جنسی تعلیم کی ضرورت و اہمیت
(عبیداللہ عتیق)
جنسی تعلیم جس کے بارے ہر سمجھدار فرد آج کل کے دور میں کہیں نہ کہیں کسی بھی صورت میں بات کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ جنسی تعلیم ضرور دینی چاہیے۔ کوئی بھی اس بات پر غور نہیں فرماتا کہ آخر کس طرح جنسی تعلیم دی جائے؟ اور کس طرح جنسی تعلیم کو گھروں اور تعلیمی اداروں میں فعال کیا جائے؟
عموماََ بچوں کی تعلیم کے دو مقاصد ہوتے ہیں ایک دینی اور دوسرا دنیاوی۔ جنسی تعلیم بھی دنیاوی تعلیم کے اندر شمار ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں تو ایسے سکول اور قریباََ ہر سکول میں عمر کے لحاظ سے بچو ں کی درجہ بندی کی جاتی ہے جس میں ہم عمر بچوں کو ایک ہی کلاس میں رکھا جاتا ہے۔ چند مدارس ایسے ہیں جن میں تمام عمر کے بچے ایک ساتھ ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ایک ساتھ ہی سوتے ہیں ان کے بیچ عمر کے لحاظ سے درجہ بندی بھی کم نظر آتی ہے اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے۔
میری رائے کے مطابق جنسی تعلیم خصوصاََ بچوں کے لیے ہی ہے تا کہ وہ کسی بھی قسم کی بے راہ روی سے بچ سکیں اس میں تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی برابر سے زیادہ عمل دخل ہے۔
چند سال پہلے صوبہ پنجاب کی حکومتِ شاندار نے ایک نجی سکول میں پڑھائی جانے والی کتاب سے تولیدی صحت،جنس اور جسمانی تبدیلیوں کے موضوعات پر باب کو نصاب سے نکلوا دیا ہے۔
سیکس ایجوکیشن کے لیے مختلف قسم کہ ویڈیو کلپ بھی نظر آتے ہیں لیکن ہم ان سے کچھ سیکھنے کی بجائے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کیہ بچوں کوکس عمر میں اور کس طرح جنسی تعلیم فراہم کی جائے۔
انگریزی میں میں تو ہم سیکس،سیکس کہتے پھرتے ہیں لیکن اگر اردو میں کہا جائے تو لگتا ہے کہ بے راہ روی کی بات ہو رہی ہے،جنسی تعلقات کی بات ہو رہی ہے۔ لیکن جنس تو ہماری قدرتی پہچان ہے۔ ہم اپنی قدرتی پہچان کے بارے میں کیوں نہیں بات کرنا چاہتے اس کی حفاظت کیوں نہیں کرنا چاہتے؟
جنس کو شائد ہمارے ہاں گندا اور فحش لفظ سمجھا جاتا ہے اس لیے ان گنی چنی جنسی تعلیم کو فروغ دینے والی تنظیموں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ بچوں کو گمراہ کرتیں ہیں۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ’سپارک‘کے مطابق ۲۰۱۲میں۳۸۰۰بچے جنسی استحصال کا شکار ہوے جن کی تعداد میں اب تک بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ اگر ان بچوں کو اپنے حقوق اور اپنی حفاظت کے بارے میں آگاہی ہوتی تو یہ اعداد و شمار کئی گناہ کم ہوتے۔
اسے بھی ملاحظہ کیجئے: طالب علمانہ سطح پرجنسی تعلیم کی ضرورت اور اہمیت
کڑوی بات یہ ہے کہ ہم جنس کے بارے میں دوغلہ رویہ اختیار کیے ہوے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں بچوں اور نوجوان نسل کے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں درست معلومات دینا تو کجا ہم تو گھر میں ان موضوعات پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس طرح جب بچے بلوغت کی عمر تک پہنچتے ہیں تو ان میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہونے کے ساتھ تجسس بھی پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
اس میں والدین کا دقیانوسی رویہ، روائتی اساتذہ اور نصاب اس تجسس کو ہوا دیتے ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ تر بچے غیر معیاری مواد،عریاں فلمیں اور فحش ویڈیوز کی طرف مایل ہو جاتے ہیں اور جذباتی ہیجان کا شکار ہو جاتے ہیں۔
موبائل اور انٹرنیٹ کہ اس دور میں جب ہمارے جوان ہر قسم کے بلیو لٹریچر تک رسائی رکھتے ہیں اور ہم اب تک یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کو جنسی تعلیم دینی چاہیے یا نہیں۔
اداروں کی دور کی بات ہمیں خود اپنے بچوں کوشائستگی کے ساتھ اور ان کی فہم کے مطابق یہ باتیں سمجھانی چاہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کے آس پاس کے ماحول پر نظر رکھی جائے۔ہو سکے تو عمر سے بڑے اور خطری بزرگوں سے دور رہنے کی تلقین کرنی چاہیے۔