سکول اور سزا : روح کے زخم کون دیکھے گا؟
ڈاکٹر شاہد صدیقی
پاکستان میں بچوں کی ایک کثیر تعداد سکول کی دہلیز تک نہیں پہنچ پاتی۔ جو خوش قسمت سکول پہنچ بھی جاتے ہیں نیشنل ایجوکیشن منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم (2015-2016) کے مطابق 33 فیصد بچے پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ یوں پاکستان میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد 22.64 ملین ہے، دوسرے لفظوں میں پاکستان کے تقریباً دو کروڑ چھبیس لاکھ بچے تعلیم کی نعمت سے محروم رہ گئے ہیں۔ ان میں سے کتنے ہونگے جو شاہراہوں اور چوراہوں کا رزق بن جائیں گے اور کتنے ہی چائلڈ لیبر کی چکی میں ِپس جائیں گے۔
سکول تک پہنچ کر سکول چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ تو مالی وسائل کی عدم دستیابی ہے لیکن ایک اور اہم وجہ سکول میں دی جانے والی وہ سزائیں ہیں جو انہیں استاد، سکول اور تعلیم سے متنفر کر دیتی ہیں۔ ان سزاؤں کی اقسام پر نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اہلِ مکتب نے سزا کے کیسے نت نئے طریقے ایجاد کیے ہیں یونیسیف کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے ایک صوبے کے سکولوں میں تینتالیس اقسام کی سزائیں رائج ہیں۔ یوں لگتا ہے سکولوں میں سزا کے بغیر تعلیم کا تصور ادھورا ہے۔
سزاؤں کی ایک بڑی قسم جسمانی سزا ہے، جس میں چھڑی کا بے رحمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے گاؤں کے اکثر سکولوں میں استاد اور ڈنڈا لازم و ملزوم تصور کیے جاتے ہیں۔ ڈنڈے سے طالب علموں کی کھلی ہتھیلیوں پر ضربیں لگائی جاتی ہیں جس سے ہتھیلیوں پر سرخ اور نیلے نشان ابھر آتے ہیں، جاڑوں کی خون جما دینے والی سردی میں ہتھیلیوں پر ڈنڈے کی ضربوں کا اثر دو چند ہوجاتا ہے۔
ہتھیلیوں کے علاوہ جسم کے کسی بھی حصے پر ڈنڈوں کی ضربیں لگائی جاسکتی ہیں۔ ڈنڈے کی عدم موجودگی میں استاد جوتوں، مکوں اورتھپڑوں کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔
سزاؤں کی ایک اورقسم وہ ہے جس میں استاد ڈنڈے، جوتے یا ہاتھ کا استعمال تو نہیں کرتا البتہ مطلوبہ اذیت پہنچانے کے دوسرے ذرائع عمل میں لائے جاتے ہیں۔ مثلاً طالب علم کو مرغا بنانا، دیوار کے ساتھ بغیر کرسی کے کرسی کی پوزیشن پر بیٹھنے کو کہنا، طالب علم کو دونوں ہاتھ اٹھا کر کھڑے ہونے کو کہنا، کلاس سے باہر تیز دھوپ یا شدید سردی میں کھڑے ر کھنا یا ایک طالب علم کے ہاتھوں دوسرے طالب علم کی پٹائی کرانا۔ ان سب سزاؤں میں مشترک چیز طالب علم کو جسمانی درد کے تجربے سے گزارنا ہوتا ہے۔
جسمانی سزاؤں کے نتیجے میں بعض اوقات افسوسناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر سندھ کے ایک تعلیمی ادارے میں استاد نے ایک طالب علم پر اس قدر تشدد کیا کہ وہ نہ صرف قوتِ گویائی سے محروم ہو گیا بلکہ اس کا جسم اپاہج ہو گیا اور وہ چلنے پھرنے سے بھی محروم ہو گیا۔ کلاس روم میں دی جانے والی اس طرح کی سزائیں معاشرے میں تشدد کو فروغ دیتی ہیں۔ ان جسمانی سزاؤں کے علاوہ کچھ سزائیں ذہنی اورنفسیاتی ہوتی ہیں۔
یہ سزائیں جسمانی سزاؤں سے بڑھ کر طالب علموں کی روحوں پر کاری زخم لگاتی ہیں، یہ زخم کسی کو نظر تو نہیں آتے لیکن ان کے داغ ہمیشہ کے لیے طالب علم کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مثلاً استاد کا طالب علم کو مرغا بنانا دراصل اسے انسانیت کے درجے سے گرا کر حیوانوں کے درجے پر لانا ہوتا ہے۔ پوری کلاس کے سامنے مرغا بننے ہوئے طالب علم کی عزتِ نفس بری طرح مجروح ہوتی ہے۔
عزت نفس کو مجروح کرنے والی سزاؤں میں استاد طالب علموں کو ان کی رنگت، قد، جسمانی ڈیل ڈول، یا ذہنی معیار کو نشانہ بناتے ہوئے ان کو مخصوص ناموں سے پُکارتے ہیں اور پھر یہ نام ہمیشہ کے لیے ان کی ذات سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات استاد کسی مخصوص طالب علم یا طالب علموں کو باقی کلاس سے الگ تھلگ کر دیتے ہیں یہ stereotyping ہمیشہ کے لیے ان طالب علموں کو ایک منفی شناخت دیتی ہے اور وہ ایک کلاس میں ہوتے ہوئے بھی اس کا حصہ نہیں ہوتے۔
