کیا بچے کو سزا دی جا سکتی ہے؟

بچے کو سزا

کیا بچے کو سزا دی جا سکتی ہے؟

از، ڈاکٹر محمد مشتاق

ہمارے معاشرے میں مدارس اور سکولوں کے علاوہ گھروں میں بھی بچوں کو سخت سزا دینا کوئی انوکھی بات نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی قانون کی رُو سے والدین یا اساتذہ کو یہ اختیار ہے کہ وہ بچوں کو سزا دے سکیں؟

فقہائے کرام اس مسئلے کو یوں دیکھتے ہیں کہ کیا بچے میں اہلیۃ العقوبۃ (سزا اٹھانے کی اہلیت) ہوتی ہے؟ اس کا جواب وہ نفی میں دیتے ہیں۔

امام سرخسی نے تصریح کی ہے کہ سزا کی اہلیت کے لیے عقل اور بلوغت کی شرط ہے۔ اس وجہ سے پاگل شخص کی طرح بچے کو بھی سزا نہیں دی جا سکتی۔

تاہم بعض لوگ فِقہ کی کتب میں ‘تعزیر’ کا لفظ دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ فقہائے کرام کے نزدیک بچے کو تعزیر دینا جائز ہے۔ اس مسئلے کی وضاحت ضروری ہے۔

استقرا سے معلوم ہوتا ہے کہ فِقہ کی کتب میں تعزیر کا لفظ تین مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے:

1۔ جب وہ بعض جرائم کی سزا پر تعزیر کا اطلاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی مقدار مقرر کرنے کا اختیار حکمران یا قاضی کے پاس ہے، تو اس سے مراد ‘سیاسہ’ ہے  اور سیاسہ کے متعلق فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ یہ سزا حق الامام، یعنی حکمران کے حق، کی خلاف ورزی پر دی جاتی ہے۔

یہ بھی فقہائے کرام نے تفصیل سے واضح کیا ہے کہ حکمران کا یہ حق اس کا ذاتی حق نہیں ہوتا بَل کہ لوگوں کے وکیل اور نمائندے کے طور پر اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے اس سزا کا تعلق عام فوج داری قانون سے ہے۔

2۔ حدود کی بحث میں بسا اوقات فقہائے کرام ذکر کرتے ہیں کہ کسی شرط کی عدم موجودگی کی وجہ سے، یا کسی قانونی رکاوٹ کی وجہ سے (جسے اصطلاحاً شبہ کہا جاتا ہے)، حد کی سزا نہیں دی جا سکتی تو قاضی تعزیر کی سزا دے سکتا ہے۔

یہاں بھی لفظ تعزیر سیاسہ کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ البتہ اس تعزیر اور اول الذکر تعزیر میں فرق یہ ہوتا ہے کہ یہاں تعزیر کی مقدار حد سے زیادہ نہیں ہو سکتی جب کہ اول الذکر امور میں وہ تعزیر کے طور پر سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔ تعزیر کی یہ قسم بھی فوج داری قانون کا حصہ ہے۔

3۔ تعزیر کا لفظ فقہائے کرام بعض اوقات تادیب اور تربیت کے مفہوم میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ تعزیر جس کے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ یہ بھلے برے کی تمیز کی عمر تک پہنچنے والے عمر کے بچے کو دی جا سکتی ہے۔ (تعزیر کی ان تین قسموں کی تفصیل کے لیے دیکھیے راقم کا مقالہ بعنوان:

The Doctrine of Siyasah in the Hanafi Criminal Law and Its Relevance for the Pakistani Legal System)

تعزیر کی اس تیسری قسم کے متعلق چند اصول نوٹ کرنا ضروری ہے:

1۔ یہ کہ یہ سزا نہیں بَل کہ تادیب یا ڈسپلن کرنا ہے۔ امام کاسانی نے تصریح کی ہے:

و ذلک بطریق التھذیب و التادیب، لا بطریق العقوبۃ، لانھا تستدعی الجنایۃ، و فعل الصبی لا یوصف بکونہ جنایۃ۔

(یہ تہذیب اور تادیب کے طور پر ہے، نہ کہ سزا کے طور پر کیوں کہ سزا کے لیے جرم کا ہونا ضروری ہے اور بچے کے فعل کو جرم نہیں کہا جا سکتا۔)

