بلبلِ ہند سروجنی نائیڈو

سروجنی نائیڈو
سروجنی نائیڈو

بلبلِ ہند سروجنی نائیڈو

از، ڈاکٹر ستیا پال آنند

’’انڈو اینگلین‘‘Indo-Anglian اصطلاح اس ادب کے لیبل کے طور پر جو ہندوستانیوں نے انگریزی زبان میں تخلیق کیا، بہت پرانی نہیں ہے۔ جارج سِمپسنGeorge Simpson نے پہلی بار اس اصطلاح کو 1961ء میں اپنی کیمبرج ہسٹری آف انگلش لٹریچرمیں استعمال کیا۔۱؂ یہ الگ بات ہے کہ فاضل مصنف نے اس بات کی تمیز رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ وہ ادب جو ہندوستان میں مقیم انگریز نسل کے لوگوں نے، یعنی سر ایلفرڈ لائل Sir Alfred Lyell, سر ایڈون آرنلڈؔ Sir Edwin Arnold ، رُڈیارڈ کپلنگؔ ، Rudyard Kipling اور ای ایم فورسٹرؔ E.M. Forster وغیرہ نے تصنیف کیا، یا وہ ادب جس کی تخلیق ہندوستانی نژاد لوگوں نے انگریزی میں کی، دو الگ الگ اصناف ہیں۔ انگریزی میں لکھنے والے ہندوستانی مصنفین میں قابل ذکر کچھ نام اور ان کے شعری مجموعوں کا ذکر عام طور پر آج کے تذکروں میں نہیں ملتا لیکن ہنری ڈوریزیوؔ Henry Derozio کا شعری مجموعہ ،(Poems – 1827)، کاسی پرساد گھوسؔ (Kasi Prasad Ghose) کا مجموعہ The Shair of Minstrel (1830))، مائیکل مدھو سودن ؔ دت Michael Madhusudan Dutt کا مجموعۂ کلام (The Captive Ladie – 1898) اور منموہن گھوسؔ کا مجموعہ بعنوان Love Songs and Elegies (1849))آج بھی کسی نہ کسی پرانے کتب خانے میں مل جاتے ہیں۔ ( کوئی  بیالیس برس پیشترمیں نے خود انہیں لنڈن کے ایک کباڑی کتب فروش سے ایک ایک پاؤنڈ میں خریدا تھا!)۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے ربع اول میں ان ناموں میں تورو دتؔ (Toro Dutt), رابندر ناتھ ٹیگورؔ ، اوروبنِدو گھوشؔ ، سروجنی نائیڈوؔ ، جوزف فرٹاڈوؔ (Joseph Furtado) اور ہریندر ناتھ چٹوپا دھیائےؔ (Harindranath Chattopadhiaya) کا اضافہ ہوا۔

یہ بات اب پرانی ہو چکی ہے کہ اگر کیمبرج ہسٹری آف انگلش لٹریچر میں فاضل مصنف ان دو اقسام ، یعنی ہندوستان میں مقیم انگریز مصنفین کا ادب، اور ہندوستانی نژاد اہل قلم کا انگریزی ادب، کو الگ الگ ناموں یعنی Anglo-Indian Literature اور Indo-Anglian Literature کی اصطلاحیں دے دیتا تو شاید اس الجھن اور پراگندگی کا سامنا ہندوستانی مورخینِ ادب کو نہ کرنا پڑتا، جس کا شکار وہ کئی برسوں تک رہے۔

انڈو انگلین شاعری کی عمر زیادہ نہیں ہے۔ سر و لیم جونزؔ (Sir William Jones)کے بنگال ایشیاٹک سوسائٹی کی بنیاد رکھنے کے بعد کالیداس کے ڈرامے ’’ابھیگیان شکُنتلم ‘‘ اور سبق آموز کہانیوں کا مجموعہ ’’ہتو اُپدیش‘‘ کے انگریزی میں ترجمے شائع ہوئے ۔ سر ولیم جونزؔ نے ہی مہابھارت کی ایک کہانی پر مبنی ایک طویل منظوم ڈراما The Enchanted Fruit لکھا لیکن ہندوستانی نژاد شاعروں میں جو سب سے پہلا نام دکھائی دیتا ہے، وہ ہنری ڈیریزیوؔ (Henry Dirozio)کا ہے جو پرتگیزی اور ہندوستانی خون کی آمیزش تھا۔ اس کی
شاعری اس کی اپنی ادارت میں شائع ہونے والے The East Indianرسالے کی زینت بنتی رہی۔ سن 1831ء میں اس کی موت سے پہلے ہی کاسی پرساد گھوسؔ اپنا شعری مجموعہ The Shair or Minstrel ترتیب دے چکا تھا جس کی نظمیں بائرن Byron ، سر والٹر سکاٹ Sir Walter Scott)) اور تھامس مور Thomas Moore کا اثر لیے ہوئے ہیں ۔یہاں اس کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ سروجنی نائیڈو (1879-1949) نے کاسی پرساد گھوس کی طرح ہی ہندوستانی میلوں، تہواروں اور دیہات کی زندگی کے مختلف مناظر، عورتوں کے زیورات، ملبوسات ، رسم و رواج، روز مرہ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اپنی نظموں میں ڈھال کر پیش کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ سروجنی نائیڈو نے گھوس کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے بدیسی زبان میں دیسی شاعری کی، تو دلیل سے بعید نہ ہو گا۔

انیسویں صدی کے وسط تک کچھ دیگر ہندوستانی نژاد شاعروں کے جو نام صفِ اول میں آتے ہیں، وہ مائیکل مدھو سودن دتؔ
Madhusudan Dutt)  (، گوروچرن دتؔ (Gurucharan Dutt) اور راج نار۱ین دتؔ (Raj Narayan Dutt) کے ہیں۔ تورو دت کے والد گوروچرن دتؔ خود ایک اچھے شاعر تھے۔ The Dutt Family Album ، جو لنڈن سے 1870 ء میں شائع ہوا، دت خاندان کے شاعروں کا نمائندہ مجموعہ ہے۔