کیا اس سے بڑی سزا کا تصور ممکن ہے، جب ایک ہی کلاس روم میں کچھ لوگوں کو اچھوت کا درجہ دے دیا جائے؟ اس سلسلے میں مجھے ایک سکول کا دورہ یاد آ رہا ہے۔ یہ لڑکیوں کے سکول میں چوتھی جماعت کی کلاس تھی۔ سکول والوں کو ہمارے دورے کا پہلے سے پتا تھا میں کلاس کے آخرمیں ایک کرسی پر بیٹھ گیا کلاس میں ایک ٹیچر پڑھا رہی تھیں اچانک میری نظر اپنے بائیں طرف کی قطار پر پڑی جہاں ایک کرسی کے نیچے ایک بورڈ پڑا ہوا تھا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا ”نالائق بچے‘‘۔ میں نے سرگوشی میں اپنے قریب بیٹھی ہوئی معصوم سی بچی سے اس بورڈ کے بارے میں پوچھا بچی نے بتایا کہ عام دنوں میں یہ بورڈ اس قطار کے شروع میں رکھا ہوتا ہے لیکن آج آپ لوگوں کی آمد پر اسے چھپا دیا گیا۔ ٹیچراُن بچیوں کواس قطار میں بٹھاتی ہیں جو ہوم ورک نہیں کرتیں یا ٹیچرکے سوال کا درست جواب نہیں دیتیں۔
آپ تصور کریں کہ پورا سال اس قطارمیں بیٹھنے والی بچیوں کا ذاتی تشخص (self image) کس بری طرح مجروح ہوتا ہوگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان بچیوں نے اس شناخت کو دل سے تسلیم کر کے اپنا لیا ہو گا۔ اور یوں ساری عمر کے لیے ان کے ذہن میں یہ تصور راسخ ہوگیا ہوگا کہ وہ نالائق ہیں۔ سکولوں میں verbal abuse ایک عام سی بات ہے، کچھ اساتذہ گالیوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور کچھ طالب علموں کے بارے میں توہین آمیز جملوں سے پوری کلاس کے سامنے ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یوں طالب علموں کی عزتِ نفس کو بُری طرح مجروح کیا جاتا ہے۔ اکثر سکولوں میں طالب علموں کے سوال کرنے پران کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور ”تمہیں یہ بھی نہیں آتا‘‘ کہہ کر ہمیشہ کے لیے سوالات کا در بند کر دیا جاتا ہے۔
جسمانی اور ذہنی سزاؤں کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ سزا سے طالب علم کے سیکھنے کاعمل بہتر ہوتا ہے اور سزا ڈسپلن کے لیے ضروری ہے۔ اتفاق سے ابھی تک کوئی ایسی تحقیق سامنے نہیں آئی جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ سزا سے سے سیکھنے کا عمل بہتر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بہت سے محققین کا یہ کہنا ہے کہ ایک بامعنی تعلیم اور سیکھنے کے عمل میں بہتری کے لیے دلچسپی کا ہونا ضروری ہے اور اس دلچسپی کے لیے استاد کی تحریک motivation)) ایک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
سزا کے حق میں ایک اور دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ اس سے کلاس روم کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مجھے لفظ کنٹرول سے اختلاف ہے اگر کنٹرول سے مراد ایک ایسی کلاس ہے جہاں قبرستان جیسی خاموشی ہو یا جہاں ہر وقت استاد کی ہاں میں ہاں ملائی جائے یا جہاں کوئی سوال کرنے کی جرأت نہ کرے تو ایسا کنٹرول کسی طور استاد کا مقصد نہیں ہونا چاہیے، ایک اچھے کلاس روم سے مراد ایک زندہ کلاس روم ہے، جہاں استاد اور طالب علموں کے درمیان ایک با معنی انٹر ایکشن ہوجہاں طالب علموں کوسوال پوچھنے کی نہ صرف آزادی ہو بلکہ سوال کرنے پران کی حوصلہ افزائی بھی ہو۔ جسمانی اورذہنی سزا ایسے کلاس روم کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
پاکستانی نظامِ تعلیم پرسب سے بڑی تنقید اس میں تخلیقی سوچ کا فقدان ہے، تخلیقی سوچ کے فروغ میں کلاس میں ہونے والے سوالات کی بنیادی اہمیت ہوتی ہے۔ سولات کی حوصلہ افزائی کے لیے طلباء کو ایسے ماحول کی فراہمی ضروری ہے جس میں ان کے خیالات کا احترام ہو، جہاں اختلاف رائے کی گنجائش ہو، جہاں استاد خود بھی سیکھنے کے لیے تیار ہو۔ جہاں دوسروں کی رائے کا احترام، برداشت اور رواداری جیسی اقدار پروان چڑھیں۔ کلاس روم کا یہی جمہوری ماحول طلباء میں جمہوری اقدار کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔ یہی اقدار طلباء کی زندگیوں میں غیر محسوس طریقے سے راستہ بتاتی ہیں اور پھر اُن کی ذاتی زندگیوں سے معاشرتی زندگی میں منعکس ہوتی ہیں۔
سکول میں جسمانی سزائیں عام طور پر اور ذہنی ایذائیں خاص طور پر طلباء کو ڈرپوک، خوفزدہ، اور کولہو کا بیل بنا دیتی ہیں جن کی کسی معاملے پر اپنی آزادانہ رائے نہیں ہوتی۔ جن کی آنکھوں پرپٹی بندھی ہوتی ہے اور وہ زندگی کی رہٹ میں ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ کلاس میں دی گئی ذہنی ایذائیں طلباء کوبہت سی نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار بنا دیتی ہیں، یہ سزائیں طلباء کی روحوں پر ایسے دیرپا زخم چھوڑ جاتی ہیں جو نظر تو نہیں آتے لیکن ان کی ٹیسیں انہیں عمر بھر بے چین رکھتی ہیں۔ کاش ہماری تعلیمی پالیسیوں کا ایک ہدف روح کے ان زخموں کا مداوا بھی ہو۔