کیا علمی نظریات بھی یہودی، عیسائی، ہندو یا مسلمان ہو سکتے ہیں؟
از، اورنگ زیب نیازی
اردو کے ایک معروف محقق اور ادبی مؤرخ کہتے ہیں ’’ساختیات یہودی ڈھکوسلہ ‘‘ہے۔ ایک ادب دوست نے اس فرمان کو تقویت دینے کے لیے ان ساختیاتی مفکرین اور نظریہ سازوں کی فہرست مرتب کی ہے جن کا تعلق یہودی مذہب سے ہے۔اسی ادب دوست نے مزید اطلاع دی ہے کہ ویت نام جنگ میں امریکہ کے بہیمانہ ظلم وستم اور قتل وغارت کے خلاف سارتر نے اعلان جنگ کر رکھا تھا ۔ادھر امریکی حکومت سیاہ فاموں کے مظاہروں سے بوکھلائی ہوئی تھی۔زچ ہو کر امریکی اسٹیبلشمنٹ نے سارتر کا توڑ نکالا،دریدا اور سارتر کی فکری دشمنی کو بھانپتے ہوئے،سرمایہ داروں کے ڈالروں کی مدد سے دریدا کو فرانس سے امریکہ بلوایا جہاں اس نے رد تشکیل کا نظریہ وضع کیا۔اس خدمت کے صلے میں اسے کیلے فورنیا کی لاس اینجلس یونیورسٹی میں ملازمت ملی۔
ہم ژاک دریدا،کلوڈیل لیوی اسٹراس،براونسکی،ہیرالڈ بلوم،ایم۔ایچ ابراہام،ہیلن سیکوا،سٹینلے فش،جیفری ہارٹ مین،رومن جیکب سن،لاکان،جوڈتھ بٹلر،والگانگ اسر،جیکولین اہر مین،لوسین گولڈ سمتھ،نوام چومسکی،پال ڈی مان،ایوا سیڈوک اور رچرڈ ہو مین کے یہودی المذہب ہونے سے تو انکار نہیں کر سکتے نہ ہی ژاک دریدا کی لاس اینجلس یونیورسٹی میں ملازمت کی حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں لیکن اپنے محدود علم اور کم فہم کے ساتھ ہم نے ساختیات کے خار زار کی خاک چھان لی،بسیار تلاش کے با وجود ہمیں کسی ’اعلان باالفور‘ یا امریکی سازش کا سراغ نہیں ملا۔اگر مذکورہ ادب دوست یا دوسرے دوستوں کے ہاتھ کوئی ایسا ٹھوس ثبوت لگا ہو تو ہمیں اطلاع دے کر شکریہ کا موقع دیں۔
ساختیات کی ابتدا،ارتقا اور مبادیات پر بار بار لکھی جانی والی باتوں کا اعادہ مناسب تو معلوم نہیں ہوتا لیکن جن قارئین نے ہمیں ابھی ابھی جوائن کیا ہے ان کی خاطر مختصراََ بتا دیتے ہیں کہ ساختیات کی ابتدا ایک فرانسیسی ماہر لسانیات ساسیئر کے لسانی نظریات سے ہوئی۔اس نے زبان کو نشانات کا نظام قرار دیا،نشانات کے مابین افتراق اور ارتباط کا رشتہ ہے جس سے معنی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔بعد ازاں رولاں بارت نے ادب پر اس کا اطلاق کیا اور ساختیاتی تنقید کے اصول وضع کیے،دریدا نے مزید اضافہ کیا کہ نشانات کے مابین صرف افتراق کا رشتہ ہے،اس لیے معانی مسلسل التوا کا شکار رہتے ہیں چناں چہ حتمی معانی تک رسائی ممکن نہیں۔لیوی اسٹراس،لاکان اور دوسرے مفکرین نے بشریات اور نفسیات کے مطالعات میں ساختیات سے مدد لے کر مزید وسعت دی۔
اب اس کٹھن علمی سفر میں مشرق بالخصوص عالم اسلام کے خلاف کب اور کیوں سازش کا تانا بانا بْنا گیا ،یہ اپنی سمجھ سے تو بہت ہی بالا تر ہے۔ہمیں زبان کی طاقت سے انکار نہیں،اس تاریخی صداقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ نو آبادیاتی عہد میں استعمار نے زبان اور علم کو اپنے منصوبوں کی تکمیل،اپنے اقتدار کی طوالت اور طاقت پر اجارہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ہندوستانی زبان کو دو الگ نام دے کر الگ مذہبی شناخت کی بنیاد رکھی، یوں تقسیم کیا اور مزے سے حکومت کی۔۔۔مگر دوستو! وہ زمانے لد گئے جب شاعر کی نظمیں آگ لگا دیا کرتی تھیں۔یہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے،اب آگ لگانے کا کام،الیکٹرانک،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا سے لیا جاتا ہے۔ہمارے جیسے زوال پذیر معاشرے میں کتاب کم خریدی جاتی ہے،بر گر زیادہ کھایا جاتا ہے۔
عالمی طاقتوں کے پاس اپنے ایجنڈے کی تشہیر کے لیے زیادہ آسان اور زود اثر ذرائع موجود ہیں۔کسی بڑے سے بڑے نقاد کے مضمون سے زیادہ پر اثر کوکا کولا کا وہ اشتہار ہے جو چار دن میں پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔پھر یہ بھی کہ سامراجی استعماری طاقت واحد معنی کا اجارہ چاہتی ہے۔ رد تشکیل نے تو واحد معنی کے تصور پر کاری ضرب لگائی ہے۔
کثیر معانی میں سوال اٹھانے اور مقتدرہ کو چیلنج کرنے کی طاقت ہوتی ہے پھر امریکہ جیسی سامراجی طاقت کثیر معنویت کے حامل نظریے کو کیوں فروغ دے گی؟زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا کسی علم پر مذہب کا اجارہ ہو سکتا ہے؟کیا علمی و ساینسی و فکری نظریات(مذہبی نہیں) بھی یہودی،عیسائی ،ہندو یا مسلمان ہو سکتے ہیں؟ اگر مغرب والوں نے یا یہودیوں نے زیادہ علمی کام کیا ہے تو اس لیے کہ ان کی علمی روایت مذہبی جبر سے آزاد تھی۔تحقیق اور تنقید تشکیک پسندی اور سوال اٹھانے سے آگے بڑھتی ہے۔
اگر مذہب سرایت کر جائے تو تحقیق ممکن نہیں۔صرف آزادانہ غور و فکر ہی بڑے علمی کارناموں کا باعث بنتی ہے۔جن یہودی ساختیاتی مفکرین کی فہرست اوپر دی گئی ہے کیا ان میں سے کسی مذہبی شدت پسند بھی کہا جا سکتا ہے؟ لیکن ساقی گلفام کا برا ہو جس نے باتوں میں لبھا کر ہمیں وہ جام پلایا کہ سو سال غلامی میں بسر کرنے کے با وجود بھی ہم کلونیل ذہنیت سے چھٹکارا نہیں پا سکے،ہمیں ہر چھوٹی بڑی بات میں مغرب کی سازش نظر آتی ہے۔ہم سوچتے ہیں اور سوچ کر ڈر جاتے ہیں کہ اگر کبھی موسم،بادل،خوشبو،ہوا،پھول،رنگوں اور پرندوں کو بھی یہودی،نصرانی اور مسلمان بنا دیا گیا تو دنیاکا کیا بنے گا؟