(عثمان عابد)
ایک آدمی غبارے بیچ کر روزی کماتا تھا۔ اس کے پاس نیلے، پیلے، لال ہرے غرض ہر رنگ کے غبارے ہوتے تھے۔ جب کبھی اس کے غبارے کم فروخت ہوتے تو وہ ہیلیم (helium) گیس سے بھرا ایک غبارہ اڑا دیتا۔ جب بچے غبارے کو اڑتا ہوا دیکھتے تو اسکی طرف متوجہ ہوجاتے اور ان میں غبارے خریدنے کی خواہش ابھرتی۔ وہ آکر غبارے والے سے غبارے خریدتے اور یوں اس کے سارے غبارے فروخت ہوجاتے۔ دن بھر میں جب بھی کام مندا ہوتا تو غبارے والا اسی طرح ایک غبارہ اڑا دیتا۔ ایک دن کسی نے غبارے والے کی قمیض پیچھے سے کھینچی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تووہ ایک چھوٹا سا لڑکا تھا۔ لڑکے نے پوچھا، “انکل! اگر آپ کالے رنگ کے غبارے کو اڑائیں گے تو کیا وہ اڑے گا؟” غبارے والے نے جواب دیا، “بیٹا! غبارے رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس میں موجود گیس کی وجہ سے اڑتے ہیں”۔ یونہی اصول ہماری زندگیوں پر صادق آتا ہے: ” جو کچھ اندر ہے، وہی اہم ہے” اور ہمارے اندر موجود ہمیں بلندی پر لے جانے والی شے ہے: ” ہمارا رجحان”۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ولیم جیمز نے کہا تھا: “میر ی نسل کی عظیم ترین دریافت یہ ہے کہ انسان اپنے ذہنی رجحان کو بدل کر اپنی زندگیوں کو تبدیل کر سکتے ہیں”۔ امام مالک ؒ تاریخ میں ایک بڑا نام ہے۔ جہاں دین کے لیے ان کی بے شمار خدمات ہیں وہاں ایک بہت معروف جملہ ان سے منسوب ہے۔ امام فرماتے ہیں کہ انسان کی دو پیدائشیں ہیں۔ ایک وہ پیدائش جب وہ دنیا میں آتا ہے دوسری پیدائش وہ جس دن وہ یہ جواز تلاش کرتا ہے کہ وہ دنیا میں آیا کیوں تھا؟ یعنی یہ ایک بہت بڑا درجہ ہے کہ دنیا میں تو آپ آگئے لیکن اپنی شعوری زندگی میں یہ کھوج بھی لگا لی کہ آپ کے اندر جو اصلی ٹیلنٹ تھا آپ نے اسے ایکسپلور(explore) کیا کہ نہیں!
یقین کریں کہ آج ہمارے سسٹم میں کتابوں کی کمی نہیں ہے۔ کسی بھی قسم کی انفارمیشن حاصل کرنی ہو تو “گوگل” نامی جن ہر شخص کے قبضے میں ہے۔ ایک ٹیبلٹ میں چار، پانچ ہزار کتابیں آ جاتی ہیں۔ ایک چھوٹی سی یو۔ایس۔بی میں لا تعداد کتابیں سما سکتی ہیں۔ ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک دور ، ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ کوئی بھی کتاب ایک بٹن یا ایک کلک کرنے پر مل جائے گی اور کہاں وہ زمانہ کہ تاریخ میں امام بخاری جا کے وقت کے بادشاہ سے درخواست کر رہے ہیں کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اٹھارہ دنوں کے لیے آپکی لائبریر ی استعمال کر لوں کہ اس سے مجھے فائدہ ہو جائے گا۔