انیسویں صدی کے آخری برسوں میں جن شاعروں نے اس روایت کو آگے بڑھایا، ان میں کچھ نام آج بھی جانے پہچانے جاتے ہیں ؂۲۔ ان میں سوامی وویکا نندؔ (Swami Vivekananda)، مالا باریؔ (Malabari)، این، ڈبلیو، پائیؔ (N.W.Pai)، نظامت جنگؔ (Nizamat Jang), اردیشورؔ ، ایم مودی (Ardeshwar M.Modi) وغیرہ کے ہیں، لیکن اس دوران میں اوروبندو گھوشؔ اور رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی شاعری کا سکہ جمانا شروع کر دیا تھا۔

اس ساری تفصیل کی ضرورت اس مختصر مضمون میں اس لیے محسوس ہوئی کہ سروجنی نائیڈو کی بدیسی زبان میں دیسی شاعری کو سمجھنے کے لیے اس روایت کا سمجھنا اس حد ضروری ہے جس کے تحت انگریزی میں طبع آزمائی کرنے والے ہندوستانی شاعروں نے مندرجہ ذیل کام کیے۔

(۱) ہندوستانی نوعیت کے مضامین، ہندوستانی تاریخ، فلسفہ، دیو مالا، کلاسیکی ادب یا قصہ کہانیوں سے اخذ کیے۔
(۲) ہندوستانی عصری زندگی کی گونا گوں نیرنگیوں کی منظر کشی کی۔
(۳) ہندوستانی مسائل کو انگریزی زبان میں ، برٹش حکومت کے سیاقی حاشیے میں رکھ کر، آزادی کی امنگ کو اجاگر کیا۔
(۴) ایک ایسی نئی صنف کی بنیاد ڈالی کو انگریزی شاعری ہوتے ہوئے بھی خالصتاً ہندوستانی شاعری تھی اور جسے انگلستان یا کینیڈا یا آسٹریلیا یا امریکا کی انگریزی شاعری سے مختلف اور منفرد تسلیم کرنے میں آنے والی نسلوں کو کوئی دقّت پیش نہیں آ سکتی تھی۔ ۴ ؂
(۵)انگریزی دان ہندوستانی جو ولایت میں پڑھ کر واپس آتے تھے اور جو اپنے نام کے ساتھ England Returned لکھناقابل فخر سمجھتے تھے اور وہ جو انگریز مشنریوں کے قائم کیے ہوئے مشنری اسکولوں یا کالجوں سے ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بڑی شان سے ورڈزورتھؔ ، کالریج’، شیلےؔ ، کیٹسؔ ، ٹینی سنؔ اور براؤننگؔ کے نام بطور فیشن اپنے کوٹ کے کالروں پر لٹکائے پھرتے تھے، انہیں یہ احساس ہوکہ ان کے اپنے وطن میں بھی ان شعرا کے پیمانے کے اہل قلم موجود ہیں۔

سروجنی نائیڈو کا پہلا مجموعہThe Golden Threshold(طلائی چوکھٹ) 1905ء میں شائع ہوا۔ اسے لنڈن کے ناشر William Heinemann نے چھاپا اور چند برسوں میں ہی مصنفہ کا نام انگریزی جاننے والی دنیا میں عزت و احترام سے لیا جانے لگا۔ دو اور مجموعے The Bird of Time (طائرِوقت) اور The Broken Wing (شکستہ بال و پر) بتدریج 1912ء اور 1917 ء میں منظر عام پر آئے۔ تینوں مجموعے ان کی زندگی میں ہی شائع ہوئے۔ شاعری سے سیاست تک کا سفر انہوں نے ایک جست میں ہی طے کیا اور 1917ئسے 1949 ء تک ، یعنی اپنی وفات کے آخری برس تک، وہ شاعری سے کنارہ کشی نہ کرتے ہوئے بھی سیاست کے میدان میں سرگرمِ عمل رہیں۔لیکن باوجو د اس کے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنی شعری قوتِ تخلیق کوبروئے کار لا کر نظمیں لکھتی رہیں ، انہیں وقت ہی نہیں ملا کہ وہ کوئی نیا شعری مجموعہ کسی پبلشر کے حوالے کر سکتیں۔

ان کی وفات کے بارہ برس بعد ، یعنی 1961ء میں جب میں پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ میں لیکچرار تعینات ہوا تو میرے استاد اورشعبہء ادبیاتِ انگریزی کے سربراہ ڈاکٹر راج کمارؔ نے مجھے مشفقانہ رائے دی کہ خود شاعر ہونے اور اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھنے میں مہارت ہونے کی وجہ سے مجھے اپنی ڈاکٹریٹ کے لیے کسی انڈو اینگلین شاعر کا انتخاب کرناچاہیے اور انہوں نے اس سلسلے میں دو نام میرے سامنے رکھے، اوروبندو گھوشؔ اور سروجنی نائیڈوؔ ۔ میرے لیے یہ ایک سنہرا موقعہ تھا۔ میں نے دونوں شاعروں پر ابتدائی کام کرنا شروع کیا اور تقابلی پلڑے میں رکھ کر تھیسس کی outline جو معرض وجود میں آئی، وہ انہیں پیش کی۔ اسے ایک اچٹتی ہوئی نظر سے دیکھ کر ہی ڈاکٹر راج کمار نے نا منظور کر دیا اور کہا کہ ان دو شاعروں میں کوئی بھی چیز مشترک نہیں ہے، ا س لیے بہتر ہو گا کہ میں صرف ایک شاعر کا انتخاب کروں اور اس پر اپنی ’’آؤٹ لاین‘‘ تیا ر کروں۔ بہت سوچ بچار کے بعد، اور دونوں شعرا کے مجموعوں کا مطالعہ کرنے کے بعد، میرا رومانی اور جمالیاتی سریع الاحساس ہونا رنگ لایا اور قرعہ سروجنی نائیڈو کے نام پڑا۔ میں نے اپنی ’’آؤٹ لاین‘‘ تیار کر لی اور وہ منظور ہو گئی۔ تبھی مجھے سینیئر لائبریرین ڈاکٹر شرماؔ نے بتایا کہ سروجنی نائیڈو کا بہت سا کلام تو غیر مطبوعہ ان کی بیٹی پدماجاؔ نائیڈو کے پاس پڑا ہے اور مجھے ان سے رجوع کرنا چاہیے۔

