ستر برس کی دہائی اور نواز شریف کی واپسی
از، امتیاز عالم
جی ہاں! کلیجہ منہ کو آتا ہے، جب پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کے گھومتے چکر پہ نظر ڈالیں تو۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے سوچا کیا تھا اور تاریخ کے سنگدل ہاتھوں سے مملکتِ خداداد کے ساتھ بیتی کیا۔ جناح تو آئین پرست، جمہوری اور سیکولر انسان تھے۔ اُن کا گاندھی جی سے اختلاف ہی یہ تھا کہ آپ بہت زیادہ ہندو مہاتما بن رہے ہیں جو قومی آزادی کو مذہبی تفرقے کا شکار کر دے گا۔ اور کان پور کے جلسے میں اُن کی راہیں جدا ہو گئیں، پھر بھی وہ ہندو مسلم ایکتا کے سفیر بنے رہے۔ اور جب گاندھی نے تحریکِ خلافت کی حمایت کی تو پھر جناح کا اُن سے سخت جھگڑا ہوا اور احراری اور دیگر اسلام پسندوں نے اُنہیں آڑے ہاتھوں لیا۔
جب 1940ء کی قراردادِ لاہور پاس کی گئی تو بھی اُن کے ذہن میں مذہبی تقسیم کا کوئی ایسا گمان نہ تھا کہ برصغیر میں مذہبی بنیادوں پر ایک بہت بڑا انخلا ہوگا۔ تب بھی بنگال اور پنجاب کی تقسیم کا تصور تک اُن کے ذہن میں نہ تھا۔ ایک عظیم وفاقیت پسند کے طور پر اُن کا نقشہ آزاد ریاستوں کا تھا، البتہ مذہبی اکثریت کے متصل علاقوں پر مشتمل، جن میں اقلیتوں کو زیادہ تحفظ اور مراعات کا وعدہ تھا نہ کہ انخلا کا! اور جب ڈائریکٹ الیکشن سے پہلے اور بعد میں خوفناک فرقہ وارانہ فسادات پھیل گئے تو پھر فسادیوں نے مذہبی تقسیم کا ایسا زہر گھولا کہ تمام برصغیر خون میں نہایا گیا۔
جب کیبنٹ مشن پلان کو کانگریس نے نہ مانا تو جناح کے پاس ایک ’’کِرم خوردہ پاکستان‘‘ پہ گزارا کرنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ لیکن فرقہ وارانہ خون خرابے سے شکستہ دل جناح مذہبی تفرقے کے خوفناک اثرات بھانپ چکے تھے۔ لہٰذا آئین ساز اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں اُنہوں نے واشگاف طور پر اعلان کیا کہ پاکستان میں ریاست کا شہریوں کے مذہبی معاملات سے کوئی تعلق نہ ہوگا اور شہری اپنے اپنے مذہبی معاملات میں آزاد ہوں گے اور ریاست کی نظر میں ہر شہری کی حیثیت مساوی ہوگی۔
لیکن جناح کی وفات کے بعد سب کایا پلٹ گئی۔ اور پاکستان جمہوریہ بن سکا، نہ آئین کی بالادستی اور نہ جمہور کے حقِ حکمرانی اور حقِ خود ارادیت کا پرتو۔ قائداعظم کے جمہوری آئیڈیلز کی ایسی مٹی پلید ہوئی کہ پاکستان میں کوئی منتخب وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا اور طویل فوجی آمریتیں اس کا مقدر بنیں یا پھر یہاں چھاؤنی کا سکہ چلا۔
اب ستر برس ہونے پر بھی ایک اور وزیراعظم بنا مدت پوری کیے گھر کو واپسی پر غضب ناک ہوئے عوام سے اُن کے مینڈیٹ کی مسلسل بے توقیری کے خاتمے کا حلف لے رہا ہے۔ تاریخ بھی کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے اور کس سے کیا کیا کام لیتی ہے کہ تاریخ کا طالب علم ششدر رہ جاتا ہے۔ عوام نے کبھی مقتدرہ اور انصاف کے قتل کو قبول کیا اور جو راندۂِ درگاہ ٹھہرا، وہ اُن کی آنکھ کا تارا بنا۔ وہ بھٹو کو آج تک نہ بھولے اور نہ ہی نواز شریف کی برطرفی کو درگزر کرنے پہ راضی۔
