(ذوالفقارعلی)
سرائیکی تحریک کا دورانیہ بہت لمبا اور دلچسپ ہے۔ اس تحریک کے سمتیں اور مقاصد بھی مختلف اوقات میں بدلتے رہے اور بہت سے محاذوں پر اس تحریک کو مشکلات اور حالات کے جبر کا سامنا رہا ہے مگر اس تحریک سے جڑے کچھ لوگوں نے اپنے اپنے تئیں اس جدو جہد کو جاری رکھا۔ سرائیکی حلقوں کے اندر مختلف الفکر عناصر نے اپنے اپنے زاویے سے اس کو ڈھالنے کی کوشش کی اور باہر سے بھی بہت سارے عناصر نے اس تحریک کو مختلف سانچوں میں ڈھالنا جاری رکھا۔ میں کسی شخص یا ادارے کا نام نہیں لینا چاہتا کہ انہوں نے اس تحریک کو کتنا نقصان یا فائدہ پہنچایا مگر کچھ جنرل قسم کے تجربات اور مشاہدات جو میری ذات اور سوچ سے منسلک ہیں جن کو میں نے اس تحریک کے معروض سے حاصل کیا وہ شیئر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
اس تحریک کو سرائیکی خطے میں اجاگر کروانے اور شعوری طور پر بہتر شکل دینے میں استاد فدا حسین گاڈی کا اہم کردار رہا ہے۔ اس نے سرائیکی وسیب کے کم و بیش ہر دیہات اور شہر میں اس تحریک کے حوالے سے وکالت کی اور اسے ادبی انداز میں پیش کیا۔ استاد فدا حسین نے سرائیکی شاعروں، ادیبوں، لکھاریوں اور گلوکاروں کو اپنے اس سفر میں شامل کیا اور پہلے سے موجود روایتوں اور ڈھانچوں کو استعمال کرتے ہوئے اس مشن کو آگے بڑھایا۔ مثال کے طور پر اس نے وسیب کے اندر میلوں، ثقافتی تہواروں اور خاص کر جُھمر کو اس مقصد کیلئے چُنا اور اپنا پیغام پہنچایا کہ ان کے بغیر ہم باہر کی ثقافتی اور معاشی یلغار سے نہیں بچ پائیں گے۔
اس عرصے میں سرائیکی تحریک اپنی شناخت اور اپنے وجود کو مختلف فورمز پر منوانے میں کامیاب ہوئی تو پھر اسکو مین سٹریم پالیٹکس میں لانے کیلئے مختلف آوازیں سرگرم ہو گئیں جس کی بنا پر دھڑا دھڑ چھوٹی چھوٹی سرائیکی پارٹیاں وجود میں آنے لگیں اور یہ تحریک ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ کسی بھی تحریک کیلئے یہ مرحلہ بہت حساس نوعیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ جب آپ مین سٹریم پالیٹکس میں قدم رکھتے ہیں تو مختلف طبقات کے مفادات ڈائریکٹ چیلنج ہوتے ہیں تو اس بات کا احتمال ہوتا ہے کہ کوئی چھوٹا بڑا تصادم وقوع پذیر ہو۔ وہ تصادم معاشی، سیاسی، جغرافیائی اور ثقافتی ہر پہلو پر ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔
اس مرحلے میں سرائیکی تحریک کے ساتھ بھی یہی ہوا پنجاب کی ایلیٹ اور اسٹیبلشمنٹ نے ہر محاذ پر بھرپور جوابی حملہ کیا اور اس حملے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر زمین کی سول اور عسکری اداروں کے اہل کاروں کو الاٹمنٹس، آبادکاروں کی آمد میں تیزی، میگا پروجیکٹس کے نام پر سرائیکی خطے کا کنٹرول، اپر پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کو یہاں اہم پوسٹس پر سرکاری ملازمت دینا، سرائیکی زبان کو پنجابی زبان کا لہجہ قرار دینا، چھاؤنیاں قائم کرنا اور سرائیکی جغرافیے کو تسلیم کرنے سے انکار جیسے اقدامات سامنے آئے۔ ان اقدامات نے اس تحریک اور یہاں کے مقامی باشندوں کو شدید زک پہنچائی۔
اس سارے عمل کے بعد ڈیرہ غازیخان میں بلوچ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پشتون قضیہ کو بھی ابھارا گیا جس کی بنا پر سرائیکیوں پر پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کی طرف سے بھی انگلیاں اُٹھائی گئیں۔ آج تک یہ اقوام سرائیکیوں کو مظلوم اور حقوق سے محروم قوم دل سےتسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں بلکہ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سرائیکیوں کو پنجاب کا حصہ سمجھ کر جنوبی پنجاب کی نا مناسب اصطلاح سے پکارا جاتا ہے جو یہاں کے باسیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
اوپر بیان کیے گئے واقعات آج بھی جاری و ساری ہیں اس کے علاوہ تحریک کے اندر بہت سے ایسے لوگ داخل کر دئیے گئے جنہوں نے سرائیکی کا نعرہ تو لگایا مگر کسی دُشمن کے کہنے پر۔ ایسے عناصر کو پنجابی میڈیا کے مالکان نے خوب پروجیکشن دی اور اُن کو اس خطے کے اصل وارث اور نمائندے کے طور پر پیش کیا۔ ان حضرات نے چند نوکریوں کے بدلے اپنی دھرتی سے بے وفائی کی اور بڑے بڑے نام چودھریوں کی گود میں بیٹھ کر اپنا الو سیدھا کرتے رہے۔
