پسے ہوئے طبقات کے دانشور اور لیڈر
از، ذوالفقار علی
یہ بات درُست معلوم ہوتی ہے کہ کوئی بھی سماج اپنے تاریخی، سماجی اور رویہ جاتی ورثے کو اچانک ترک کرنے یا کسی ‘اوپرے’ سماج کے ورثے کو اپنا لینے کے قابل نہیں ہوتا بلکہ یہ تبدیلی آہستہ آہستہ ارتقائی عمل کے ذریعے آتی ہے۔ مگر کُچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کی افادیت یا نُقصان کا شعوری ادراک ہونے کے باوجود ہم سوچ اور عمل کے تضادات سے جان نہیں چُھڑا پاتے۔
ان تضادات کی شکار خاص کر سماج کی وہ پرت جو مثبت سماجی تبدیلی کیلئے سرگرم تصور کی جاتی ہے ، جسے عام لوگ اپنی اُمید اور توقعات کے پیرائے میں دیکھ رہے ہوتے ہیں اُن کے قول و فعل کا تضاد مُثبت تبدیلی میں رُکاوٹ کا موجب بن سکتا ہے۔
ایسے سماج کے دانشوروں اور لیڈروں کا اگر رویہ جاتی اور نفسیاتی جائزہ لیا جا ئے تو بہت ہی دلچسپ پہلو سامنے آ سکتے ہیں۔
اس حوالے سے سرائیکی تحریکوں سے جُڑے چُنیدہ افراد جو اپنے آپ کو دانشور اور لیڈر سمجھتے ہیں بطور ٹیسٹ کیس اُن کے رویہ جاتی پہلو کا جائزہ لیں تو اُن میں سے بیشتر افراد شعوری یا لا شعوری طور پر ظاہری فکر اور سوچ کے برعکس عمل کے میدان میں کچھ اور طرح کے لوگ معلوم ہونگے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی دانشور یا سیاسی کارکُن اس تحریک کے پُر امن ہونے پر نازاں ہے اور اسے خواجہ فرید کی صوفی منش ہستی کی شاعری سے بھی جوڑتا ہے تو اُس کی ذات کے اندر بھی صُلح جوئی، امن پسندی اور ‘دھرتا’ یا برداشت کے رُجحانات کا عملی طور پر نظر آنا دکھنا چاہیے مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اکثر صُلح جوئی، ‘دھرتا’ اور امن کی بات کرنے والے تُند مزاج ہی پائے گئے ہیں۔
تُند مزاجی کے پیچھے اگرچہ بہت سارے عوامل کار فرما ہو سکتے ہیں لیکن اس رویے کو تاریخ کی تلخیوں، معاشرتی اور معاشی جبر کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عام طور پر وہ لوگ جو اپنے معاشی حقوق اور سماجی روایات سے کسی جبر اور طاقت کے استعمال کے ذریعے محروم کر دیے گئے اُن کی طبیعت میں عموما فطری تلخی موجود ہوتی ہے۔
مجھے اس کا تجربہ سماج کے پسے ہوئے طبقات کے ساتھ گُزارے ہوئے وقت کے دوران ہوا۔ خاص کر ‘کیہل’ مور اور کٗٹانے جن کو جدید ریاستی بندوبست کی وجہ سے اپنے قدرتی وسائل سے ہاتھ دھونا پڑے جس کی وجہ سے اُن کو شدید غُربت اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا درپیش ہے۔
میں نے دیکھا اُن کی عورتیں اکثر عصر کے وقت آپس میں زور دار طریقے سے جھگڑا شروع کر دیتی ہیں جسمیں گالم گلوچ اور مرنے مارنے کی دھمکیاں تک شامل ہوتی ہیں مگر یہ جھگڑا کبھی دیرپا دُشمنی کی وجہ نہیں بنا بلکہ دن کے غروب ہونے تک کے وقفے میں ہی اکثر یہ غُبار بیٹھ جاتا ہے۔ شاید یہ اُن سے روا رکھے جانے والے ظُلم کا کتھارسز ہوتا ہے جسے وہ آپس میں لڑ کر اپنے آپ کو ہلکا محسوس کرتے ہونگے۔
