سکول آتے روتے بچے اور داخلہ امتحان کی لغویات
از، یاسر چٹھہ
جہل کو علم و فہم کیسے کہوں؟
اگر بچے انسانی وجود، فطرت اور حقیقت کا مہین سا کُل ہوتے ہیں تو یہ سکول جاتے لمحوں روتے کیوں ہیں؟
رُوسو Rousseau سے جواب نہیں چاہیے۔
کیا یہ علم سے لرزاں ہوتے ہیں، یا پھر علم کی تلاش کی محنت سے، یا لا علم کو علم منوانے والوں کی آمریت سے، اپنی بڑی عمر سے ضمانت حاصل شدگان کی اپنے جِہل کو، اپنے اندر کی معصومیت کو لُٹا دینے کو علم باور کرانے والوں سے مزاحمت ہوتی ہے۔
اس بات اور دلیل کے ریشے سے پَرے کہنے دیجیےکہ مزاحمت کبھی تیغ جیسی ہوتی ہے، ہوتی تھی، ہوتی رہی ہے، یا ہوتی رہے گی؛ لیکن مزاحمت پھول کی خُوش بُو بھی تو ہوتی ہے، جب کسی طاقت کے مرکزوں کے مردُود پر کثیفہ و لطیفہ کی طنابیں کسنے والے قہقہہ لگانے کا تشدد روا کرتے ہیں، روا رکھتے ہیں تو اس لمحے قہقہے سے انکار بھی تو مزاحمت ہی ہوتی ہے۔ یہ نا پسندیدہ بات کے سننے اور عمل دیکھنے سے چہرے پر جُھریوں کی اچانک نمُو داری سے بھی متشکل ہو سکتی ہے۔ یہ آنسو کے آنکھ سے ٹپک پڑنے سے بھی صورت پذیر ہو سکتی ہے۔ شاید ان بچوں کا وہ آنسو ایک طرح کی مزاحمت کا ظہور ہوتا ہے۔ لیکن ہم عقل والوں، فہم والوں، سمجھ کے دعویٰ داروں کی سمجھ و فہم سے پار کا معاملہ ہوتا ہے۔ معمول سے پَرے کی بات معمول کے فہمیدہ ذہن کو کب بھلی لگتی ہے، کیسے ذہن نشین ہوتے ہے۔ جی نہیں ہوتی ہے۔
یہ پھول جیسی بھی ہو سکتی ہے، اور پھول پر بخارات کے جَمنے کے لمحے کو جسے فطرت کا آنسو کہوں، یا فطرت کی مزاحمت کہوں… جو زبانِ دراز اور تخیلِ نا ہنجار میں برپا ہو، وہ کہوں… مجھے کہنے کی مزاحمت کا اعتبار ہے۔
مجھے چھوٹی چھوٹی عمر کے بچوں کو سکول میں داخلے سے پہلے آزمائش و امتحان کا انعقاد کرنے والی بڑی عمر کی آدمیت کے عقل، فہم اور عملیت پسندی سے از حد نا پسندیدگی ہے۔ تُف ہو ایسی حِسیّت sensibility پر جسے مجھ سے انسانیت نا کہا جائے گا۔ اس عمل کے حصہ بننے کے لمحے پر خود پر دکھ، رنج اور رزقِ غلط کے کمانے پر خلش ہے۔ اپنے اس رزق سے پَلے ہر خُلیے پر احتجاج ہے۔
دُہرانا شاید متن کی منطق کے بَر خلاف ہو، بد مذاقی ہو، لیکن کہنا ہے کہ یہ متن انسانی ہے، انسیت کے پھوٹتے لمحے کا خمیر ہے۔ اِسے سرکاری اور نام نہاد پیشہ ورانہ نا سمجھا جائے۔ بَہ ہر طور جو مرضی سمجھنے، ماننالے رنگنے، مملو کرنے میں آپ کی مختاری کا بھی پاس ہے۔