شریمتی پدماجاؔ نائیڈو شاید مدراس میں گورنر تھیں۔ میں نے ایک طویل خط لکھا اور اپنا مدعابیان کیا۔ ایک ہفتے کے اندر ہی مجھے ان کے A.D.C.سے جواب ملا کہ ہر اکسیلینسی دس دنوں کے لیے دہلی تشریف لا رہی ہیں اور انہیں کسی ایسے شخص کی ضرورت بھی ہے جو ان کی والدہ کے غیر مطبوعہ کلام کو ایڈٹ کرنے میں ان کا ہاتھ بٹائے۔ مجھے انہوں نے دہلی آنے کی دعوت دی۔میں نے وہ دس دن بلونت گارگی (مرحوم) کے گھر بطور مہمان رہ کر اور ایشیا پبلشنگ ہاؤس کو تعاون دے کر کام مکمل کیا ۔ اسی برس یعنی 1961ء میں سروجنی نائیڈو کا posthumous مجموعہ کلام زیر عنوان The Feather of the Dawn (صبح کاذب کے پرِ پرواز) شائع ہوا۔ اس کی تدوین اور پروف ریڈنگ میں میرے کام پر پبلشر کی طرف سے مجھے ایک ہزار روپے دیے گئے ۔ لیکن جہاں مجھے یہ دو فائدے ہوئے کہ کچھ رقم بھی ملی اور پدماجاؔ نائیڈو صاحبہ سے ذاتی سطح پر رابطہ بھی قائم ہوا، وہاں یہ معلوم ہونے پر دل بُجھ گیا کہ دہلی یونیورسٹی سے ایک اسکالر سروجنی نائیڈو پر پہلے ہی نصف سے زیادہ کام کر چکا ہے اور اب تھیسس submit کرنے ہی والا ہے۔ ظاہر ہے کہ میرا کام کھٹائی میں پڑ گیا اور میں اس نعمت سے محروم ہو گیا جو مجھے اس عظیم شاعرہ پر کام کرکے حاصل ہو سکتی تھی۔ تو بھی میں نے اپنے کیے ہوئے کام کی بنیاد پر سروجنی نائیڈو پر، یکے بعد دیگرے، چار مضمون لکھے، جو Illustrated Weekly of India میں اور چنڈی گڑھ کے روزنامے The Tribune کے سنڈے ایڈیشن کے میگزین سیکشن میں شامل اشاعت ہوئے۔ زیر تحریر اس اردو مضمون کا کچھ مواد انہی انگریزی مضامین کا مرہونِ منت ہے۔

اپنے چھوٹے بھائی ہریندر ناتھ چٹوپادھیائے کی طرح سروجنی نائیڈو نے سیاست کا دامن تھاما تو ضرور لیکن اس کے لیے انہیں ایک بہت بڑی قربانی دینی پڑی، یعنی شاعری پسِ پشت ہوگئی اور سیاست غالب آ گئی۔ تو بھی کبھی کبھی وہ ایک آدھ نظم کہتی رہیں۔ لیکن ان نظموں میں جو The Feather of the Dawnمیں مشمولہ ہیں، اپنی گونا گوں سیاسی مصروفیات کی وجہ سے وہ ایسی نغمگی برقرار نہ رکھ سکیں جو ان کی پہلی نظموں کا خاصہ ہے۔ یہ نغمگی جملہ انڈو اینگلیں شاعروں میں صرف انہیں ہی نصیب تھی۔ نہ ہی وہ ہندوستانی زندگی کی نقّاشی اس مہارت اور معصومیت سے کر سکیں جو انہوں نے 1917ء تک اپنے کلام میں کی ہے۔ ’’دی فیدر آف دی ڈان‘‘ کی نظموں میں Buddha Seated On A   Lotus یا پھر Flute Players of Vrindavana کے پائے کی ایک بھی نظم نہیں ہے۔ اس مجموعے کی نظموں میں لوک گیتوں کی سی وہ کیفیت بھی نہیں ہے، جو ان کے پہلے دور کی نظموں میں ہے ۔ اپنی’’ہیروں اور موتیوں سے جڑی ہوئی سطر‘‘ یعنی The Jeweled Phrase) میں سروجنی نائیڈو انگلستان کے پری ریفیلائٹ Pre-Raphaelite شاعروں، خاس کر روزیٹی Rossetti اور سوِن برن Swinburne سے متاثر تھیں، لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنی دیسی شاعری میں وہ کلیتاً دیسی تھیں اور خاص کر ان نظموں میں جن کا مضمون اور متن لوک گیتی کی قماش کا ہے، وہ یقیناًبنگالی شاعری کی اس روایت سے متعلق تھیں جو بنگالی کی اصطلاح ’’مارگ کویتا‘‘ یعنی literary poetry نہ ہو کر ’’لوک پریرِت کویتا‘‘ یعنی Folk-inspired poetry تھی۔ ڈاکٹر دستورؔ لکھتے ہیں۔

سروجنی نائیڈو اپنی ان نظموں میں جن کا مضموں اور متن لوک گیتوں کا سا ہے، انگریزی کی عصری شاعری سے بالکل مبرا تھیں۔

She was the least imitative.

