حسی تجربات اور تخیل

Rozan Social Speaks
ایک روزن سوشل

حسی تجربات اور تخیل: فیس بک میسنجر میں ایک چَیٹ

رپورٹ از، یاسر چٹھہ 

آج صبح فیس بک پر جانا ہوا تو جناب ارشد معراج کی وال پر ایک مکالمے کو دیکھا۔ مکالمہ دل چسپ لگا۔ غور کیا تو مکالمے کے خاتمے پر لکھا تھا:

(…سلسلہ جاری ہے۔)

تحریر کی پشت پر ثبت اس جاری سلسلے کی ترکیب کو دیکھا تو خیال آیا کہ اسے ذرا سنجیدگی سے پڑھتا ہوں۔ لیکن یہ بات بھی ذہن میں تھی کہ جو داستاں کہہ رہے ہیں وہ بھی تو بات پوری کریں، سو وہیں عرض کیا:

“I’m in for reading and please complete it till you choose to be silent.”

اس جملے کی آہٹ پاتے ہی ارشد معراج نے کہا:

 Please suppose it, we are silent … 😊

اسی جواب کے نیچے عنبرین احمد نے بولا کچھ نہیں بس ایموجی کا ٹانکا کچھ یوں لگایا:

“🤐🤐🤐”

گویا عنبرین احمد نے تین دفعہ ہونٹوں پر لگے تالے سے باور ہمیں یہ کرایا، یا ہم یہ سمجھے کہ اب مکالمہ کرنے والے افراد کی اب بس ہو گئی ہے۔ تو اس کے بعد ہم نے اس مکالمے کو اپنے انداز سے پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس متن میں قَوسین کے اندر دخل اندازی ہماری ہے، خیالات کو بدلنے کی شعوری کوشش نہیں کی۔ حوالوں کی درستی کے لیے تصدیق کی اور باقی تحریر آپ کے سامنے ہے۔

اس مکالمے کے سیاق و سباق کے بارے میں جب ارشد معراج سے دریافت کیا تو انھوں نے جواب میں کہا:

“موضوع تو کچھ اور تھا: شاعر اور شاعر کا کردار اور اس کی شاعری پر بات ہو رہی تھی، لیکن (گفتگو کا رخ اور وسعت) تبدیل ہوتے گئے اور (یہ بات) حسّی، ادارکی تجربات، قوّتِ متخیّلہ، تاریخ، مذہب، نیریٹر/رائٹر، تخلیق کار کے تضادات اور اے آئی تک پہنچ گئی۔ یہ سلسلہ سوال در سوال کی بناء پر آپ ہی آپ جنم لیتا رہا۔ ہم اس سارے عمل کو سمجھنا چاہ رہے تھے۔ عنبرین احمد کا اپنا مؤقف تھا، میرا اپنا مختلف مؤقف۔

“اس طرح کچھ سوالات میرے ذہن میں ابھرے جس کا انھوں نے جواب دیا، کچھ سوالات ان کے تھے جنھیں میں تسلی بخش جواب دینے کی کوشش میں غلطاں تھا۔ آخر میں اس گفتگو کو اکٹھا کیا تو دل چسپ مکالمہ معلوم ہوا۔ عنبرین احمد کی اجازت سے دوستوں کے ساتھ شئیر کیا تا کِہ اس موضوع پر دیگر صاحبانِ علم و ادب کی آراء سے بھی مستفید ہو سکیں۔”

یہاں یہ بتانا مناسب رہے گا کہ ارشد معراج اسلام آباد میں اردو کی تدریس سے وابستہ شاعر، نقاد اور دانش ور ہیں، جب کہ عنبرین احمد بنیادی طور ہر انگریزی زبان و ادب کی استاد ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کے ایک کالج میں گذشتہ نو برس سے شعبۂِ تدریس سے وابستہ ہیں۔ آپ اردو میں آزاد نظم اور نثری نظم لکھتی ہیں، لیکن تا حال ان کی نظمیں کہیں (روایتی کاغذ پر) شائع نہیں ہوئیں۔ اب بزم اللہ کریں اور مکالمہ پڑھیے:

