کہے آسکر وائلڈ سیانا، اخبار ہمیں معاشرے کی جہالت سے رُو شناس کرواتے ہیں
از، مصطفیٰ کمال
اب تک فقط جمود ہی لکھا گیا۔ وہ الفاظ لکھے ہی نہیں گئے جن کا لکھا جانا واجب تھا۔ ان حالات کا تجزیہ ہی نہیں کیا گیا جو وقت کے مقابل آئینہ بن کر ہمیں ایک خونی مستقبل کی تصویر دکھا رہے تھے۔ فقط اوراق سیاہ کیے گئے اور حاشیہ نگاری کی گئی۔ کچھ اداروں کی اٹھتے بیٹھتے تضحیک کی گئی اور دیگر کے اوپر وقار کا لیبل لگا کے انہیں سلامتی کی نگہبانی سونپ دی گئی۔
رہنے دیجیے صاحب! جس طرح کے تجزیے ہمارے ماہرین کرتے ہیں کوئی اور کیا خاک کرتے ہوں گے۔ کسی کو جناح کی تقریر ایک مخصوص اخبار میں نہیں مل پاتی تو وہ تقریر کے وجود کا ہی منکر ہو جاتا ہے، اور کوئی زمانے کے خود ساختہ عارف کے ہجرے میں ہوئی باتوں کو بنیاد بنا کر عالمی دنیا کے عروج و زوال کی پیش گوئی کرتا پھرتا ہے۔
غضب خدا کا ہمیں دیکھتی آنکھیں اور سنتے کان بخشے ہی کیوں گئے؟
ظلم یہ نہیں کہ آبادی کے آدھے سے زیادہ حصے کو تعلیم تک رسائی نہیں۔ ستم یہ ہے کہ جن تک تعلیم پہنچی ان کا بھی کچھ نہیں بگڑا!
آخر جنید حفیظ پر توہین رسالتﷺ کے جھوٹے الزام لگانے والے یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ ہی تو تھے۔اب اس ملک میں دفاعی تجزیہ کاری غزوۂ ہند والے کے پاس گِروی ہے اور سیاسی مباحثوں کی ذمہ داری مشرق کی جانب سے سیاہ پگڑی پہنے دنیا کو مغلوب بنانے کی نوید دینے والے سی ایس پی فیم کے قدموں تلے سسک رہی ہے۔
ہمارے جون ایلیا نےبہت پہلے فرمایا تھا کہ:
“کئی ایسے لوگ ہیں جنہیں پڑھنا چاہیے مگر وہ لکھ رہے ہیں۔”
پر حضرت لکھنے والے بھلا کیوں پڑھنے لگے ۔جہاں جذبات بکتے ہوں وہاں عقلی دلیل بھلا کس کام کا؟ اور ویسے بھی دل کی دنیا میں عقل کی اوقات ہی کیا ہے؟ آخر کو بڑے حکیم صاحب نے بھی تو عقل کو لب بام تماشہ دیکھنے کا حق دار قرار دیا تھا۔ بھلا اسلاف کی تعلیمات سے بھی کوئی رُو گردانی کر سکتا ہے؟
ایک صاحب “کھرا سچ” کے نام سے مسلسل لوگوں کے حلق میں “جھوٹا سچ” انڈیل رہے ہیں۔ اور اس شدت کے ساتھ کہ اردو صحافت کے زیرک استاد محترم رضا علی عابدی کو اپنے فیس بک پہ یہ لکھنا پڑا کہ “اب تو اس مستقل جھوٹ سے متلی ہونے لگی ہے۔”
دنیا اخبار میں لکھنے والے ایک حضرت کے مطابق جنسی بے راہ روی اور جنسی زیادتیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ بلوغت کے بعد شادی میں تاخیر ہے۔ موصوف کی تجویز کے مطابق اِدھر لڑکا لڑکی بالغ ہوں اُدھر ان کی شادی کی جانی چاہیے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
موصوف نے “برگر آنٹیوں” کی سر پرستی میں چلنے والی این جی اوز کو اس فحاشی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جنسی زیادتیوں کا ذمہ دار ٹھہرانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
اب کوئی انہیں کیسے یہ سمجھائے کہ “قبلہ اکثر جنسی زیادتیوں میں شادی شدہ مرد ہی ملوث ہوتے ہیں۔”
موصوف نے اپنے کالم میں کم عمری میں شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کو بھی این جی اوز اور سیکولر (رائج الزمانہ تعریف کافر) اذہان کی اختراع قرار دیا ہے۔
ہمارے اخباروں میں شدت پسندی کی حمایت اور مخالفت میں لکھے جانے والے کالموں کو ایک ہی قسم کی جگہ ملتی ہے۔ اور یہ سب کچھ متوازن صحافت کے نام پر کیا جاتا رہا ہے۔
مزید دیکھیے: شعرو نغمہ اور معاشروں کی نفسیاتی ترتیب و تشکیل
اس کی ایک مثال جنگ اخبار ہے جہاں ایاز امیر اور انصار عباسی ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں اخبار کے ایڈیٹوریل صفحے کے ایڈیٹر سہیل وڑائچ نے اس پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے اس پالیسی کی حمایت کی تھی۔
گویا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے اخبار قتل کی مذمت اور ترغیب دونوں کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتے ہیں۔ آسکر وائلڈ نے کہا تھا:
“کم علموں کی آراء کو وُقعت دے کر اخبار ہمیں معاشرے کی جہالت سے روشناس کرواتے ہیں۔”
سچی بات تو یہ ہے کہ ہم دنیا کے مصائب میں اضافے کا سبب بنتے جا رہے ہیں۔ پہلے ہمارے جہادی اپنی بندوقیں لے کر دوسرے ممالک پہنچ جاتے تھے۔ اب بندوقوں کے ساتھ ساتھ پولیو کے وائرس بھی لیکر گھستے رہے ہیں۔
انسانی ترقی کے تمام تر اِشاریوں میں ہم آخری لکیروں کے درمیان رینگ رہے ہیں۔ ہم اپنے بہترین دماغوں کو ہلاک اور بد ترین دماغوں کو آزادی بخشتے ہیں۔
غنڈہ راج نامی ایک ہندوستانی فلم میں انسپکٹر کا کردار نبھانے والے امریش پوری سے سپاہی پوچھتے ہیں کہ سر گلی کے کتے ہمیشہ ہم پولیس والوں پہ ہی کیوں بھونکتے ہیں؟
یہ بات اب ہمیں خود سے اور اپنے انسپکٹروں سے پوچھنی چاہیے کہ ساری دنیا ہم سے ہی کیوں تنگ ہے؟ آخر ہر مسئلے کی جڑ ہمارے ہاں سے ہی کیوں بر آمد ہوتی ہے؟
بصد شکریہ ڈان نیوز اردو