زیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا
امجد اسلام امجد
عام طور پر غربت، آبادی، روزگار کے مواقع، صحت، تعلیم، دہشتگردی، گڈ گورننس اور سوشل سیکیورٹی کو پاکستان کے بنیادی اور زیادہ اہم مسائل کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جو کوئی اتنا غلط بھی نہیں کہ اس فہرست میں شامل مسائل کو ان کی شدت کے اعتبار سے آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ہیں یہ سب کے سب ہمارے حقیقی اور اہم ترین مسائل ہیں، یہ اور بات ہے کہ ستر برس قبل یعنی آزادی کے فوراً بعد یہ تعداد کے اعتبار سے بھی کم تھے اور ان کی شدت اور پیچیدگی بھی نسبتاً قابل برداشت تھی۔
اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ ہر مسئلے کے بطن سے کئی کئی بچے نہ صرف پیدا ہو گئے ہیں بلکہ بعض نے تو اپنے والدین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مثال کے طور پر صحت کے مسئلے کو ہی لے لیجیے: آزادی کے وقت ڈاکٹرز کم اور اسپتال بہت ہی کم تھے جب کہ غیر ملکی فارما سوٹیکل کمپنیاں نہ ہونے کے برابر تھیں کہ گنی چنی بیماریوں کی بدیشی ادویات سے قطع نظر زیادہ تر کام مقامی طور پر تیار کردہ عمومی نوعیت کی کچھ گولیوں اور مکسچرز ہی سے چلا لیا جاتا تھا اور ڈاکٹرز اپنے علم اور تشخیص کی صلاحیت سے مریض اور مرض کا علاج کرتے تھے۔
خون اور پیشاب وغیرہ کے لیبارٹری ٹیسٹ کا رواج بہت کم تھا اور ایکسرے مشین کو بہت خاص مواقع پر تکلیف دی جاتی تھی اور یہ سب کچھ نہ صرف سستا تھا بلکہ خصوصی معالج حضرات بھی ان کے بلا ضرورت استعمال سے گریز کرتے تھے۔ اس زمانے کی دوا ساز کمپنیاں مختلف النوع بیماریوں پر گہری تحقیق کرنے کے بعد جو دوائیاں بناتی یا ایجاد کرتی تھیں ان کی قیمتیں کم سے کم رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی تاکہ یہ غریب آدمی کی دسترس میں بھی رہ سکیں۔ پھر ہوا یوں کہ خدمت خلق کی جگہ ناجائز منافع خوری نے لے لی اور دوائیوں کی جگہ بیماریاں ایجاد ہونے لگیں۔
دوسری طرف ڈاکٹر حضرات کے ایک مخصوص طبقے میں بھی ہوس زر نے اس طرح سے گھر بنالیا کہ نہ صرف انھوں نے اپنی فیسوں میں مسلسل اضافہ کرنا شروع کردیا بلکہ بعض تو اس کھیل کے باقاعدہ حصہ دار بن گئے۔ رہی سہی کسر میڈیا کے اشتہارات نے پوری کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے ادویہ کی قیمتیں آسمان سے بات کرنے لگیں۔
محکمہ صحت جس کا کام اس طرح کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا اور صورتحال پر مسلسل نظر رکھنا تھا یا تو خود اس کا ساجھے دار بن گیا یا اعلیٰ حکومتی افسران اور ارباب اختیار کے ’’مشترکہ مفادات‘‘ کے پیش نظر ایک خاموش تماشائی بن گیا۔ اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بیشتر دوا ساز کمپنیاں اپنے اس خطیر ناجائز منافع کا ایک حصہ باقاعدگی سے اپنے ساتھ تعاون کرنے والے ڈاکٹرز، اسپتالوں کے اعلیٰ افسران اور ان حکومتی عمائدین پر خرچ کرتی ہیں جن کی وجہ سے یا تو ان کی پراڈکٹس کی فروخت میں اضافہ ہوتا ہے یا پھر ان کی مدد سے وہ ان کی قیمتوں میں جب چاہے اضافہ کرسکتے ہیں۔
اس ضمن میں آزمودہ طریقے متعلقہ ڈاکٹرز اور ان کی فیملیوں کو فری غیر ملکی تفریحی دورے کرانا اور ان کے بچوں کا غیر ملکی یونیورسٹیوں میں تعلیمی خرچ برداشت کرنا یا انھیں قیمتی تحفے پیش کرنا ہے جب کہ محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران اور وزیروں وغیرہ کو پلاٹوں، کوٹھیوں، کاروں اور نقدی کی صورت میں oblige کرنا ہے۔
