سماج اور جنسی تصورات
از، ارشد محمود
اس زمین پر زندگی کا آغاز تقریباً تین ارب سال قبل ہوا۔ ان میں ابتدائی دو ارب سال تک حیات (organism) کی افزائش خلیے کے از خود منقسم ہونے سے ہوتی رہی۔ اس طریقے سے ہوبہو پہلے جیسی اکائی پھر سے جنم لے لیتی۔ اس طویل عرصے کے دوران ارتقا بے حدسست رہا جس کی وجہ سے نئی اشکال اور دیگر نوعی تبدیلیاں بہت کم وقوع پذیر ہوئیں۔ سبز کائی حیات کی وہ پہلی شکل تھی جس نے ایک ارب سال قبل بذریعۂ جنس (sex) اپنی افزائش کو شروع کیا۔ چنانچہ جنسی طریقۂ افزائش سب سے پہلے پودوں، پھر حیوانات سے ہوتا ہوا انسانی دنیا کا معمول بن گیا۔
انواع کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر افزائشِ نسل (breeding) نہیں کر سکتے۔ جنسی طریقۂ افزائش سے حیاتیاتی اشکال میں بے حد تنوع پیدا ہوا اور ارتقا کے نہ ختم ہونے والے عمل کو دھکا مل گیا۔ اس عمل سے حیات کی ہر وحدت اپنی نوع کے اندر رہتے ہوئے انفرادیت کو قائم رکھتی ہے۔ جنس فطرت کے انتخابی نظام (natural selection) کی تشکیل کرتی ہے، جس کے نتیجے میں موزوں ترین کی بقا (survival of the fittest) کا نظام عمل میں آتا ہے۔ نیرنگیِ حیات کا سارا دارومدار گونا گونی میں مضمر ہے۔ تنوع کا عمل ارتقا کے ساتھ مزید تفاوت پیدا کرتا گیا۔
انسانی نوع میں جنس بے حد ترقی یافتہ شکل میں پائی جاتی ہے اور اس کا بہت ہی خصوصی کردار ہے۔ اس کی مادہ کسی خاص وقت یا موسم کی محتاج نہیں ہوتی اور وہ افزائش کے جنسی عمل میں پوری سرگرمی سے شرکت کرتی ہے۔ مخلوقات کی متنوع دنیا میں صرف انسانی نوع میں مادہ کو شہوتی ہیجان (orgasm) حاصل ہے۔ گوریلا نر اپنی مادہ کے وزن سے دوگنا ہوتا ہے۔ گوریلا اور چمپینزی کے نر اور مادہ کے درمیان بہت زیادہ فرق ہوتا ہے، جب کہ مرد اور عورت کے درمیان جنسی اور حیاتیاتی رویوں میں بہت کم فرق ہے۔ مخلوقات میں صرف انسان ہیں جو آمنے سامنے ملاپ کر تے ہیں؛ یہ مردوزن کے درمیان عمومی مساوی حیثیت کا فطری اظہار بھی ہے۔
یہ کہنا صحیح نہیں کہ انسان فطری طور پر یک زوج (monogamous) ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مرد وزن ایک سے زیادہ کے ساتھ جنسی ربط کی فطری طور پر خواہش رکھتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام سماج اس کے لیے مختلف ضوابط تشکیل دیتے رہے ہیں۔ قدیم مذاہب میں جنس کے ساتھ گناہ کا کوئی تصور نہیں تھا، بلکہ جنسی اختلاط کو مقدس رسم کے طور پر مندروں میں ادا کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انسان کو سب سے زیادہ فطری قوتوں کے ساتھ مقابلے میں ماورائی قوتوں کی مدد حاصل کی جائے۔ اپنی یقینی بار آوری اور ان پودوں اور حیوانوں کی یقینی افزائش انسان کی سب سے بڑی پریشانی تھی جو اس کے لیے خوراک مہیا کرتے تھے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں خوراک کی فراہمی غیریقینی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں جنسی فعل اور پوجا پاٹ آپس میں خلط ملط ہو گئے، تاکہ جنسی (تخلیقی) فعل میں خدائی قوتوں کو شامل کرکے اپنی بقا کو یقینی بنا یا جاسکے۔
