علم کا حصول اپنے اندر خلا کا خلق مانگتا ہے
از، نَیّر عباس
ہم سب پر فرض ہے کہ علم حاصل کرنے اور اسے پھیلانے کی جستجو کریں۔ حصولِ علم کے لیے دوسری اقوام کے افکار اور فلسفے سے استفادہ کرنا بھی اہم ہے۔ اسی ضرورت کے پیشِ نظر اوشو کی تقاریر کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ قارئین کی اکثریت اوشو کی شخصیت سے واقف ہے۔ ان کی کئی کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ موجودہ ترجمہ ان کی کتاب The Perfect Master میں جمع کی گئی تقاریر کا ہے۔ ان تقاریر کا ترجمہ سلسلہ وار نظرِ قارئین کیا جائے گا۔ رَہ نمائے کامل: صوفیاء کی کہانیوں پر تقاریر یہ تقاریر 21/06/78 سے 30/06/78 کے دوران صبح کے اوقات میں کی گئیں۔
حصۂِ اول
جب پیرو کار تیار ہوتا ہے
(21جون 1978 بدھا ہال میں کی گئی تقریر)
ایک آدمی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک رہ نمائے کامل کو تلاش کرے گا۔
اس نے بہت سی کتابیں پڑھیں، ایک کے بعد ایک درویش کے پاس گیا۔ (تبلیغ) سنی، بحث و مباحثہ کیا، ریاضت کی، لیکن اس نے اپنے آپ کو ہمیشہ حالتِ شک میں میں پایا۔
بیس سال کے بعد اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس کا ہر قول و فعل اس شخص کے نظریۂِ انسانِ کامل سے مطابقت رکھتا تھا۔
اس مسافر نے کوئی وقت ضائع نہ کیا۔ اس نے اس شخص سے کہا،”آپ مجھے ایک رہ نمائے کامل محسوس ہوتے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے تو پھر میرا سفر اختتام کو پہنچا۔”
“حقیقتاً مجھے اسی نام سے ہی پکارا جاتا ہے،” رہ نما نے کہا۔
“پھر میں آپ سے مؤدبانہ عرض کرتا ہوں کہ مجھے اپنے مرید کے طور پر قبول فرما لیجیے۔”
رہ نما نے کہا،”میں ایسا نہیں کر سکتا کیوں کہ تم ایک رہ نمائے کامل کی تلاش میں ہو، وہ بھی اس کے بدلے میں ایک شاگردِ کامل کا طلب گار ہے۔”
رہ نمائے کامل صرف اُسی وقت ملتا ہے جب کہ پیرو کار تیار ہو۔ اس کے علاوہ کبھی نہیں۔ کسی اور طریقے سے نہیں۔ زندگی کے سفر میں کسی اور لمحے نہیں۔ مرید کو ہر لمحے تیار اور پختہ رہنا چاہیے؛ وہ کسی خاص لمحے ظاہر ہو جاتا ہے۔ مرید کو کان اور آنکھیں چاہییں اور ایسا دل چاہیے جو محسوس کر سکے۔ سورج کیسے ظاہر ہو سکتا ہے اگر تم اندھے ہو؟ سورج تو ظاہر جائے گا، لیکن تم اس سے نا بلد رہو گے۔
جب تک تمھارے پاس آنکھیں نہیں، تو دنیا میں کوئی خوب صورتی نہیں۔ پھول کھلیں گے لیکن تمھارے لیے نہیں۔ اور ستارے آسمان کو بیش بہا خوب صورتی سے بھر دیں گے، لیکن تمھارے لیے نہیں۔ جب تک تمھارے پاس آنکھیں نہیں تو دنیا میں کوئی خوب صورتی نہیں۔
اگر تمھارے دل میں محبت نہیں تو تمہیں محبوب نہیں ملے گا۔ بنیادی ضرورت پوری کرنی پڑتی ہے۔ صرف محبت ہی محبوب کو پاتی ہے۔ آنکھیں خوب صورتی کو پا لیتی ہیں؛ اور کان نغمہ و سر کو پا لیتے ہیں۔
