کیا فطری علوم میں شیطنت ہے؟ علامہ اقبال کے مؤقف کا مختصر جائزہ
از، عمران شاہد بھنڈر
سترھویں صدی میں فلسفیانہ حوالوں سے تجربیّت کی بنیاد رکھنے والے عظیم فلسفی فرانسس بیکن نے کہا تھا، ”علم طاقت ہے۔“ قارئین یہاں تک تو جانتے ہیں لیکن اس سے آگے یہ نہیں جانتے کہ فرانسس بیکن نے یہ کیوں کہا تھا کہ علم طاقت ہے؟
بیکن نے طاقت کو معلومات سے جوڑا اور معلومات کو مزید توسیع دیتے ہوئے تعلیم تک لے گئے۔ تعلیم سے انھوں نے یہ تصور اخذ کیا کہ وہ ’بصیرت‘ کو پیدا کرتی ہے اور بعد ازاں یہی بصیرت انسان کی آزادی کا سبب بنتی ہے۔
بیکن کا خیال تھا کہ وہ لوگ کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکتے جن کے پاس علم نہ ہو، کیوں کہ بیکن استقراء کے جدید طریقۂِ کار کے بانی تھے۔ اس لیے علم سے اُن کی مراد یقیناََ تجربی علم تھا، خواہ اس کا تعلق سماج سے ہو یا فطرت سے۔
بیکن کو یہ کہنے کی ضرورت کہیں نہیں محسوس ہوئی کہ علم کی تخلیق اور وسعت بہ یَک وقت شیطنت کی تخلیق اور وسعت بھی ہے۔ بیکن کے بارے میں یہ حقیقت بھی بالکل عیّاں ہے کہ وہ مذہب کے بارے میں گہرے جذبات رکھتے تھے۔ عظمت ان کی، بہ ہر حال، یہ تھی کہ انھوں نے کہیں بھی مذہب کو عُلوم کے حصول اور بعد از حصول، کسی عقیدے کا پابند کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
اس بات کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ جب انسان کائنات کی بے کَراں وسعتوں کے راز آشکار کر سکتے ہیں اور انھیں علوم کے دیگر شعبوں میں اپنے فائدے کے لیے استعمال میں لا سکتے ہیں تو ان علوم پر ’قابو‘ پانے کے لیے مذہب کی ضرورت قطعی طور پر غیر ضروری ہی نہیں، بَل کہ لا یعنی اور لَغو ہے۔
مذہب کی تاریخ بَہ ذاتِ خود بربریت سے عبارت ہے، کیوں کہ اس بربریت پر مذہب کی بنیاد استوار کی گئی ہے۔ مذہب اور بربریت کے ما بین جدلیاتی رشتہ موجود رہا ہے۔ مذہب بربریّت کا تخلیق کردہ ہے اور بربریت کو فروغ دیتا آ رہا ہے۔ انسانیت مذہب کی تخلیق نہیں ہے، بَل کہ مذہب سے انحِراف کا نتیجہ ہے۔
انسانیت الحاد کی طرح ایک غیر جانب دار قدر اور دنیا کو دیکھنے کا ایک خاص انداز ہے۔ انسانی تصورات پر نظریاتی و مذہبی اقدار کا تسلط وحشت و بربریت کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ اسلام کی ابتداء سے کربلا میں حسین کے قتال تک تمام اسلامی تاریخ اس بربریت کا منبع و ماخذ دکھائی دیتی ہے۔
محمد اقبال، بیکن کے اس نتیجے سے مکمل طور پر آگاہ تھے کہ ’علم طاقت ہے“۔ اس طاقت میں وہ انسانی فلاح کے پہلووں کو دیکھنے کی بَہ جائے اسے ”شیطنت“ سے تعبیر کرتے ہیں؛ یعنی تجربی سائنسوں سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ محمد اقبال کے نزدیک ”شیطنت“ ہے۔ اقبال کے خواجہ غلام السّیدین کو لکھے گئے ایک خط سے یہ الفاظ ملاحظہ ہوں:
”علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دار و مِدار حواس پر ہے۔ عام طور پر میں نے علم کا لفظ انھی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم میں ایک طبعی قوّت ہاتھ آتی ہے جس کو دین کے ما تحت رکھنا چاہیے۔ اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطنت ہے۔ یہ علم، علمِ حق کی ابتداء ہے، جیسا کہ میں نے جاوید نامہ میں لکھا ہے۔مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ علم، یعنی اس علم کو جس کا مِدار حواس پر ہے اور جس سے بے پناہ قوت پیدا ہوتی ہے، اسے مسلمان کریں۔“