مگر یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دانشور اور آگاہی رکھنے والا انسان ایسا کیونکر کرتا ہے؟ کیا کتابوں سے حاصل شُدہ علم ، ڈسکشن اور خیالات کا تبادلہ انسانی رُجحانات کو بدلنے میں زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوتا؟
ان دونوں سوالوں کا جواب بھی ہمارے سماجی عوامل اور کسی حد تک روز مرہ کے ذاتی تجربات کی شکل میں ہمارے نفسیاتی پہلوؤں کی تشکیل میں چُھپا ہوا ہے۔ جو لوگ اپنی ذاتی زندگی کی ناکامیوں یا خوابوں کے ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گُزرتے ہیں تو وہ اندر کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں جس کو روکنے کے لیے وہ عام لوگوں سے زیادہ محنت کرتے ہیں اور مختلف میدان میں کوئی خاص مقام پیدا کرنے کی سعی میں لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ اُن کے اندر نرگسیت کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ باقی دُنیا جاہل ہے اور وہ سب سے زیادہ علم و عقل والے ہیں۔ ان لوگوں کی خاص نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کو حوصلہ، ہمت یا تعریف کرنے کی بجائے دبائے رکھنے پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔
ایسے لوگ پسے ہوئے طبقات، اقوام یا علاقے میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ چونکہ سرائیکی خطہ کے لوگ بھی زندگی کے ہر شعبہ میں نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے اس قسم کی نفسیاتی پریشانی کا سامنا کرتے رہتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں جس کا اظہار اُن کے رویوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک اور اہم بات پچھڑے ہوئے سماج کے لوگ عموما آپسی ایکتا، اتفاق اور میل ملاپ کی باتیں بہت کرتے ہیں مگر اپنے ہی طبقے، قوم یا علاقے کے لوگوں سے ذرا ذرا سے اختلاف پر جھگڑنے لگتے ہیں۔ البتہ یہ جھگڑا کسی مُستقل دُشمنی میں نہیں بدلتا بلکہ کچھ عرصے بعد یہ تحلیل ہو جاتا ہے تا آنکہ کوئی نیا قضیہ کھڑا نہ ہو۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ سرائیکی تحریک کے بڑے بڑے ‘ مہان ‘ دانشور جن چیزوں کو اصولی طور پر بُرا یا غلط سمجھتے ہیں مگر عملی طور پر کہیں نہ کہیں وہ خود اُس سوچ کو اپنے عمل کے ذریعے آشکار کرتے رہتے ہیں۔ مثلا شخصیت پرستی کے رُجحان کو اکثر لوگ اصولی اور نظریاتی طور پر درست نہیں سمجھتے مگر جب وہ کسی اجتماعی تبدیلی کیلئے کوئی سرگرمی انجام دیتے ہیں تو اُن کو کسی ایسی شخصیت کو ‘ مہان دیوتا ‘ کہنے اور سمجھنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ حالانکہ جسے مہان سمجھا اور کہا جا رہا ہوتا ہے وہ خود اس قسم کی سٹیریو ٹائپ ‘ مہانتا ‘ کے خلاف جدو جہد کی بُنیاد پر ہی اپنا مقام بنانے کے قابل ہوئی ہوتی ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے اس کا جواب بھی سماجی پاور سٹرکچر کے اندر چھپا ہوا ہے۔ جن معاشروں میں جاگیرداری اور بادشاہت کا رواج عام رہا ہو وہاں پر انسانوں کو اجتماعی ذمہ داری کے حوالے سے دیکھنا ایک مُشکل نفسیاتی مرحلہ طے کئے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ ایسے معاشروں میں عام طور پر انسانوں کے لاشعور میں طاقت کا رواجی پہلو یاداشتوں کے خانوں میں بہت گہرائی کے ساتھ ثبت ہوتا ہے۔
