سرمایہ دارانہ نظام پس جدیدیت اور روحانی انخلا
از، مظہر فرید چشتی
مترجم، ڈاکٹر محسن خان عباسی
سرمایہ دارانہ نظام کی اساس میں موجود، ڈارون کے نظریہ تنوع (Evolution Theory) نے لا دینی افکار کا پرچار کرتے ہوئے، جدیدیت اور پس جدیدیت کے افکار نےمعاشروں اور معیشتوں کوجبر، ذاتی منفعت اور استحصالی نظام کی جانب دھکیل دیا ہے۔
دور حاضر کی سب سے زیادہ مباحث پس جدیدیت ہی کے بارے میں ہیں اور یہ روایت دنیا کے جدید ترین نظام افکار کا مجموعہ ہے۔ اسی پس جدیدیت کی روایت کے ثمرات ہیں کہ دنیا میں افراتفری کا رجحان بڑھ رہا ہے اوریہ رجحان ہر شے میں ابھر آیا ہے، جس میں، فلسفہ، سائنس اور معیشت کے موجودہ نظریات بھی شامل ہیں۔ یہاں تک کہ پس جدیدیت کو اگر جدیدیت پر تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تب بھی اس نے دنیا کو بہت مشکلا ت و تعطلات سے نوازا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا روحا نی طور پر بنجر ہوتی جا رہی ہے۔ اسی رجحان کے ذریعے جو تعطلات اس دنیا کو نصیب ہوئے ہیں ان کا خاتمہ روحانی روایات سےضروری ہے۔
سب سے پہلے اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ جدیدیت کا فلسفہ کیا ہے؟ اور کس نظام پر اس کی عمارت کو کھڑا کیا گیا؟ جدیدیت کو بنیادی طور پرتہذیب کا درجہ دیا گیا ہے، جس کی بنیاد مغربی فلسفہ نے فراہم کی ہے۔ یہ ان افکار و نظریات پر مشتمل ہے جن کو مغرب نے دور احیاء (Renaissance) یا دور روشن خیالی نے فراہم کیے ہیں۔ مغرب دور جدیدیت کی ابتداء 1650ء سے شروع کرتا ہے۔
مغرب نے انیسویں صدی عیسوی میں ہر اس چیز پر پابندی لگا دی جو مغرب کی اپنی تاریخ اور اپنی روایت کے خلاف ہو۔ اسی کے نتیجہ میں جدیدیت کا فلسفہ پروان چڑھا ہے۔
مادہ پرستی کے نظریات و تحریکات نے انسان کومعاشی حیوان بناتے ہوئے فکر و عمل کو اس کی ذاتی منفعت تک محدود کر دیا ہے اورمرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے تصور کوختم کر تے ہوئے اس کی جگہ ایک ایسے نظریے نے لی ہے، جس کی بنیاد، دنیا کے خود بخود اچانک پیدا ہو جانے پر قائم کی گئی ہے۔
مادہ پرست ملحدوں کی فوج ظفر موج نے ہر میدان میں نمایاں مقام بنائے جن میں تقریباً ہر شعبہ زندگی شامل ہیں اور اس کے اثرات سائنس، فلسفہ، معاشرت، معیشت اور نفسیات پر نمایاں ہیں۔
مادہ پرستانہ نظریات کے حامل مفکرین، جیسا کہ ڈائیبروٹ (Diderot) اور براؤن ڈی ہیلبیک (Baron d’Holbach) کہتے ہیں: یہ کائنات ایک مجسم مادیت تھی جو ہمیشہ سے ہی موجود رہی اور اس کائناتِ مجسم کے علاوہ کسی قسم کا کوئی بھی جہان موجود نہیں ہے۔ انیسویں صدی عیسوی کےمفکرین، جیسا کہ مارکس (Marx) اینجل (Engels)، نتشے(Nietzsche)اور فرائیڈ (Freud) نے مادہ پرستانہ اور ملحدانہ نظریات کو سائنس، معیشت، نفسیات، فلسفہ اور معاشرت جیسے موضوعات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
فکر مادہ پرستی کو سب سے زیادہ قوت چارلس ڈارون کے نظریہ تنوع (Theory of Evolution) نے دی، جس نے تصور تخلیق (creation) کو فکر تنوع (evolution) سے تبدیل کر دیا۔ ڈارون نے اس سوال کے جواب میں کہ جس میں کہا گیا تھا ”انسان اور زندہ چیزوں کی ابتدا کیسے ہوئی؟ “ اسی کا خود ساختہ سائنسی جواب تلاش کیا اور دعویٰ کیا کہ اس نے اس سوال کا جواب تلاش کر لیا ہے جس کا جواب دینے سے ملحدین کئی سو سال تک قاصر رہے تھے۔
مزید ملاحظہ کیجیے: ما بعد جدیدیت، کیا انارکی ہے؟ از، احمد جاوید
درحقیقت اس کے برعکس مادہ پرستی کے حامل نظریات رکھنے والوں کو سب سے بڑی شکست معاشرتی حوالے سے ہوئی۔ ان کے وہ نظریات جومعاشرے میں سرمایہ دارانہ نظریات کی صورت میں، کمیونزم اور فاشزم کی صورت میں اجاگر ہوئے، بری طرح تباہ کن ثابت ہوئے۔ ان افکار و نظریات کو معاشرے میں معاشرتی روایات کے خلاف اور ابتری سمجھا گیا ہے، مزید براں ! مادۃ پرستانہ رجحانات نے معاشرے میں موجود تصورایثار، عزت، دیانت اور وفاداری جیسے عظیم جذبات کی اثر اندازی میں فرق پیدا کیا۔
