کیا سعودی عرب شدت پسندی سے چھٹکارہ حاصل کر پائے گا؟
از، رمضان قادر
چند دن پہلے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے برطانوی اخبار گارڈین اور سعودی دارالخلافہ ریاض میں ہونے والی سرمایہ کاری کی کانفرنس سے بات کرتے ہوئے عہد کیا کہ ان کی حکومت بہت جلد مذہبی شدت پسندی سے چھٹکارہ پا کر ملک کو جدت اور مذہبی روشن خیالی کی طرف لے کر جائے گی اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے گا جہاں تمام مذاہب کے لوگ اپنےعقائد پر آزادی سے عمل کر سکیں گے۔
سعودی ولی عہد نے اپنے انٹرویو میں اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ملک میں موجود مذہبی شدت پسندی کی سب سے بڑی وجہ انقلاب ایران ہے اور اس انقلاب سے پہلے ان کا ملک ایک جدت پسند ملک تھا اور ہم نے ایرانی انقلاب کو کاپی کیا ، ان کا مذید کہنا تھا کہ وہ دوبارہ سے سعودی عرب کو ایک جدید اسلامی ملک بنا دیں گے اور سعودی عرب میں موجود مذہبی شدت پسندی کو فوراً اور ہمیشہ کے لیے ختم کردیں گے جس کے لیے وقت بالکل بھی ضائع نہیں کیا جا ئے گا اور نا ہی یہ سوچا جائے گا کہ تیس سال لگا کر مذہبی شدت پسندی کو مرحلہ وار ختم کیا جائے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے اصلاحی ایجنڈے کی سب سے بڑی وجہ ملک کی اکثریتی آبادی کا نوجوانوں پر مشتمل ہونا بتایا ان کے مطابق نوجوان مذہبی شدت پسندی سے اکتا چکے ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں جس کے لیے ولی عہد کا کہنا تھا ان کی حکومت ملک کے مغرب میں مصر اور اردن کی سرحدوں کے قریب پانچ سو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرکے ایک معاشی اور سیاحتی مرکز بنائےگی جہاں لاکھوں نوجوانوں کو روزگار ملے گا، بہترین تفریحی مواقعے ہوں گے اور سخت مذہبی قوانین نا ہونے کے برابر ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں موجودہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اپنے ملک کی طاقت ور ترین شخصیت ہیں جن کا دفاعی، خارجی اور معاشی پالیسوں پر گہرا اثر ہے اس لیے ان کا یہ بیان پوری دنیا میں سنجیدگی سے لیا جا رہا، کیونکہ پہلی بار سعودی عرب میں حکومتی سطح پر یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ مذہبی شدت پسندی ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے جس سے نمٹا جانا بہت ضروری ہے۔ تاہم یہ فیصلہ آنے والا وقت کرے گا کہ آیا سعودی حکومت حقیت میں شدت پسندی کو ختم کرنا چاہتی ہے یا نہیں۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان جس نے آگے جاکر حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے کے شدت پسندی سے نمٹنے کے اس
پالیسی بیان کی کئی اندرونی اور بیرونی وجوہات ہیں ، سب بڑی اندرونی وجہ یہ ہے کہ آج کی سعودی بادشاہت کو مذہبی شدت پسندوں سے شدید خطرات لاحق ہیں ان شدت پسندوں کے مطابق موجودہ سعودی حکومت کی مغرب دوست پالیساں غیر اسلامی اور ناجائز ہیں اس کا اظہار وہ کئی بار سعودی عرب کے مختلف شہروں میں بم حملوں سے کرچکے ہیں حالانکہ سعودی عرب سے مختلف حکومتی عناصر اسی مذہبی شدت پسندی کو فروغ دینے کے لیے نا صرف سعودی عربیہ بلکہ دنیا بھر میں اربوں ڈالرز کی مذہبی سرمایہ کاری کرتے آ رہے ہیں اور اس پر دنیا بھر میں کافی لکھا اور بولا بھی جا چکا ہے۔
