سعودی عرب میں تبدیلی کی لہر
(معصوم رضوی)
سعودی عرب بدل رہا ہے، تبدیلی کی لہریں آل سعود کے محلات سے وائٹ ہاؤس تک محسوس کی جا رہی ہیں۔ قدامت پرستی سے روشن خیالی اور یمن جنگ سے اسلامی فوجی اتحاد تک تک ایسا بہت کچھ ہے جو دنیا میں سعودی پہچان کو تبدیل کر رہا ہے۔ بادشاہت اگرچہ پچھلی نسل کے آخری فرد کے پاس ہے مگر فیصلہ سازی اگلی نسل کو منتقل ہو چکی ہے۔ سعودی عرب کی غیر متنازعہ، غیر جانبدار اور مسلم دنیا میں عزت و تکریم کی پہچان دھندلی پڑتی جا رہی ہے، خطے میں اقتدار کا طالب سعودی عرب نئی شناخت کی تلاش میں ہے۔
نت نئی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے شاہی خاندان کے بارے میں جاننا ضروری ہے، سعودی عرب میں موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان جنہیں عام طور پر ایم بی ایس پکارا جاتا ہے تبدیلی و طاقت کا محور بن چکے ہیں۔ شاہ سلمان کی تاجپوشی کیساتھ 2015 میں محمد بن نائف کو ولی عہد اور محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد مقرر کیا گیا تھا مگر اب محمد بن نائف کے تکلف کو بھی فارغ کر کے براہ راست ایم بی ایس کو ولی عہد اور وزیر دفاع بنایا گیا ہے۔
اس سے پہلے شاہ عبداللہ کے مقرر کردہ ولی عہد مقرن بن عبدالعزیز کو بھی غیر متوقع طور پر سبکدوش کیا گیا تھا جبکہ انہیں تبدیل نہ کرنے کا شاہی فرمان بھی موجود تھا۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ سعودی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ولی عہد کو اس طرح ہٹایا گیا ہو، ایک اور نکتہ بھی اہم ہے کہ شہزادہ مقرن کی والدہ کا تعلق یمن سے ہے اور تصور کیا جاتا ہے کہ سعودی فوج میں شامل یمنی نسل میں انکی حمایت موجود ہے۔ مقرن بن عبدالعزیز وہی شہزادے ہیں جو شاہ عبداللہ کے دور میں شریف خاندان کے کام آئے اور جب نواز شریف معاہدے کے باوجود وطن واپس آئے تو مقرن انہیں پاکستان آ کر اپنے ساتھ واپس لے گئے۔
سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز ابن سعود کی 18 بیگمات اور 45 بیٹے تھے۔ حسہ بنت احمد السدیری ممتاز ترین زوجہ تھیں جن کے سات بیٹے تھے اور انہیں سدیری سیون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ملکہ حسہ السدیری کے روایت تھی کہ مہینے میں ایک دن ساتوں بیٹے انکے ساتھ کھانا کھاتے تھے خواہ دنیا کے کسی بھی خطے سے واپس آنا پڑے، شاید اس روایت نے سدیری سیون کو متحد و مستحکم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ عائلہ السدیری خاندان آل سعود کا طاقتور گروپ تصور کیا جاتا تھا۔ سات بیٹوں میں شاہ فہد، سلطان، عبدالرحمان، نائف، ترکی، شاہ سلمان اور احمد شامل ہیں۔
فہد اور سلمان بادشاہ بنے جبکہ سلطان اور نائف ولی عہد رہے۔ محلاتی سازشوں کے باعث عبدالرحمان اور ترکی کو ولی عہدی سے دستکش ہونا پڑا، شہزادہ ترکی نے تو بغاوت تک کر دی اور ساری عمر بیرون ملک مقیم رہے، جس کے بعد نائف ولی عہد بنے۔ عبدالرحمان کو عمر اور اہلیت کی شرط کے باعث سبکدوش ہونا پڑا، احمد بھی جانشینی سے ہٹا دیئے گئے۔ سدیری سیون آج بھی آل سعود کی اندرونی سیاست میں حاوی ہیں۔ شاہ سعود کے خلاف شاہ فیصل کی بغاوت میں ساتھ دینے پر شہزادہ فہد بن عبدالعزیز کو ولی عہدی کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔
اس طرح شاہ فہد سدیری سیون کے پہلے اور شاہ سلمان آخری بادشاہ ہیں۔ یہ گروپ مضبوط ضرور رہا ہے مگر ماضی میں شاہ سعود، شاہ فیصل، شاہ خالد اور شاہ عبداللہ سمیت متعدد شاہی ارکان عائلہ السدیری کے خلاف نبرد آزما بھی ہوتے رہے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سلطنت میں حکمراں آل سعود ہیں تو مذہب میں عبدالوہاب نجدی کا سکہ چلتا ہے، عبدالوہاب کی تعلیمات امام ابن تیمیہ کے نظریات کی تجدید قرار دی جا سکتی ہیں۔ بیرونی دنیا میں سعودی عرب کو وہابی مکتبہ فکر قرار دیا جاتا ہے اور سعودی عرب وہابی نظریات کو پھیلانے کے باعث دنیا اور مسلم ممالک میں تنقید کا نشانہ بھی بنتا رہا ہے۔ تاریخی اعبتار سے مذہبی علما یا مطوع، حکمران شاہی خاندان کے بعد سعودی عرب میں سب سے بڑی قوت ہیں۔
2015 میں جب شاہ سلمان نے اقتدار سنبھالا تو مقرن بن عبدالعزیز کو ہٹا کر بڑے بھائی کے بیٹے محمد بن نائف کو ولی عہد اور اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد مقرر کیا، گویا اقتدار سنبھالنے کیساتھ سدیری خاندان کو آگے بڑھایا۔ محلاتی سیاست بھی انوکھے رنگ دکھاتی ہے، شاہ سلمان کے ان فیصلوں میں دو اہم ترین سیاسی پیش بندیاں شامل تھیں، پہلی بات تو یہ کہ بادشاہت آئندہ نسل میں سدیری گروپ کو منتقل ہو گی اور دوئم اور اہم ترین سیاسی عنصر یہ تھا کہ بالاخر بادشاہت شاہ سلمان کی نسل سے آگے بڑھے گی۔
دراصل ولی عہد محمد بن نائف کی شادی شہزادہ سلطان کی بیٹی سے ہوئی ہے اور ان کی اولاد نرینہ نہیں، پہلے اس خیال سے انہیں ولی عہد بنایا گیا تھا کہ بادشاہت بالاخر شاہ سلمان کے بیٹے ایم بی ایس کو ملے گی مگر شاید 15 یا 20 سال کا انتظار کرنا پڑتا لہذا اب محمد بن نائف کو سبکدوش کر کے براہ راست محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کر دیا گیا، ترپ کی اس چال کے ساتھ بادشاہت شاہ سلمان کی نسل میں منتقل ہو گئی، گویا سدیری سیون پھوٹ کا شکار ہے اور یہ واضح ہے کہ شاہ سلمان کی ترجیح عائلہ السدیری نہیں بلکہ آل سلمان ہے۔ شاہ سلمان اب تک آنیوالے تمام بادشاہوں میں نہایت زیرک ثابت ہوئے ہیں کہ انہوں نے شاہی کونسل کو سب سے پہلے اپنے اثر میں لیا، یہ کونسل شہزادوں پر مشتمل ہوتی ہے اور بادشاہت اور جانشینی کا فیصلہ کرتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس فیصلے میں 35 رکنی شاہی کونسل کے صرف تین ارکان نے ولی عہدی کے فیصلے پر اختلاف کیا ہے۔
درونِ خانہ آل سعود میں محلاتی سازشوں اور شاطرانہ سیاست کی کوئی کمی نہیں، اقتدار کی کشمکش ہمیشہ جاری رہتی ہے مگر عمومی طور یہ محلات سے باہر کم کم نکل پاتی ہے۔ شہزادہ مقرن عرصے تک انٹیلیجنس کے سربراہ رہے، پڑھے لکھے شخص ہیں اور شاہ عبدالعزیز کے سب سے چھوٹے فرزند ہیں، جس طرح ولی عہدی سے انہیں ہٹایا گیا وہ کسی طرح بھی قابل تحسین نہ تھا۔ اب اس کے بعد کچھ اسی طرح کا سلوک شہزادہ نائف کے صاحبزادے محمد بن نائف کیساتھ کیا گیا، اس طرح سدیری سیون میں فاصلے بڑھ گئے۔
اس کے باوجود 35 رکنی شاہی کونسل میں اس فیصلے کے خلاف صرف تین ووٹ آئے ہیں، اسکا مطلب یہ ہے کہ شاہی کونسل پر شاہ سلمان کی گرفت مضبوط ہے۔ایک اہم پیشرفت یہ بھی ہوئی ہے کہ پہلے اہم فیصلوں میں شہزادوں سے مشاورت کی جاتی تھی مگر اب یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے اور فیصلہ سازی چند ہاتھوں میں یا یوں کہیئے کہ شاہ سلمان کے خانوادے میں سمٹ آئی ہے۔
سعودی شاہی خاندان میں اختلافات کے باوجود معاملات اب تک بحسن و خوبی چل رہے تھے کیونکہ روایتی اعتبار سے ایک کے بعد دوسرا بھائی بادشاہت اور ولی عہدی کے لیے نامزد ہوتا رہا، مگر اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ قدیم شاہی طریقہ کار میں تبدیلی، سدیری خاندان میں پھوٹ اور بادشاہت یکایک آل سلمان میں جانا شاہی خاندان میں ہلچل کا باعث بنے گا۔