عنبرین احمد: “لڑکیاں شاعر پر مرتی ہیں، صرف شاعر پر؛ اس مرد پر نہیں! جیسے شاہ رخ خان پر مرتی ہیں، اس کے (نبھائے کسی فلمی) کردار پر مرتی ہیں، اس فرد پر نہیں؛ یہ الگ ںات ہے کہ اکثر خود ہی ان دونوں entities میں فرق نہیں کر پاتیں۔”

ارشد معراج: “فرد الگ تو نہیں ہوتا ویسے؛ فن اور فرد (باہم) آمیختہ ہیں، ورنہ فن پارے کی تحلیلِ نفسی سے فرد مِنہا کر دیا جاتا؛ گو پوسٹ ماڈَرن تھیوری نے مصنف کی موت کا اعلان کر کے کہا کہ فرد شاعر صرف اک میڈیم (ہی ہوتے) ہیں جن پر متن اترا ہو، لیکن مجھے یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔”

عنبرین احمد: “الگ کیا جا سکتا ہے؛ تحلیلِ نفسی والے مبالغہ بہت کرتے ہیں۔ فرد اور تخلیق، ایک دوسرے کا reflection تو ہو سکتے ہیں، (تاہم) ایک entity نہیں ہو سکتے: کیا آئینے میں عکس اور سامنے کھڑا شخص ایک ہوتے ہیں؟”

ارشد معراج: “یہ بات درست ہے کہ creative being اور social being میں فرق ہوتا ہے۔ شاعر جو کچھ اپنی تخلیق میں ہوتے ہیں، وہ عام زندگی میں نہیں ہوتے۔ لیکن ایک مقام پر یہ دونوں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ تخلیق عکس نہیں ہے، خود تخلیق کار ہے۔ مجھے اگر تجربہ نہیں ہوا تو میرے بیان میں وہ شدت کے ساتھ نہیں آ پائے گا؛ اگر تخیّل کی سطح پر آتا ہے تو وہ پھیکا ہو گا، شدت پیدا نہیں کر سکتا جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لے۔”

عنبرین احمد: “عدمِ اتفاق…” 

ارشد معراج: “کیسے؟”

عنبرین احمد: “تخیل بہت طاقت ور چیز ہے، تجربے سے بھی زیادہ (طاقت ور)!”

ارشد معراج: “تخیل کس کا؟ ظاہر ہے ایک فرد کا ہے، اس فرد کے ذہن کے پراسِس سے مائنڈ کی پروڈکٹ ہے تو کیسے پروڈکٹ پر نظر (تو) جائے مَینیُوفیکچرر یا ایجاد کرنے والے پر نہیں؛ تھیوری آف رَیلیٹِوٹی سے آئن سٹائن کو کیسے مِنہا کر دوں۔”

عنبرین احمد: فرد کا ذاتی کچھ نہیں ہوتا، پہلی بات؛ فرد بَہ ذاتِ خود ایک continuum کا حصہ ہے: دُوجا، تخیّل چُوں کہ boundless ہے اور تجربہ محدود، تو تخیل تجربے میں موجود ڈیٹا سے (کئی ایک) unlimited نئے combinations بنا سکتا ہے۔ تجربہ اگر غلط ہے تو تخیل گرَینڈ سکیل پر اس کی خرابی کو exaggerate کر سکتا ہے۔ تجربے کے فہم نے اگر حقیقت کو چکما دیا تو تخیل تجربے کو حقیقت سے کوسوں دور لے جائے گا: (دُور کہیں) سرابوں میں!”

ارشد معراج: “فرد تنہا کچھ نہیں، وہ سوسائٹی کے کے (کسی نہ کسی) یونٹ کا ایک حصہ ہیں اور سوسائٹی ہی سے وہ حِسّی تجربے اور تخیل تک پہنچتے ہیں۔ ٹارزن کیسے تخیل کی کارِ فرمائی سے پہنچ سکتا تھا، جس تخیل تک غالب یا مِیر پہنچے۔ وجودیت کہتی ہے، “وجود، جوہر پر مقدّم ہے،” یعنی وجود ہو گا تو جوہر ہو گا، اور وجود فرد ہے۔

