ملک میں اسکولوں کی مجموعی تعداد کی کمی کا تدارک

Naeem Baig

ملک میں اسکولوں کی مجموعی تعداد کی کمی کا تدارک

از، نعیم بیگ

گذشتہ کئی برس سے یہ بات تواتر سے کہی جا رہی ہے کہ ملک میں پرائمری اور سیکنڈری سطح کے اسکولوں کی تعداد آبادی کے مجموعی تناسب سے بہت کم ہے، جس کی وجہ سےپورے ملک میں تقریباً ڈھائی کروڑ بچے نہ صرف تعلیم سے محروم ہیں بَل کہ جس رفتار سے آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے اگلے چند برسوں میں اتنی ہی تعداد مزید شامل ہو جائے گی۔  

بچوں کی تعلیم سے دوری کی ایک وجہ جہاں اسکولوں کی تعداد کی کمی ہے دوسری اہم وجہ پرائیویٹ اسکولوں کی انتہا درجے کا مہنگا فیس سٹرکچر ہے۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے بلا شُبہ اپنے سو موٹو اختیارات کی وجہ سے جو اہم فیصلے کیے ہیں، ان میں ایک بڑا فیصلہ اسکولوں کی فیسوں میں کمی کا تھا۔ لیکن یہ کمی بھی بس اونٹ کے مُنھ میں زیرے والی بات ہے، جو اتفاق سے ابھی تک عمل در آمد کی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکی کیوں کہ موصوف چیف جسٹس ریٹائر ہو گئے۔  

ان مہنگے اسکولوں نے فیسیں کم کرنے کا ابھی عندیہ نہیں دیا۔ لیکن شنیدن یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب سردیوں میں اسکولوں میں ہیٹنگ سسٹم ختم کر دیا جائے گا، اور آنے والی گرمیوں میں اے سی سسٹم کے لیے اگر والدین اصرار کریں گے تو الگ سے پانچ سو روپیہ فی بچہ وصول کیے جائیں گے۔

ایسے میں بات وہیں آن کھڑی ہوگی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ والدین کی کھال اتارنے کے لیے یہ اسکول کچھ دیگر سازشی قسم کے اخراجات کی پلاننگ بھی کر رہے ہیں جس سے تعلیم بہتر ہو نا ہو، ان اسکولوں کی مالی حالت پہلے سے بہتر اور مستحکم ہو جائے گی۔

ایسی صورت میں سرکاری اسکولوں میں اتنا دم خم تو ہے نہیں کہ ان انگریزی اسکولوں کا مقابلہ کریں۔ دوسرے ملک کی معاشی صورت حال اور دنیا کی بگڑتی ہوئی مالی پوزیشن جو بڑی سرعت سے عالمی کساد بازی کی طرف رخ موڑ رہی ہے، ہمارے لیے اپنے ریسورسز سے نئے اسکول بنانے کے لیے بجٹ کا مختص کرنا بے حد مشکل امر نظر آ رہا ہے۔ ہم پہلے ہی بجٹ میں تعلیم پر دو فیصد سے کم خرچ کر رہے ہیں، جو اگلے بجٹوں میں شاید مزید کم ہو جائے۔


مزید دیکھیے: پاکستانی سرکاری اسکول، ریاضی اور سائنس کا پست تعلیمی معیار


ایسے میں ہم کیا پلاننگ کر سکتے ہیں کہ تعلیم سے ہمارے موجودہ محروم بچے اور آنے والی نسلیں کس طرح تعلیم کے زیور سے  مکمل طور پر آراستہ ہوں۔ ان حالات میں ہم مندرجہ ذیل طریقے سے کسی طرح اس حد درجہ بگڑی ہوئی صورت حال کو سنبھالا دے سکتے ہیں۔

اس سکیم کو ہم “کیمونٹی سسٹم اسکولز” کہہ سکتے ہیں۔ ذیل میں اس سکیم کے مرکزی نکات درج ہیں۔ (یہ نکات ابھی ابتدائی شکل میں ہیں، مزید فائن ٹیون ہو سکتے ہیں۔)

1۔ یہ اسکیم فوری طور پر مرکزی دار الحکومت اور صوبائی دار الحکومتوں میں نافذ کی جائے۔ بعد ازاں اسے دوسرے درجے کے پندرہ بڑے شہروں میں نافذ العمل کر دیا جائے۔ اس کے بعد اس کا دائرہ قصبوں اور گاؤں کی سطح پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام عمل دو برس کے اندر اندر ہی پورے پاکستان میں قانون بنانے کے فوراً بعد نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اس سکیم میں پہلی سطح پرائمری ہو گی جسے بعد ازاں مڈل اور سیکنڈری اسکول تک لے جایا جا سکتا ہے۔

2۔ یہ قانون بنا دیا جائے کہ آج کے بعد کوئی ہاؤسنگ سکیم (پرائیویٹ یا سرکاری) “کیمونٹی سسٹم” کے تحت زمین کا ایک بڑا ٹکڑا (کم سے کم ایک ایکڑ، یا ہاؤسنگ اسکیم کے پھیلاؤ کے تناسب سے) مختص کرے گا اور اس کی تعمیر اسی کیمونٹی کے رہائشی سپانسر کریں گے۔ یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ پلاٹ کی قیمت کے ساتھ مناسب قسط وصول کی جائے تا کہ رہائشی سکیم کی ابتدا سے ہی اسکول کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے۔ یہ اسکول ہاؤسنگ اسکیم کے متوقع رہائشیوں کے حساب سے عمارت کی تعمیر کیا جائے گا جو اس اسکیم کے اگلے دس برسوں تک کی بچوں کی ضروریات کو پورا کر پائے۔

“کیمونٹی اسکول” اسی ہاؤسنگ اسکیم کی انتظامیہ مقامی ایڈمنسٹریٹو انتطامیہ کے تحت مانیٹر ہو، یا سی ڈی اے/ ایل ڈی اے وغیرہ کے زیر نگرانی ہو، تاہم اس اسکول کی اپنی انتظامیہ مقامی کیمونٹی خود طے کرے تا کہ مستقبل کے مسائل کو یہی انتظامیہ حل کر سکے۔

کیمونٹی اسکول کے تعمیر کے بعد مکمل طور پر یہ اسکول ہاؤسنگ کیمونٹی اس اسکول کو “نو لاس نو پرافٹ” کی بنیادوں پر چلائے گی۔ یہ کیمونٹی اسکول ابتدا ہی سے ایک کمپنی کے طور پر “ایس ای سی پی” کے پاس رجسٹرڈ ہو گا جو اپنے بائی لاز کو اس کمپنی پر لاگو کرے گا۔ تاہم اس کے پروفٹ کو (اگر ہوتا ہے) مستقبل کے اخراجات و توسعیی منصوبوں کے لیے مختص کر دیا جائے گا تا کہ اگلے دنوں میں بچوں کی تعداد بڑھ جانے کی صورت میں پہلے سے اسکول کے پاس سرمایہ موجود ہو۔

یہ اس سکیم کی ابتدائی شکل ہے۔ اس آرٹیکل کو پڑھنے والے اپنی تجاویز دیکر اسے مزید بہتر کر سکتے ہیں۔         

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