کیا سیکولر مسلم کی اصطلاح درست ہے؟
(طارق احمد صدیقی)
گزشتہ روز فیس بک پر ایک صاحب کے اسٹیٹس کے نیچے میں نے ‘سیکولر مسلم’ کی اصطلاح اور اس سے جڑے ہوئے کچھ اہم مسائل پر درج ذیل تبصرہ لکھا:
سیکولر مسلم کی اصطلاح کی حقیقت کی مدلل وضاحت سے پہلے ہم کو مذہبی اور سیکولر کی ایک تعریف متعین کرنی ہوگی۔ یہ بتانا ہوگا کہ مذہبی کیا ہے اور سیکولر کیا، اس کے بعد ہی ہم دونوں میں مشترک قدروں کی تلاش کر سکتے ہیں۔
مذہب مافوق الفطری/ معجزاتی طریقے سے حاصل شدہ علم کی بنا پر انسان کی مابعد موت نجات کے اصول مقرر کرتا ہے اور اسی علم کی بنا پر انسان کو نجات یافتہ بنانے کے غرض سے پیدائش، موت، شادی و غمی کے موقعوں کے لیے رسوم و رواج کی تخلیق، تنقید، حذف و اضافہ اور ترتیب و تہذیب کرتا ہے۔ اس طرح ہر وہ شے اور رسم بالآخر مذہبی نوعیت کی ہو جاتی ہے جس کو مذہب اپنے اصول نجات سے متصادم نہ پائے۔
سیکولر کے معنی “دنیاوی” کے ہوتے ہیں۔ دنیاوی یعنی محسوسات سے متعلق چیزیں۔ یہ مذہب یا دین سے مختلف ہے۔ ایک سیکولر شخص مافوق الفطری طریقے سے حاصل شدہ کسی علم کی بنا پر انسان کے لیے مابعد موت نجات کے اصول پیش نہیں کرتا بلکہ وہ دین و مذہب کے بالمقابل کسی اور دنیا کی فکر کرنے کے بجائے اسی دنیا کو بہتر طور پر چلانے کے کچھ اصول بتاتا ہے اور ان اصولوں تک ہر شخص اپنے علم کے ذریعے پہنچ سکتا ہے۔ سیکولر نظریہ کوئی پراسرار شے نہیں ہے اور اس کا علم و فہم حاصل کرنا، اس علم و فہم میں حذف و اضافہ اور نظرثانی کرنا محض اہل کشف و کرامت، برگزیدہ اور منتخب انسانوں کا حق نہیں ہے بلکہ یہ ہر انسان کا حق ہے۔ سیکولر نظریہ مرنے کے بعد، مرنے والے کی روح کا کیا ہوگا (و علی ہذا) کی فکر نہیں کرتا بلکہ وہ مرتے دم تک انسان کو دکھ درد سے محفوظ رکھنے کے طریقے سوچتا ہے۔ جن چیزوں کو انسان کی دنیاوی زندگی کے لیے وہ مفید پاتا ہے، ان کا تحفظ کرتا ہے، اور جن میں وہ نوع انسانی کا نقصان دیکھتا ہے اس کو مٹاتا ہے۔
مذہب کے لئے اس کا مافوق الفطری ذریعہ علم بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، جس تک کسی منتخب یا برگزیدہ ہستی کی ہی رسائی ہو سکتی ہے۔ حضرت گوتم بدھ کو جو گیان پراپت ہوا، یا حضرت عیسٰی کو جو وحی آتی تھی، وہ سب کے حصے میں نہیں ہو سکتی۔ عیسی و گوتم بننا ہما و شما کے بس کی بات نہیں۔ سیکولر نظریہ تخلیق و تفہیم ، بڑا اور برگزیدہ بن سکنے کے اعتبار سے سائنس کی طرح ہے کہ جس میں نیوٹن کے بعد آئن اسٹائن پیدا ہو سکتا ہے، کل تک جو دنیا نیوٹن کو پوج رہی تھی آج آئن اسٹائن کو بھی اسی یا زیادہ ذوق و شوق سے پوج رہی ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اب نیوٹن سے زیادہ سائنسداں ہونا، زیادہ علم رکھنا ممکن نہیں، بلکہ یہ مانا جاتا ہے کہ نوع انسانی کے علم میں ہر لمحہ اضافہ ہوتا ہے اور بعد میں آنے والے پہلے آنے والوں سے زیادہ عالم ہوتے ہیں۔
مافوق الفطری ذرائع سے جو علم حاصل ہوتا ہے اس کے نتیجے میں انسان کے اندر ٹھیک اس کے برعکس رویہ پیدا ہوجاتا ہے۔ مذہب میں آپ متقدمین سے بازی نہیں لے جا سکتے۔ ان سے بڑے نہیں بن سکتے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے کہ مافوق الفطری ذریعہ علم ہما و شما کے لئے نہیں بلکہ چند برگزیدہ اور چنے ہوئے لوگوں کے لئے ہے۔ اور ہم کو ان کے فرمودات کی صرف تفہیم و توضیح، تاویل و تعبیر یا کہیں لیں کہ الفاظ کی ’’ شرح ‘‘ لکھتے رہنا ہے۔