“تخیل میرا، اور پیغمبر کا، یا گوتم کا مختلف کیوں ہے۔ وہ متن جو گوتم پر اترا، مجھ پر کیوں نہیں اترا؟ کیا فرد صرف ایک میڈیم ہے؟ اگر ایسا ہو تو وہ متن کسی پر بھی اتر سکتا ہے تو کیوں آئن سٹائن پر اترا؟ کیسے نیوٹن کو ادارک ہوا؟ سیب تو ہر روز ہر کوئی گرتا دیکھتا ہے۔ حسی تجربہ محدود نہیں ہے۔ تخیل کی پرواز بھی حِسّی تجربات کی ultimate سطح ہے جو فرد ہی کر سکتا ہے۔ تجربہ غلط ہو یا دُرُست، دونوں شکلوں میں کچھ دیتا ہے، اور کچھ نہیں تو (کم از کم) سوچ یا تخیل (ضرور دیتا ہے)! 

“نہیں ایسا نہیں، یہ فہم ہی ہے جو تخیل کا سبب ہے، ورنہ عام انسان اور ایک فن کار کے تخیل اور حسی تجربات کیسے مختلف ہو سکتے ہیں؟”

عنبرین احمد: ہماری تاریخ، سماج، مذہب و  ذات کا نوّے فی صد بیانیہ تخیل پر ٹِکا ہے، اب چاہے وہ ذاتی تخیل ہو یا پلانٹِڈ!”

ارشد معراج: “تاریخ کا بیانیہ مختلف بات ہے جو واقعات کی سچائی یا سچائی کو دھندلا یا گدلا کر کے پیش کیا جاتا ہے اس میں تخیل کی کارِ فرمائی نہیں ہے۔ مذہب اساطیر ہر کھڑا ہے اور اساطیر قدیم سے جدید اور ارضی سے سماوی داستانوں پر انحصار کرتی ہیں؛ یہ داستانیں تخیل کی کارِ فرمائی ہیں، لیکن وہ بھی کسی دِماغ کا تخیل ہے، یا ہوا میں معلق ہے؟ ذات کا بیانیہ بھی فرد کی ذات ہے اسی کا تخیل ہے۔ تجربات سے مراد یہ ہے کہ اگر حِسّی تجرِبات سے آگے وِجدان کا تجربہ اور ادارک کی راہیں ہیں تو ظاہر ہے وہ بھی فرد ہی کے تجرِبات ہیں خواہ وہ حسّی ہوں یا ادارکی یا وِجدانی: گوتم سے الگ کر کے اس کے وِجدان کا مطالَعہ کیسے ممکن  ہے؟

عببرین احمد: “تاریخی بیانیہ جان بوجھ کر نہیں دھندلایا جاتا۔ زیادہ تر کیسِز میں، یہ تضادات در اصل میڈیم (ہی) کی کجی ہے۔ حسی تجربے (کے) ذاتی فہم میں تفاوت کی وجہ سے، آبجیکٹو ٹرُوتھ تک پہنچنا مشکل ہے۔

“داستانیں اور اساطیری تخیل ہوا میں معلق نہیں ہیں، بَل کہ حِسّی تجربے کے ناقص فہم کی وجہ سے اتنے زیادہ پَنَپے ہیں۔

“حِسّی تجرِبہ، وِجدان، ادراک _کچھ بھی کہ لیں_ یہ اگر چِہ فرد کی شخصیت کی پیداوار ہیں، لیکن فرد کسی کی پیداوار ہے؟ فرد خود بھی تو چُوں چُوں کا مربّہ ہے۔

“میں یہ نہیں کہتی کہ تخلیق پر فرد کی چھاپ نہیں ہوتی، میں یہ سمجھتی ہوں کہ تخلیق فرد سے علیحدہ اپنے بَل پر اپنی پہچان بنا سکتی ہے۔”

ارشد معراج: “مجھے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آئی کہ تاریخ کی ذَیل میں حِسّی تجربہ ذاتی فہم میں تفاوُت کی وجہ ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ  اپنے مفادات کی خاطر تاریخ کے ٹھوس بیان کو بدلا جا سکے، لیکن یہ کیسے (کہہ سکتے ہیں کہ)  معروضی حیثیّت تک پہنچنا تخیل کی کارِ فرمائی ہے۔ تاریخ کے بیانیے کو قارئین کس طرح سمجھتے ہیں، یا اس بیانیے سے کس تخیل کو جنم دیتے ہیں، یہ الگ بحث ہے۔”معروضیت، بہ ہر حال، تاریخ کے بیانیے میں قائم رہتی ہے، جو تخیل کی کارِ فرمائی نہیں ہے، بَل کہ واقعات اور حالات کا جھوٹا سچا_ جو بھی کہہ لیں_ بیانیہ ہے۔

