جنگ ستمبر اور ہمارا ٹی وی ڈرامہ
از، حسین جاوید افروز
آج 6 ستمبر 1965 کی جنگ کو 53 برس گزر چکے ہیں۔ ہم اپنے بڑے بزرگوں سے یہی سنتے آئے ہیں کہ پاکستانی قوم کا جذبہ پاکستانیت ہماری قومی تاریخ تین بار ہی اپنی شدت سے اجاگر ہوا ہے۔ ایک جب ہم نے سن 47 میں آزادی حاصل کی تو اتر پردیش اور مشرقی پنجاب سے کروڑوں لوگ، ریل، بیل گاڑیوں پر خون کا دریا عبور کر کے پاکستان پہنچے۔ قوم کے ان سپوتوں نے جس طرح سے پاکستان کے عشق سے سرشار ہو کر مالی و جانی قربانیاں پیش کیں یہ جذبہ یقیناً بے مثال تھا۔ پھر قیام پاکستان کے بعد جس طرح حکومتی اہل کاروں نے نئے پاکستان کی بنیادیں کم تر وسائل کے با وجود جاں فشانی سے رکھی وہ جذبہ بھی قابل دید رہا۔ اس کے بعد ستمبر 1965 میں جس طرح ہماری جری افواج نے دشمن کا سیسہ پلائی دیوار کی شکل میں ڈھل کر مقابلہ کیا اورمادر وطن کا کامیاب دفاع کیا وہ تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
معروف دانش ور اور سینئر اینکر پرسن محترم افتخار احمد صاحب اس حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہیں کہ کیسے لاہوریے جنگ کا بگل بجتے ہی واہگہ کی جانب رواں دواں ہو گئے کہ اپنی افواج کی ہر ممکن مدد کر سکیں۔ اور کیسے خود میں لڑکپن کے دور میں جذبے سے سرشار ہو کر اپنے ایک دوست کے ساتھ سرحد کی جانب چل پڑا۔ تیسری بار جب 28 مئی 1998 کو جب ہندوستان کی جان سے پوکھران میں کیے گئے پانچ جوہری دھماکوں کے جواب میں چاغی میں پاکستان نے چھ جوہری دھماکے کر کے طاقت کا توازن بحال کیا۔ اس لمحے بھی پاکستانی قوم میں ایک طویل عرصے بعد قومی جوش و ولولہ اپنے عروج پر دکھائی دیا۔
لیکن آج بھی ستمبر 1965 کے ان 17 دنوں کی یاد پاکستانی قوم و افواج کے دلوں کو گرما دیتی ہے۔ جہاں اس جنگ میں چھب جوڑیاں سے واہگہ کے محاذ تک اور چونڈہ سے راجستھان کے محاذ تک افواج پاکستانی نے بہادری کے جوہر دکھائے وہاں ہماری بحریہ نے بھی ہندوستانی بحری مستقر دوارکا کی تباہی میں جارحانہ کردار ادا کر کے سمندروں میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ جب کہ ہمارے فضائی شاہینوں نے بھی نہ صرف پاکستانی فضاؤں کو محفوظ بنائے رکھا بَل کہ ہندوستانی فضائی اڈوں، پٹھان کوٹ، آدم پور، ہلواڑہ، امرتسر اور جام نگر میں پے درپے حملے کر اپنے سے کئی گنا طاقت ور انڈین ایئر فورس کو بے بس کر کے رکھ دیا اور ان پر اپنی دفاعی و نفسیاتی برتری قائم رکھی۔ ہم آج اس جنگ میں اپنے شہیدوں کے لازوال کارناموں کو ذرا مختلف انداز میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے کہ کیسے جہاں دوران جنگ ریڈیو پاکستان کے ذریعے نور جہاں کے بے مثال جنگی نغموں نے قوم کو ایک توانا جذبہ عطا کیا۔
وہاں آنے والے دور میں پی ٹی وی نے اپنے ان شہداء اور غازیوں کو لانگ پلے کی شکل میں کیسے خراج عقیدت پیش کیا ؟اب تک پاکستان ٹیلی وژن نے میجر طفیل شہید، کیپٹن سرور شہید، راشد منہاس شہید، لانس نائیک محفوظ شہید اور میجر راجہ عزیز بھٹی شہید پر لانگ پلے پیش کیے جو عوام میں اپنی معیاری ہدایت کاری اور بہترین اداکاری کی بدولت خاصے مقبول ثابت ہوئے۔ سب سے پہلے ہم ’’کیپٹن سرور شہید‘‘ پر بنائے گئے لانگ پلے کا جائزہ لیتے ہیں جو 80 کی دھائی میں تیار کیا گیا۔ اس کی شوٹنگ پنڈی اور آزاد کشمیر کوہالہ میں کی گئی۔ اس میں معروف اداکار سلیم ناصر مرحوم نے سرور شہید کا کردار نبھایا۔ اپنی سادگی، پرعزم آواز اور شخصیت کی بدولت سلیم ناصر نے شان دار کردار نگاری کا مظاہرہ کیا۔ جب کہ پاک فوج کے دیگر افسران کے کردار عثمان پیرزادہ، عمران پیرزادہ، خالد بٹ، اعجاز بیگ اور خالد حفیظ نے بھی ولولہ انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ کیپٹن سرور کی اہلیہ کے مختصر کردار میں سکینہ سموں نے بھی کمال نفاست سے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ کرنل اسمعیل کی ریسرچ اور کنور آفتاب کی ماہرانہ ہدایت کاری نے ڈرامے میں حقیقت اور جذبے کا حسین امتزاج پیدا کیا۔ خصوصاً ایک سگنل افسر ہونے کے ناطے جس طرح سلیم ناصر اپنے سینئر افسر طلعت حسین کو مہم پر جانے کے لیے قائل کرتے ہیں وہ منظر قابل دید رہا۔
سلیم ناصر پاکستان کے ورسٹائل ٹی وی ایکٹرز میں سے ایک تھے جنہوں نے آنگن ٹیڑھا اور ان کہی میں جہاں کامیڈی کے شان دار جوہر دکھائے وہاں جانگلوس میں ملک حیات کے کردار میں ایک ظالم جاگیردار کے کردار میں بھی خود کو امر کردیا۔ جب کہ تاریخی ڈرامے آخری چٹا ن میں بھی جلال الدین شاہ کے کردار میں انہوں نے دل کو چھو دینے والی پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ افسوس یہ عظیم فن کار وقت سے پہلے ہی 1989 میں کراچی میں انتقال کر گیا۔
اب ذکر ہو جائے 1995 میں’’میجر راجہ عزیز بھٹی شہید‘‘ پر بنائے گئے لانگ پلے کا جس کا اسکرپٹ معروف ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید نے تحریر کیا اور سلیم طاہر نے ہدایت کاری کے فرائض انجام دیے۔ اس لانگ پلے کی شوٹنگ کئی سالوں پر محیط رہی۔ راجہ عزیز بھٹی کے کردار کے لیے صحافی ناصر شیرازی کا انتخاب کیا گیا جو اپنی مہذب شخصیت اور رکھ رکھاؤ کے سبب اس کردار میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھے۔ اس ڈرامے میں ناصر شیرازی نے عزیز بھٹی کو بطور ایک فرماں بردار بیٹے، بطور ایک مہربان باپ اور بطور ایک اصول پسند افسر کے، ہنر مندی سے پیش کیا۔ شیرازی صاحب کے بقول ان کی عزیز بھٹی کے بڑے بیٹے ظفر سے دوستی رہی اور ان کو بچپن میں میجر صاحب سے ملنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ ڈرامے میں عزیز بھٹی شہید کا ماؤتھ آرگن سے عشق اور اس سے نکلے میوزک نے ایک سماں باندھ دیا۔
تاہم انڈین جرنیل کے کردار میں راشد ڈار اتنا متاثر نہیں کر پائے۔ اسی طرح ’’لانس نائک محفوظ شہید‘‘ پر تشکیل دیے گئے طویل دورانیے کے کھیل میں کیپٹن عون نقوی نے متاثر کن کار کردگی دکھائی۔ جب کہ محفوظ شہید کی ابتدائی زندگی، فوجی تربیت کے مراحل، بطور سپاہی ان کی وطن سے لگن اور جذبے کو بختیار احمد کی ہدایت کاری میں عمدگی سے ڈھالا گیا۔ تاہم شہداء پر بنائے گئے ڈراموں پر ہم اسے آخری نمبر دے سکتے ہیں۔ اسی طرح ظل سبحان نے ’’میجر طفیل شہید ‘‘کے کردار میں گویا خود کو امر کر دیا۔ ایک تو ظل سبحان خود بھی فوج میں کچھ عرصہ سروس کر چکے تھے دوسرا ان کی فزیک ہو بہو میجر طفیل شہید سے مشابہت رکھتی تھی۔ جب کہ ظل سبحان کی جاندار ڈائیلاگ ڈیلیوری بھی ناظرین کو بے حد اچھی لگی۔ جب کہ فوج میں تو یہ ڈرامہ اتنا مقبول ہوا کہ یہ کہا جانے لگا کہ اگر سیلوٹ کرنا سیکھنا ہے تو ظل سبحان سے سیکھو۔