لیکن ایسے بھی لوگ ہیں، اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، بَل کہ اکژیت ان ہی کی ہے، جو کسی موجود شے کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔
لیکن اس کے مطابق اپنے اندر قبولیت کی صلاحیت پیدا نہیں کرتے۔ میرا ایسے بہت سے لوگوں سے پالا پڑا ہے جو کسی رہ نما کی تلاش میں ہیں اس بات سے بالکل نا واقف کہ پیرو کار تو موجود ہی نہیں۔ پیرو کار تو ہے ہی نہیں۔ تو رہ نما کو کیسے پا سکتے ہو؟
رہ نما صرف پا لی جانے والی چیز نہیں۔ سب سے پہلے وہ تمھارے مَن کے اندر ہونا چاہیے؛ یہ مریدی ہے۔ مستعدی، پیاس، ایک شدید خواہش، سچائی کے لیے عظیم جذبہ، ان صفات کی کمی ہے۔ اور پھر لوگ تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اگر وہ نہیں پا سکتے تو یہ حیرانی کی بات نہیں۔ وہ نہیں پا سکیں گے! انہیں کئی رہ نما ملتے ہیں لیکن وہ یہ مواقِع ضائع کرتے رہیں گے۔
تم رہ نما کو کیسے دیکھ سکتے ہو اگر تم اس کے اہل نہیں ہو؟ تم رہ نما کو کیسے دیکھ سکتے ہو اگر تمہیں یہ ہی معلوم نہیں کہ مرید ہونا کیا ہوتا ہے۔
رہ نما کی تلاش کا آ غاز مرید بننے سے ہوتا ہے۔ حقیقی متلاشی وہ ہے جو رہ نما کی فکر نہیں کرتا کہ وہ کہاں ہے؛ اس کو تمام پریشانی اس بات کی ہے کہ وہ اپنے اندر ایک مرید کیسے پیدا کرے، کس طرح ایسا مُتَعَلِّم بنا جائے جو سچائی کو قبول کرنے والا دل رکھتا ہو؛ اور کس طرح موجود معلومات کے بَہ جائے اپنی جبِلّی معصومیت پر بھروسا کرتے ہوئے عَمَل کیا جائے۔
اگر تم معلومات کی بنیاد پر عَمَل انجام دیتے ہو تو تمہیں بہت سے استاد ملیں گے لیکن رہ نما کبھی نہیں ملے گا۔ اگر تم پہلے سے کچھ جانتے ہو، اور تمھارا یہ خیال ہے کہ تم کچھ جانتے ہو، تو پھر تمھیں اور جاننے والے، دعوے دار ملیں گے جو اس میدان میں تم سے آگے ہوں گے۔ تم صرف ان لوگوں سے ملو گے، جن سے مل سکتے ہو: (یعنی) تم اپنے جیسے لوگوں سے ملو گے۔ ایک ایسا شخص جو اپنی ان معلومات کی بنیاد پر عمل انجام دے گا جو اس نے اکٹھی کی ہیں تو وہ بہت سے اسا بھید پا لے گا اور بہت سی چیزیں سیکھ لے گا۔ لیکن کبھی کو رہ نما نہیں پا سکے گا۔
رہ نما کو پانے کے لیے آپ کو ایک بچہ بننا پڑے گا۔ رہ نما کو پانے کے لیے تمھیں معصوم ہونا پڑے گا، جو کچھ نہ جانتا ہو، خالی الذُّہن سچائی کے جذبے سےبھر پُور، لیکن اس کے بارے میں کسی حتمی نتیجے تک پہنچے بَہ غیر؛ یہ سیکھنے کی اصل حالت ہے۔ اور پھر تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں: رہ نما خود تمھارے پاس آئے گا۔
یہاں پر بہت سے ایسے سنیاسی موجود ہیں جو مجھے تلاش کرتے ہوئے میرے پاس نہیں آئے، بَل کہ میں نے انہیں پا لیا۔ وہ میری وجہ سے آئے، نہ کہ اپنی وجہ سے۔ یہ حقیقی آمد ہے۔ جب تم اپنی وجہ سے آتے ہو تو یہ آنا بالکل نہ آنے کے مترادف ہے۔ تم وہیں رہتے ہو (جہاں تھے)، ضدی، خود پرست، انا سے پُر؛ میرے آنے کے لیے تمھارے مَن میں جگہ ہی نہیں۔