“حسی تجربے کو کیسے ادنیٰ سطح قرار دیا جا سکتا ہے؟ معراج کا واقعہ اگر حِسّی تجربہ نہ سہی، (لمحے بھر کو فرض کیجیے کہ) تخیل کی کارِ فرمائی ہے، تو وہ بھی تو ذہن کی پیداوار ہی (ہو گا) نا۔ مجھے صرف یہ سمجھا دیجیے کہ تخیل:

1۔  کہاں؟

2۔ کیسے؟

3۔ اور کس پر؟

4۔ کیوں؟ 

5۔ کس لیے اترتا ہے؟ 

“فرد کس کی پیداوار ہے؟ یہ مسئلہ تو حل طلب ہے۔ مذہبی (علم) کہتا ہے خدا کی، اور سائنس (اندازِ علم) کہتا ہے کہ تصادم کی، (تاہم) یہ الگ بحث ہے: فی الحال، فرد کے حسّی تجربے اور تخیل پر بات ہو رہی ہے۔ 

“تخلیق جب ہو چکی ہوتی ہے تو اس کی اپنی پہچان بن سکتی ہے، لیکن تخلیق، تخلیق کار سے ہی منسُوب رہے گی، ہوا سے منسوب نہیں ہو سکتی۔ وحی، پیامبر سے، شاعری، شاعر سے، اداکاری، اداکار سے، مصوّری، مصوّر سے، گیت، گیت نگار (سے اور) گلوکار سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔”

عنبرین احمد: “کئی نِکات پر بات ہو سکتی ہے:

پہلے نُکتے سے اتفاق ہے کہ فرد سوسائٹی اور اپنے مادی حالات کا نتیجہ ہوتے ہیں؛ وہیں سے وہ اپنے حسّی تجربات اور ان کا فہم حاصل کرتے ہیں۔

“دوسرا نُکتہ، اسی (پہلے نُکتے) سے جُڑا ہے۔ وجود، جوہر پر مقدّم ہے اور وجود پر کیا مقدم ہے؟ شاید وہ تمام عوامِل جو اس کی شخصیت بنارہے ہیں۔ ٹارزن اور غالب کی جگہ باہم بدل دیں، دونوں کا نتیجہ مختلف ہو گا؛ (نتیجہ) وہ نہیں رہے گا، جو اب ہے۔

“حسی تجربہ بھی ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ہم حقیقت کو مختلف طریقے سے perceive کرتے ہیں، بَل کہ مجھے لگتا (ہے کہ) حسّی تجربے کو پراسِس بھی تخیل ہی کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر ہم مفروضے بناتے ہیں۔

اب یہ کہنا کہ ایک جیسا حِسّی تجربہ فن کار اور ایک عام فرد کا الگ کیسے ہو سکتا ہے؟ میرے خیال میں ہوتا بھی نہیں؛ یہ صرف حِسّی تجربے کی processing ہے، جو اس کے اظہار کو مختلف بناتی ہے۔

“آئن سٹائن کبھی بھی کوائنٹم فزکس کی ںنیاد نہ رکھ پاتے، اگر ان کے پیچھے وہ پورے کا پورا پہلے سے ہی موجود نہ ہوتا۔ نیوٹن کا law سیب کا مرہونِ منّت نہیں، بَل کہ اس عرق ریزی کا نتیجہ ہے جو انھوں نے اتنے سالوں فزکس پڑھنے پڑھانے اور تجربات (کرنے) میں گزاری۔

“یہ processing کرنے والے فرد پر منحصر ہے، اس فرد کی تربیت پر منحصر  ہے، اس فرد کی قدرتی صلاحیتوں پر منحصر ہے، اس بِیج پر منحصر ہے جو قدرت نے ان کو دیے، بَہ شرط یہ کہ اسے مناسب مٹی اور پانی میسّر  ہو جائے۔