اسی خیال کو وجے لکشمی نے یوں عبارت کیا ہے۔

انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہندوستانی تخلیق کار مغربی ادب کے تاثرات کے تحت ’’مارگ شاعری‘‘ کی بناوٹی تمثالوں اور روایتی استعاروں سے آزاد کر رہا تھا۔ اس کی توجہ ’’دیسی شاعری‘‘ کی خوبیوں کی طرف مبذول ہو رہی تھی اور و ہ لوگوں کی زبان میں ایک نیا اور تازہ شعری اسلوب اور اظہار اخذ کر رہا تھا۔ ٹیگور نے بھی ’’مارگ‘‘ اور ’’دیسی‘‘ کا ایک خوبصورت امتزاج اپنی ’گیتانجلی‘ میں پیش کیا۔ ’گیتانجلی‘ ایک ’’کاویہ‘‘ بھی ہے اور ’’گیت‘‘ بھی ہے۔ یہی امتزاج بنگال کی لوک شاعری میں پایا جاتا ہے۔۔۔۔سروجنی نائیڈو دونوں اقسام کی شاعری میں مہارت رکھتی ہیں لیکن ’’مارگ شاعری‘‘ کے مقابلے میں ’’دیسی شاعری‘‘ انہیں وہ تخلیقی تازگی اور قوت بخشتی ہے جو سکہ بند اونچے طبقے کی نارگ شاعری کبھی نہیں دے سکتی۔ لوک شاعری کی قماش کی نظمیں شاعر کو اس بات پرمجبور نہیں کرتیں کہ وہ جذبات و محسوسات یا پھر شعور کی سطح پر کسی نظریۂ حیات سے بندھا ہوا ہو۔ وہ صرف اس زندگی کو جو اس کے چاروں طرف بکھری ہوئی ہے، اپنی شاعری میں ڈھال کر پیش کرنے پر قناعت کرنے کو ہی شاعری کی معراج سمجھتی تھیں أ اس زندگی کا منظر و پس منظر ، واقعات، عام دستکار لوگ اور ان کی دستکاری کے پیشے ہی ’’دیسی شاعری‘‘ کی روایت ہیں۔ لوک ادب کی روایتوں کو اپنی شاعری کا جزو بنا کر سروجنی نائیڈو نے زنادگی کے ناٹک میں اپنا کردار خود چن لیا اور اس طرح ’’مارگ شاعری‘‘ سے الگ ہو گئیں۔‘‘ )انگریزی سے ترجمہ: س۔پ۔آ)

اپنی دیسی شاعری میں سروجنی نائیڈو ایک رنگین منظر پیش کرتی ہیں جو ہندوستان، خاص کر بنگال کے دیہات کی زندگی کی رنگین تصویر کشی ہے۔ اس میں مختلف اقسام کے دیہاتی دستکاری کے پیشے، جیسے کمہار، جولاہا، کھلونے بنانے اور بیچنے والا، بازی گر، رسیاں بُننے والا، کسان اور کھیتوں میں کام کرنے والے مزارعے شامل ہیں۔ ہر عمر اور قماش کی عورتیں، بچے، آوارہ اور بے سہارا لڑکے لڑکیاں، جاترا ناٹک میں کام کرنے والے اداکار، پجاری اور دکاندار، اپنی الگ الگ لیکن بنیادی طور پر ہم آہنگ چھوٹی چھوٹی دنیاؤں میں رہنے والے لوگ ان کی ان نظموں میں سانس لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ دیومالائی کردار، تاریخی ہستیاں، ہندو مذہب کے اوتار، ہیرو اور ہیروئن بھی ان کی گرفت سے آزاد نہیں ہیں۔ ان کا شعری بیانیہ رادھاؔ ، دمینتیؔ ، اور پاروتیؔ کے کرداروں میں ہندوستانی عورت کے مثالی روپ کو، اس کی خوبیوں کی بِنا پر اظہار کا موضوع بناتا ہے، جس میں قربانی اور ایثار کا جذبہ، پاکیزگی اورحیا کی اقدار اور صبر و تحمل کی خوبیاں ان کے کرداروں کو شباہت دیتی ہیں۔

سروجنی نائیڈو دکن کی ہندو شاعرہ ہوتے ہوئے بھی ایک مسلم خاتون کے جذبات کی نمائندگی بالکل صحیح طور پر اپنی نظم A Persian Love Song میں کرتی ہیں۔ اس نظم میں عاشق کے جذبات کی ترجمانی ، جو عشق میں ہلکان ہے، ٹھوس مثالی پیکروں کی شکل میں نہیں کی گئی ہے کیونکہ براہ راست تصویر کشی اسلام میں بت تراشی کی ہی ایک شکل ہے اور شاید صحیح نہ سمجھی جائے۔ مجرد تصواراتی شبیہوں کے ذریعے سے انتزاعاً دینی اور تصواری ہیولوں سے ایسے جذبات کی عکاسی کی گئی ہے، جو ایک ہندو خاتوں بآسانی یہ الفاظ کہہ سکتی ہے ۰۱؂The shrine and alter of your love ۔ چونکہ مسلم معاشرے میں shrine اور alter دونوں الفاظ قابل گرفت ہیں، اس لیے وہ lyric abstraction کا سہارا لیتی ہیں۔ اس طرح کی ایبسٹریکشن ہمیں اس وقت کے شعرا میں صرف انہی کے ہاں ملتی ہے۔

 how shall I woo thee, o dearest Within the delicate silence of love /

اس نظم یعنی Persian Love Song  کا ہی طریق کار انہوں نے اپنی کئی نظموں میں آزمایا ہے۔ ٹھوس مادی پیکروں سے پرہیز، عشق کی بعینہ یعنی ظاہری شعوری سطح سے ما بعد الشعور کی دوسری زیریں سطح تک ایک چوٹی سے دوسری نچلی چوٹی تک اڑان، یہ وہ ذریعہ ہے جس کی وساطت سے یہ مشکل آسان کی گئی ہے۔

