سارہ

سارہ
Base illustration via Deposit Photos

سارہ

کہانی از، نادیہ عنبر لودھی

شام کے ڈھلتے منظر نامے سے چند امید کے جگنو چننا کسے مرغوب نہیں ہے۔ لیکن تنہائی اس کے قدموں میں حائل تھی۔ اس کا نام سارہ تھا۔ عام پاکستانی عورتوں کی طرح اسے  بھی جوان ہونے پر بیاہ دیا گیا۔ شادی اس کی ضرورت نہیں تھی، تاہم اس کے ماں باپ کی خواہش تھی۔ مشرقی معاشرہ عورت کے لیے کامیابی کا ایک ہی معیار مقرر کرتا ہے وقت پر شادی اور نباہ۔ یعنی مسلسل کمپرومائز۔ اسے بھی اسی کی بھینٹ چڑ ھا دیا گیا۔

وقت گزرتا گیا۔ جذبات کی تسکین نہ بھی ہو پائے تو اس معاشرے کا یہ مسئلہ نہیں ہے۔ ہر وہ عورت جو شوہر کے گھر میں رہتی ہے کامیاب ترین ہے۔ دل میں جلتی آگ کا دھواں نہیں اٹھتا۔ کسی شادی شدہ عورت کے والدین کے لیے یہ تمغہ فخر بھی ہے کہ ان کی بیٹی شوہر کے گھر میں آباد ہے کبھی کبھی آبادی کے پسِ پردہ بربادی ہماری آنکھیں دیکھ نہیں پاتی یا شاید ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ مفادات کی پٹی کے آر پار ہمیشہ اندھیرا جو ہوتا ہے۔

سارہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ شوہر کے نام پر ایک بے حس انسان سے اس کا پالا پڑا تھا۔ شروع شروع میں سارہ اپنے پیار سے اس راکھ کے ڈھیر میں کسی چنگاری کی تلاش کرتے نہ تھکتی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ تلاش بے دلی اور آخرِ کار بے زاری پر مُنتج ہوئی۔ گزرتا وقت اس کا ولولہ بھی ساتھ لے گیا۔ اب اس کے دل اور دماغ پر مایوسی نے بسیرا کر لیا تھا۔

خواہش کا رنگ خواب سے زیادہ گہرا ہوتا ہے البتہ یہاں خواہش اور خواب  دونوں بے رنگ تھے۔ کبھی کبھی اس راکھ کے ڈھیر میں اچانک چلنے والی ہوا چنگاری بھڑکا دیتی۔ تو  اس کے صبر کے بند ٹوٹنے لگتے۔

یہ اس صورت میں ہوتا جب افسردگی دل اور جان پر حاوی ہوتی ایسے میں سارہ کے دل میں دبی محرومیاں ایک ایک کر کے بیدار ہو جاتیں۔ وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا۔ اس کے دل اور دماغ پر چھائی افسردگی بڑھتی جارہی تھی۔ وہ بہت اداس تھی۔

اسے اس وقت ایک مرد کی شدید طلب تھی اس کے سارے بدن میں میٹھا میٹھا سا درد تھا۔ لہو کی یہ طلب فطری تھی۔ خود سپردگی کی خواہش اسے اپنی طرف بلانے لگی۔ کروٹیں بدلتے بدلتے اس کی آنکھ کبھی لگ جاتی کبھی کُھل جاتی۔

گزشتہ رات بھی اسی حالت میں گزری تھی۔ اس آدھی نیند اور پوری طلب کے دوران اس کا جسم لا شعوری طور مختلف پوزیشنیز بناتا۔ وہ بھرے بھرے جسم کی پر کشش عورت تھی۔ خوب صورت چہرہ اور متناسب جسم۔ اس کی کمر پتلی اور کولہے نمایاں تھے۔ پشت کے بَل لیٹتی تو کولہوں کی گولائیاں  مزید ابھر آتیں۔ سائیڈ لیتی تو کمر درمیان سے گہری ہو جاتی اور کولہے مزید اونچے لگنے لگتے۔ سوتے، جاگتے، کروٹیں بدلتے، اونگھتے، خواب دیکھتے وہ اٹھ کھڑ ی ہوئی۔ مذہب سے بغاوت اس کے لہو میں دوڑنے لگی۔ بشری تقاضوں نے ایسا مجبور کیا کہ صبر و ضبط کی مُورت چٹخ کے ٹوٹ گئی۔ یہ کیسا مذہب ہے جو کسی عورت پر اس قدر پا بندی لگاتا ہے کہ وہ ایک ازدواجی وظیفے سے عاری مرد کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائے۔ ایسا مرد جو اس کی تسکین نہیں کر سکتا۔ کیا یہ فطرت کے خلاف نہیں ہے۔

اس کے جوان بدن کی فطری ضروریات کی تکمیل کے لیے مذہب کے پاس  کوئی حل نہیں ہے۔ اسے خود اپنے بدن سے نظر چرانی مشکل ہوگئی۔ اس نے ایک نظر اپنے بَھر پُور جسم پر ڈالی اور دوسری نگاہ اپنی مجبوریوں پر۔ ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بستر چھوڑ دیا۔

اسے بہت سارے کام نپٹانے تھے۔ کاموں میں لگ کے وہ اس کیفیت سے وقتی طور پر نکل آئی۔ شام ہوئی تو شوہر گھر آ گیا۔

اس کی محرومیوں کا جہان شوہر نامی برقی قمقمے نے پھر روشن کر دیا۔ اس کا دل چاہا شوہر کو زور کا دھکا دے۔ اس دھکے میں ہِجر کا سارا درد بھر دے۔ کہیں دور بھاگ جائے، بہت دور۔

کسی کی بانہوں میں چھپ جائے۔ کسی کے سینے سے لگ جائے۔ کسی کے پیار میں ڈوب جائے۔ لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔ بے شمار مرد اس کے ایک اشارے منتظر تھے۔ اس کے لیے دیدہ و دل وا کیے بیٹھے تھے۔ مگر اس کے قدموں میں  تو زنجیریں تھیں مذہب نام کی زنجیریں۔ سماج نام کی زنجیریں۔

انسان معاشرے کے خوف سے بہت ساری تِشنہ خواہشات کو سینے میں دبا لیتا ہے وہ آخرت کے ڈر سے گناہ کا راستہ نہیں چنتا۔ وہ ماں باپ کی محبت میں اپنی آرزوؤں کا گلا گُھونٹ دیتا ہے۔ وہ کلستے ہوئے دو بارہ بستر پر ڈھیر ہو گئی۔

سونے جاگنے، کروٹیں بدلنے، اونگھنے، خواب دیکھنے اور تڑپنے  کے لیے۔