یہ ایک متلاشی کے لیے بنیادی ضرورت ہے کہ وہ ایک سیکھنے والا ہو۔ سیکھنے سے میری مراد یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی فطری معصومیت کی بنیاد پر اپنا عمل انجام دے۔ کسی شخص کو اپنے اندر حتمی نتائج جا گُزیں نہیں کرنے چاہییں کیوں کہ یہ حتمی نتائج تمہیں کچھ سیکھنے نہیں دیں گے۔
اگر کوئی چیز ان نتائج کے خلاف جاتی ہے تو تم حتماً اسے مسترد کر دو گے۔ اور اگر کوئی چیز ان کے خلاف نہیں جاتی تو پھر تم کچھ بھی سیکھ نہیں رہے، بَل کہ تمھارا پرانا تعصب مزید مضبوط ہو رہا ہے۔
اگر کوئی نظریہ تمھارے نظریے جیسا ہے تو یہ کوئی تعلیم نہیں۔ اس نے تو صرف پرانی ذہنیت کو مضبوط کیا ہے۔ اور رہ نما ایسا نہیں کر سکتا۔ اسے ایک نئے ذہن کی تخلیق کے لیے فرسودہ ذہنیت کو جڑ سے اکھاڑنا پڑتا ہے۔ اسے ہر اس چیز سے تمھاری جان چھرانی پڑتی ہے جو ہمیشہ سے تمھارے پاس رہی ہوتی ہے۔ اسے تمھارے مَن میں ایک خلا کی تخلیق کرنی پڑتی ہے۔ اگر تم حتمی نتائج، تعصبات، نظریات اور فلسفے سے چمٹے رہو تو تم رہ نما سے نہیں مل سکو گے؛ کیوں کہ اس کا تمام کام اس فلسفے کو ختم کرنے پر مشتمل ہے۔ اسےسچائی سے دل چسپی ہے۔ وہ کسی چیز کے بارے میں صرف اندازے لگانے پر یقین نہیں رکھتا۔
اس دن میں برک، Edmond Burke کا ایک بیان پڑھ رہا تھا:
زیادہ تر لوگ بلا حیل و حجت یہ بات تسلیم کریں گے کہ آلو ایک اہم شے ہے۔ تاہم مشکل وقت میں (جب ان کی اشد ضرورت ہو) آلوؤں کے بارے میں گفتگو ان کا متبادل نہیں بن سکتی۔ بالکل ایسا ہی مذہب کے ساتھ ہے۔
مجھے یہ بیان پسند ہے۔ رہ نما اصلی آلوؤں میں دل چسپی رکھتا ہے، نہ کہ آلوؤں کے بارے میں فلسفیانہ گفتگو سے۔ اگر تم حتمی نتائج کے ساتھ آتے ہو تو پھر تم نہیں آ سکتے، یہ حتمی نتائج تمھارے اور رہ نما کے درمیان بہت بڑی رکاوٹیں ہیں۔
ہر کسی کو کھلے دل اور دست یاب ذہن کے ساتھ آنا پڑتا ہے۔ اس کو اس حالت میں آنا پڑتا ہے کہ وہ کچھ نہ جانتا ہو۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے: اگر تم پہلے سے کچھ جانتے ہو تو پھر تم دست یاب نہیں ہو۔ تمھاری معلومات راستے کی رکاوٹ ہیں۔
پیرو کار بنو۔ رہ نما کی فکر نہ کرو۔ جب تم تیار ہوتے ہو تو رہ نما ظاہر ہو جاتا ہے۔
کبھی کبھار رہ نما حیران کن انداز میں ظاہر ہوتا ہے، لیکن وہ ظاہر ضرور ہوتا ہے۔
جب کبھی کوئی شخص پختہ ہو جاتا ہے تو جلوۂِ خدا کئی صورتوں میں اسے اپنا دیدار کراتا ہے۔ رہ نما خدا کی وہ آخری صورت ہے جو پیرو کار پر ظاہر ہوتی ہے۔ رہ نما کے بعد پھر اور کوئی جلوہ باقی نہیں۔ پھر خدا ہے بَہ غیر کسی شکل و صورت کے۔
رہ نما وہ شئے ہے جو تمھارے جیسا نظر آتا ہے، جو تمھاری طرح رہتا ہے، جسے تم چُھو سکتے ہو، مکالمہ کر سکتے ہو، جو تمھاری طرح بات کرتا ہے۔ رہ نما کے بعد خاموشی ہے، کامل اور حتمی خاموشی، بَہ غیر کسی دخل اندازی کے۔ رہ نما کے بعد کوئی وُجُود نہیں ہے۔ رہ نما دنیا اور خدا کے درمیان ایک واسطہ ہے۔
