آغاز اسلام میں جنس کے تصورات اور دور حاضر
قاسم یعقوب
کوئی بھی نظریہ جب پیش کیا جا رہا ہوتا ہے تو وہ اپنے ساتھ بہت کچھ وہ بیان کر رہا ہوتا ہے جو صرف وضاحت، توضیح یا تشریح کے ضمن میں ہوتا ہے۔ یا وہ اپنی تشریح یا توضٰیح کے لیے اپنے عہد اورزمانے کے اُن ذرائع کا سہارا لیتا ہے جن کوبعد کے زمانوں میں بہت آسانی سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ جب بدھا کپل وستو کو چھوڑ کے جنگل کی طرف جا رہا تھا تو اُس کے سامنے اور ارد گرد کیا حالات تھے جن کی وجہ سے اُس کا نظریہ یا تصورِ حیات پروان چڑھا ہمیں آج اُن سب کو الگ کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سوشلزم کا فلسفہ بھی اپنے تناظر(context) اور اپنے سیاق (co-text)سے علیحدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ آج بہت سی زمانی تبدیلیاں اور نئی فکریات نظریات کو نئے انداز سے دیکھنے اور سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں۔
اسلامی فلاسفی جو بنیادی تصورات (core-concepts) کے ساتھ آج بھی موجود ہے۔ اُسے بھی سیاق(co-text) اور آج کے تناظر (context) سے الگ کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کون سے عناصر (elements) نظریاتِ اسلام کے ساتھ سیاق(co-text) ہیں اور کون سے مسلمانوں (followers)کے ساتھ جڑے ہوئے تناظرات (contexts) ہیں۔ یہاں یہ وضاحت کر دی جائے کہ سیاق (co-text) متن (text) کو سمجھنے والی اشیا یا ضرورتیں ہیں۔ اور تناظر (context) اُس متن کو اپنے زمانے میں پڑھنے ، عمل کرنے والے ذہن کے ساتھ جڑی اشیا یا ضرورتیں ہیں۔
ہم ناگزیر طور پر چاہتے ہوئے بھی اپنے زمانے کی فکر سے ماورا نہیں سوچ سکتے۔ اسی طرح ہمیں سیاق کو ذہن میں رکھ کر ہی متن کو پڑھنا پڑھتا ہے۔ ورنہ متن واضح ہی نہ ہو سکے کہ یہ کیا ہے؟ مثلاً ہمیں قرآن پاک کو پڑھتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا پڑھتا ہے کہ یہ ایک الہامی کتاب ہے اور نبی پاکﷺ پر اتری ہے۔ نبی کا پورا تصور اور الہامی صحائف کا پورا ماورائی تصوربھی ساتھ موجود رکھنا ہوگا ورنہ قران مجید محض عربی میں متن رہ جائے گا۔
جو شخص غیر مسلم ہے اور کبھی اسلام سے واقف نہیں رہا۔ اُس کے لیے قران پاک شاید عربی زبان میں لکھا متن ہی ہو مگر مسلم کے لئے اُس کے سیاق کی وجہ سے پورا تصور ابھرتا ہے۔ میرا تناظر اُسے اپنے زمانے کی فکر، اپنے تعصبات، اپنے نظریات، اپنے مسالک اور اپنے رجحانات کے ساتھ پڑھنے پر مائل کرتا ہے۔ یہ میرا تناظر (context) ہے۔ یوں تناظر اور سیاق کے ساتھ ہی اشیا پہچانی جاتی ہیں اور زمانہ تا زمانہ کچھ کچھ بدل بھی جاتی ہیں۔ کئی نظریات تو اسی لیے مکمل طور پر ختم بھی ہو جاتے ہیں۔
اسلام کا نظریہ جس کو ہمارے اسلامی سکالرز نے جوں کا توں اپلائی کرنے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ، ذرا ایک نظر اُس عہد کی سماجیات کو نظر میں رکھ کے آج کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں:
۱۔ کیا جس طرح کا جنس کی حرمت کا تصور اُس وقت (عہدِ نبی میں)موجود تھا آج بھی ویسا ہی ہے؟
۲۔ کیا جنس کے متعلق جو تصورات اور عمل(practice) اُس وقت موجود تھی کیا آج بھی ویسی ہی ہے؟
۳۔ اگر جنسی متعلقات میں بہت فرق آ گیا ہے تو تصورات کو اُن کے سیاق کے ساتھ پیش کیوں نہیں کیا جا رہا؟
آئیے ذرا تفصیل کے ساتھ ان سوالوں کو کھوجتے ہیں۔ اسلام جس عہداور علاقے میں نازل ہُوا۔ وہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل کا زمانہ تھا اور آبادی کا رہن سہن قبائلی تھا۔ قبائلی سماج پر میں کچھ زیادہ زور دوں گا کیوں کہ قبائلی سماج کی حرکیات شہری سماج (جو بعد میں جا کے ظاہر ہُوا) سے مختلف ہوتی ہیں۔