سعودی عرب میں تبدیلیوں کا سفر جاری ہے، تبدیلی کی لہریں دنیا کے دیگر ممالک کو متاثر کریں یا نہ کریں خطے اور مسلم دنیا پر ضرور اثر انداز ہونگیں۔ سعودی کابینہ میں غیر شاہی افراد کی تعداد پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اوراسے ولی عہد محمد بن سلمان کی ٹیم کہا جاتا ہے جو معاشی اصلاحات، تیل اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے جارحانہ تشخص کو اجاگر کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں وژن 2030 پروگرام کی بنیاد رکھی گئی ہے، اس پروگرام کے تحت رفتہ رفتہ سعودی عرب کا معاشی انحصار تیل پر ختم کرنا ہے۔
معشیت پر سرکاری کنٹرول ختم، نجی شعبے کی بحالی، کرنسی کا استحکام، آزاد معشیت کی تحت مالی اداروں کا قیام، مختلف اداروں کو انضمام یا تعمیر نو کے ذریعے متحرک کرنا اور سعودی نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار جیسے عوامل کو ہدف بنایا گیا ہے۔ ایم بی ایس ٹیم کا یہ منصوبہ نئی سعودی شناخت کیساتھ انکے کا تعین بھی کریگا۔ عالمی اداروں کی جانب سے اگرچہ اس پروگرام کی تعریف کی گئی ہے مگر ساتھ ہی چند بنیادی مسائل کی نشاندہی بھی کی جا رہی ہے، تیل کی گرتی قیمتوں کے باعث معاشی بحران، یمن جنگ کے ہولناک اخراجات اور سیاسی اثرات، روایتی سعودی معاشرے میں تبدیلی قبول کرنے کا عنصر بھی سوالیہ نشان ثابت ہو سکتا ہے۔
اس وقت سعودی عرب اندرونی اور بیرونی محاذوں پر بیک وقت چومکھی جنگ میں مصروف ہے۔ دو سال سے جاری یمن جنگ کے بیشتر اخراجات سعودی عرب برداشت کر رہا ہے اور اب یمن جنگ گلے پڑ چکی ہے جہاں عسکری، سیاسی اور نفسیاتی اعتبار سے سعودی عرب مسلسل دھچکے برداشت کر رہا ہے۔ جنگ کے باعث جنوبی علاقے کی صورتحال ابتر ہو چکی ہے کیونکہ چند دنوں میں سبق سکھانے کے دعوں کے ساتھ شروع ہونیوالی جنگ کو دو سال گزر چکے ہیں جبکہ یمن کی جانب سے مسلسل جوابی کارروائیاں طویل جنگ کی نشاندہی کر رہی ہیں۔
دوسری جانب ایران مخالف 37 ممالک پر مشتنمل اسلامی فوجی اتحاد بھی ایک مذاق بن چکا ہے۔ بغیر کسی ہوم ورک کے شروع ہونیوالے فوجی اتحاد کو سب سے بڑا دھچکا قطر کی صورت میں ملا، صرف اتنا ہی نہیں جب سعودی عرب نے قطر کو سبق پڑھانے کی ٹھانی تو فوجی اتحاد میں شامل ترکی قطر کی پشت پناہی کے لیے کھڑا ہو گیا صرف اتنا ہی نہیں کویت بھی مسلسل مذاکرات پر زور دے رہا ہے۔
اس صورتحال میں اسلامی فوجی اتحاد صرف کاغذی قلعے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ تیل کی گرتی قیمتوں سے پریشان سعودی عرب نے اسی دوران صدر ٹرمپ کے دورے میں امریکہ کیساتھ 110 ارب ڈالر اسلحہ خریداری کے معاہدے بھی کیے ہیں۔ محمد بن سلمان کو یقینی طور پر متعدد اور متنوع چیلنجز کا سامنا ہے مگر پرجوش شہزادے کے حیران کن فیصلے ابتک مطلوبہ نتائج لانے میں ناکام رہے ہیں۔ ایم بی ایس ہر طور پر سعودی عرب کو خطے میں سپر پاور کی پہچان دینے کی دھن سوار ہے جہاں انہیں ایران کا سامنا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان اقتدار کی جنگ کو کبھی عرب و عجم اور کبھی مسالک کی مڈبھیڑ قرار دیا جاتا ہے حالانکہ دونوں ممالک جنگ کا واحد نکتہ خطے میں قوت و اقتدار کا حصول ہے جس میں صف بندی کے لیے مسالک کے نظریے کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایم بی ایس ٹیم کا مستقبل ندرونی اور بیرونی اہداف پر ہونیوالی پیشرفت سے براہ راست منسلک ہے۔ محمد بن سلمان، ولی عہد کیساتھ نہ صرف وزیر دفاع ہیں بلکہ تیل پالیسی بھی ان کے کنٹرول میں ہے، بلا شک و شبہ انہیں سعودی عرب کی طاقتور ترین شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب میں جہاں بہت کچھ غیر روایتی ہو رہا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ ایک، دو سالوں میں، جب ولی عہدی کا معاملہ پوری طرح راسخ ہو جائے تو 81 سالہ فرمانروا شاہ سلمان اپنے بیٹے کے لیے جگہ خالی کر دیں۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ آل سعود کے روایتی طریقہ کار کو متروک قرار دیکر نئی نسل بڑے فیصلے کرنے میں کچھ زیادہ تیز ثابت ہو رہی ہے۔ سعودی عرب میں موسیقی، مخلوط مجالس، فنون لطیفہ، خواتین پر دفاتر میں کام کرنے کی آزادی سمیت دیگر معاشرتی اقدامات شروع کیے جا چکے ہیں۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ سعودی معاشرہ کتنی تبدیلیوں کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور مذہبی حلقہ جنہیں عمومی طور پر مطوع کہا جاتا ہے کیا ردعمل دیتے ہیں، گو کہ یہ طبقہ اب ماضی کیطرح مضبوط نہیں ہے اور بھاری سرکاری وطائف کے باعث اس جانب سے حکومت کی مخالفت ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ بسلسلہ روزگار خاصا عرصہ سعودی عرب میں گزارنے کے باعث سعودی معاشرے اور اقدار کو قریب سے جاننے کا موقعہ ملا اور اس حوالے سے میرا مشاہدہ یہ ہے کہ سعودی معاشرے میں شاہی خاندان کو خوف آمیز احترام حاصل ہے اور شاہی خاندان کے متعلق عوام تو کجا خواص بھی گفتگو سے اجتناب کرتے ہیں۔
پولیس نہایت طاقتور، بااختیار اور میڈیا سخت پابند امگر شاہی خاندان کی ستائش پر مبنی ہے، دونوں عناصر رائے عامہ کو پوری طرح قابو میں رکھتے ہیں۔ شاہی فیصلوں اور خاندان کے متعلق چھوٹی سے چھوٹی بات بھی ناقابل معافی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ سعودی معاشرہ سیاسی موضوعات کو شجر ممنوعہ تصور کرتا ہے۔ جتنا میں سمجھ پایا ہوں اس صورتحال میں تاریخی سعودی روایات کو پس پشت ڈال کر بڑی تبدیلیاں معاشرے میں ارتعاش کا باعث تو بن سکتی ہیں مگر عوامی مخالفت کا دور دور تک کوئی اندیشہ نہیں بشرطیکہ بیرونی عناصر کا گٹھ جوڑ چنگاریوں کو ہوا نہ دے، میرا اشارہ واضح طور پر عرب بہار جیسی تحریک کی جانب ہے۔
اب دیکھیے خطے میں سپر پاور بننے کی خواہش میں سعودی عرب نے سب سے پہلی قربانی مسلم دنیا کے قائدانہ کردار کی دی ہے۔ مسلم ممالک اور بالخصوص پاکستان میں سعودی عرب کو نہایت اہمیت اور احترام حاصل رہا ہے مگر اب صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ مسلم دنیا کی قیادت اور احترام کا اعزاز شاہ فیصل مرحوم کی سیاسی بصیرت اور پالیسیوں کے باعث حاصل ہوا تھا۔ اگرچہ پاکستان میں سعودی عرب کی وہابی یا سلفی تحریک کا خاصا اثر و رسوخ پایا جاتا ہے مگر اس کے باوجود احترام کا رشتہ کمزور پڑ رہا ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ماضی میں سعودی عرب نے پاکستان کا کڑے وقتوں میں ساتھ دیا ہے اور شاید سعودی شناخت میں ممکنہ تبدیلی کے باعث مسلم ممالک کیساتھ پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔ سعودی عرب کے حالیہ فیصلوں کو حیران کن تو بیشک کہیں مگر خاصی حد تک جذباتی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یمن جنگ، فوجی اتحاد، قظر مخالفت جیسے فیصلے کسی ٹھوس منصوبہ بندی اور پیش بینی کے بغیر کیے گئے ہیں۔ جنگیں پیسے سے نہیں لڑی جاتیں اور فوجی اتحاد شاہی حکم کے ذریعے تشکیل نہیں پایا کرتے، ایسے فیصلے طویل مشاورت، منصوبہ بندی اور ہوم ورک کے متقاضی ہوتے ہیں۔ سعودی عرب جتنے بڑے فیصلوں، بڑی تبدیلیوں کا خواہشمند ہے یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ انہیں بغیر سوچے سمجھے اپنایا گیا ہو گا۔