملاحظہ کیجئے: ہمارے شعور کی کٹی پتنگ
ہمارا سیاست دان ۔۔۔۔آج بھی برٹش انڈیا کے دور کی سیاست کا خوگر ہے۔ وائسراے کی خوشامد اور اس خوشامد کے بل پر اقتدار کی ہڈیاں چچوڑنے والے یہ سیاست دانوں کی اولادیں آج بھی اپنے باپ دادا کے طرزِ سیاست کو سیاست میں کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ ملکی وسائل کو آج بھی برطانیہ کی ملکیت سمجھتے ہیں اور ملکی اور قومی وسائل کی لوٹ مار کوحکامت کا نقصان گردانتے ہیں، شاید ان کا خیال ہے کہ اس طرح یورپ کامعاشی اور علمی’’ تفوق ختم‘‘ کیا جا سکتا ہے۔ انھیں اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ یہ آزاد معاشرہ ہے اور ملکی ، ریاستی اور قومی سطح پر بننے والی ہر پالیسی، اس ملک اور اس ملک میں بسنے والے لوگوں کے مستقبل کو متاثر کرتی ہے ۔ یہ لوگ اسمبلی میں وقت کے وائسرائے کو خوش کرنے کے لئے پرائمری سکول کے بچوں کی طرح زور زور سے ہاتھ ہلاتے اور ’’یس وائسرائے‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہیں اور عوام کی امنگوں کا خون کرتے ہیں۔ اپنے حلقوں میں ان کی حیثیت کسی فرعون کی سی ہوتی ہے۔ آقاؤں کو خوش رکھنے کے لئے عوام کو’’ زیادہ محکوم اور زیادہ غلام‘‘ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ کمیشن کھاتے ہیں اور قوم اور معاشرے کے مستقبل سے کھیلتے ہیں، مطمئن رہتے ہیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ۱۹۴۷ء سے پہلے ان کے باپ دادا نے بھی اقتدار میں شراکت اسی طرح حاصل کی تھی۔ آزاد معاشرے کے نئے تہذیبی اور معاشرتی رویوں کی تفہیم ان سب کے بس سے باہر ہے۔
دفتروں کے بابو ہوں، عدالتوں کے اہلکارہوں، تھانے کے سپاہی اور افسر ہوں،یا استاد، ہر سطح پرماضی کے رویوں کو اولیت دے کر نئے رویوں کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ نئے دور کے تقاضوں کے حوالے سے اپنے رویوں کی ترتیب و تنظیم کا کوئی وتیرہ اور کوئی طریقہ ہم نے وضع ہی نہیں کیا۔ اساتذہ نجی محفلوں میں اپنے دور کے سلیبس ، اور اپنے دور کے طالب علم کے رویوں کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں
ماضی پرستی اور روایت پسندی کے ان رجحانات اور رویوں کا جواز نفسیاتی اور جذباتی کیفیات میں مضمر ہے۔قدیم دور کے رویے اور اطوار ہمارے آر کی ٹائپ کا حصہ بھی بن چکے ہوتے ہیں اور لاشعور کے کسی کونے میں بھی پنہاں ہوتے ہیں۔قدیم اساطیری کیفیتیں Mythame کا روپ دھارتی ہیں اور ہمارے جذبے اور شعور کو مغلوب کر لیتی ہیں۔
پاکستانی معاشرے میں یہ سب نوعیتیں اور کیفیتیں موجود ہیں ہمارے معاشرے کا فرد آج بھی زندگی کے نئے اطوار سے ہم آہنگ نہیں ہو سکا۔اور ہم لمحۂ موجود کی پیچیدہ صورتِ حال سے نکلنے کے لئے بار بار ماضی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
سماجی تہذیبی سطح پر ہمارا معاشرہ مختلف بخروں میں بٹا ہوا ہے۔ ہمارے دیہات کا انسان آج بھی وہی ہل،بیل،پنجالی،کسی،کدال،آر،رنمبی اور نہیرنا استعمال کرتا نظر آتا ہے جو کبھی ٹیکسلا میں استعمال ہوتے تھے ۔سو ہمارے دور دراز کے دیہات کے انسان کی تہذیبی زندگی اپنی نوعیت میں تین ساڑھے تین ہزار سال قدیم دور میں سانس لیتی ہے۔بلوچستان میں یہ زندگی اس سے بھی قدیم ترہے۔شہروں میں میٹرو بس چلتی ہے ، ہوائی جہاز اڑتے ہیں، ٹیلی فون کی سہولت موجود ہے ۔سو زندگی کے اطوار جدیدہیں مگر۔۔۔تہذیبی حوالے سے شہروں میں بسنے والا فرد بھی اپنی ذاتی حیثیت میں آر کی ٹائپل رویوں کا اسیر ہے اور Mythameاُسے اپنی گرفت میں رکھتے ہیں ۔سو تمام تر جدید اور جدت کے باوجود تہذیبی رویوں کے اعتبار سے اس کا آئیڈیل رویہ وہی ہے جو دیہات کے انسان کے ہاں رائج ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس کی سب سے بڑی مثال کراچی شہر ہے۔ 70کی دہائیوں تک کراچی فیشن ایبل زندگی اور نئے رویوں کا شہر تھا۔ 80اور90کی دہائی میں صوبہ سرحد(خیبرپختون خواہ)کے لاکھوں لوگ بوجوہ ہجرت کر کے کراچی میں آن بسے۔آج کراچی میں بسنے والا عام فرد زندگی کے انہی پسماندہ رویوں کو Idealize کر رہا ہے جو پختون آبادی اپنے ساتھ لے کر آئی ہے ۔کراچی کا بسنے والا وہ فرد جو آر کی ٹائپ اورMytheme کے حصار سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا،اسی اور نوے کی دہائیوں کے مخصوص جبر کے بعد معکوس چھلانگ لگا کر پسماندگی کا شکار ہو گیا۔
ہمارا معاشرہ اسی المیے کا شکار ہے ہم فکری طور پر معکوس سفر کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ وجہ صرف یہی ہے کہ اس طرح ہمارے لاشعور میں موجود آر کی ٹائپ اور Mythemeکی تسکین ہوتی ہے۔
میں ستائیس سال سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوں ۔اردو کا نصاب میرے پیش نظر ہے اور دیگر مضامین کے اساتذہ سے ورکنگ ریلیشن شپ بھی ہے۔ اردو کے نصاب میں ماضی پرستی اور مردہ پرستی اور موت کے مناظر قدم قدم بکھرے ہوتے ہیں ۔ اگر کہیں مواصلات کے جدید ذرائع کا ذکر آیا ہے ، تو اس میں مسلمانوں کے پیغام رساں کبوتروں کا ذکر کر کے مسلمانوں کا تفوق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے(جو روایت پسندی اور ماضی پرستی کی دلیل ہے)۔ادھر سائنس کے مضامین پڑھانے والے اساتذہ اکثر کلاس رومز میں سائنس کی حقانیت کے خلاف لیکچر دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ سائنس جس جدت کو فروغ دے رہی ہے وہ انسان کے لیے زہر قاتل ہے اور بقا صرف ماضی پرستی میں مضمر ہے۔
یہ وہ عامل ہے جو ہمیں زندگی کے جدید اطوار اختیار نہیں کرنے دیتا۔سائنس اور سائنسی ایجادات کا عمل دخل جتنا بڑھتا جائے گا، ہمارے تہذیبی رویوں میں جدت کا عنصر بڑھتا جائے گا اور آخر ہمیں نئے اطوار قبول کرنے پڑیں گے۔