سعودی عرب کا یو ٹرن : ہم کیا کریں؟
از، خضر حیات
اب چونکہ سعودی شہزادے نے عقل کےناخن لیتے ہوئے یہ اقرار کر لیا ہے کہ ہم جس راستے پر پچھلے چالیس سال سے پڑے ہوئے ہیں وہ راستہ سراسر غلط تھا اور تاریخ میں اگر ہم نے کوئی سب سے بڑی غلطی کی تھی تو وہ اسی راستے پر چل کر کی تھی۔ یہ ایک ایسا راستہ تھا جس نے ہمارے معاشرے کو اندھیروں میں دھکیلا، ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کی نفرت پیدا کی اور ہمارے معاشرے کو قدامت پسندی کی ایسی سرنگ میں لا چھوڑا ہے جو اسلامی تعلیمات کی ضد پر قائم ہے۔ کھیل تماشے، تفریح، میلے ٹھیلے، گانے، فلمیں، معتدل سوچ اور برادشت پر مبنی رویے ہی حقیقی ترقی و خوشحالی کا اصلی ماڈل ہیں اور ہم جن بھول بھلیوں میں آج تک بھاگتے رہے ہیں انہوں نے ہمیں سوائے اندھیروں کے کچھ نہیں دیا۔
اب یہ تو ہو گئی سعودی عرب کی بات۔ وہ جو مرضی کریں یہ ان کا داخلی معاملہ ہے اور اپنے معاملات میں وہ کچھ حد تک آزاد بھی ہیں۔ اب ان تبدیلیوں کے بعد سعودی معاشرے کا نین نقشہ کیسا ہوگا اور وہاں زندگی کس طرح کی ہوگی یہ تو ہم دیکھتے ہی رہیں گے۔ مگر جو اصل مسئلہ ہمیں درپیش ہے اس پہ ہمیں زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
70ء کی دھائی میں جب دنیا میں ایک طرح کی تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں تو پاکستان بھی ان تبدیلیوں کا اثر لیے بغیر نہ رہ سکا۔ ہمیں اس جھکڑ میں اپنا آپ ایک مرتبہ پھر تنہا اور ڈگمگاتا ہوا محسوس ہوا اور ہمیں کسی نہ کسی سرپرست کی انگلی تھام کر چلنے میں ہی عافیت نظر آئی۔ ایک طرف ایران تھا اور دوسری طرف سعودی عرب۔ ضیاء الحق کی سربراہی میں ہم نے ایرانی شیعہ ماڈل کو نظرانداز کرتے ہوئے سعودی وہابی ماڈل کو اپنانے کا انتخاب کیا۔ قطار کی سعودی سائیڈ پہ کھڑے ہونے کے بعد ہم صحیح معنوں میں سعودی عرب کے بغل بچے بن گئے۔ اب اسلام کی اسی تشریح اور معاشرت کے انہیں اصولوں کو اختیار کیا گیا جو ہمیں مکے مدینے کی مقدس سرزمین سے برآمد ہوتے رہے۔ اسی ماڈل کا ایک روپ یہ تھا کہ ملک میں جگہ جگہ مساجد اور مدارس تعمیر ہونے لگے اور پھر مساجد اور مدارس کی اسی بھرتی کو افغان جہاد میں ایندھن کے طور پہ بھی استعمال کیا گیا۔ سعودی ماڈل نے ہمارے معاشرے کی شکل و صورت ہی بدل کے رکھ دی۔ اس کے اثرات ہر ہر شعبہء زندگی پر پڑنے لگے۔
ذوالفقار بھٹو نے آلِ سعود کے ساتھ دوستی ضرور گانٹھی مگر ان کے آخری دنوں تک سعودی سرزمین کے ساتھ ہمارا تعلق برابری کی بنیاد پہ قائم تھا، سعودی سرپرستی کے خیمے میں مکمل طور پہ ہم بھٹو کے بعد پہنچے تھے۔ اس سرپرستی سے پہلے کا ہمارا پاکستانی معاشرہ بہت ہی مختلف تھا۔ ہم برصغیر کی ثقافت کے امین تھے اور اپنی ثقافت کو ہم کسی قسم کی خرابی کا باعث نہیں سمجھتے تھے مگر پھر دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ ہمارا سب کچھ بدلتا چلا گیا۔ اس بدلاؤ میں سب سے خطرناک چیز جو نمودار ہوئی وہ تھی باہمی نفرت اور عدم برداشت کا کلچر، شیعہ سنی کی تمیز اور اس تمیز کا بھرپور احساس۔ ہم ایک دوسرے سے بدگمان ہوتے گئے اور ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہے۔
اب جبکہ سعودی شہزادہ توبہ تائب ہو چکا ہے اور ایک نئی راہ پہ چل نکلا ہے تو اب ہمارا کیا ہوگا؟
کیا آج ہمیں سعودی حکومت سے گلہ نہیں کرنا چاہیے کہ آپ نے ہماری جڑیں کھوکھلی کر دیں اور سادہ معذرت تک نہیں کی؟
یہ بھی کوئی طریقہ ہے کہ کسی کی زندگی اکھاڑ کے آپ اپنا راستہ بدل لیں؟
کیا اب آپ کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ جس طرح آپ نے سرپرست کے طور پہ ہمیں ان بھول بھلیوں میں پہنچایا ہے تو اب آپ اسی منہ سے ہمارے سامنے اعتراف کرتے ہوئے ہمیں بھی واپس جانے کی نصیحت کرتے جائیں؟
ہمارے دانش وروں کو اب چاہیے کہ وہ ایک منطقی منصوبہ حکومت کے سامنے رکھیں کہ ہم نے سعودی سرپرستوں کی پیروی میں جو جو نقصان اٹھائے ہیں اب ان کی تلافی کیسے کی جائے گی اور ہمیں اب کس نکتے تک واپس جانا ہے۔ صرف ٹھٹھا اڑانے سے بات نہیں بنے گی، ہمیں بھی واپسی کا راستہ لینا ہوگا۔