ایک بنگالی (اور بعد میں دکنی) ہندو شاعرہ کے طور پر سروجنی نائیڈو کی شاعری جہاں ایک طرف ٹھوس مادی پیکروں سے عبارت ہے جو مندروں، قلعوں، کلس اور گنبد کی گولائیوں، گھنٹیوں، پاؤں کے گھنگھرؤں اور نسوانی جسم پر پہنے جانے والے انواع واقسام مے چیوروں کی واضح تصویر کشی کرتے ہیں، وہاں دکنی اردو اور فارسی مثنویوں پر مبنی ان کی شاعرانہ قدرت کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو انہیں مجرد تصواراتی شبیہوں کو وجود میں لانے سے ، یعنی پیکر اور جسم کی جیومیٹری سے آزاد کرتا ہے۔ یہ شعری عمل قاری کوپیکر اور جسم کی ٹھوس مادیت سے آزاد، نغمگی اور تصوارتی ہیولوں کی جھلکتی ہوئی روشنی کی اسی خوبصورت دنیا میں لے جاتا ہے جو ہمیں اردو اور فارسی مثنویوں میں ملتی ہے۔

The Song of Princess Zebunnisa یعنی ’’شہزادی زیب النسا کا گیت‘‘ اس قبیل کی ایک نظم ہے۔ شہنشاہ اورنگ زیب کی دختر زیب النسا کو، جو ایک شاعرہ بھی ہے اور مغل عہد کی تاریخ کی ایک اہم شخصیت ہے، اس نظم میں اپنے حسن کی خود تعریف کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔یہ در اصل نرگسیت کی ہی ایک شکل ہے۔ اس کی خوبصورتی، اعضا کا تناسب، یعنی نسوانی جسم کی لا مثال تابندگی، ایک خاص قسم کی نفسانی خواہش اور پاکیزگی کا مرقع بن جاتی ہے جس میں رکیک جذبے کا عنصر بالکل نہیں ہے۔ جب وہ اپنا نقاب الٹ کر پھولوں، بلبلوں اور قدرت کے دیگر ظواہر کی زندگی میں شریک ہو جاتی ہے تو وہ عورت نہیں رہتی، قدرت کا ایک دلکش منظر بن جاتی ہے۔ اس کی تکان، نیم نگاہی، اس کی مستی اور کافر صفت جوانی کا جوشیلا پن، پھولوں کے تختوں، پرندوں اور معطر فضاؤں کے ساتھ مل کی ایک ایسا نظارہ پیش کرتے ہیں، جہاں شہزادی زیب النسا تماشہ بھی خود ہے اور تماشائی بھی خود ہی ہے۔

اپنی نظم Humayun to Zobeida میں سروجنی نائیڈو ہمایوں کو اپنی محبوبہ کی تلاش مادی دنیا میں نہیں، بلکہ عشق کی روح اور اس کے عمیق ترین جوہر میں تلاش کرتے ہوئے پیش کرتی ہیں۔ اپنے عشق کی گہرائی اور گیرائی کو شہنشاہ ہمایوں طبیعات میں نہ پا کر ما بعد الطبیعاتی سیاق میں پیش کرتا ہے۔ زبیدہ اس نظم میں ایک عورت نہیں ہے، ایک ہیولیٰ ہے، ایک چھلاوہ ہے۔ جذباتی، روحانی اور محسوساتی اکائیوں کا مرقع ہے جو تصوف میں عشقِ مجازی کی آخری منزل ، یعنی عشق حقیقی کا حصول ہے، اور اس میں مجاز ِ مرسل کی رو سے عاشق اور معشوق ایک  ہی بن جاتے ہیں۔

The Queen’s Rival بھی ایرانی لوک قصص سے اخذ کی ہوئی ایک کہانی ہے۔ اسے مثنوی کی شکل میں ، یعنی انگریزی صنف سخن ballad کے فارمیٹ میں لکھا گیا ہے۔ ملکہ گلنارؔ ، دنیا کی حسین ترین عورت، اپنے حسن سے جیسے اُوب سی گئی ہے۔یہی حسن جس نے اسے بے مثال رتبہ دیا ہے اب تنہائی اور بے مونس غمخوار زندگی کا چلن بن گیا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کا بھی کوئی رقیب ہو جس کے ساتھ موازنے اور مقابلے میں وہ اپنے حسن کی اصلی وقعت پہچان سکے۔ حسن ایک مطلقِ کل اور کامل پیمانہ ہے جو اپنا ثانی خود ہے۔ اس قائم بالذات اور واجب الوجود حسن کو کوئی تقابلی یا اضافی ضد چاہیے لیکن ہر بار جب آئنے میں اس عکس ابھرتا ہے تو وہ اس نا تسلی بخش حسن کو اپنی مثال خود پاتی ہے۔ وقت گذرتا چلاجاتا ہے۔ بہار، موسم گرما، پھر خزاں اور پھر موسمِ سرما۔ سروجنی نایئڈو تشبیہات اور استعارات سے اس گذرتے ہوئے وقت کی یک رنگی اور صد رنگی کوملکہ گلنار کی ذہنی کیفیت کاObjective  Correlative بناتے ہوئے ہمیشہ اسے آیئنے کے مدِ مقابل کھڑے ہوئے پیش کرتی ہیں۔ آیئنہ ، جو اس کی ذات اور اس کے حسن کے درمیان حائل نہیں ہے، یعنی جو اس کی ذات کی صرف ایک پرچھائیں ہے، یعنی اس کا رقیب نہیں ہے!