ارشد معراج: “1۔ پہلے نُکتے سے آپ نے اتفاق کیا ہے، (اس لیے) اس سے صرفِ نظر (کرتا ہوں۔) 

2۔ وجود، جوہر پر مقدم ہے۔ وجود کس پر مقدم ہے؟ یہ تو انڈا پہلے، یا مرغی پہلے والا معاملہ ہو گیا۔

3۔ میں نے پہلے یہ عرض کیا ہے کہ حِسّی تجربات ہر کسی کے مختلف ہوتے ہیں۔ ایک عام آدمی کے تجربات اور ایک تخلیق کار، سائنس دان، یا مذہبی راہ نُما کے تجربات ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ میرا خیال ہے کہ تخیل حسی تجربات کی اعلیٰ ترین شکل ہے جو دماغ کا کِیا دَھرا ہے؛ اور دماغ کسی فرد کا ہی ہو سکتا ہے، جان ور تو اس حس سے ما وراء ہوتے ہیں۔ مفروضے بھی تجربات کی بنیاد پر تخیل کی سطح پر ترتیب پاتے ہیں۔ جو مادی صورت میں موجود یوتے ہیں ان کا ادارک ثروَت مند ہوتا ہے۔ 

4۔ یہ نُکتہ چھوڑ دیا۔

5۔ آئن سٹائن، نیوٹن یا کوئی بھی معاشرے کی مادی پروڈکٹ ہوتے ہیں اور کچھ ڈپازٹ جو دوسروں کے تجربات سے اجتماعی لا شعور کا حصہ بنتے ہیں، انھیں ہی لے کر آگے چلتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی مفروضہ ایسا بھی ہو جو بالکل نیا اور مختلف ہو، اس سے پہلے اس میدان میں کسی نے کوئی بات ہی نہ کی ہو۔ یہ سوچ اور تخیل کی کارِ فرمائی ہے۔ لیکن تخیل کس کا ہے؟ ظاہر ہے، فرد کا (ہی ہو گا!)

5۔ جی میں اسی processing کے بارے عرض کر رہا ہوں۔ قدرتی صلاحیتیں بھی تب جِلا پکڑتی ہیں جب ان کی پُشت پر حِسّی تجربات ہوتے ہیں: شاعری کرنے کے لیے اوزان سیکھنا پڑتے ہیں؛ کوائٹم تھیوری یا لاء آف فورس کے لیے فزکس کا مطالعہ ضروری ہے۔ صرف قدرتی صلاحیتیں بھی تب تک کارِ فرما نہیں ہوتیں جب تک شعوری کوشش شامل نہ ہو اور شعوری کوشش فرد کرتے ہیں، تب وہ تخیل کو بیان کر سکتے ہیں۔ انگریزی پڑھانے والے creative writing سکھاتے ہیں۔ وہ بحر، وزن، تشبیہ و استعارے کا استعمال تو سکھا سکتے ہیں، لیکن خیال نہیں (سکھا سکتے)۔ خیال ذاتی صلاحیت ہے اور ذاتی صلاحیت اس خاص صِنف میں تب اظہار پائے گی جب وہ اس فن سے واقف ہوں گے، اور فن مادی شے ہے؛ سو مطلب یہ ہے کہ تخیل تنہا کچھ نہیں۔ اظہار تک آنے کے لیے فن، جو شعوری اور مادی تجربے کا محتاج ہے، اس سے گزر کر آنا پڑے گا۔”

عنبرین احمد: “شیکسپیئر کا ایک کردار کیسِئیَس ایک ڈرامے جُولِیئس سِیزر میں کہتا ہے: 

“The fault, dear Brutus, is not in our stars, but in ourselves, that we are underlings”

ایک اور جگہ قطَعی الگ بات کرتا ہے۔

کیا narrator اور writer ایک ہی شخصیت ہوتے ہیں؟”

ارشد معراج: “نَیرَیٹر تو محض بیان کرنے والے ہوتے ہیں، جب کہ رائٹر لکھنے والے تخلیق کرنے والے ہوتے ہیں۔ تخلیق کار ایک جہان آباد کرتے ہیں جو موجود سے مختلف ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ جو جہان ان کے تجربے میں آیا وہ رہنے کے قابل نہیں۔ سو انھوں نے اک نیا جہاں، اُنھی تجربات کے رد میں تخیل کی سطح پر بنا دیا۔ یہاں بھی تجربات کی اہمیت تو موجود ہے، (بھلے) وہ غلط ہوں، یا دُرُست، یہ الگ بحث ہے؛ یوٹوپیا اسی کو (تو) کہتے ہیں، شاید!”