مزید دیکھیے: کرکٹ میچ اور حب الوطنی کے تقاضے از، محمد عثمان
ہمارے ٹیلی ویژن ڈرامے از، خضر حیات
دیگر کرداروں میں سکندر شاہین نے میجر طفیل کے سینئر افسر کے کردار میں عمدہ پرفارمنس دی۔ جب کہ ہندوستانی مہارانی کے کردار میں طاہرہ واسطی نے جہاں مکمل جاہ جلال سے اپنے کردار سے انصاف کیا وہاں آصف رضا میر نے بھی بھارتی افسر کے طور پر اپنا رنگ خوب جمایا۔ جب کہ اسلم لاٹر نے بھی ایک کرخت انڈین افسر کردار میں نیچرل اداکاری کی۔ ڈرامے کی خاص بات مشرقی پاکستان کے سرحدی گاؤں لکشمی پور کو چھانگا مانگا میں مہارت سے فلم بند کرنا تھا جس سے بنگال کا تاثر محسوس ہو۔ قاسم جلالی نے ایک منجھے ہوئے ہدایت کار کی طرح یہ سب کچھ کردکھایا۔ یہ ڈرامہ نشان حیدر سیریز کے بہترین لانگ پلے میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک بنگالی کسان کے کردار میں گلوگار حسن جہانگیر نے بھی ایکٹنگ کے جوہر دکھائے۔ افسوس آج ہمارے درمیان سکندر شاہین، ظل سبحان، طاہرہ واسطی، فخری احمد، جاذبہ سلطانہ، منیر ظریف اور غیور اختر جیسے مایہ ناز فن کار موجود نہیں۔ ظہیر بھٹی کی تحریر اور قاسم جلالی کی ماہرانہ ہدایت کاری آج کل کے لکھاریوں اور ڈائریکٹرز کے لیے ایک سبق کی حیثیت رکھتا ہے۔
نشان حیدر سیریز پر بہترین کام میجر طفیل شہید کے علاوہ ’’راشد منہاس شہید‘‘ پر بنائے گئے لانگ پلے میں بھی سامنے آیا۔ 1984 میں تشکیل دیے گئے اس لانگ پلے میں تحقیق اور ہدایت کاری کے فرائض شہزاد خلیل صاحب نے انجام دیے۔ مذکورہ کھیل میں پائلٹ آفیسر فاروق اقبال نے مرکزی کردار ادا کیا اور ان کو دیکھ کر لگا گویا آپ حقیقی راشد منہاس کو دیکھ رہے ہوں۔ فاروق اقبال نے اپنی سادگی اور فلائنگ سے عشق کو عمدگی سے پردہ سکرین پرایسے پیش کیا کہ گویا وہ حقیقی زندگی میں بھی اداکاری کے شعبے سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس کھیل کی خوب صورتی یہ رہی کہ ایئر فورس سے متعلق تمام کردار پاک فضائیہ کے افسران نے ہی انجام دیے اور کیا ہی خوب کام کر دکھایا۔ جب کہ راشد منہاس کی والدہ کے کردار میں نیر کمال نے یادگار اداکاری کا مظاہرہ کیا۔
یاد رہے یہ مرینہ خان کا بھی بطور اداکارہ پہلا ڈرامہ تھا۔ دیگر کرداروں میں یاسمین اسمعیل، ہما اکبر نے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ شہزاد خلیل نے اس کھیل کے ذریعہ جہاں فضائیہ کے کردار اور عظمت کو اجاگر کیا وہاں انہوں نے کمال مہارت سے راشد منہاس اور ان کی والدہ کے درمیان تعلق کو بھی عمدگی سے پیش کیا۔ بلاشبہ یہ کھیل اپنے دور کا ایک ناقابل فراموش کھیل تھا تھا جو آج بھی ناظرین میں بے پناہ مقبول ہے۔ خصوصاً راشد منہاس اور غدار انسٹرکٹر مطیع رحمن کے درمیان اختتامی مناظر میں جہاز کا کنٹرول لینے کی جدوجہد اور راشد منہاس کا آخری فیصلے تک پہنچنے کا مصمم ارادہ، یہ تمام مناظر آج ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم نے شہزاد خلیل جیسا اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل ڈائریکٹر کتنی جلدی کھو دیا۔ اب آخر میں 1996 میں بنائے گئے لانگ پلے’’ آپریشن دوارکا‘‘پر بات کرتے ہیں جو 65 کی جنگ میں ہماری بحریہ کے درخشاں کارنامے کی یاد دلاتا ہے جب پاک بحریہ نے جارحانہ اپروچ دکھاتے ہوئے ہندوستانی ریاست گجرات میں موجود نیول اڈے دوارکا پر حملے کی ٹھانی اور اسے تباہ کر دیا۔