اگر تم دنیا اور اس کے رسم و رواج اور دستور العمل سے خائف ہو، تو رہ نما کی تلاش نہ کرو؛ بَل کہ اس بات کو تلاش کرو کہ پیرو کار کیسے بنا جاتا ہے۔ اپنے آپ کو تعصبات اور بنیاد پرستی کے بوجھ سے آزاد کرنا شروع کرو۔ وہ سب بھلا دو جو جانتے ہو۔
رامانا ماہا رِشی گلے ملنے والے پیرو کاروں سے کہا کرتے تھے،”اگر تم میرے ساتھی بننا چاہتے ہو تو تمھیں اپنی پہلی معلومات کو ذہن سے نکالنا پڑے گا۔ اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر میرے پاس تمھیں دینے کے لیے کچھ نہیں۔ تم پہلے سے ہی لب ریز ہو۔”
تمھیں زِن کی مشہور کہانی کا علم ہے؟
فلسفے کا ایک استاد ایک عظیم رہ نما سے ملنے گیا اور اس نے خدا کے بارے میں پوچھا اور کرما کے بارے میں پوچھا اور اس نے نظریہ اوتار کے بارے میں پوچھا اور اس نے بہت سی باتوں کے بارے میں پوچھا … سوالات، سوالات اور سوالات۔ اور رہ نما نے جواب دیا، “تم تھکے ہوئے ہو، سفر طویل تھا، اور میں دیکھ سکتا ہوں کہ اس گرم سہ پہر پہاڑ کی چڑھائی چڑھنے کی وجہ سے تمھاری سانس پھولی ہوئی ہے۔ یقیناً یہ ایک تھکا دینے والا کام تھا۔ تم انتظار کرو؛ کوئی جلدی نہیں ہے۔ ان سوالات کے لیے کچھ انتظار کیا جا سکتا ہے۔ میں تمھارے لیے چائے کا ایک کپ تیار کرتا ہوں۔ کیا معلوم؟ چائے پیتے ہوئے تمہیں جواب مل جائے۔”
اب پروفیسر الجھن کا شکار ہوئے اور کچھ شک میں پڑ گئے کہ اس کا اس پاگل آدمی کے پاس آنا صحیح بھی تھا، یا نہیں۔ ” کسی سوال کا جواب صرف چائے پی کر کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔” لیکن اب واپس جانے کی کوئی صورت نہیں تھی؛ انھیں تھوڑی دیر آرام کرنا پڑا۔
“اور چائے کوئی نقصان کا باعث تو نہیں بننی، تو کیوں نہ چائے پی جائے، اور اس کے بعد یہاں سے رفُو چکر ہوا جائے۔”
رہ نما چائے لے آئے، کیتلی سے کپ میں چائے انڈیلنا شروع کی اور انڈیلتے ہی چلے گئے۔ کپ بھر گیا، اور پھر چائے طَشت میں گرنا شروع ہو گئی اور طَشت بھی بھر گیا۔ پھر اس پروفیسر نے کہا، “رُکو تم کیا کر رہے ہو؟ چائے فرش پر گرنا شروع ہو جائے گی۔ کپ میں ایک قطرے کی بھی گنجائش باقی نہیں۔ تم پاگل ہو یا کچھ اور؟”
رہ نما اس بات پر کھلکھلا کر ہنسے اور انھوں نے کہا، “تو تم ذہین ہو! تم سمجھ سکتے ہو۔ اگر کپ میں گنجائش نہیں تو پھر ہم میں مزید چائے نہیں ڈال سکتے۔ کیا تمھارے ذہن میں گنجائش ہے؟ میں جو کچھ بھی ہوں وہ سب تمھارے اندر منتقل کرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن کیا تمھارے ذہن میں گنجائش ہے؟ کیا یہ حد سے زیادہ بھرا ہوا تو نہیں، جس میں بہت کچھ ٹھونسا گیا ہو؟”
“یہ میرا جواب ہے،” رہ نما نے کہا۔ “دو بارہ آنا۔ پہلے اپنے دماغ کو خالی کرو۔ ایسی حالت میں آؤ کہ تمھارا ذہن معلومات سے خالی ہو۔ تمھارے پاس حد سے زیادہ معلومات ہیں۔ وہ تمام آواز جو تمھارے اندر جاری ہے، میں اُسے سن سکتا ہوں۔ کچھ مزید خاموشی کی حالت میں آؤ۔ اور تم سیکھنے کے لیے نہیں آئے ہو؛ تم تو بحث کرنے کے لیے آئے ہو۔”