سعودی ولی عہد کے اس پالیسی بیان کے پیچھے دوسری بڑی وجہ بیرونی دباو ہے کیونکہ پوری دنیا خاص کر مغرب میں یہ شور بڑی آب وتاب سے اٹھ رہا ہے کہ نام نہاد اسلامی شدت پسندی امن عالم کے لیے خطرہ بن چکی ہے کیونکہ حالیہ سالوں میں یورپ بھر میں کئی دہشت گردانہ حملے ہوچکے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انہیں مذہبی شدت پسند عناصر کو امریکہ اور یورپ نے سرد جنگ کے زمانے میں روس کے خلاف استعمال کرکے خوب فائدہ اٹھایا۔
لیکن جیسے ہی سوویت یونین کا انہدام ہوا اور کمیونزم کا خطرہ ٹلا تو انہی شدت پسندوں نے اپنی سرگرمیوں کا رخ مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں کی طرف کرلیا جس کی بڑی مثال اسامہ بن لادن کی القائدہ اور موجودہ دور کی داعش ہیں
سعودی ولی عہد کے بیان کے تناظر میں یہ بات بحث طلب ہے کہ سعودی حکومت شہزادہ محمد بن سلمان کے وعدے کا کتنا پاس رکھتی ہے کیونکہ جس شدت پسندی کو ختم کرنے کی بات آج محمد بن سلمان کررہے ہیں اسی شدت پسندی اور ملائیت کا سہارہ لے کر ان کا خاندان پچھلے دو سو سال سے اپنی طاقت اور اقتدار کو طول دیتا آ رہا ہے۔
دوسری اہم بات جو انہوں نے اپنے انٹرویو میں کی کہ ان ملک میں مذہبی شدت پسندی صرف پچھلے تیس سالوں سے ہے اور ایرانی انقلاب کے ردعمل میں ہے بالکل غلط اور تاریخی حقائق کے منافی ہے ۔ ایرانی انقلاب کا شدت پسندی کو بڑھاوا دینے کسی حد تک کردار تو ہوسکتا لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایرانی انقلاب سے پہلے سعودی عرب میں شدت پسندی تھی ہی نہیں ۔ سعودی عرب میں اس وقت موجودہ مذہبی شدت پسندی کو اس وقت طاقت ملنا شروع ہوئی جب اٹھارویں صدی عیسوی میں ایک طرف آل سعود عرب قبائل میں اپنے سیاسی اثر ورسوخ کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا تو دوسری طرف معروف مذہبی شخصیت شیخ محمد بن عبدالوہاب اپنے مخصوص مذہبی عقائد کو پھیلانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔
محمد بن عبدالوہاب کے پیروکار بعد میں اپنے کٹر اور انتہا پسندانہ نظریات کی وجہ سے وہابی مشہور ہوئے ، محمد بن عبدالسعود اور محمد بن عبدالوہاب کے درمیان اٹھارویں صدی کے آخر میں یہ معاہدہ طے پایا کہ آل سعود عرب میں جہاں اور جب اقتدار حاصل کریں گے وہاں شیخ محمد بن عبدالوہاب کی تعلیمات لاگو ہوں گی اور یہ وہ تعلیمات ہیں جہاں چند ایک مسلمان فرقوں کو چھوڑ کر تمام دوسرے مسالک کے مسلمانوں خاص کر شیعہ حضرات کو کافر و زندیق، بدعتی اور قابل گردن زدنی سمجھا جاتا ہے جس کے واضح ثبوت اہل سعود کی پہلی ریاست سے ملتے ہیں یہ ریاست کچھ عرصہ قائم رہی۔
جب یہ ریاست قائم ہوئی تو اس کےرستے میں آنے والی ہر درگاہ ، خانقاہ اور اولیا اللہ کے مزارات کو ڈھا دیا گیا، تمام تفریحی اور ثقافتی سرگرمیاں مسدود کر دیں گئی ۔ 1802 عیسوی میں کربلا پر قبضہ کے دوران ہزاروں شیعہ مسلمانوں کا بے دردی سے قتل عام کیا گیا۔ آل سعود کی یہ ریاست 1818 میں سلطنت عثمانیہ کے ایک مصری گورنر نے ختم کردی۔
دوسری بار آل سعود کو حجاز اور نجد جس کو موجودہ سعودی عرب کہتے ہیں میں حکومت اس وقت ملی جب سلطنت عثمانیہ دوسری جنگ عظیم کے دوران شکست وریخت کا شکار تھی ۔ اقتدار ملنے کے بعد اس بار بھی سعودی حکومت نے پرانا مذہبی طرز عمل اپنائے رکھا درگاہیں، مزارات ، خانقاہیں اور مخالف مسالک کے مسلمانوں کو بالکل معاف نا کیا گیا جس کی بڑی مثال جنت البقیع اور حضرت خدیجہ کے مزار کو زمین بوس کرنا تھا۔