پاکستانی نیول کمانڈروں کے کردار طلعت حسین اور شکیل نے ادا کیے جب کہ دیگر کرداروں میں طاہرہ واسطی، لیلیٰ واسطی اور سمیع ثانی نے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ مگر گزشتہ ڈراموں کے مقابلے میں یہ قدرے ہلکا رہا جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ ایک جاندار اسکرپٹ سے یکسر عاری رہا۔ اس سے کہیں بہتر کاوش 1971 کی جنگ پر مبنی لانگ پلے ’’غازی شہید‘‘تھا۔ غازی شہید میں کہانی ہماری آبدوز غازی کے گرد گھومتی ہے جس کو مشرقی پاکستان کے سمندر میں ایک اہم فوجی مہم کے لیے بھیجا گیا۔ غازی نے ہمیشہ بھارتی بحریہ پر اپنا نفسیاتی دبدبہ قائم رکھا یہی وجہ ہے کہ 1965 میں بھی غازی نے بمبئی کے سمندروں کی کامیابی سے ناکہ بندی کی اور بھارتی نیوی اپنے ساحلوں تک محدود ہو گئی۔ جب کہ 1971 میں اپنی ہی بچھائی گئی بارودی سرنگ سے ٹکرا کر غازی تباہ ہو گئی۔ غازی شہید میں مرکزی کردار شبیر جان نے نبھایا اور درست معنوں میں اپنے کردار سے انصاف کیا۔ جب کہ دیگر اداکاروں میں ہمایوں سعید، عدنان گیلانی، غالب کمال، امتیاز تاج اور مشی خان نے بھی اپنا رنگ خوب جمایا۔
آخر میں ہم ایک مختصر ڈرامہ سیریل’’سپاہی مقبول حسین‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ جی ہاں یہ کہانی وطن کے ایسے سچے سپاہی کے گرد گھومتی ہے جو کہ 1965 کی جنگ میں اپنی فورس سے بچھڑ گیا اور بھارتی قید میں چلا گیا۔ دوران تفتیش اس پر خوفناک تشدد کیا گیا مگر اس نے بھارتی زندان کی دیواروں پر بھی اپنے خون سے پاکستان زندہ باد لکھا۔ تصور کریں 41 برس کی طویل ترین قید کے بعد اسے 2006 میں رہا کیا گیا۔ اب وہ ایک جوان سپاہی کے بجائے ذہنی توازن کھو دینے والا ایک معمر شخص بن چکا تھا، حال ہی میں یہ بہادر شخص خالق حقیقی سے جا ملا ہے۔ سپاہی مقبول حسین کی داستان ہمیں احساس دلاتی ہے کہ جنگ، فتح اور شکست کے علاوہ بھی کئی ایسے المیے اپنے پیچھے چھوڑ جاتی ہے جس سے کئی معصوم لوگوں کی زندگیاں وقت کی ہولناکیوں کا نشانہ بن جایا کرتی ہے۔
آج بھی ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 80 کے قریب جنگی قیدی، پاکستانی اور بھارتی جیلوں میں دہائیوں سے پابند سلال ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور دلی اور اسلام آباد میں حکومتی مسندوں پر براجمان ارباب اختیار کو اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔ تاہم بحیثیت قوم آج بھی ہمیں اس عہد کی تجدید کی اشد ضرورت ہے کہ ہم 1965 کے مثالی جذبے اور قومی یکجہتی کی نمود کریں گے اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وطن عزیز کی سا لمیت کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔ یہی راستہ ہے جس پر چل کر ہم ایک پرامن، روادار اور خوشحال پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں۔
2 Trackbacks / Pingbacks
Comments are closed.