ہارورڈ گارڈنر تھیوری آف ملٹی پل انٹیلی جنس کے مطابق دنیا میں ذہانت کی نو اقسام ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام ایک ذہانت اور ایک اہلیت کی بنیاد پر چل رہا ہے اور وہ “یاداشت “ہے ۔ memory based education کی وجہ سے ہم با شعور افراد کی بجائے رٹو ّطوطے پیدا کر رہے ہیں۔ اس سسٹم کی وجہ سے طالب علم ذہنی طور پر بانجھ پن کا شکار ہیں۔ وہ کسی بھی چیز کا صحیح طور پر تجزیہ نہیں کر پاتے۔ یہ نظام ہمارے اندر زندگی گزارنے کا شعور پیدا نہیں کرتا۔ اس سسٹم کی بدولت ہم ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ہمیں پریکٹیکل لائف یا کسی جاب کے لیے انٹر ویو میں اس بنیاد پر جانچا جائے گا کہ ہمیں اپنے شعبے کے حوالے سے کتنی انفارمیشن ہے۔ تو میں واضح کرتا چلوں کہ ایسا بالکل نہیں ہوگا۔ کیونکہ انفارمیشن تو گوگل پر سرچ کرنے سے بھی مل جاتی ہے۔ اگر آج میں اپنا یا اپنے کسی عزیز کا چیک اپ کروانے کے لیے کسی MBBS ڈاکٹر کے پاس جاؤں گا تو پہلے گوگل پر اس خاص بیماری اور اس سے متعلق ڈرگز کے بارے میں سر چ کر کے جاؤنگا۔ تاکہ یہ تسلی کر سکوں کہ جس ڈاکٹر کے پا س میں علاج کی غر ض سے جا رہا ہوں آیا وہ پندرہ سو یا ایک ہزار روپے فیس لینے کا حق دار ہے بھی یا نہیں کیونکہ آج کےدور میں انفارمیشن بہت عام ہو چکی ہے۔
اگر آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں یا کوئی اچھی جاب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو چیزوں کو رٹاّ لگانے کی بجائے سمجھ کر پڑھیں۔ اپنے سکلز اور ٹیلنٹ کو پہچاننے کی کوشش کریں۔ زندگی کی اس دوڑ میں جتنی آپ کے ٹیلنٹ کی مانگ ہے آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ جاب کے لئے جب بھی انٹرویو لیا جاتا ہے تو انٹرویو پینل کو اس چیز سے غرض نہیں ہوتی کہ آپ کے پاس اس جاب سے متعلق سار ی معلومات ہیں یا نہیں بلکہ وہ cross questioning کر کے آپ کے انٹر پرسنل سکلز (inter personal skills) چیک کر تا ہے کہ آیا آپ کے انٹر پرسنل سکلز متعلقہ جاب کے مطابق ہیں یا نہیں۔
بدقسمتی سے ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ہم کس چیز کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ ہم نے اپلائی کہاں کرنا ہے؟ %99 طلباء کو CVs لکھنا نہیں آتا۔ فارم ڈی (Pharm D) مکمل کرنے کے بعد ہم یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ ہم نے انڈسٹری میں جانا ہے، ریٹیل فارمیسی کرنی ہے، کلینیکل فارماسسٹ بننا ہے یا ریسرچ کی طرف جانا ہے۔ سٹوڈنٹ کے پا س ایک ہی CV ہوتی ہے۔ فارمیسی اس نے کی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ ہر جگہ اپلائی کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے نوکری دیں۔ میرا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ میں اس نوکری کے لیے اہل ہوں یا یہ نوکری میرے لیے مناسب ہے کہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مجھے پیسے چاہیئں۔ مجھے نوکری چاہئے اور بس! وہ سکلز جو آگے بڑھنے کے لیے درکار ہوتے ہیں وہ ہمارے اندر سر ے سے موجو د ہی نہیں ہوتے۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے اور اچھے اساتذہ کے مل جانے سے آپ ترقی کر جائیں گے تو یہ آپکی محض خام خیالی ہے۔ استاد اور یونیورسٹی ترقی کا ایک ذریعہ تو بن سکتے ہیں لیکن end source نہیں۔ آپ کا اپنی ذات کےساتھ ایک مقابلہ ہے۔ اگر آپ بیس، پچیس سال کی عمر میں لڑنے کے لیے تیار ہیں تو زندگی میں بہت آگے جائیں گے۔ بات پھر انٹر پرسنل سکلز اور self-discovery کی آجائے گی۔ جس کی نشاندہی میں نے امام مالک ؒ کے قول سے کی۔ اس دنیا میں آنا اتنا اہم نہیں ہے جتنا اہم یہ ہے کہ اس دنیا میں آکر یہ دریافت کرنا کہ میں کس چیز کے قابل ہوں۔ میرے اندر کس قسم کا ٹیلنٹ ہے۔ بے شمار کہانیاں اور مثالیں سمجھانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ہم زندگی میں سبق حاصل کرنے کے لیے کچھ کہانیوں کو suppose کرکے سنتے ہیں۔ کچھ بڑا سمجھانا ہو تو چیزوں کو personify کیا جاتاہے۔ یہ کہانی میں نے کسی کتا ب میں پڑھی تھی۔
ایک آدمی کو جن قابو کرنے کا بہت شوق تھا ۔ اس نے اس مقصد کے لیے بہت سے عمل کئے، چلّے کاٹے اور در بدر کی ٹھوکریں کھائیں مگر کامیابی نہ ملی۔ اسی تلاش میں اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس کے پاس گزشتہ کئی سالوں سے ایک جِن موجود تھا۔ جِن کے مالک نے اس شخص کی مسلسل لگن اور شوق کو دیکھتے ہوئے اپنے پاس موجود “جِن” اسے بطور تحفہ دے دیا۔ وہ شخص خوشی خوشی جِن لے کر گھر آگیا۔ گھر پہنچ کر اس نے جِن کو حکم دیا کہ میرے گھر کی خوبصور ت تزئین و آرائش کی جائے۔ جِن نے دست بدستہ معذرت کرلی اور کہا کہ یہ کام میری طاقت سے بالا تر ہے۔ آدمی نے حیرت سے جِن کو دیکھا مگر چپ رہا۔ اگلے دن اس آدمی نے دوبارہ جِن کو بلایا اور اسے کہا کہ میرے لیے اچھی سی گاڑی کا بندوبست کیاجائے۔ مگر حسب سابق جن نے معذوری ظاہر کردی۔ کچھ دیر بعد اس آدمی نے جِن کو ایک اور کام کہا مگر جِن کا جواب وہی تھا کہ یہ کام میری استطاعت سے بڑھ کر ہے۔ آدمی نے حیران ہوکر پوچھا کہ آخر تم کر کیا سکتے ہو؟ جِن نے کہا کہ میں آپ کے لیے بازار سے چائے، دودھ ، دہی ، یا پان لا سکتا ہوں؛ اگر کہیں تو آپکی ٹانگیں دبا سکتا ہوں یا اسی طر ح کے چند اور کام کر سکتا ہوں۔ آدمی نے پوچھا: مگر میں نے تو جِنوں کی طاقت، صلاحیتوں اور ہمت کے بہت سے قصے سن رکھے تھے۔ وہ کیا تھے؟ جِن نے افسردگی سے جواب دیا : آپ نے صحیح سنا تھا میرے آقا۔ میرا پہلا مالک میری صلا حیتوں کو پہچان نہیں سکا۔ اس نے مجھے “چھوٹا “بنا کر رکھا۔ وہ ہر وقت مجھے یونہی کہتا رہتا: چھوٹے! چائے لے آؤ۔۔۔۔ چھوٹے! پان لے آؤ۔ ۔۔۔چھوٹے! میرا سر دبا دو۔۔۔۔ چھوٹے! میری ٹانگیں دبا دو۔۔۔۔۔ لہٰذا کئی سال تک مسلسل چھوٹا بن کر رہنے سے میں واقعی چھوٹا بن گیا ہوں؛ میر ی صلاحیتوں کو زنگ لگ چکا ہے۔ میرے مالک ! آپ بھی اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پہچانیں اور انہیں استعمال میں لائیں ورنہ ایک دن آپ بھی میری طرح “چھوٹا “بن کر رہ جائیں گے۔
اب مسئلہ ہمارے ساتھ کیا ہے کہ ہماری نوجوان نسل جتنی talented ہے ان کو وہ پلیٹ فارم ہی نہیں ملتے جہاں وہ اپنے ٹیلنٹ سے یہ ثابت کریں کہ وہ “جِن ” سے کئی گنا افضل مخلوق “انسان” ہیں۔ جب ہمیں اپنا ٹیلنٹ ثابت کرنے کے لیے پلیٹ فارم ہی نہیں ملتے تو اچھے نمبر لے کر ڈگر ی تو مکمل کر لیتے ہیں لیکن جب زندگی کے امتحان کی باری آتی ہے تو اکثر ہمارا نمبر” صفر” ہی ہوتا ہے۔