اس پہلو کو آئیڈیلائیز کر کے کسی اجتماعی ذمہ داری کی بجائے اپنی توقعات اور اُمیدوں کو شخصی ذمہ داریوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسے رویے اور سوچ کسی بھی سماج کی آگے بڑھنے کی رفتار کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں تبھی تو ایسے معاشروں میں سوسائٹی ایک خاص جمود کا شکار نظر آتی ہے۔ اس قسم کا رجحان ہمہ گیر قسم کی غُلامی کو برقرار رکھنے کا موجب بھی بنتا ہے۔
اسی طرح اس تحریک کا تیسرا پہلو کمیونیکیشن گیپ کی شکل میں ہمیں نظر آتا ہے۔ لیڈران عام طور پر مُشکل ٹرمینالوجی اور دقیق قسم کی باتیں کرتے اور لکھتے رہتے ہیں جن کو سمجھ پانا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتا۔ یہ بھی پسماندہ سوسائٹی کا ہی المیہ ہے جہاں پر ذاتی توقیر و عزت کو اجتماعی مفادات اور اجتماعی تبدیلی سے ہمیشہ زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں اُن کے دماغ کے کسی کونے میں یہ بات ضرور ہوتی ہوگی کہ مشکل اور دقیق قسم کی فلسفیانہ باتوں سے شخصیت کا بڑا پن ظاہر ہوتا ہے لٰہذا وہ اپنے بڑے پن کے چکر میں عام لوگوں کو جوڑنے کی بجائے توڑنے کا کام کرتے ہیں۔
اس قسم کی سوچ کا شکار افراد بالاخر ذاتی بیگانگی کا شکار ہو کر زندگی کی بہت سی خوشیوں سے بیزاری ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ بد قسمتی سے سرائیکی تحریک میں بھی ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو شدید قسم کی ذاتی بیگانگی کا شکار ہیں۔
چوتھا پہلو بھی کافی فطری ہے۔ پسماندہ سماجوں میں مُستقبل کے امکانات کو دیکھنے کی بجائے ماضی کے دریچوں میں گُم ہونے میں نجات کا پہلو ڈھونڈنا عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔ ہر وقت اس احساس تفاخر کو جنتا پر تھوپا جاتا ہے کہ ہمارا ماضی بڑا شاندار تھا، ہم بہت مہذب اور شاندار لوگوں کے قبیل میں سے ہیں، ہماری دھرتی بہت خوشحال اور دُکھوں سے ماورا ہوتی تھی فلاں فلاں فلاں۔
اس قسم کی باتیں ایک حد تک ضروری ہیں مگر ان باتوں کی بُنیاد پر جدلیاتی اور معروضی سوچ کو پروان نہیں چڑھایا جا سکتا بلکہ اس قسم کی حکمت عملی سے بہت سارے لوگ ماضی اور مُستقبل کے بیچ والی حالت میں اٹکے رہتے ہیں۔
پانچواں پہلو ایسے سماج میں خود اعتمادی کی کمی کا ہے جس کی وجہ سے لیڈران اور دانشور طبقہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی طاقتور سے جُڑ کر اپنی منزل پانے کی سعی کرتے ہیں۔ حالانکہ طاقتور کبھی بھی اپنے مفادات کو کمزوروں کے مفادات پر قُربان نہیں کرتا۔
ان پانچ عوامل کی وجہ سے مظلوم و محکوم طبقات کی جدو جہد ایسی طوالت کا شکار ہو جاتی ہے جس کے باعث مطلوبہ مقاصد کے حصول میں کئی نسلیں گُزر جاتی ہیں مگر منزل کا نشان نہیں ملتا۔