اس گنگا میں سرائیکیوں کے نام نہاد سیاستدانوں سے لیکر لکھاری اور شاعروں تک نے اپنے اپنے میلے تن دھوئے اور بعد میں پیپلزپاڑٹی نے جب اس مسئلے کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں اُٹھایا تو ایسے افراد مزید ننگے ہو کر سامنے آ گئے۔ جس کے بعد بہاولپور صوبہ کی تحریک کو ابھارا گیا جس میں دُرانی، نواب، سرائیکی کے مشہور دانشور، کچھ تیل مافیا سیاستدان اور (ٹوپن ٹٹو) شریک ہو گئے۔
اس مسئلے کے بیچ یوسف رضا گیلانی کو خوب قیمت چُکانی پڑی جو تخت لاہور کی طرف سے واضح پیغام تھا کہ ہم سرائکیوں کی توانا آواز کو ہر قیمت پر خاموش کروا دیں گے۔ 2013 کے ایلکشن میں پیپلز پارٹی کو یہاں سے ہرا دیا گیا اور الزام یہ لگایا گیا کہ یہاں کے لوگ سرائیکی ایشو کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جس کی وجہ سے لوگوں نے لسانی بنیاد پر اُٹھائے گئے ایشو کو مسترد کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے امیدواروں کا صفایا کر دیا۔ یہ پروپیگنڈہ سرا سر جھوٹ اور بد نیتی پر مبنی تھا کیونکہ اگر آپ 2007 کے جنرل الیکشن میں انہی امیداروں کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کا تقابلی جائزہ لیں تو 2013 کے الیکشن میں پڑنے والے ووٹ زیادہ تھے اور اسکا ثبوت الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
اس کے علاوہ سینکڑوں سرائیکی پارٹیاں بھی سرائیکی کیس کو کمزور کرنے کیلئے لانچ کی گئیں جن کے خود ساختہ لیڈران اور عہدیداران بھانت بھانت کی بولیاں بول کر تخت لاہور کی گود میں پلتے بڑھتے ہیں اور اپنا دھندہ چلاتے ہیں۔ ان کی سیاسی شعور کی ایک جھلک راحیل شریف کے دور حکومت میں بھی سامنے آئی جب یہ اُن کے بینرز اُٹھا کر انہیں مرحبا مرحبا کہتے رہے۔
اب جنگ اور خبریں اخبار کے توسط سے اس تحریک کے خدوخال پر بحث جاری ہے جس میں لاحاصل قسم کی بحث کو چھیڑ کر اُن لوگوں کا موقف پیش کیا جا رہا ہے جو سرائیکی مسئلے کو مزید الجھانا چاہتے ہیں تاکہ ہر طرف سے اس مسئلے کو نفرت کی عینک سے جانچا جا سکے۔ اب یہ تحریک اپنے نازک ترین دور میں داخل ہو چُکی ہے جس میں تماش بین مداریوں کے کرتب سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ تحریک مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر اپنی موت نہ مر جائے۔
کیونکہ عوام کے اندر اس تحریک کے جینوئین فریقین مختلف مجبوریوں کے باعث اپنا پنا کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آرہے ہیں۔ اس خطے کے ساتھ بڑی بڑی زیادتیوں اور ناانصافیوں پر عوام کے اندر کوئی جینوئن پارٹی یا ایکٹو فورمز موجود نہیں ہیں۔ اور نہ ہی کوئی سنجیدہ کوشش ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
سرائیکی زبان میں مڈل کلاس اپنے بچوں سے بات کرنے سےگُریزاں نظر آتی ہے، زمین کی الاٹمنٹ اور بندر بانٹ پر کوئی متحرک آواز نہیں ہے، بڑے میگا پرجیکٹس کے منفی اثرات پر کسی قسم کی کمپین نظر نہیں آتی، سرائیکی میں لکھت پڑھت کا رواج بہت کم ہے جس کی وجہ سے آج تک مناسب سرائیکی اخبار اس خطے سے شائع نہیں ہو پایا اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا چانس نظر آتا ہے، ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے حوالے سے اُٹھائے گئے اقدامات پر بہت کم گفتگو عام لوگوں تک پہنچ پاتی ہے، این ایف سی ایوارڈ اور پسماندگی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کے اوپر بھی کسی اہم فورم میں اس خطے کا کیس نہیں اُٹھایا گیا جس کی وجہ سے جو تھوڑے بہت ترقیاتی فنڈ اس علاقے کو ملتے ہیں وہ بھی واپس لیکر تخت لاہور کی ڈویلپمنٹ پر خرچ کر دئیے جاتے ہیں، مذہبی شدت پسندی کے ذریعے پھیلائی گئی لوٹ اور منفی سوچ کو بھی مقامی سطح پر کاونٹر نہیں کیا گیا، درباروں اور میلوں کو سکیورٹی رسک کے نام پر محدود کر دیا گیا ، پانی کی تقسیم کا مسئلہ جوں کا توں پڑا ہے، پاور پلانٹ، شوگر ملیں اور پیسٹی سایئڈ کا کاروبار عروج پر ہے جس کے خلاف چند بکاو قسم کے لوگ سراپا احتجاج ہوتے ہیں تاکہ سرمایہ دار سے اچھی بارگیننگ کر سکیں۔
سوشل انفراسٹرکچر کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے اوپر سےنرگسیت پسند سرائیکی لیڈران کو یہاں کے لوگوں پر مسلط کر کے اپنے حقوق کی بات کرنے سے محروم کر دیا گیا۔ اب اردو اخبارات میں سرائیکی منافق ہیں یا منافق نہیں ہیں اس مسئلے پر بحث چھڑ چکی ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں کن بُنیادوں پر ہماری نسلوں کو لڑایا جائیگا۔اب اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