یہی سبب ہے کہ مذہب کا تخلیقی دور اب گزر گیا۔ بالفرض محال مستقبل میں کوئی شخص آئے اور کسی مافوق الفطری دعوے کا سہارا لے کر دنیا کی سب برگزیدہ اور چنی ہوئی مذہبی شخصیتوں کے کارناموں کے نقش کو دھندلا کر دے تو اس مذہبی رہنما کو اپنے جیسے مذہبی رہنماؤں کا ایک سلسلہ قائم کر کے بتانا پڑے گا کہ نوع انسانی تک اس کا یہ پیغام جاودانی ہمیشہ پہنچتا رہا ہے اور ہر دور کے لوگوں کے سامنے حق و باطل میں سے کسی ایک پر چل کر اپنی جنت یا اپنا جہنم چن لینے کا آپشن تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر یہ الزام آئے گا کہ سابقہ افراد اس کے جدید مذہبی اصول نجات سے محروم رہے جس کو اس نے اتنے ہزار سال بعد پیش کیا! پس، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مذہب پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ کچھ خاص لوگوں پر ہدایت و رہنمائی کا بار ڈالے اور بقیہ عوام کو اس سے محروم کر دے۔
مذہب ایسا کیوں کرتا ہے؟ صرف اس لئے کہ ایک انسان اپنے بزرگوں سے دریافت کرتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے ، کہاں جائے گا، اور مرنے کے بعد اس کا کیا انجام ہوگا۔ سیکولرازم میں ان تین سوالوں کا سائنسی جواب موجود نہیں ہے جبکہ ہر مذہب ان سوالات کا ایسے جوابات فراہم کرتا ہے جو عقائد کی شکل میں ذہنوں میں راسخ ہو جاتے ہیں۔ یہ جوابات متفق علیہ کے بجائے مختلف فیہ ہیں۔ مختلف عقائد کی بناء پر مختلف قوموں کی تشکیل ہوتی ہے جو باہم برسرپیکار رہتی ہیں۔ ایسے سوالات چونکہ اسی دنیا میں آنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں ، اسی دنیا میں زندگی گزارنے کے طریقوں سے متعلق ہو تے یا ہو جاتے ہیں، اس لیے جب تک ان جوابات میں تصادم رہے گا تب تک ان کے ماننے والوں میں تصادم یقینی ہے۔ اس تصادم کو کم کیا جا سکتا ہے، بالکلیہ ختم نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں سوال پیدا ہوا کہ یہ تصادم یقینی کیوں ہے؟ اس لئے کہ دنیا میں دو قومیں ایک دوسرے کے ربط میں آنے کے بعد ایک دوسرے کے عقائد پر مطلع ہوتی ہیں، ان عقائد کی بنا پر استوار اوران سے ہم آہنگ عملی زندگی کو دیکھتی ہیں۔ ایک قوم کے افراد یہ دیکھتے ہیں کہ وہ مذہبی اسباب سے وہ باہم دگر نکاح نہیں کر سکتے، ایک کے ہاں جو کچھ کھایا پیا جاتا ہے وہ کھا پی نہیں سکتے، ایک کے ہاں بعض خونی رشتوں میں نکاح جائز ہے دوسرے کے ہاں یہ حرام ہے۔ تو ظاہر ہے بنیادی نوعیت کے سوالات کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ اور اس کے نتیجے میں ہر قوم اپنے طریقے کو صحیح اور دوسرے کے طریقے کو غلط ہی کہے گی۔ اور بات یہیں تک رہتی تو غنیمت تھی، لیکن جب ایک مذہب دعوت و تبلیغ کے ذریعے اپنے افراد قوم کی تعداد میں اضافہ کرتا ہے تو صورتحال بیحد مکروہ اور متعفن ہو جاتی ہے۔
یہ کوئی بین مذہبی یا بین قومی سچویشن ہی نہیں بلکہ ایک درون مذہبی اور درون قومی سچویشن بھی ہے۔ انسانی عقل کی انحرافی نوعیت کے سبب ایک مذہب مزید ذیلی مذاہب اور ایک قوم مزید ذیلی قوموں میں منقسم ہوتی چلی جاتی ہے۔ تقسیم در تقسیم کا یہ عمل جس قدر گہرا ہوتا جاتا ہے، جامعیت بشری تارتار ہوتی چلی جاتی ہے، ایک دوسرے کے ہاں کھانا پینا، شادی و غم، ملنا جلنا، سلام کلام سب حرام ہو جاتا ہے۔ پس درون مذہبی اور بین مذہبی تقسیم کی ایسی صورتحال میں فرقہ واریت کی تقریریں وجود میں آتی ہیں اور باہمی خون خرابے کے سبب مذہب کا کم از کم ایک مقصد تو فوت ہو جاتا ہے جس کے لیے مذہبی رہنماؤں نے اس کو پیش کیا تھا۔