بھلا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ میاں نواز شریف جو جنرل ضیاء الحق کی آمرانہ گود میں پلا اور جمہوری تحریک کے خلاف میدان میں اُترا، آج عوام کی حکمرانی اور جمہوریت کے بول بالے کے لیے یوں آستینیں چڑھا کر میدان میں اُترے گا۔ میری نسل کے لوگوں نے تو سوائے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی فیلڈ مارشل ایوب خان کی آمریت کے خلاف جمہوری جدوجہد میں اُن کی حمایت کے علاوہ کبھی کسی مسلم لیگی کی حمایت نہیں کی۔
اور جب محترمہ فاطمہ جناح نے انتخابی دھاندلی کو ردّ کرتے ہوئے ایوانِ صدر جا کر اپنی صدارت کے اعلان پر اصرار کیا تھا تو سب پیچھے ہٹ گئے تھے اور میری نسل کی پود کا اعتماد لیگی سیاست پر اور بھی ختم ہو گیا جب کنونشن مسلم لیگ ہر سو حاوی ہو گئی۔ فرعون کے گھر موسیٰ پیدا ہونے والی بات ہوئی اور ذوالفقار علی بھٹو ایوب آمریت کو لات مار عوامی دھارے میں آن کھڑے ہوئے۔ یہ انقلابی جمہوری زمانہ تھا اور ہم طالب علموں نے ایوب آمریت کو للکارا اور بھٹو صاحب اس کے لیڈر بن گئے اور ایوبی آمریت کو چلتا کیا۔
پھر پہلے عام انتخابات پاکستان کے بننے کے 23برس بعد ہوئے تو سارے رجعتی بُت اُلٹ گئے۔ لیکن ووٹ کا تقدس تو کیا ہونا تھا، ملک کے اکثریتی صوبے اور اکثریتی جماعت کو خون میں نہانا پڑا۔ جنرل یحییٰ خان اور اُس کے ٹولے کو ہزیمت اُٹھانا پڑی، ملک دو لخت ہوا اور ’’دو قومی نظریہ‘‘ بھی۔ (’’دو قومی نظریہ‘‘ بھی تو اکثریتی و اقلیتی علاقوں کی تقسیم کے لیے تھا۔ یہ نہیں کہ تمام مسلمان پاکستان آن بستے اور تمام ہندو یہاں سے انخلا کر جاتے)۔
پھر بھٹو صاحب نے ’’نئے پاکستان‘‘ کی بنیاد رکھی اور 1973ء کا متفقہ جمہوری و وفاقی آئین دیا۔ یہ ایک ایسا عمرانی معاہدہ تھا جو سب کو قبول تھا، لیکن پھر شب خون مارا گیا اور جنرل ضیاء الحق کی خوفناک آمریت کے سائے طویل تر ہوتے چلے گئے۔ جمہوریت کی پسپائی اور آمرانہ قوتوں کی جارحیت جاری رہی۔ بدقسمتی سے یہ ہماری عدلیہ ہی تھی جس نے ہر جمہوری حکومت کے خاتمے اور ہر فوجی آمریت کی طوالت کو دوام بخش کر اپنے بھی ہاتھ کاٹے اور لوگوں کو اُن کے حقوق سے محروم کیا۔
انگریزوں کا چھوڑا ہوا وائسرائی نظام فوجی آمروں اور بالواسطہ فوجی تسلط کی صورت جاری رہا اور پاکستان وقفے وقفے سے ایک دُم کٹی جمہوریہ کا بے کیف منظر دیکھتا رہا۔ کمال یہ تھا کہ ملک میں تو عوام کے حقِ خودارادیت اور حقِ حکمرانی کی تذلیل کی جاتی رہی، لیکن کشمیر کی آزادی کے لیے حقِ خودارادیت کا جھنڈا بلند رکھا گیا۔ یوں پاک بھارت مناقشے نے آمرانہ قوتوں کو اور تقویت بخشی۔ اور پھر حضرت ضیاء الحق نے تو جناح کے پاکستان کی وہ نظریاتی درگت بنائی کہ ہر طرف فساد کے ڈانڈے پھیل گئے اور جمہوریت پسندوں کو بدترین بربریت کا نشانہ بننا پڑا۔ اور آج تاریخ نے پھر یہ دن دیکھنا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کے سائے میں پلا سیاستدان آج انہی قوتوں کو چیلنج کرنے چلا ہے جن کے ہاتھوں جمہور لٹتی پٹتی رہی۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!
