سائنسدانوں میں تلخیاں نہیں ہوتیں
مبارک حیدر
جب سے دنیا میں سائنس نے اپنا لوہا منوایا ہے، ہر کوئی سائنٹفک رویوں اور سائنٹفک نظریات کا دعویدار بن گیا ہے۔ حتّٰی کہ ہر مذہب کے مبلغ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ان کا مذھب سائنس کے عین مطابق ہے۔ سائنس کے معنی تو جاننا ہے لیکن اس سادہ سے لفظ کے تقاضے بہت سخت ہیں۔
جاننے کے عمل میں ہم بہت جلد یہ جان جاتے ہیں کہ ہم بہت کم جانتے ہیں، یعنی اس امکان کو مان لیتے ہیں کہ ابھی اور جاننا ممکن ہے اور ضروری ہے کہ ہم اپنے موقف کو مکمل قرار نہ دیں، کیونکہ کچھ بھی آخری نہیں، کوئی سچائی آخری سچائی نہیں۔
چناچہ سائنس کے کارکن سب سے پہلے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ دریافت کیا ہے وہ آخری اور کامل نہیں یعنی ابھی اس سے بہتر علم کی ضرورت بھی ہے اور گنجائش بھی۔ جاننے کے اسی مسلسل عمل کا نتیجہ ہے کہ پچھلی چار صدیوں میں زندگی اور کائنات کے ہر شعبہ میں انسانی علم مسلسل بڑھا ہے۔ اپنے موجودہ علم کو نامکمل ماننے کا یہ اصول پہلا سائنٹفک اصول ہے۔
دوسرا سائنٹفک اصول یہ ہے کہ کوئی نظریہ اس وقت تک درست علم نہیں مانا جائے گا جب تک آزمائش میں صحیح ثابت نہ ہو جائے۔ یعنی جو کچھ اس کا دعوٰی ہے اس کے لیے ہم اسے ایک بار نہیں بلکہ بار بار ٹسٹ کرتے ہیں۔ کوئی نظریہ اگر ایک بار بھی ٹیسٹ میں ناکام ہو جائے تو اسے رد کر دیا جاتا ہے کہ یہ اپنی موجودہ حالت میں درست نہیں۔
سائنٹفک طرزفکر کی بنیاد تجسس اور تشکیک پر ہے یعنی نہ مکمل ایمان سائنٹفک ہے نہ مکمل انکار۔ اسی لیے سائنسدانوں میں تلخیاں نہیں ہوتیں۔
سماجی نظریات میں سائنٹفک رویے مشکل ہوتے ہیں لیکن ناممکن نہیں۔ میرے خیال میں سماجی معملات میں سائنٹفک یعنی علمی رویہ یہ ہے کہ رواداری اور برداشت کی حد پار نہ کی جائے۔ جب ہم اپنی بات کو مکمل سچ سمجھ کر آگے بڑھتے ہیں تو اختلاف برداشت نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں سیاسی اور فکری اختلاف کا المیہ بھی وہی ہے جو مسلم معاشروں میں مذہبی اختلاف کا ہے، شاید ہم سب بنیادی رویوں میں اسلامی مذہبی لوگ ہیں۔
کیا ہم کبھی اس پر غور کرتے ہیں کہ ہمارے عمل کے نتائج کیا ہیں؟ ہمارے عمل سے کچھ تبدیل ہوا ہے یا نہیں؟ کچھ اچھا ہوا ہے یا نہیں؟ کیا ہم صرف لگے رہنے کے لیے لگے ہوئے ہیں؟