بہ حوالہ علی عباس جلال پوری، اقبال کا علمِ کلام، ص، 18
فطری علوم کے بارے میں اقبال کا نکالا گیا یہ نتیجہ ایک تو کسی دیوانے کی بڑ معلوم ہوتا ہے اور دوسرا اس میں غیر حقیقت پسندانہ پہلو یہ ہے کہ جو اقوام علوم کے حصول کے لیے کوشاں تھیں، انھیں کوئی ایسی ضرورت نہیں تھی کہ علوم کو حاصل کر کے انھیں ’دین‘ کے تابِع کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اقبال کی ’دین‘ سے مراد اسلام سے ہے۔
مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ مسلمان خود علوم حاصل کرنے کی بَہ جائے ان علوم کو مُسلمان کر دیں جو انھوں نے حاصل نہیں کیے؟
دوسری طرف اقبال نے جس طرح ’شیطنت‘ کو علوم کے حصول سے جوڑا ہے تو ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ’شیطنت‘ فطرت کے اندر رکھ دی گئی ہے اور جب فطرت خود کو علوم کی شکل میں منکشف کرتی ہے تو ’شیطنت‘ ابھر کر سامنے آ جاتی ہے؟
یا پھر “شیطنت” علوم کی علمیات میں موجود ہے؟ اگر چِہ یہ بحث بہت دور تک پہنچتی ہے اور ذہن میں سوالات کا ایک انبار لگ جاتا ہے کہ جس نے فطرت کے اندر’شیطنت‘ رکھی ہے اس کے اپنے اندر ’شیطنت‘ کس نے رکھی تھی؟ اور اگر “شیطنت” علمیات کے مَنہَج میں ہے تو فطرت سے ہم آہنگ کیسے ہو گئی، بَہ شرط یہ کہ فطرت میں “شیطنت” نہ ہو؟
تاہم ہمارا اس بارے میں مؤقف یہ ہے کہ ’شیطنت‘ کا تعلق کسی علم سے نہیں ہوتا، بل کہ علم جن مفادات کے زیرِ اثر رکھا جاتا ہے ’شیطنت‘ ان مفادات میں ہی پنپتی ہے، خواہ ان مفادات کا تعلق ’دین‘ سے ہی کیوں نہ ہو۔ اقبال کا ’دین‘ کے نام پر ’شیطنت‘ کو ختم کرنے کا دعویٰ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ’دین‘ کے نام پر وحشت و قتال کا دعویٰ کرنا اور پھر اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے نوعِ انسانی کے قتال کا انبار لگا دیا جائے۔ اقبال کے “دین” سے تعلق رکھنے والے ایسے لا تعداد لوگ ہیں جو صرف اور صرف “دین” کی خاطر قتال کو حق ہی نہیں بل کہ بہترین اخلاقی عمل بھی سمجھتے رہے ہیں۔
قتال و وحشت کو ’دین‘ نے کچھ اس شدت سے انسانی سرِشت میں راسخ کر دیا ہے کہ اسے یک دَم ختم کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی، سیاسی اور سماجی ’نظاموں‘ میں جب کبھی طبقاتی، گروہی، قومی، لسانی، علاقائی مذہبی اور فرقہ وارانہ کش مَکش کا آغاز ہوتا ہے، بربریت و قتال ہر شے کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔ لہٰذا ’شیطنت‘ فطرت کے علم میں نہیں، بَل کہ ان نظریات میں ہے کہ جن کے زیرِ اثر علوم کو لانے کی کوشش کی جاتی ہے، تا کہ اپنے معاشی اور نظریاتی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
اقبال در اصل کسی ’شیطنت‘ پر قابو کی سعی نہیں کر رہے بل کہ غیر جانب دار علوم کو ’شیطنت‘ کے تابِع رکھنے کا جواز تراش رہے ہیں۔
دین اپنی سرشت میں کوئی تجریدی چیز نہیں ہے اور نہ ہی علوم تجریدی ہیں کہ جو دین کے تابع آ کر قطعی طور پر دین کی معیّن کردہ ”انسانی“ اقدار کے ما تحت ہو جائیں گے۔ ’دین‘ وہ ہے جو دین دار کرتے رہے ہیں، اور آئندہ وہ اپنی ہی سفّاک روایت سے کس طرح دست بردار ہوں گے اس کا کوئی حل خود اقبال نے بھی پیش نہیں کیا۔