آگے وہ مزید تصریح کرتے ہیں کہ جو بچہ تمیز کی عمر تک نہ پہنچا ہو وہ تادیب کی اہلیت بھی نہیں رکھتا:

بخلاف المجنون والصبی الذی لا یعقل لانھما لیسا من اہل العقوبۃ و لا من اھل التادیب۔

(پاگل اور اس بچے کو جو عقل نہیں رکھتا، اسے یہ تعزیر نہیں دی جا سکتی کیوں کہ یہ دونوں نہ سزا کی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی تادیب کی۔)


مزید دیکھیے:  اپنی شخصیت کی تلاش میں گم ہونے والے ہمارے بچے  از، ڈاکٹر عرفان شہزاد

بچوں کی ذہنی اور تعلیمی تربیت سے متعلق اہم دو نکات   از، ڈاکٹر عرفان شہزاد


2۔ یہ کہ چُوں کہ یہ تعزیر سزا نہیں بَل کہ محض تادیب کےلیے ہے، اس لیے تادیب دینے والا نہ ہی زیادہ زور سے مار سکتا ہے (جسے اصطلاحاً ‘ضربِ فاحش’ کہتے ہیں) اور نہ ہی تادیب کے مقصد سے چھڑی کا استعمال کر سکتا ہے۔ علامہ شامی نے تصریح کی ہے:

والمراد: ضربہ بید، لا بخشبۃ  

(مراد ہاتھ سے مارنا ہے نہ کہ لکڑی سے۔)

3۔ یہ کہ اگر ہڈی ٹوٹ جائے یا جلد پھٹ جائے، یا جلد پر نشان آ جائیں تو یہ ضربِ فاحش ہے، جسے تادیب نہیں کہا جاسکتا، بَل کہ یہ جرم ہے۔ علامہ شامی کہتے ہیں: و ھوالذی یکسر العظم اور یخرق الجلد او یسودہ ۔

4۔ یہ کہ چُوں کہ تادیب محض مباح امر ہے، نہ کہ واجب، اس لیے اسے اس طریقے سے کیا جانا لازم ہے کہ کسی کو نقصان نہ پہنچے۔

علامہ حصکفی کہتے ہیں: تادیبہ مباح فیتقید بشرط السلامۃ۔

چُناں چِہ اگر اس تادیبی کارِ روائی میں حد سے تجاوز کیا گیا (ضرب فاحش کی صورت ہوئی) یا کوئی اور نقصان پہنچا تو الٹا یہ تادیبی کارِ روائی کرنے والا تعزیری سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔ علامہ تمرتاشی کہتے ہیں:

ادعت علی زوجھا ضرباً فاحشاً و ثبت ذلک علیہ، عزر۔ کما لو ضرب المعلم الصبی ضرباً فاحشاً۔

(بیوی نے شوہر پر ضربِ فاحش کا دعویٰ کیا اور یہ اس کے خلاف ثابت ہوا تو اسے تعزیر دی جائے گی، جِسے اس صورت میں کیا جائے گا جب استاد نے بچے کو ضرب فاحش دی)

اسی طرح علامہ ابن الہمام نے تصریح کی ہے کہ اگر تادیب کے نتیجے میں بچے کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اس کی دِیَّت واجب ہوتی ہے۔ (المعلم اذا ادب الصبی فمات منہ، یضمن۔)

5۔ یہ کہ دِیَّت کی معافی کا اختیار تو وُرَثا کو حاصل ہے، لیکن جو تعزیری سزا یہاں ذکر کی گئی ہے، اس کے بارے میں ذرا تامل سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اوپر مذکور پہلی قسم کی تعزیر ہے جس پر سیاسہ کے اصولوں کا اطلاق ہوتا ہے کیوں کہ یہ با قاعدہ سزا ہے، اور اسے قاضی ہی نافذ کر سکتا ہے۔

یہ بھی واضح ہے کہ اگر یہ سیاسہ ہے تو اس کی معافی کا اختیار بچے کے وُرَثا کے پاس نہیں، بَل کہ قاضی یا حکمران کے پاس ہے، جو مناسب سمجھے تو یہ تعزیری سزا معاف کر سکتا ہے، اور مناسب سمجھے تو وُرَثا کی معافی کے با وجود یہ سزا نافذ کر سکتا ہے۔

ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ ۔