اور یہ جاگتا ہوا خواب اس وقت ٹوٹتا ہے جب اس کی نو سالہ بچی بھاگتی ہوئی اس کے سنگھار کے کمرے میں داخل ہوتی ہے اور اس کے ہاتھ سے آیئنہ چھین کر بیٹھ جاتی ہے اور آیئنے کو اپنے چہرے کے سامنے لا کر خود کو دیکھنے میں محو ہو جاتی ہے۔ جیسے کوئی خوابِ سحر سے بیدار ہو جائے۔ نیند ٹوٹنے پر چونک اٹھے۔ ملکہ گلنار کو اپنی کمی اور کم مائیگی کا احساس ہو جاتا ہے جو اس معصوم بچی کی حرکت نے پیدا کر دیا ہے۔ یہ وہی حسد ہے جو عورت میں تب بیدار ہوتا ہے جب وہ اپنے برابر کا یا خود سے بہتر نسوانی حسن دیکھتی ہے۔ اس معصوم بچی نے اس کے ہاتھ سے آیئنہ چھین کر اسے ایک بار پھر ’’عورت‘‘ بنا دیا ہے۔

امر ناتھ جھاؔ فرماتے ہیں: ’’سرجنی نائیڈو نے ایک بار اعتراف کیا کہ Queen’s Rivalایک ایسی نظم ہے جس میں ’آمد‘ سے زیادہ ’آورد ‘ ہے، یعنی یہ نظم اے طے شدہ پلان کے تحت سوچ سمجھ کر لکھی گئی ہے۔ نظم کا آخری حصہ کئی برسوں کے توقف کے بعد لکھا گیا اور سروجنی صاحبہ نے اس واقعے کی شانِ نزول مجھے یہ بتائی کہ لیلا منی (سروجنی کی بیٹی) میرے سینڈلوں سے حسد کرتی تھی اور چاہتی تھی کہ وہ خود ایسے ہی سینڈل پہنے۔ جب میں نے ایک دوست سے اس کا تذکرہ کیا تو اس نے یہ کہانی مجھےسنائی۔‘‘ ((15
رام رتن بھٹناگر نے بھی اس نظم کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے: ’’سروجنی نائیڈو اس نظم میں خود سر تا پا عورت ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ حسن اور حسد جیسے نازک معاملے کو اس خوبصورتی سے ایک کہانی کی شکل میں ،جو ایرانی لوک ادب میں ایک قصے کی شکل میں مرّوج ہے، بیان کر گئی ہیں ۔ بلکہ گلنار شاید وہ خود ہیں۔‘‘ (16)

اس بات کے برعکس کہ سروجنی نائیڈو کی شاعری ’پری ریفالائٹ‘ Pre-Raphaelite Poetry، خصوصاً روزیٹیؔ (Rossetti), اور سوِن برن (Swinburne) سے خطرناک حد تک متاثر ہوئی اور وہ ان شاعروں کی طرح لفظوں کے موئے قلم سے تصویر کشی کرتی رہیں، لیکن ایک امر مسلمہ ہے کہ ان کی تصویر کشی خالصتاً ہندوستانی تصویر کشی ہے۔ اس میں یورپی رنگ و روغن استعمال نہیں کیے گئے ہیں۔ ہندوستانی منظر کشی اپنی اصل خوشبو کے ساتھ پیش کی گئی ہے ۔ بنگلالی اصطلاح ’کاویہ‘ (poem) اور گیت (song) کے اس خصوصی امتزاج میں یہ جاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ’ کاویہ‘ کہاں ختم ہوتا ہے اور ’گیت‘ کہاں شروع ہو جاتا ہے۔ یعنی نظم اور نغمگی کا صد آہنگ جلترنگ جو صوت اور صورت دونوں کا مرقع ہوتے ہوئے بھی ایک جامع، مکمل اور مسّلم اکائی ہے، ایک نظم کی صورت میں وارد ہوتی ہے۔ سروجنی نائیڈو جیسے ایک برش سے تصویر بناتی جاتی ہیں اور جو نقش ابھرتے ہیں، وہ ہم سب کے اس لیے جانے پہچانے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہندوستانی زندگی سے براہ راست اخذ کیے گئے ہیں۔

ایک نظم جس کی طرف قارئین اور نقاد حضرات کی توجہ ان کی زندگی میں ہی حد درجہ مبذول ہوئی تھی، وہ The Village Song ہے۔ دیہات کی زندگی ہماری دیکھی بھالی ہوئی ہے۔ دریا یا کوئیں سے گھڑے بھر کر لاتی ہوئی عورتیں ہمارے گاؤں کا ایک مرغوب سیناریو ہے۔ لیکن اس نظم میں جمنا سے پانی لاتی ہوئی نوجوان حسینہ کی شعوری رو کچھ اس طرح دریا کے ساتھ بہتی چلی جاتی ہے کہ پڑھنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ ایک نظم پڑھ رہا ہے یا اپنی آنکھوں سے اس حسینہ کو سر پر گھڑا رکھے ہوئے مستانی چال سے چلتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔

Full are my pitchers and far to carry
Lone is the way and long
Why, O why was I tempted to tarry?
Lured by the boatman’s song
Swiftly the shadows of night are falling
Hear, O hear, is the white crane calling?
Is it the wild owl’s cry?
There are no tender moonbeams to light me,
If in the darkness a serpent should bite me,
Or if an evil spirit should smite me,
Ram re Ram, I shall die.
My brother will murmur, why doth she linger? ”
My mother will wait and weep,
Saying, “O safe may the great Gods bring her!
The Yamuna’s waters are deep

The waters rush by so quickly
Like black birds in the sky
O , if the storm breaks what will betide me?
Safe from the lightening where
Shall I hide me?
Unless thou succour my footsteps and guide me……
Ram, re Ram, I shall die.