اور یہیں مغربی افق سے سیکولرازم کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ چونکہ یہ طلوع ہی مغرب سے ہوتا ہے اس لئے یہ قیامت کی ایک نشانی ہے۔ سیکولرازم کہتا ہے کہ ہم قضیہ زمین برسرزمین کے اصول پر زندگی گزاریں گے اور جو سوالات اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، ان سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی سیاسی زندگی کو دنیاوی اصولوں پر گزاریں گے نہ کہ اسے مافوق الفطری علم کی رو سے پیدا ہونے والے مختلف فیہ عقائد کی بنیاد پر استوار کریں گے۔ چونکہ تجربے سے ثابت ہوا کہ کسی جغرافیائی خطے میں ایک سے زیادہ قوموں اور ذیلی قوموں یا فرقوں کے آباد ہونے کی صورت میں عقیدہ اور عمل کا اختلاف قتال و جدال کے سوا کسی اور نتیجے تک نہیں پہنچتا اس لیے مذہبی عقیدہ ہر قوم، فرقہ ، فرد اور جماعت کا ذاتی معاملہ ہونا چاہیے۔ مرنے کے بعد کی زندگی کیسی ہے، مابعد موت نجات کے صحیح اصول کیا ہیں، ان سوالات کا اس دنیا کے سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک یہ تعلق باقی رہے گا، باہمی خون خرابہ، فساد اور خونریزی سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا۔ پس، مذہب سیکولرازم کو نہیں گردان سکتا کیونکہ وہ انسان کی سیاسی زندگی کو مذہب کے دائرے سے نکال کر اس کی تحدید کا مرتکب ہوتا ہے۔
مذہب اور سیکولرازم کے درمیان فکری اختلاف اتنا شدید ہے کہ دونوں کے مابین مصالحت کی ہر کوشش بالآخر ناکام ہو جاتی ہے، اس لیے ایسی کوشش ناکام کے بجائے ان دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سیکولرازم میں مذہب کی گنجائش ہے یا مذہب میں سیکولرازم کی گنجائش ہے۔ لیکن اس اختلاف کے باوجود مذہب اور سیکولرازم دونوں ایک ساتھ ایک ہی شخص میں جمع ہو سکتے ہیں۔ جیسے ایک ہی کینوس پر سفید اور سیاہ رنگ ساتھ رہ سکتے ہیں بلکہ دوسرے بے شمار رنگ ساتھ رہ سکتے ہیں اور ایک جمالیاتی اثر پیدا کرتے ہیں۔ میں خود کو مسلمان سمجھتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی میں سیکولر بھی ہوں۔ اور میں اس کے لیے قرآن و سنت سے کوئی دلیل پیش نہیں کرتا اور نہ سیکولرازم کی تاریخ یا نظریے سے اپنے مذہبی عقیدے کی گنجائش برامد کرتا ہوں۔ مذہب اور سیکولرازم میں کوئی تطبیق دینا مجھے گوارا نہیں۔ اسی طرح مذہب اور ڈیموکریسی میں بھی میں کوئی مطابقت تلاش نہیں کرتا۔
ڈیموکریسی کے معنی جمہوریت کے نہیں ہوتے۔ ڈیموس کے معنی عوام، اور کریٹوس کے معنی حکومت، پس، ڈیموکریسی کے مغربی لفظ کے معنی عوام کی حکومت کے ہوں گے۔ جبکہ جمہوریت کے معنی اکثریت کی حکومت کے ہوں گے جس کو انگریزی میں آپ میجو رییٹیرین سسٹم یا میجوریٹیرین ازم کہہ سکتے ہیں جو ڈیموکریسی سے مختلف ایک شئے ہے۔ اس لیے جمہوریت ڈیموکریسی کا درست ترجمہ نہیں ہے۔ اردو میں ترجمہ کی ایک غلطی نے اردو آبادی میں کیسی کیسی غلط فہمیاں پیدا کر دی ہیں۔