عنبرین احمد: “حسی تجربہ ذاتی فہم میں تفاوت کی وجہ سے الگ نتائج دے گا۔ ایک پینسل پانی میں ڈال دیں۔ جن کو refraction of light کا phenomenon معلوم ہے وہ تو حقیقت پا جائیں گے، جن کو نہیں معلوم ان کا کیا؟

“وہاں (پر) پھر اس نے توجیہات تخیل سے ہی گھڑنی ہیں۔ عوام کو لُوٹنے کے لیے یونانی پروہِت یہی کرتے تھے۔”

ارشد معراج: “1۔ حسی تجربے اور ذاتی فہم کی ذرا الگ الگ تعریف کر دیں اور اس میں تفاوُت کیسے پیدا ہوتی ہے، یہ بتا دیجیے۔ نتائج کیسے الگ ہوتے ہیں ذرا واضح کر دیجیے، تا کِہ مجھے سمجھ آ جائے۔

2۔ یہ پینسل والا معاملہ فزکس کے لوگ جان سکتے ہیں، اس سے ایک شاعر کا (بھلا) کیا واسطہ؟ ہاں فزکس جاننے والے اگر سمجھ نہ پائیں تو پھر مسئلہ ہے۔ لیکن اس کا تعلق حِسّی تجربے اور تخیل سے کیسے جوڑ سکتے ہیں؟ 

3۔ توجیہات مادی رُوپ میں سامنے آتی ہیں، گَھڑ لیں تو بھی یہ ذہن کی کارِ فرمائی ہے۔

4۔ یونانی پروہتوں کے بارے میں لا علم ہوں، یونانی سوفسطائیوں کی بات کریں تو کچھ ذرا برابر جانتا ہوں۔

عنبرین احمد: “کوئی رائٹر اگر مختلف اپنی تخلیق میں ایک مَطمحِ نظر رکھ رہے ہوں تو کیا ہم اس رائٹر کا مَطمحِ نظر جان سکتے ہیں؟”

ارشد معراج: “شاعر کی تمام شاعری تضادات سے بھری ہو سکتی ہے۔ اقبال ایک طرف مارکس اور نپولین کی تعریف کرتے ہیں، دوسری طرف مسلم امّہ کی عظمت کی بات کرتے ہیں اور پوری دنیا میں ایک اسلامی سلطنت قائم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ تضادات ہو سکتے ہیں، لیکن نَیریٹر اور رائٹر کا فرق کیسے واضِح ہو گا؟ مجھے یہ دونوں مختلف لگتے ہیں۔ اگر رائٹر اپنی تحریر میں پہلے سے موجود متن کی نَیریشن پر اتر آئے ہوں تو وہ رائٹر تو نہ ہوئے: یہ بات سمجھ آتی ہے کہ رائٹر ہو سکتے ہیں اور نہیں بھی؛ ہر کوئی رائٹر نہیں ہوتا۔”

عنبرین احمد: “اب جان مِلٹن کی پیراڈائز لاسٹ کی مثال لے لیں۔ کتنے تضادات ہیں رائٹر کے بیانیے میں۔ کیسے پتا چلے کہ رائٹر کا نقطۂِ نظر کیا ہے؟”

ارشد معراج: “کسی لکھاری کی کُل تحریریں تضادات سے بَھری پُری ہو سکتی ہیں۔ کائنات ارتقاء پذیر ہے، نظریات بھی ارتقاء پذیر ہیں۔ اس بِناء پر کسی لکھاری کی ابتدائی تحریر، آخری سے متصادم ہو سکتی ہے۔ ذہنی ارتقاء، مطالَعہ، مشاہدہ، تجربہ یا کسی بھی سبب سے بدل سکتا ہے۔ لیکن ہم اس لکھاری کی تحریروں کے کُل  سے غالب رجحان کو کشید کر کے ان کے نقطۂِ نظر کا تعین کریں گے۔ جیسے اقبال ابتداء میں وطنیت پرست تھے۔