لادینی ماحول کا پہلا شکار خاندانی نظام ہوا اور اس نظام سے منسلک روایات جن میں اخوت، محبت اور رواداری جیسے جذبات شامل تھے، جن کی وجہ سے گھرانوں کو تقویت ملی، کلیتاً رد کر دی گئیں۔ دور جدیدیت سے متاثر جس نظریے نے لوگوں کو خود فریبی میں مبتلا کیا وہ یہ تھا کہ رواداری اور اچھائی بغیر کسی مذہب کے بھی پائی جا سکتی ہے۔
بغیر کسی دینی فکر پر عمل کیے ہوئے انسان کسی بھی حالت میں رواداری اور محبت اخوت جیسے افکار پر عمل درآمد کر سکتا ہے۔ یہ ایک فریب ہے۔ تاریخ ان مثالوں سے بھری پڑی ہےکہ کیسے وہ نظریات جن میں دینی افکار خدا اور روح کے شامل نہیں تھے معاشرے میں لاگو نہیں کیے جا سکے اور معاشرتی ابتری پھیلانے کی پاداش میں نکال باہر کیے گئے۔ کیوں کہ وہ معاشرے کو سچی رواداری نہیں دے سکے۔ پس جدیدیت وہ نظریہ ہے جو روایت کو خالی کر دیتا ہے۔
سب سے سنگین غلطی دور پس جدیدیت کی ”نسبتیت“ کا نظریہ ہے۔ ایسا نظریہ جس کی رو سے ہر روایت اور نظریہ فرد سے فرد تک تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس کا تسلسل جا کر اس نہج پر پہنچے گا کہ کسی جگہ بھی سچ کی کوئی ایک خاص حقیقت نہیں ہے۔ سچائی کو نسبتی نظریے سے تبدیل کر دینا ایک ایسی غلطی ہے جس کا نقصان، ناقابل تلافی ہے۔
دور مابعدجدیدیت نے انسانی دنیا کو کوئی حل فراہم نہیں کیا۔ یہ وہ نظریہ ہے جس نے معاشرے کو ایک اور ابتری میں مبتلا کر دیا ہے کہ کسی روایت یا مقصد کی کوئی اصل حقیقت نہیں ہے۔
ڈارونزم (Darwinism) سے متاثر مفکرین نے نظریہ تنوع کو معاشرتی حوالے سے سرمایہ دارانہ نظام کی سائنسی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے ہربٹ سپنسر(Herbert Spencer) نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جس نے ڈارونزم کے معاشرتی قوانین وضع کیے۔ اس کے مطابق ”اگر کوئی شخص غریب ہے تو یہ اس کا قصور ہے اور یقیناً کسی کو بھی اس کی غربت دور کرنے میں اس کی مدد نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص امیر ہے اور اس نے چاہے یہ دولت ناجائز ذرائع سے اکھٹی کی ہے تو یہ اس کی مہارت ہے۔ اسی اصول کے تحت امیر کو زندہ رہنے مکمل حق حاصل ہے اور غریب کا مر جانا ہی بہتر ہے۔ “
نظریہ تنوع کی تباہ کاری اور استحصال کو سمجھنے کے لیے ہم اس کی ایک مثال کاروبادی دنیا سے لیتے ہیں۔ جب راک فیلر (Rockefeller) جیسا بڑا کاروباری شخص یہ کہتا ہے کہ ”کاروبار کا وسیع پیمانے پر پھیلاؤ بڑے سرمایہ دار کا بنیادی حق ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے لا تعداد چھوٹے سرمایہ داروں کی قربانی جائز ہے، اور یہی قانون جہد البقاء ہے۔ “
سرمایہ درانہ معاشرہ کے نقائص میں سے ایک اہم نقص دولت کی غیر مساو یانہ تقسیم ہے جو کہ معاشرے میں معاشی ناہمواری کی بنیاد بنتی ہےاور ایسے معاشرے میں امیری اور غریبی کا فرق بڑھتا ہی رہتا ہے، جس سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا ہی چلا جاتا ہے۔ گزشتہ ایک سو پچاس برسوں میں ڈارونزم کے معاشی اثرات معاشروں اور معیشتوں پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور افسوسناک بات یہ ہے اس نظریے کا پرمغز تنقیدی جائزہ بہت کم کیا گیا ہے اور اسی بقا کی جنگ (survival of the fittest) کو ہی قانون فطرت تسلیم کر لیا گیا ہے۔ دور حاضر کی بہت ساری انسانیت نے اس کا گہرا تجربہ گزشتہ دو سو سال سے اخلاقی دیوالیہ پن کی صورت میں برداشت کیا ہے۔
بہترین تحریر۔۔ قلم نگار نے ایک نازک اور اہم موضوع پر قلم اٹھایا ھے۔۔ آج کی نوجوان نسل کو ایسی تحریروں سے آشنا کرنے کی اشد ضرورت ھے تا کے انکی منتشر سوچ کو حقائق کے ساتھ یکسوی میسر آسکے۔۔