سکرپٹ رائٹنگ، سلیم جاوید اور ہم
از، سفیان مقصود
ودیا بالن کی معروف فلم ڈرٹی پکچر کا مشہور ڈائیلاگ ہے کہ فلمیں صرف تین چیزوں سے چلتی ہیں: اینٹرٹینمنٹ، اینٹرٹینمنٹ اور اینٹرٹینمنٹ۔ ایک فلم کا واحد مقصد اپنے شائقین کو اینٹرٹین کرنا ہوتا ہے۔ پھر فلم چاہے جیسی بھی ہو اس کو کام یاب ہونے کے لیے اینٹرٹیننگ ہونا چاہیے۔
ایک وقت تھا جب ہندی فلم انڈسٹری پروڈکشن ہاؤس، ایکٹر اور ڈائریکٹر کے نام پہ چلتی تھی۔ اس دور میں کہانی نویس کی حیثیت انتہائی ثانوی تھی حالاں کہ فلم کی کام یابی میں سب سے اہم کردار کہانی کا ہوتا ہے۔
آپ راج کپور، دلیپ کمار کو لے کر فلم بنا لیں گرو دت، راج کپور، رشی کیش مکھرجی جیسا ہدایت کار لے لیں اور پروڈکشن آر کے سٹوڈیو یا یش راج کی ہو پھر بھی اگر کہانی جان دار نہ ہو تو فلم کا چلنا نا ممکن ہے۔
سلیم خان اور جاوید اختر وہ پہلے لکھاری تھے جنھوں نے لکھاریوں کو عزت، نام، شہرت اور پیسہ دلوایا۔ سلیم جاوید کی جوڑی فلموں کی کام یابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی اور یہ پہلے لکھاری تھے جن کا نام فلم کے پوسٹر پہ لکھا گیا تھا ورنہ اس سے پہلے لکھاری کو کوئی جانتا تک نہ تھا۔
سلیم خان اور جاوید اختر دونوں نے اپنے اپنے انٹرویوز میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جس فلم نے انھیں شہرت دی وہ زنجیر تھی لیکن جب یہ فلم بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو انڈسٹری کے سبھی بڑے اداکاروں نے اس فلم کو کرنے سے انکار کر دیا اور مجبوراً ایک نئے اور غیر معروف ایکٹر امیتابھ بچن کو لے کر فلم بنائی گئی۔
زنجیر کی بے مثال کام یابی نے فلم انڈسٹری کو نا صرف امیتابھ بچن جیسا سٹار دیا، بَل کہ سلیم جاوید کو بھی راتوں رات شہرت کی بلندیوں پہ پہنچا دیا۔
وقت اور کام یابی نے سلیم جاوید کی جوڑی کو اتنا مضبوط بنا دیا کہ یہ دونوں جس اداکار کو چاہتے ہدایت کار اور پروڈیوسر اسی اداکار کو فلم میں کاسٹ کرتے اور جسے یہ دونوں ریجیکٹ کرتے ہدایت کار اور پروڈیوسر بھی اس اداکار کو لینے سے انکار کر دیتے؛ حتیٰ کہ ایسا بھی ہوا کہ ایک اداکار کو لے کر فلم شروع کی گئی، شوٹنگ بھی شروع ہو گئی لیکن سلیم جاوید کو اس کی اداکاری پسند نہیں آئی تو اس اداکار کو اسی وقت فارغ کر دیا گیا۔
یہ طاقت اور اثر تھا جو سلیم جاوید نے اپنی مضبوط رائٹنگ سے حاصل کیا تھا جسے کوئی چیلنج نہ کر سکا۔
ہم بَہ حثیتِ ملک اسی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، لکھاری نے اچھی کہانی اور سکرین پلے لکھا ہوا ہے، جتنے مرضی اداکار فلم کرنے سے انکار کر دیں پھر بھی لکھاری کے پاس کوئی نہ کوئی اداکار ضرور ہو گا۔ پھر وہ “غیر معروف” اور “غیر آزمودہ” ہی کیوں نہ ہو لکھاری اپنی فلم ضرور بنائے گا۔
اگر درمیان میں اداکار سکرین پلے سے تھوڑا سا ہٹے گا تو اسے برطرف بھی کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں اس کی مثالیں موجود ہیں اور اگر فلم کا حصہ رہنا ہے تو اداکار کو وہی کرنا ہو گا جو لکھاری کی مرضی ہے ورنہ اداکاروں کی کمی نہیں ہے۔
ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ حالیہ کچھ دنوں میں پیدا ہوئی صورت حال میں اداکار سے امیدیں لگانے والے حضرات لکھاری کی طاقت کو دھیان میں رکھیں اور خیالی پلاؤ پکانے سے گریز کریں کیوں کہ ہو گا وہی جو لکھاری نے لکھا ہوا ہے ورنہ لکھاری ایک غیر معروف اداکار کو راتوں رات سپر سٹار بنانے کا فن خوب جانتا ہے۔