سیکورٹی سٹیٹ، کرنیل اور ٹھیکے دار کی اولادیں وغیرہ
از، محمد عاطف علیم
آپ لوگوں میں سے جو کوئی بھی حالاتِ حاضرہ سے با خبر رہنے کی عادتِ بد میں مبتلا ہے انھیں:
“لوٹ گیا، کھا گیا،
بھاگ گیا،
نہیں چھوڑیں گے،
پیٹ پھاڑ دیں گے،” وغیرہ
جیسی بڑھکوں سے گزرتے ہوئے اور وزیر نامہ کی دلدل میں سے پائنچے اٹھائے چلتے ہوئے بھولے سے میڈیائی درشن پالینے میں کام یاب ہونے والی ایسی خبروں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو کچھ دیر کو مُنھ کا ذائقہ خراب کر دیتی ہیں اور کچھ دیر کو آپ کے جذبۂِ ترحم کو ابھارتی ہوئی “ہور سناؤ کی حال اے” کی عافیت پر آ کر دم توڑ دیتی ہیں۔
ان زہریلی، کٹیلی خبروں کا موضوع عوام نامی مخلوق ہوتی ہے۔ کچھ اس طرح:
ریلوے کراسنگ پر پھاٹک نہ ہونے کے باعث بچوں کی سکول وین ٹرین سے ٹکرا گئی، اتنے بچے ہلاک__
فارم ہاؤس میں گائے گھس آنے پر وزیرِ مکرم کے محافظوں نے غریب کے گھر پر دھاوا بول دیا، بچوں سمیت سارا کنبہ حوالات میں بند__
نمبر دار کی شکایت پر تھانے میں پرائمری سکول ٹیچر کی چھترول__
عید پر بچوں کو نئے کپڑے خرید کر نہ دے سکنے والے باپ نے خود کشی کرلی__
ماں نے گھریلو حالات سے تنگ آ کر بچوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا دی__
نو جوان نے طویل بے روزگاری سے تنگ آ کر پٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگا دی__
غیرت کے نام پر نو بیاہتا دلہن کو شوہر سمیت بے دردی سے قتل کر دیا گیا__
توہینِ مذہب کے شک میں اہلِ علاقہ نے عیسائیوں کی بستی کو نذرِ آتش کر دیا__
توہینِ رسالت کے الزام میں قید شخص کے وکیل کو اس کے دفتر میں گھس کر گولیاں مار دی گئیں__
فلاں فلاں ٹی وی چینل کو کینٹ کے علاقوں میں آف ایئر کر دیا گیا، پیمرا کا اِظہار لا علمی__
کرونا وائرس سے طبی عملے سمیت نو سو بیس افراد ہلاک، ایک میجر شہید__
دہشت گرد حملے میں سیکورٹی فورسز کے چار جوان شہید، تین راہ گیر جاں بحق__
بلوچستان کے فلاں مقام پر مسخ شدہ لاشیں برآمد، مقتولین کو گھروں سے اٹھایا گیا تھا__
نہر کنارے سے صحافی کی تشدد زدہ لاش برآمد__
موٹر وے پر “ادارے” کے افسر کی کار روکنے پر نا معلوم افراد نے تھانے پر حملہ کر دیا، عملے کو بھاگ کر جان بچانا پڑی__
اور پھر ایک سو چھبیس دن تک دھرنا دینے والے کھلاڑی کی جگہ لینے کے لیے گیند چبانے والے کرکٹر کی سرپرستی شروع، وغیرہ وغیرہ۔
طبعِ نازک پر گَراں گزرنے والی خبروں کا طُومار ہی “خبر زدہ” قاری کی عافیت زدگی کو بد مزہ نہیں کرتا، بل کہ اسے خبر ناموں بیچ کچھ نا گوار اعداد و شمار سے بھی اکثر سابقہ پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر:
انسانی ترقی کے انڈیکس میں ڈیڑھ سو ملکوں میں پاکستان کا ایک سو اڑتالیسواں نمبر__
گذشتہ ایک سال میں غیر ملکی قرضوں میں ریکارڈ اضافہ__
صحافتی آزادی کے حوالے سے پاکستان بد ترین ملکوں کی فہرست میں شامل__ مذہبی روا داری کے حوالے سے ملک کی درجہ بندی میں مزید کمی__
کرپشن کے انڈیکس میں مزید دو درجے تنزلی__
خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک اور بد ترین سال__
ملک میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد اڑھائی کروڑ سے تجاوز کر گئی وغیرہ وغیرہ۔
یہ خبریں محض خبریں نہیں ہیں، یہ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک برقی تاریں ہیں جن کے پیچیدہ جال سے سیکورٹی سٹیٹ نامی روبوٹ میں توانائی کی لہریں دوڑانے کا شافی بندوبست کیا جاتا ہے۔