اس نظم کا ترجمہ ضروری نہیں ہے، صرف یہ کہنا کافی ہے کہ نظم کا عنوان، مضمون اور متن، یعنی گاؤں کا گیت، گھڑے بھر کر لوٹتی ہوئی دوشیزہ، اور اس کے شعور کی رو، اول تا آّخر ہندوستانی ہے۔ گھڑے بھرے ہوئے ہیں اور بھاری ہیں۔ اسے ان گھڑوں کو اٹھائے ہوئے دور تک جانا ہے۔ وہ سوچتی ہے کاش وہ کشتی کے ملاحوں کے گیتوں کے نشے میں کھو کر اتنی دیر نہ کر دیتی! تب اسے گہری شام کے بڑھتے ہوئے دھندلکے میں ،جب طائرِشب بولنے لگے ہیں ،یوں ڈرڈر کر، پھونک پھونک کر قد م رکھتے ہوئے گھر کو نہ لوٹنا پڑتا۔ چاندنی بھی نہیں ہے۔ اگر اسے کالا ناگ ڈس جائے تو؟ اگر اسے کوئی بد روح اپنے قبضے میں کر لے تو؟ ’’رام! رے رام! میں تو مر جاؤں گی! میرا بھائی کہے گا، اسے اتنی دیر کیوں ہو گئی؟ میری ماں روئے گی اور دعا کرے گی، دیوتاؤ، اسے
خیریت سے گھر واپس لاؤ۔ جمنا بہت گہری ہے۔ اس کا پانی تیزی سے بہتا ہے۔ ہائے، اگر طوفان آ جائے تو؟ ہائے، اگر بجلی گر جائے تو میں کہاں چھپوں گی؟ کاش تم مجھے سہارا دو اور میری رہنمائی کرو، رام، رے رام، میں تو مر جاؤں گی!‘‘

تصویر کشی، بت تراشی، صناعی، ابعاد ثلاثہ کے فنون ہیں۔ ان میں چوتھا بُعدِ رابع (Fourth Dimension) نہیں ہے۔ لیکن شاعری یا رقص، دونوں ہی پہلے تین ابعاد، یعنی رقبہ، ناپ اور حجم کو حرکت عطا کر کے بُعدِرابع سے ہم کنار کرتے ہیں۔یہ حرکت اس نظم کے متن کے ساتھ ساتھ شعوری رو کی مانند internal monologue سی مساوی بہتی چلی جاتی ہے۔اور یہی اسے چوتھا بُعد بخشتی ہے۔ یہ flow and flex دوشیزہ کے گھبرائے ہوئے قدموں کی رفتار اور اس کا آہنگ بھی ہے اور بہتے ہوئے دریا کا بھی۔ یہ تفسیرِ مکاں بھی ہے اور تفسیرِزماں بھی۔ گھڑے سر پر رکھے ہوئے اس باکرہ کی جمنا تٹ سے گھر کو روانگی مکان کا flow ہے۔ شام کا گہرے سایوں میں ڈھلنا اور رات میں بدل جانا زماں کاflux ہے۔ اور ان دونوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اس کا internal monologue یعنی داخلی خود کلامی، لیکن اس ساری منظر نامے پر ہندوستانی تہذیب، مسائلِ حیات، رسم و رواج، ایک چھوٹے سے گھر میں ماں بیٹی اور بھائی بہن کے باہمی پیار کے رشتے کا پس منظر اور جمنا اور اس کے کناروں پر جھونپڑوں میں بسے ہوئے ملاحوں کے رومانی گیتوں کا الہڑ دوشیزاؤں پرجذبات انگیز اثر ایک سائبان کی طرح سایہ کیے ہوئے ہے۔ یہ خوبی بہت کم انڈو اینگلین شاعروں میں پائی جاتی
ہے۔ یہ چوتھا بُعد سروجنی نائیڈو کی بہت سی نظموں میں ملتا ہے۔

مثال کے طور پر ان کی مشہور نظم The Palanquin Bearers ہے جو میں نے اپنے زمانۂ طالبعلمی میں بی۔اے کے نصاب میں پڑھی تھی اور اس کا دھیمی رفتار میں بہتا ہوا سنگیت اتنا میٹھا لگا تھا کہ کئی دنوں تک اس نظم کے نشے میں سرشار رہا تھا۔

Lightly, O lightly, we bear her along
She sways like a flower in the wind of our song
She skims like a bird on the foam of a stream
She floats like a laugh from the lips of a dream
Gaily, O gaily we glide and we sing
We bear her along like a pearl on a string
Softly, O softly we bear her along
She hangs like a star in the dew of our song:
She springs like a beam on the brow of the tide
She falls like a tear from the eyes of a bride.
Lightly, O lightly we glide and we sing
We bear her along like a pearl on a string

راقم الحروف نے اس کا ترجمہ کچھ ان الفاظ میں کیا ہے۔ کوشش یہ کی گئی ہے کہ اس میں آہنگ برقرار رہے تاکہ پالکی اور کہاروں کا چال کا سنگیت قائم رہے۔

