مقدس خواب و مکاشفات اور ملائے اعلٰی سے اتصال کے دعاوی
از، ڈاکٹر عرفان شہزاد
طالبِ علمی کا زمانہ تھا۔ شوقِ حصولِ علم کے ساتھ شوقِ ورع و تقوی بھی عروج پر تھا۔ ہر علمی و روحانی بلندی حاصل کرنے کا حوصلہ سینے میں موجزن تھا۔ اسی جوش و جذبے میں کچھ عرصہ تہجد پر بھی زور رکھا، اور اس سادہ دل بدو کی طرح جو پہلی بار نماز پڑھ کر وحی کے انتظار میں بیٹھ گیا تھا، ہم بھی خود پر کچھ انوار و تجلیات کی توقع لگائے بیٹھے تھے۔
انتظارالبتہ طویل ہو گیا، تنگ آ کر آخر ہم ڈاکٹر عبد الحئی عارفی صاحب کو اپنے خواب میں لے ہی آئے اور ان کی زبان سے اپنی مرضی کا ایک فتوٰی بھی نکلوا لیا جو آج سمجھ آتا ہے سرا سر ہمارے اپنے نفس کی آواز اور اپنی مرضی کا مغالطہ تھا۔ پھر یوں ہوتا کہ جس ہستی کے بارے میں ہم کچھ پڑھ رہے ہوتے، اس کی عکس اور جھلکیاں خواب میں آنے لگتیں، ہم سمجھتے کہ ہم پر ان کی نظر ہے۔ خود کو بڑا متقی سا محسوس کرتے۔ تین چار بار رسول اللہ ﷺ کی جھلک بھی اپنے تئیں خواب میں دیکھی۔ ایک ذرا اور محنت کرتے تو ہم خدا سے ہم کلام ہو نےوالے ہی تھے۔
ہمارے ایک قریبی قابل اعتماد دوست جو مولانا تقی عثمانی صاحب کے براہ راست شاگرد ہیں، نے یہ بتایا کہ مولانا تقی عثمانی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھنا محض انسانی تخیل کی کارِ فرمائی بھی ہو سکتی ہے۔
بعض اہل علم کے مطابق ایک روایت میں جو یہ آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے مجھ ہی کو دیکھا، شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا، یہ ان لوگوں کے لیے کہا گیا تھا جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ان کی زندگی میں دیکھا تھا، اس لیے اس وقت شیطان کے لیے یہ نا ممکن بنا دیا گیا تھا کہ وہ آپؐ کی صورت اختیار کر کے کسی کو گمراہ کر سکے۔ آپؐ کا یہ ارشاد ان لوگوں سے متعلق نہیں ہو سکتا جنھوں نے آپ کو دیکھا نہیں اور نہیں جانتے کہ آپ کیسے دِکھتے تھے۔ نیز اس روایت میں اس بات کی نفی بھی نہیں کی گئی کہ کسی کا تخیل، خواب میں آپؐ کی صورت گری نہیں کر سکتا۔ ایسے خوابوں میں انسان اپنے ہی خیالات کی باز گشت کو رسول اللہ ﷺہ کی طرف منسوب کر لیتا ہے۔
یہ سب ارتکازِ توجہ کی کارستانی ہے۔ ارتکازِ توجہ بڑھ جائے تو یہی خواب جاگتی آنکھوں سے بھی نظر آنے لگتے ہیں۔ اس سے دھوکا ہو جاتا ہے کہ آدمی کوئی پہنچی ہوئی چیز ہے۔ لیکن حقیقتًا ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ البتہ روحانی طاقتوں کو بڑھا کر کچھ عجیب کام اور کچھ خفیہ معلومات حاصل کر لی جا سکتی ہیں، جیسے مختلف ورزشوں سے آدمی اپنی جسمانی طاقتوں کو بڑھا کر غیر معمولی کام کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے، لیکن ان روحانی مشقوں کا کوئی تعلق عالِم بالا سے نہیں ہے، کسی مذہب سے بھی اس کا تعلق نہیں، ہر مذہب اور ہر سماج میں ایسے روحانی طاقت کے حامل لوگ مل جاتے ہیں۔ حضرت سلیمانؑ کا درباری جو ملکہ سبا کا تخت لے آیا تھا ایسا ہی کوئی علم جانتا تھا۔ یہ روحانیات بھی اسی دنیا کی طاقتوں سے متعلق ہیں۔ جہاں تک عالمِ بالا کے حالات کا تعلق ہے تو ان کی اطلاع ایک رسول کو بھی اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اسے خود نہ بتایا جائے۔ یہ بات قرآن میں واضح طور پر بتائی گئی ہے:
مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ إِذْ يَخْتَصِمُونَ إِن يُوحَىٰ إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ (سورہ ص، 38:69-70)
مجھے عالم بالا کی کچھ خبر نہ تھی، جب دوزخ کے لوگ (وہاں) جھگڑ رہے ہوں گے۔ (یہ وحی کی باتیں ہیں اور) مجھے تو یہ وحی صرف اِس لیے کی جاتی ہے کہ میں (خدا کی طرف سے) ایک کھلا خبردار کرنے والا ہوں۔
باقی سب کے لیے وہاں داخلہ اور سماعت قطعا ممنوع ہے:
إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ وَحِفْظًا مِّن كُلِّ شَيْطَانٍ مَّارِدٍ لَّا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ وَيُقْذَفُونَ مِن كُلِّ جَانِبٍ دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ (سورہ الصافات، 37:7-10)
اِس میں شبہ نہیں کہ (تمھارے) قریبی آسمان کو ہم نے تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے۔ اور ہر سرکش شیطان کی دراندازی سے اُس کو بالکل محفوظ کر دیا ہے۔ ملاء اعلیٰ کی طرف کان نہیں لگا سکتے اور (لگائیں تو) بھگانے کے لیے۔ ہر طرف سے دھتکارے جاتے ہیں اور یہ اُن کے لیے دائمی عذاب ہے۔ تاہم کوئی شیطان اگر کچھ لے اڑے تو ایک دہکتا شعلہ اُس کا تعاقب کرتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ روحانی وارداتوں سےحق و باطل کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ حق و باطل ایک آزمایش ہے جس کی مخاطب عقل ہے۔ حق و باطل کے فیصلے میں روحانی مشاہدہ و تجربہ اس آزمایش کا ہی خاتمہ کر دیتا ہے، یہ خدا کے ہاں مقصود ہی نہیں۔ جو لوگ تلاشِ حق کا راستہ مکاشفات سے طے کرنا چاہتے ہیں، ان کو یہ مکاشفے ہونے بھی لگتے ہیں مگر کیا آج تک حق و باطل کا فیصلہ ان سے ہو سکا؟ اہل تشیع کو ان کے آئمہ سے اور اہلِ سُنن کو ان کے بزرگوں سے ہی کیوں روحانی فیض ملتا ہے، اس کے برعکس کیوں نہیں ہوتا؟ حتٰی کے یونان کے صوفیا کو یونانی علمِ کلام کی عقلِ اول، دوم، سوم وغیرہ سے ملاقاتوں کی داستانیں ان کے قصص الاولیاء میں درج ہیں۔
ملائے اعلٰی سے ربط و اتصال کا دعوٰی، محض دعوٰی ہے۔ ایسے تمام دعاوی محض اپنے صدائے نفس کی بازگشت ہے، ان کے بھروسے پر کی گئی پیشن گوئیوں کا حال بھی ہمارے سامنے ہے۔ سید احمد شہید جن کی روحانیت ایک عالم کے لیے مسلمہ ہے، ان کو رنجیت سنگھ کی حکومت کے خلاف اپنی فتح کے بارے میں اپنے الہامات پر ایسا تیقن تھا جیسے سورج کی موجودگی کا، مگر ہوا کیا؟ وہی جو ایک چھوٹے کمزور گروہ کا اپنے سے کئی گنا طاقت ور دشمن کے مقابلے میں ہوتا ہے، وہ اور ان کی ساری قیادت بالا کوٹ کے میدان میں سکھ فوج کے مقابلے میں ماری گئی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ انسان کا شوق سہی کہ وہ روحانیت کے میدان میں بھی محیر العقول کارنامے سر انجام دے، لیکن حقائق کے افشاء اور حق و باطل کے میدان میں یہ کوئی معیار نہیں ہیں۔