یہ بالکل ظاہر ہے کہ مذہب اسلام نے عوام کو اپنا حکمراں، اپنا قانون ساز آپ بننے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اگر ہم قرآن کو آج کے لئے بھی ہدایت و رہنمائی مانتے ہیں تو قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ کافر اور ظالم ہیں۔ اسلام میں عوام کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اجتماعی طور پر خود حاکم مطلق بن بیٹھے اور قانون بنانے لگے۔ ڈیموکریسی میں عوام حاکم مطلق ہوتے ہیں اور اس میں قانون سازی کا ایک طریقہ یہ ہے کہ عوام کے افراد کی کثرت آراء سے عوام کے نمائندوں کا انتخاب ہوتا ہے تا کہ وہ بقدر ضرورت جیسی قانون سازی چاہیں کریں۔ عوام کے نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ ایک فرد یا جماعت کے نقطہ نظر سے متاثر نہ ہوتے ہوئے کل عوام کی اجتماعی فلاح کے نقطہ نظر سے قانون سازی کریں۔
ہمیشہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ ڈیموکریسی کی مجالس قانون ساز میں جو لوگ منتخب ہو کر پہنچتے ہیں وہ اکثریت کے نمائندے نہیں ہوتے بلکہ تمام عوام کے نمائندے ہوتے ہیں جن میں اقلیت بھی شامل ہے۔ اور یہ صرف ایک قانونی بات ہی نہیں بلکہ اخلاقی بات بھی ہے جس کی پابندی اگر نہ کی جائے تو سب گڑ گوبر ہوجائے گا۔
اوپر کی گزارشات سے واضح ہے کہ اسلام کے ڈھانچے میں ڈیموکریسی اور سیکولرازم کی کوئی جگہ نہیں اورنہ ڈیموکریسی اور سیکولرازم کے ڈھانچے میں اسلام کی گنجائش ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ یہ دنیا ایک کینوس ہے اور اس پر بہت سے رنگ ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ دنیا کے اس کینوس پر خون خرابے کا رنگ نہ پوتا جائے، ڈیموکریسی اور سیکولرازم صرف اس لئے ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ ڈیموکریسی اور سیکولرازم ایک دوسرے کے پورک یعنی لازم و ملزوم ہیں۔ اگر سیکولرازم کو خارج کر دیا جائے تو ڈیموکریسی کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔
اگر کسی ملک میں مسلمان اکثریت اپنا مذہبی نقطہ نظر اقلیت پر نافذ کرنے لگے تو ظاہر بات ہے کہ یہ ڈیموکریسی یعنی تمام عوام کی حکومت نہ ہوئی بلکہ فقط اسلامی جمہوریت ہوکر رہ گئی جو ڈیموکریسی سے مختلف چیز ہے۔ بعض لوگ یہ کہیں گے کہ بات ایک ہی ہے جمہوریت کہوں یا ڈیموکریسی، کیونکہ بہرحال اس نظام میں بات اکثریت ہی کی چلتی ہے، یہ صرف گھما کر ناک پکڑنا ہے اور کچھ نہیں۔ لیکن ایسے افراد ناعاقبت اندیش ہیں کیونکہ ڈیموکریسی کو جمہوریت کہہ کر ہم نظری اور اصولی طور پر اکثریت کو حاکم مطلق تسلیم کر لیتے ہیں، پھر اصولا کسی منتخب سرکار پر یہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری نہیں رہتی کہ وہ قانون سازی کرتے وقت تمام عوام کی فلاح کو ذہن میں رکھے۔
سرکار یہ صاف کہہ کر نکل جائے گی کہ ہم پر ایسی کوئی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم اقلیت کی فلاح کو بھی ذہن میں رکھیں۔ پھر ایسے نظام کو آپ جمہور کی بادشاہت ہی کہیں گے کیونکہ جب تک کسی سیاسی نظام میں حاکمیت مطلقہ عوام کے تمام افراد میں منحصر نہ سمجھی جائے گی، تب تک ڈیموکریسی کا لفظ اس نظام پر صادق نہ آئے گا۔ حاکمیت مطلقہ کو کل عوام ( ڈیموس ) کے اندر رکھ کر عوام ہی کے ایک حصے سے اس کو چھین کر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم چونکہ جمہور ہیں اس لیے حاکمیت مطلقہ ہم میں عود کر آئی ہے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.