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گُلستاں ہمارا

لیکن بعد میں:

چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا 

مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا 

“یہ وحدتِ امتِ مسلمہ اور سلطنتِ اسلامیہ کی بات ہے۔ ہم اقبال کے غالب رجحان کے سبب انھیں امتِ مسلمہ کے درد مند سمجھتے ہیں، یہی ان کا نقطۂِ نظر ہے۔ 

“ہاں یہ بات اور ہے کہ اگر ایک ہی تحریر میں تضادات پائے جاتے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ لکھاری اپنے خیال میں واضِح نہیں کہ وہ کیا لکھنا چاہتے ہیں؛ یہ ایک بودی تحریر ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ وہی لکھاری آگے چل کر اپنے خیالات کو ایک جگہ مُجتمَع کر لیں اور ان کا نقطۂِ نظر واضح ہو جائے۔”

عنبرین احمد: “نریٹر اور رائٹر مختلف ہی ہوتے ہیں،

اور اسی بناء پر میں کہہ رہی ہوں کہ تخلیق اپنا الگ وجود اور علیحدہ شناخت بھی رکھتی ہے۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تخلیق کرنے والوں کا تخلیق کرنے کے بعد اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ظاہر ہے پَرتَو تو وہ انھی کا ہی ہے۔

ارشد معراج: “پوسٹ ماڈرن ازم یہی کہتا ہے کہ رائٹر ایک میڈیم ہے، ان کا تخلیق سے کوئی لینا دینا  نہیں۔ یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی۔ 

دوسرا، میرے نزدیک تخلیق، تخلیق کار کا عکس نہیں ہوتی؛ یہ ان کے وجود/خیال/حِسّی تجربے کا حصہ ہوتی ہے جیسے کوئی بچہ ماں کی تخلیق ہوتی ہے، بچے ماں سے الگ پہچان رکھتے ہیں، لیکن وہ ماں ہی کی توسیع ہوتے ہیں۔” (سَروگیٹ ماں عصری تصور، شاید، اس ‘توسیع’ کی تمثیل کے لیے تشریح کا متقاضی ہو۔ سروگیسی کے اس تصور میں دو مختلف افراد پیداواری خُلیات سے conceive شدہ بچے کسی اور ماں کے رِحم میں نشو و نما پاتے ہیں۔ *مدیر ایک روزن)

عنبرین احمد: ارّے حضور، ہم نے بھی یہی کہا ہے۔ چیٹ دوبارہ دیکھیے۔ باپ بیٹے کی مثال دینے لگی تھی، پر شاعروں کی کثیرُ الاولادی سے چڑ کر یہ مثال نہیں دی۔[….]

ارشد معراج: اس بات سے اتفاق ہے کہ کیا ہر تحریر، تخلیق ہے یا نہیں، حضور، میں بھی مان رہا ہوں۔

عنبرین احمد (چیٹ اور مسیجنگ کو زبانی رُو بہ رُو مکالمے اور تحریر سے الگ قسم کی سوچ و فکر کا سیاق سمجھتے ہوئے کہتی ہیں): در اصل، چَیٹ اور میسجنگ (قسم کے ذرائع) ایسے مباحِث کے لیے کچھ ناقِص ذرائع ہیں؛ شاید رُو بَہ رُو مکالمہ ہو تو کچھ واضح صورتِ حال سامنے آتی۔

ارشد معراج: “اے آئی (AI) خود اعتراف کرتی ہے کہ میرے پاس جو جمع ہے، اور جو کتابوں میں لکھا ہے، اسے ہی استعمال میں لا کر نئی چیز تخلیق کر دیتی ہوں۔ ابھی وہ خود اس قابل نہیں کہ نیا خیال پیش کرے، لیکن شاید ایسا ہو جائے کہ وہ نیا خیال بھی پیش کر سکے۔”

عنبرین احمد: “مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہمارا اختلاف کہاں ہے۔ میں نے بھی کم و بیش یہی بات کی ہے۔”