ہم ہیں پالکی والے کہار
دھیرے دھیرے، ہلکے ہلکے قدموں سے
دلہن لے کر چلتے جاتے، گاتے ہیں
گیتوں کے سرگم میں ایسے جھول رہی ہے
ٹھنڈی ہوا میں پھول کوئی جیسے جھومے
جیسے پنچھی دریا کی لہروں پر بہتے جھاگ کو چھوتا اُڑ جائے
جیسے سپنوں کے ہونٹوں پر ایک ہنسی سی کھِل جائے
گیتوں کے سرگم میں بہتے، اُڑتے ، چلتے
خوشی خوشی ہم جاتے ہیں
اس کو لے کر ، جو اک مالا کا موتی ہے!
اس کو اٹھائے
نرم نرم قدموں سے، ہلکی چال سے، دھیرے چلتے ہیں
جیسے گیتوں کی شبنم میں کوئی ستارہ سا چمکے
جیسے لہر کی پیشانی پر کوئی کرن اُچھلے، دمکے
جیسے دلہن کی آنکھوں سے آنسو کا اک قطرہ ٹپکے
نرم نرم قدموں سے
ہلکی پھلکی چال سے چلتے ہیں
اس کو لے کر جو اک مالا کا موتی ہے!!

منظر نگاری، تشبیہہ کی سطح پرعلامت کی براہ راست ترسیل ، استعارہ سازی کا جانا پہچانا لیکن اچھوتا کمال اس نظم کی خصوصیات ہیں۔ لیکن اگر یہ کہنے پر اکتفا کر لیا جائے تو یہ سروجنی نائڈو کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا، کیونکہ اس شاعرہ کے ہاں ایسی نظمیں بھی ہیں جن میں احساس اور جذبات کی کیفیت کو اپنی ذات سے دور نہیں رکھا گیا۔ داخلی خود کلامی کی ایک نظم ہم دیکھ چکے ہیں، اب ایک اور نظم دیکھتے ہیں جن میں خود سے ہی تخاطب ہے اور یہ تثنوی اضداد کی نظم بنتے بنتے رہ جاتی ہے۔

TO MY FAIRY FANCIES

Nay, no longer I may hold you In my spirit’s soft caresses
Nor like lotus-leaves enfold you
In the tangles of my tresses
Fairy fancies, fly away
To the white cloud-wilderness

Nay, no longer ye may linger
With your laughter-lit faces
Now I am a thought-worn singer
In life’s high and lonely places
Fairy fancies, fly away
To bright wind-in woven spaces
Fly away!

یہ نظم ’’اپنی طلسمی تمناؤں سے خطاب‘‘ کے زیر عنوان میرے اس ترجمے کی شکل میں شائع ہوئی۔

اب تصور کی کھلی باہوں میں تم کو بھینچ کر
یا کمل کے پھول کی مانند
اپنی زلف کے حلقے میں تم کو باندھ کر
میں رکھ نہین سکتی
تمناؤ!
مری پھولی سی سُندر خواہشو، جاؤ
کہیں بادل کے اجلے دشت میں جاؤ
بہت ہی دور اُڑ جاؤ!

نہیں، اب مت رُکو
اجلی ہنسی کے خندہ زن چہرے لیے واپس چلی جاؤ
گلو کارہ ہوں میں اب
فکر و احساسات کی، سنجیدگی کی
زندگی سے دور، تنہا ہوں
کسی اونچی جگہ پر
دور اُڑ جاؤ، تمّناؤ
فضاؤں کے کسی روشن جہاں میں
دور اُڑ جاؤ!

ایک اور نظم Caprice یعنی ’تلون مزاجی ‘ ہے۔ اس نظم میں پیکر تراشی کا کمال دیکھنے سے ہی بنتا ہے۔

You had a wild flower in your finger tips
Idly you pressed it to indifferent lips
Idly you tore its crimson leaves apart
Alas, it was my heart!
You held a wine cup in your finger tip
Alas, it was my soul…..!

منظوم اردو ترجمہ کچھ یوں ہے۔
ایک جنگلی پھول کو چٹکی میں لے کر آپ نے
بے ارادہ، اپنے بے پروا لبوں سے چھو لیا
سرخ پنکھڑیوں کو پھر یوں نوچ کر بکھرا دیا
یہ نہیں سوچا کہ میرا دل تھا وہ!
ایک جام ارغواں کو اپنے ہاتھوں میں لیا
اور پھر اس کو لبوں تک بے ارادہ لے گئے
آپ نے اس جام کو پی کر اچھالا اک طرف
یہ نہیں جانا، کہ میری روح تھی!

یہ امتیازی خصوصیت سروجنی نائیڈو کی شاعری کی جان ہے۔ مصSa سکتا۔ انگریزی کی لفظیات کو بلبلِ ہند نے دیسی شاعری کے لیے کچھ اس طرح بروئے کار لانے میں مہارت حاصل کی ہے کہ پڑھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے اور اس کی نظر زبان میں نہ الجھ کر چلتی پھرتی ہوئی تصویروں پر مبذول رہتی ہے۔


نوٹ از مصنف: (راقم الحروف کے ایک مقالے کا مخفف روپ، جو ڈی رائی یونیورسٹی کے کمپیریٹو لٹریچرسیمینار میں ہندوستانی اہل قلم کے انگریزی ادب پر اثرات‘‘ کے زیر عنوان پڑھا گیا. یہ پہلا موقع تھا کہ عموماً انگریزی ادب کے ہندوستانی ادب پر تاثرات کے تحت مقالہ جات پڑھے جاتے ہیں، جب کہ اس سیمینار میں انگریزی میں لکھنے والے ہندوستانی ادبا کے انگریزی مصنفین پر اثرات کو زیر بحث لایا گیا۔ اس سمینار کا انعقاد راقم الحروف نے کوئی بیس برس پہلے  کیا تھا۔ (ستیہ پال آنند) )

 

مزید دیکھیے: سائنسی عہد اور تخلیقی عمل کا سائنسی تصور

1 Comment

Comments are closed.