جی ہاں یہ تاریخ کا کرشمہ ہی تو ہے۔ بھٹو بدقسمت تھے لیکن تاریخ کے روشن ستارے۔ نواز شریف خوش قسمت ہیں، تین بار وزارتِ عظمیٰ سے نکالے جانے کے باوجود عوام میں پھر سے مقبول بھی۔ گزشتہ چار برس نواز حکومت مسلسل نادیدہ قوتوں اور بیہودہ گماشتہ سیاسی قوتوں کے رحم و کرم پر رہی۔
ایک دھرنا ہوا، دوسرا دھرنا ہوا۔ دونوں ناکام تو رہے لیکن اقتدار حکومت کے ہاتھوں سے وہیں چلا گیا جہاں ہمیشہ سے رہا تھا۔ یہ تو پارلیمنٹ تھی اور میثاقِ جمہوریت کی کچھ شرم کہ وزیراعظم نواز شریف کھمبے پہ لٹکنے سے بچ گئے۔ لیکن میاں صاحب بھی بادشاہ آدمی ہیں۔ اُسی پارلیمنٹ کا راستہ بھول گئے جو اُن کے اقتدار اور تسلسل کا منبع تھی۔ بُرا ہوا کہ پانامہ کے اسکینڈل کو پارلیمنٹ نے ہینڈل نہ کیا، اور بھی بُرا ہوتا اگر فوج مداخلت کرتی۔ لیکن یہ بھی اچھا نہیں ہوا جس طرح اس کو بھگتایاگیا۔
یہ تو تاریک زمانوں میں ہوتا تھا کہ وکیل بھی آپ، تفتیش کار بھی آپ، منصف بھی آپ، جلاد بھی آپ، اور اپیل بھی نہیں۔ اور نکلا بھی کیا؟ کھودا پانامہ نکلا اقامہ۔ ہر طرف ’’گو نواز گو‘‘ کے شور میں، عوام کے منتخب وزیراعظم کو قانون قاعدے کا لحاظ کیے بنا فارغ کر دیا گیا۔ لیکن جونہی یہ عدالتی جھٹکا ہوا، تو جیسے ملک کی تو کایا پلٹ گئی۔ نواز شریف نے کڑوا گھونٹ پیا اور نیا وزیراعظم اور کابینہ نامزد کی اور جیسی کیسی جمہوریت کو پٹری سے اُترنے سے بچایا۔
اور اب وہ ایک مزاحمتی جن بن کر عوام کو اُن کے حقِ حکمرانی کی یاد دلانے جی ٹی روڈ پر نکلے ہیں۔ اور جو پنجاب کے دل میں اُن کا استقبال ہو رہا ہے وہ تاریخ نے کبھی کبھار ہی دیکھا۔ اب ’’گو نواز گو‘‘ قصۂ پارینہ ہوا اور ’’کم نواز کم‘‘ کی گھر واپسی ہو رہی ہے۔ اب آپ جو بھی تہمتیں دیں، ہم کیا کریں، ہمارے پاس عوام کا حقِ حکمرانی اور ایک پُرامن جمہوریہ کے قیام کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔اگر تاریخ نواز شریف پہ مہربان ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔
اگر کوئی کہے کہ اس میں کوئی ہمارا ہاتھ ہے، تو ہوا کرے۔ راہ پیا جانے تے واہ پیا جانے۔ اب ایک طرف نواز لیگ کی حکومتیں ہیں اور دوسری طرف نواز شریف سڑکوں پر۔ اور پارلیمنٹ کے اندر سے سینیٹ کے چیئرمین اور میرے محبوب ساتھی رضا ربانی کی حکیمانہ پہل قدمی ہے کہ آؤ مل بیٹھیں اور پارلیمنٹ کو اقتدارِ اعلیٰ کا مالک بنانے کے لیے آئینی اصلاحات کریں۔ کیا خوب تال میل ہے، اگر پھر کوئی گولہ نہ آن برسا تو۔ ستر برس کی دُہائی تو ہم دیتے رہے، اب نواز شریف دے رہے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ!! کسی شاہی خاندان کے لیے یا ایک اور اردوان کے لیے نہیں بلکہ حقیقی جمہوری پاکستان کے لیے!
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.