کوئی مجھ جیسا سادہ پوچھ سکتا ہے کہ سیکورٹی سٹیٹ ہے کیا؟
تو بھیا، سیکورٹی سٹیٹ ہٹلر کا جرمنی ہے، میسولینی کا اٹلی ہے، رابرٹ موگابے کا زمبابوے، بشار الاسد کا شام، صدام حسین کا عراق، قذافی کا لیبیا، سوہارتو کا انڈونیشیا، مارکوس کا فلپائن، سلوبودان میلوسووک کا سربیا، اور جانے کس کس کا سوڈان، صومالیہ، ایتھوپیا، روانڈا، چلی، کولمبیا، پاپوا نیوگنی، کمپوچیا، برما اور افغانستان ہے۔
اس فہرست کو آپ ربڑ کی طرح کھینچتے جائیں تو کھنچتی جائے گی اور جب چھوڑیں گے تو یہ ربڑ خود آپ کے مُنھ پر تڑاک سے آ لگے گا۔
البتہ ایک محب وطن شہری کی حیثیت سے آپ کی ذمے داری ہے کہ آپ “ہم زندہ قوم ہیں” کا ورد کرتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکنے سے گریز کریں۔
معلوم نہیں کہ ماہرینِ سیاسیات اس باب میں کیا کہتے ہیں لیکن ہمارا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ ایک سیکورٹی سٹیٹ کو چند مخصوص نظریات کا پانی دیا جاتا ہے اور روشن خیالی کی دھوپ سے بچانے کے لیے اسے مخصوص نرسریوں میں پروان چڑھایا جاتا ہے۔
اس طرح کی ریاست پر چند مخصوص طبقات قابض ہوتے ہیں جو ہَمہ وقت اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ طبقات اپنی طاقت عوام کی بَجائے غیر ملکی طاقتوں سے کشید کرتے ہیں اور بَعِوضِ نانِ جَوِیں ان کی ہر طرح کی خدمات سر انجام دینے پر مستعد رہتے ہیں۔
ان طبقات کو سب سے زیادہ خطرہ عوام سے ہوتا ہے جو کسی بھی وقت تاج اچھالنے اور تخت گرانے کا مُوڈ بنا سکتے ہیں سو ان کی متحدہ قوت کو توڑنے کے لیے انہیں گروہ در گروہ اور فرد در فرد بانٹ دیا جاتا ہے۔
یہاں تک یہ عوام قوم کی بجائے ایک ایسے ہجوم میں بدل جاتی ہے جس میں ہر فرد کا ایک ہاتھ دوسرے فرد کی جیب میں اور دوسرا ہاتھ اس کے گریبان میں ہوتا ہے۔
چُوں کہ سیکورٹی سٹیٹ مسلسل عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے لہٰذا وہ انتشار زدہ ہجوم پر ہر گز اعتبار نہیں کرتی اور مناسب سمجھتی ہے کہ اس کے مُنھ میں حب الوطنی کی چوسنی ڈال کر اسے مصنوعی نیند سلا دیا جائے۔
کبھی کبھار یہ طبقات دل لگی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ چور سپاہی کا کھیل بھی کھیلتے ہیں جسے “خبر زدہ” عوام اکثر سیریس لینا شروع کر دیتے ہیں۔
ایسی ریاست میں طاقت ہی بول چال کی زبان، طاقت ہی کرنسی اور طاقت ہی انصاف کا واحد پیمانہ ہوتی ہے۔ یہاں آگے بڑھنے اور نمایاں ہونے کے لیےنام نہاد انسانی معیار کام نہیں آتے اس کی بجائے حسب نسب، عہدہ، وردی، کسی کو نقصان پہچانے اور دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی صلاحیت معاشرے میں آپ کے مقام کا تعین کرتی ہے۔
اس حوالے سے سب سے قابلِ رَشک صلاحیت قانون کا جال توڑنے کی ہے۔ اگر آپ میں یہ ہمت ہے تو فابہا، آپ کے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے۔
تو بھیا جی، اگر ایک کرنیل کی زوجہ محترمہ نے ہزارہ موٹر وے میں کوئی سین پاٹ کر دیا ہے، یا کسی ٹھیکے دار کی بیٹی نے کسی گھر میں گھس کر ہلکا پھلکا ڈرامہ کر دیا ہے تو اس میں واویلا کیسا؟
کیا ان کا حق نہیں کہ جہاں اور لوگ اپنی اپنی جگہ پر طاقت کے مظاہرے میں مصروف ہیں وہ بھی شیریں کلامی اور سبک دستی کا مظاہرہ کر سکیں۔
آپ کو تو الٹا ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے آپ کو وہ سبق یاد دلا دیا جو آپ سوشل میڈیا اور انسانی حقوق کے پراپیگنڈے میں اکثر بھول جاتے ہیں۔