واضح رہے کہ ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ لوگ not for sale ہوتے ہیں، سو ہمارا اشارہ صرف ان لوگوں کی طرف ہے جو اس ’’باہمی تعاون‘‘ کا حصہ بننا منظور کرلیتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب اتنا پرانا ہوچکا ہے کہ اب اسے ایک طرح سے part of the game سمجھ کر مان لیا گیا ہے اور اس پر کوئی انگلی بھی نہیں اٹھاتا۔ قانون ساز اداروں، عدلیہ، انتظامیہ، میڈیا اور عمومی طور پر عوام کی اس مشترکہ بے حسی اور بے نیازی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے اس ظالمانہ بے انصافی کی ایک نئی شاخ بھی پیدا اور تناور ہوگئی ہے جس نے جینے کے ساتھ ساتھ غریب آدمی کا مرنا بھی مشکل کردیا ہے۔
عرف عام میں اسے میڈیکل ٹیسٹ اور لیبارٹری رپورٹ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر خصوصی معالج حضرات ڈیڑھ دو ہزار مشورہ فیس لینے کے بعد اتنے منٹ مریض کو نہیں دیکھتے جتنے اسے ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں اور آدھے سے زیادہ نسخوں میں ایکسرے، الٹراساؤنڈ، سی ٹی سکین اور MRI بھی شامل ہوتے ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے کچھ یا سب کے سب ٹیسٹ واقعی ضروری ہوں لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ تقریباً ستر فیصد مریضوں کی ماہانہ آمدنی سے زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔
اسی طرح کے ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ صرف دس برسوں میں ان ٹیسٹوں کی قیمت میں دو سے تین سو فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے اور یہ کہ اب کوئی قسمت والا ہی مریض ہوگا جس کے نسخے میں کم از کم دو چار ٹیسٹ شامل نہ ہوں اور عجیب و غریب بات یہ ہے کہ جو ڈاکٹر حضرات غیر ضروری ٹیسٹوں سے اجتناب کرتے ہیں انھیں عام طور پر زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔
اطلاعات کے مطابق دنیا کی بعض بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں اپنی تحقیق اور لاگت کے خرچے کو پورا کرکے اور جائز منافع لے کر کسی نئی دوا کو عام کرنے کے لیے نہ صرف پہلے باقاعدہ پلاننگ کے تحت متعلقہ مارکیٹوں میں اس کے خوف کو پھیلاتے ہیں بلکہ اس کی قیمت میں اس قدر ہوشربا اضافہ کر دیتے ہیں کہ تمام جائز اور ناجائز خرچوں کے بعد بھی منافع کی شرح اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ آدمی کا دماغ گھوم جاتا ہے اور اس پر سب سے زیادہ سنگین مذاق یہ ہے کہ یہ سب کچھ خدمت خلق کے نام پر کیا جاتا ہے۔
بھارتی اداکار عامر خان نے کچھ عرصہ قبل اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں ایک ایسے کامیاب اور انسان دوست ڈاکٹر کو پیش کیا تھا جو اسی ’’لیبارٹری بزنس‘‘ کے انسان کش رویے سے تنگ آکر واپس یورپ لوٹ گیا جب کہ اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ غیر ضروری ٹیسٹوں سے لوگوں کو منع کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی لیبارٹری پر بازار سے بہت کم قیمت پر یہ ٹیسٹ کردیتا تھا۔ کمیشن کھانے والے ڈاکٹرز نے اس کی لیبارٹری کے ٹیسٹ قبول کرنے یا اس کی طرف ریفر کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا اور منافع خور لیبارٹری اونرز نے مل جل کر اس طرح اسے دیوار سے لگادیا کہ وہ وطن اور عوام کی خدمت کے جذبے کو دل ہی میں سمیٹ کر واپس چلا گیا۔
ایسے کچھ ڈاکٹرز اور لیبارٹریاں یقینا وطن عزیز میں بھی موجود ہیں۔ کوشش کرنی چاہیے کہ ان کا حوصلہ اور جذبۂ خدمت خلق قائم رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان نیک نام اداروں کے ذمے دار حضرات کی توجہ بھی اس طرف مبذول کرانی چاہیے کہ وہ جن لوگوں کو فرنچائز کے ذریعے اپنے نام کی لیبارٹریاں چلانے کی اجازت دیتے ہیں ان کے کام کے معیار، سہولیات اور چارجز پر نظر اور کنٹرول رکھنا ضروری ہے۔ جائز منافع ضرور کمائیے مگر بلڈ ٹیسٹ کے بدلے میں لوگوں کا خون مت چوسیئے کہ بقول شاعر؎
زیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا
بشکریہ ایکسپریس اردو۔ یہ مضمون بعنوان، صحت کا جگا ٹیکس، شائع ہوا