1940 کے عشرے میں تیل کی دریافت اور اربوں ڈالرز کی آمدنی نے سعودی حکومت کو مذید اس قابل بنا کہ وہ اپنے خاص مذہبی نقطہ نظر کی باقی مسلمان دنیا میں بھی ترویج کرے 1960 اور 1970 کی دھائیوں میں اربوں ڈالرز کی شمالی افریقہ سے ساوتھ ایشا تک مذہبی سرمایہ کاری کی گئی۔
لیکن باوجود ان تمام حقائق کے ہمیں سعودی ولی عہد کے اس بیان کی تعریف کرنی پڑے گی کیونکہ بالاآخر سعودی حکومت کو اس بات کا ادراک ہوگیا کہ آج کی جدید دنیا میں مذہبی شدت پسندی کی کوئی گنجائش نہیں لوگ خاص کر نوجوان جدت ، تخلیق، آزادی اور تفریحی مواقع چاہتے ہیں۔
لیکن سعودی ولی عہد کے اس بیان کے بعد باقی اسلامی دنیا خاص کر پاکستان میں ہمارے جیسے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرے گا کہ آیا ترقی، جدت اور خوشحالی کا سعودی ویثزن صرف سعودی عوام کے لیے ہوگا یا باقی مسلم دنیا بھی اس ماڈل سے مستفید ہوگی کم از کم شدت پسندی سے چھٹکارے کی حد تک۔ کیونکہ سعودی عرب کی طرح باقی مسلم دنیا بھی اسی شدت پسندی کی آگ میں جل رہی ہے اور ان انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دینے میں سعودی عرب کا کلیدی کردار رہا ہے۔
اب سعودی عرب ہی اخلاقی طور پر اس ناسور کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے، کیونکہ حرمین کی سعودیہ میں موجودگی کی وجہ سے مسلمان دنیا کی اکثریت مذہبی رہنمائی کے لیے سعودی عرب کی طرف دیکھتی ہے۔ اس لیے سعودی ولی عہد سب سے پہلے پاکستان کے مدارس، اپنے خاص کارندوں کے وہابی تکفیری اداروں کو فنڈ کی سپلائی فوری طور پر بند کریں تاکہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک پاکستان کی عوام بھی اپنی ثقافتی اور مقامی طور اطوار کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
بھائی جیسے کہ لکھا گیا ہے
١ :- ” ایرانی انقلاب کا شدت پسندی کو بڑھاوا دینے کسی حد تک کردار تو ہوسکتا لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایرانی انقلاب سے پہلے سعودی عرب میں شدت پسندی تھی ہی نہیں ”
اس پر پوچھنا یہ تھا کہ کیا ایرانی انقلاب سے پہلے اور اسکے بعد والی شدت پسندی میں واضح فرق نہیں ؟
٢:- ” یہ وہ تعلیمات ہیں جہاں چند ایک مسلمان فرقوں کو چھوڑ کر تمام دوسرے مسالک کے مسلمانوں خاص کر شیعہ حضرات کو کافر و زندیق، بدعتی اور قابل گردن زدنی سمجھا جاتا ہے جس کے واضح ثبوت اہل سعود کی پہلی ریاست سے ملتے ہیں یہ ریاست کچھ عرصہ قائم رہی”
کیا اسکے باوجود شاہ فیصل نے بیت الله ( مسجد حرام ) میں امامت کے لیئے مختلف فقہاء کے پیروکاروں کو ایک امام کے پیچھے نماز کے لیئے امام خمینی ہی کی مدد سے راضی نہیں کیا تھا ؟
٣:- کیا مزارات کو گرائے جانے کے لیئے ان کے پاس مضبوط فقہی دلائل نہیں تھے ؟
٤:- ہمارے کلچر ، معاشرہ ، مسائل اور وسائل کسی بھی سعودی عرب کے کسی بھی طرح کے حالات سے مماثلت نہیں رکھتے اسکے باوجود پاکستان یا باقی غیر مسلم دنیا کو سعودی ترقی کے ویژن سے مستفید ہونا کیوں ضروری ہے ؟ جبکے ان سے بہت بہتر پیکج یورپ کی ترقی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں ( اگرچہ سرمایہ داری نظام مکمل طور پر فیل ہونے کے قریب ہے )
٥ :- کیا ہم حرمین کی موجودگی کے باوجود سعودی عرب کی مذہبی رہنمائی کو تسلیم کر رہے ہیں ؟
٦:- پاکستان کے مدارس جو جنرل مشرف کے امریکی مفادات کے تحفظ کی جنگ میں شامل ہونے سے پہلے مجاہد اور بعد میں دہشت گرد پروڈیوس کر رہے ہیں ان میں کتنے فیصد مدارس کا تعلق وہابی نظریے سے ہے ( خدارا دیوبندیوں کو اس کھاتے میں مت ڈالیئے گا ) –