جنسی جرائم اور صنفی مساوات
از، نصیر احمد
صنفی مساوات پر یقین رکھنے والوں کی تعداد میں اضافے کے بغیر خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں کمی نہیں لائی جا سکتی۔
اور صرف یقین ہی کافی نہیں ہے۔ اس تفہیم کے ساتھ ایک اخلاقی وابستگی بھی ضروری ہے جو خواتین کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے کوشاں بھی ہو، تا کہ صنفی مساوات کی تفہیم آئین و قوانین کا حصہ ہو۔ معاشرتی تعلیم و تربیت بھی صنفی مساوات پر استوار ہو، معیشت میں بھی صنفی مساوات کی ترویج کی کوششیں کی جائیں۔
ہمارے ہاں صنفی مساوات پر ہی بات اٹک جاتی ہے؛ بَل کہ صنفی تو کیا انسانی مساوات ہی کو ہمارے ہاں کے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
کیوں نہیں ہے؟
انسانی برابری پر دلائل اور شواہد پر مبنی گفتگو ہی ممکن نہیں ہے۔ افراد اور گروہوں کو بے ثبوت ہی بہتر، یا کم تر مانا جاتا ہے۔
جس کسی کو بھی کم تر مانا جاتا ہے، اس کے خلاف سنگین جرائم کیے جاتے ہیں؛ اور پھر چِلّے اور زاویے کی بنیادوں پر ایسے افکار، رواج اور رسومات رائج ہیں جو انسانی مساوات اور اخلاقیات کا مسلسل خاتمہ کرتی رہتی ہیں۔
اس طرح کے مردِ عظیم کے تصورات عام ہیں جن پر جمہوری قوانین کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ جن پر جمہوری اخلاقیات کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ جن کا کرداری اخلاقیات احتساب نہیں کر سکتی۔ جن کا خیر کی اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جن کا فرائضی اخلاقیات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ جن کا نتائجی اخلاقیات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ جن کا مذہبی اخلاقیات سے بھی صرف نمائش کا رشتہ ہے۔ مساوات بھی نہیں، آئین و قانون بھی نہیں، عقل بھی نہیں، سائنس بھی نہیں، اخلاقیات بھی نہیں۔
اور سب انفرادی، انسانی، شہری، جمہوری، آئینی، قانونی، اخلاقی اوصاف سے بے صفت شخص اگر طاقت ور اور دولت مند ہے تو ان سب اوصاف کا خاتمہ اس کا مفاد بن جاتا ہے۔ اگر بے صفت نہ ہو تو اس بات کی معاشرتی اجازت، social sanction کہ وہ جب چاہے اپنے اور اپنے گروہ سے ناتوں، فرد یا گروہ کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے، تو ایسا فرد جرائم و سیاہ کاریوں میں اضافہ ہی کرے گا۔ ایسے دو چار افراد معاشرے کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں اور اگر مسلسل کام یاب ہوتے رہیں تو رہ نما بھی۔
صنفی مساوات پر یقین رکھنے والوں کی کثیر تعداد بھی صنفی جرائم میں کمی ہی لا سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ کثیر تعداد موجود نہ ہو، بَل کہ ایک ایسی اقلیت ہو جس کی کوئی سنتا بھی نہ ہو تو خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں اضافہ ہی ہو گا۔
معاشرتی زندگی بہتر بنانا ایک طویل اور پیچیدہ راستہ ہے۔ اگر معاشرے اس راستے کی طرف ابتدائی قدم بڑھانے کے لیے تیار نہ ہوں تو خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
اور بھی بڑے مسئلے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ایک طور کی انسانیت دشمنی صدیوں سے رائج ہے جو فرد، انسان اور شہری کو اہم نہیں سمجھتی، لیکن صنفی مساوات کی طرف خطہ اسی وقت بڑھے گا جب انفرادیت، انسانیت اور شہریت کو کچھ اہمیت دے گا۔
لیکن خطے میں زندگیاں کچھ اس طرح استوار ہیں کہ انفرادیت، انسانیت اور شہریت کو کچھ اہمیت دیں تو معاشروں میں چھڑی جنگیں بری طرح ہارنے لگتی ہیں۔
ان حالات میں لوگ وزیر اعظم اور پردھان منتری بن جاتے ہیں لیکن ان جگہوں تک رسائی کے لیے انفرادیت، انسانیت اور شہریت قربان کرنے کے لیے بڑی خوشی سے تیار ہوتے ہیں۔ انفرادیت، انسانیت اور شہریت ایسے لوگوں کی کیسے ترجیح بن سکتی ہے؟
پھر وہ پُر تشدد کاملیت پرست افکار، رواجوں، رسومات اور بناوٹوں کے دوام کے محافظ بن جاتے ہیں۔ لیکن پُر تشدد کاملیت پرست ثقافتیں تو ہر قسم کے جرائم کا حامی نظام ہوتی ہیں۔ ایسے میں یہی کیا جا سکتا ہے کہ صنفی اور انسانی مساوات کے حق میں بِکتے رہیں، شاید صنفی مساوات کی حامی تعداد میں تھوڑا بہت اضافہ ہو ہی جائے۔