اس کی مثال میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نبوت کے بیشتر امور اُسی کلچر میں مکمل ہوتے رہے جیسے خون بہا دینا، بیعت کرنا (ہاتھ کو ہاتھ میں پکڑا کے عہد کرنا)، فال نکالنا اور بہت سے جنگی امور جیسے سرداروں سے مشاورت، قبائل سے حلیف اور حریف کی بنیاد پر اتحاد، خندقیں کھودنا، چشموں پر قبضہ کرنا، عورتوں بچوں کو قتل نہ کرنا قید کر لیناوغیرہ۔ ہمیں اس طرح کے بے شمار امور کو اسی تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا چاہیے ورنہ ہم اسلام کے بنیادی (core-concepts) تصوارت کو درست طرح نہیں سمجھ سکیں اور فرقہ بازیاں جنم لیتی رہیں گی۔
جنس کا تصور بھی آج کے تصور سے بہت مختلف تھا۔ اُس وقت جنسی حوالے سے بے پناہ آزادیاں تھیں جو آج کے سماج میں تصور بھی نہیں کی جا سکتیں مثلاً:
۱۔ ہر شہری بغیر کسی حد کے لاتعداد شادیاں کر سکتا تھا۔ مکے اورمضافات میں کا ہی صرف مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر شخص کے ہاں ازواج کی تعداد پانچ سے دس کے قریب معمولی بات تھی۔
(ایک وقت میں چار شادیوں کا تصور بھی حضورﷺ کی وفات سے چند ماہ پہلے وحی ہُوا۔ ورنہ حضورﷺ کی بعثت کی زندگی کے بھی بائیس سال تک شادیوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی)
۲۔ شادی اورطلاق کے معاملات بہت آسان اور بغیر کسی سماجی رکاوٹ کے طے پا جاتے۔ شادی تو مسجد یا کسی کے گھر میں بھی بہت آسانی سے طے پا جاتی (کاش اسلام کی اس روح کو دوبارہ زندہ کیا جائے تا کہ ہم آج کی خرافات سے بچ سکیں) اسی طرح طلاق دے کے عورت کو چھوڑ دینا اور اُس مطلقہ عورت کا دوسرا نکاح کرنا بھی سماجی حوالے سے بہت مشکل یا غیر اخلاقی نہیں تھا۔ حضرت خدیجہ الکبریؓ، جن کی خدمات اسلام میں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں حضور سے پہلے دو اور نکاح کر چکیں تھیں۔
۳۔ اُس عہد میں لونڈی کا تصور بھی موجود تھا۔ کوئی بھی عورت غلام کے طور پر لونڈی رکھی جا سکتی تھی۔ جو جنسی حیثیت سے بھی رہتی۔ایک لونڈی نہیں کئی کئی لونڈیاں اُس سماج میں رکھنے کا رواج تھا۔ (غلام کا تصور اب جا کے 1946میں UNO کے چارٹر میں ممنوع کیاگیا)
ان نقاط کو دیکھیے۔ یوں عورت کے ساتھ جنسی مباشرت کا تصور وہ نہیں جو آج رائج ہو چکا ہے۔ مذکورہ بالا نکات کے بعد بھی اگر اُس سماج میں کوئی عورت کی طرف دیکھتا یا زنا کا مرتکب ہوتا تو اُسے کڑی سے کڑی سزا دی جانے کا تصور موجود تھا۔ ہم نے کیا کِیا؟ ہم نے وہ پورا سیاق (cotext) بڑی خاموشی سے غائب کر دیا اور صرف اُن احادیث اور روایات کو لے لیا جو جنسی حوالے سے سختی سے کاربند رہنے پر مجبور کرتی تھیں۔ کیا یہ اسلامی تصورات کی غلط تعبیر نہیں؟
۱۔ کیا اسلامی تصورات خصوصاً جنس کے متعلق امور کو انھی تصورات کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے جس context میں وہ پیش ہوئے؟
۲۔ کیا آج جنس کا وہی تصور یا عملیات (practices) موجود ہیں جس طرح کا تناظر اُس وقت موجود تھا؟
کہا جاتا ہے کہ عورت کی آواز بھی غیر محرم کے سامنے سنائی نہ دے۔ عورت جب بازار میں چلے تواُس کے پاؤں کی آواز بھی سنائی نہ دے۔ عورت اور مرد اکیلے میں آگ ہیں۔ ہم نے اس طرح اپنی روایت کو درست سمت میں سمجھا ہی نہیں۔ ہمیں آج کے تناظر میں نئے سرے سے جنس کے متعلق سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عہدِ نبی ﷺ میں تو جنس کی کمی کا تصور موجود ہی نہیں صرف کج روی اور گھٹیا پن کو موضوع بنایا گیا ہے جب کہ ہم نے جنس کی عدم موجودگی کو انھی روایات پر لاگو کر دیا۔
The questions you raised are very important and worthy of consideration by the scholars.