ارشد معراج: “اختلاف یہاں سے شروع ہوا کہ حِسّی تجربات سے تخیل زیادہ بلند ہوتا ہے، اور یہ دونوں (آپسی) الگ ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ دونوں الگ نہیں، ایک ہیں؛ جب کہ آپ انھیں الگ الگ تصور کر رہی ہیں۔”

عنبرین احمد (چند سطریں اوپر کہی اپنی بات کو دُہراتی ہیں): در اصل، چیٹ اور میسجنگ ایسے مباحث کے لیے کچھ ناقِص ذرائع ہیں۔ شاید رُو بہ رُو مکالمہ ہو تو کچھ واضِح (اور مختلف) صورتِ حال سمجھ آتی۔

ارشد معراج: (چیٹ اور میسیجنگ کو زبانی مکالمے سے مختلف تصور کرتے ہوئے، کسی معروف قسم کی سنجیدہ تحریر کے آس پاس کے مقام پر رکھتے کہتے ہیں): “چیٹ اور میسجنگ ذرا سا سوچ کر لکھنے کا، وقت دے دیتے ہیں جب کہ گفتگو بے ساختہ ہوتی ہے، بعض اوقات فوری طور پر وہ نِکات ذہن میں نہیں آتے جو ایک دو منٹ کے وقفے کے بعد آسانی سے آ جاتے ہیں۔ ویسے میں رُو بہ رُو مکالمے کے لیے بھی حاضر ہوں، زَہے نصیب!”

عنبرین احمد: ہاں یہ بھی صحیح  ہے۔ جیسے  بندہ  کسی سے لڑے تو ٹائم پر طعنے ہی یاد نہیں آتے۔

ارشد معراج (لفظوں میں جواب دینے کے بجائے سوشل میڈیا کی دین ایموجی میں کہتے ہیں): ☺️

عنبرین احمد: “اچھا یہ اختلاف ہے۔ اس کو تو میں مثال سے واضِح کر سکتی ہوں۔ میں یہ کہہ رہی کی تخیل زیادہ طاقت ور ہے، اتنا (مؤثر) کہ حسّی ادراک کو بھی دُھندلا سکتا ہے۔”

ارشد معراج: “یہ مانا کہ تخیل حسی ادارک کو دھندلا سکتا ہے، لیکن پھٹتا کیسے ہے؟ 

تخیل کیسے پرواز کرتا ہے؟

کہاں؟

کیوں؟

کیسے؟

کب؟ کس لیے؟”

عنبرین احمد: “کیوں؟ (جب) ضرورت (ہو۔)

کہاں؟ ذہن میں (ہوتا ہے۔)

کیسے؟ ذاتی میکَنِزم شاید سب کے لیے الگ ہوتا ہو۔

کب؟ (جب) intense تجربہ ہو۔

کس لیے؟ شاید کتھارسس کے لیے!

تخیل کی بنیاد حسی تجربہ ہی ہے۔ لیکن یہ کبھی اتنا طاقت ور ہو جاتا ہے کہ حسّی تجربہ یا ادراک کا رد کر سکتا ہے۔

It (i.e., creativity) soars so high that it somewhat detaches from sensory perception.

اس لیے تخلیق علیحدہ شناخت رکھتی ہے۔🤣

(…سلسلہ جاری ہے۔) 

جیسے کہ اوپر کہا، اب یہ دونوں محرکین مکالمہ اس مدعے پر مزید بات کرنے سے فی الوقت گریزاں ہیں۔ اس لیے یہ سلسلہ اگر جاری بھی رہا تو یہاں یہی ہے جو شائع ہو گیا۔

About یاسرچٹھہ 243 Articles
اسلام آباد میں ایک کالج کے شعبۂِ انگریزی سے منسلک ہیں۔ بین الاقوامی شاعری کو اردو کےقالب میں ڈھالنے سے تھوڑا شغف ہے۔ "بائیں" اور "دائیں"، ہر دو ہاتھوں اور آنکھوں سے لکھنے اور دیکھنے کا کام لے لیتے ہیں۔ اپنے ارد گرد برپا ہونے والے تماشائے اہلِ کرم اور رُلتے ہوئے سماج و معاشرت کے مردودوں کی حالت دیکھ کر محض ہونٹ نہیں بھینچتے بَل کہ لفظوں کے ہاتھ پیٹتے ہیں۔