انسان کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ اسے اس کے اپنے انسانی وجود کے سپرد کرنے کی بَہ جائے چند متصوّرہ ’ہستیوں‘ کے سپرد کر دیا جاتا ہے اور وہی متصوّرہ ’ہستیاں‘ اس کے مستقبل کے اہداف کا تعین کرتی ہیں۔ انسان کو خود سے مطابقت پیدا کرنے کی بَہ جائے کسی ’ہستی‘ سے ہم آہنگ ہونے کا درس دیا جاتا ہے، جس سے اس کا اپنا وجود ہی اس کے لیے بے گانہ ہو جاتا ہے اور وہ متصوّرہ ہستیاں اس کے لیے حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں۔
اقبال کا انسانی علوم کو ’شیطنت‘ کہنا در اصل اسی ’شیطنت‘ کا اظہار ہے جو اقبال کے بے گانہ وجود کی عطا کردہ ہے۔
علوم اپنی جدا گانہ حیثیت رکھتے ہیں اور ان علوم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور جس کا کوئی مذہب نہ ہو، وہ الحاد ہوتا ہے۔ ان معنوں میں تمام علوم اپنی سرشت میں الحاد ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ تجربی علوم میں کسی بھی ’ہستی‘ کے وجود کا سراغ نہیں ملتا۔ ہر عظیم فلسفی اس نتیجے پر پہنچا کہ ’خالق‘ محض ایک تصور ہے، حقیقت نہیں، اور جو حقیقت نہیں اس کا تجربی علوم میں موجود ہونا نا ممکن ہے۔ اقبال جب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تجربی علوم محض ’شیطنت‘ ہیں تو ان کے پیشِ نظر بھی یہی پہلو رہتا ہے کہ تجربے یا تجربی علم میں کوئی ’خالق‘ ظاہر نہیں ہوتا۔
جہاں تک خالق کا تصور ہے تو تصور کا تجربہ نہیں کیا جا سکتا۔ تصور محض تصور ہوتا ہے، جس سے بہت سے اوصاف منسوب کیے جا سکتے ہیں، لیکن ان اوصاف کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اقبال جب علوم میں مُضمر ’شیطنت‘ کو ’دین‘ کا تابِع رکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں تو ان کا محرّک بھی اس تصور سے متعلق متصوّرہ اوصاف ہی ہوتے ہیں۔
نتیجہ اس بحث سے، بہ ہر حال، یہی نکلتا ہے کہ فطرتی علوم کسی بھی ’شیطنت‘ سے ماورا یُونی ورسل اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ فلسفہ، منطق، ریاضی، طبیعات، کیمیا سمیت تمام وہ علوم جو انسان کے تخلیق کردہ ہیں، قطعِ نظر کہ کوئی انسان کس مذہب، فرقے، قوم یا علاقے سے تعلق رکھتا ہے، وہ ساری دنیا کی جامعات کے متعلقہ شعبہ جات میں یک ساں طور پڑھائے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر فلسفہ و منطق کی ایک تاریخ ہے۔ ہر’دین‘ کی طرح اپنی اپنی تاریخ نہیں ہے۔ وجہ اس کی یہ کہ ان علوم کا محرک و خالق خود انسان ہے اور ان علوم میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں، تضادات وغیرہ کی تحلیل انسان کو ہی کرنا ہے اور وہی کرتا آ رہا ہے۔ کبھی کسی خدا یا کسی متکلّم نے فلسفے یا منطق وغیرہ کا کوئی قضیہ حل نہیں کیا۔ ان علوم کے بر عکس مذہب سب کا اپنا اپنا ہے۔
مذہب کسی بھی مفہوم میں آفاقی نہیں ہے۔ چُوں کہ ان علوم کی بنیاد انسانی یا عقلی ہے، اس لیے یہ علوم اپنی سرِشت میں الحاد ہیں۔ الحاد سے مراد یہ کہ انھیں کسی بھی دین سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ ان کا ارتقاء ان کی اپنی خود رَو حرکت میں ہوا ہے۔
فلسفہ اگر کسی متصوّرہ خدا سے بحث کرتا ہے تو اس تصور کی بنیاد بھی وہ خود رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہب پرست فلسفیوں کو مُلحد قرار دیتے رہے ہیں۔