کئی مذاہب کے دیوتا (gods) خود جنسی طور پر فعال زندگی گزارتے رہے ہیں۔ جنس کے ساتھ گندے پن اور گناہ کا احساس ہمیں بہت بعد میں آج کے مقبولِ عام مذاہب (اسلام، عیسائیت اور یہودیت) میں ملتا ہے، جنھوں نے عمومی طور پر جنس دشمن (anti-sex) رویے کا اظہار کیا۔ انھوں نے تخلیقِ انسان کے بارے میں جو کہانیاں بیان کیں ان میں جنسی عمل کو حیران کن طور پر دبا دیاگیا ہے اور اسے افزائش کے لیے ضروری عمل قرار نہیں دیا گیا۔ حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا جاتا ہے، کنواری عورت کے ہاں بچے کی ولادت کروادی جاتی ہے! عیسائی بہشت میں جنس ناپید ہے اور جنسی میلانات کو شیطانیت سے منسوب کیا گیا ہے۔
مزید دیکھیے: کائنات کے آخری پانچ سیکنڈ کا قضیہ از، سید کاشف رضا
سماجی سطح پر کون سا فعل جنسی قرار پائے گا، اس کا انحصار اس فعل کے سیاق وسباق کو دیکھ کر طے کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بوسہ غیر جنسی محبت، احترام اور سماجی سلام دعا کی علامت بھی ہو سکتا ہے۔ انسانوں میں جنس کے فرق کا شعور بچپن سے ہی پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بچے اپنے جنسی اعضا کا معائنہ متجسس نظر وں سے کرتے ہیں اور ان سے چھیڑ چھاڑ کرکے لذت محسوس کرتے ہیں۔بچے کو جلد سمجھ آجاتی ہے کہ سوائے جنسی اعضا والے حصوں کے وہ اپنے اور کسی اور دوسرے کے جسم کے کسی بھی حصے کو چھو سکتا ہے۔ بچہ معصومیت سے جو نہی جنسی اعضا کو ہاتھ لگاتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ بڑے فوراً متوجہ ہوتے ہیں اور سر زنش کرتے ہیں یا اس کی توجہ کو دوسری طرف ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس سے بچے پر یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اس حصے میں کوئی خاص بات ضرور ہے اور یہ حصہ سماجی لحاظ سے ممنوع (taboo) ہے۔ جب وہ اپنے شباب کی عمر کو پہنچتے ہیں تو والدین اور سماج آسانی سے تسلیم نہیں کرتے کہ اب بچے جنسی صلاحیتوں کے حامل ہو گئے ہیں اور جنسی احساسات انھیں متاثر کررہے ہیں۔ بچے کو بتایا جاتا ہے کہ وہ جنسی عمل سے اجتناب کرے۔ نوجوان لڑکیوں کو حمل، جنسی بیماریوں اور ’’بے عزت‘‘ہونے سے ڈرایا جاتا ہے۔
مذہب اس میں گناہ کے تصور کو بھی شامل کردیتا ہے۔ ہمارے جیسے معاشروں میں مرد اور عورت کے لیے مختلف اخلاقی پیمانے استعمال ہوتے ہیں۔ جنسی تفریق اور اخلاقیات کے اس دوہرے معیار کی وجہ سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان رفاقت کے فطری رشتے کی بجائے خوف، تشکیک اور کمزور بمقابلہ طاقتور کا تعلق استوار ہوجاتا ہے جہاں بالغ مرد کی خواہش، دعا اور کوشش ہوتی ہے کہ کاش کسی نہ کسی طریقے سے کوئی لڑکی یاعورت ’’پھنس‘‘جائے۔ صنف مخالف اس کے پھینکے ہوئے جال سے بچے رہنے میں اپنی عافیت سمجھتی ہے۔ چنانچہ باہمی تفہیم اور احترام کا رشتہ استوار ہونے کی بجائے ایک ایسی کشمکش کا نقشہ بنتا ہے جس میں لڑکی مزاحمت کا ر اور مرد ایک جارح اور بہکانے والے کا کردار ادا کرتا ہے۔ مردانہ امیج کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مقابلے میں اپنی کامیابی کو ثابت کرے۔
اس طرح کا افسوس ناک رشتہ عورتوں کے رویے پر بڑے دُور رس منفی نتائج مرتب کرتا ہے۔ اس کا مردوں پر اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اور مردوں کی عورت کے ساتھ بنیادی دلچسپی صرف جنس (sex) تک محدود ہوجاتی ہے۔ عورت مرد کے سامنے مسکرانے یا اس کے ساتھ دوستانہ رویے میں پیش آنے سے اجتناب کرتی ہے کہ کہیں مرد اس کا کہیں غلط مطلب ہی نہ لے لے۔ گویا اپنے اس معاشرہ کا سائنسی تجزیہ کرنا نہایت ضروری ہے، جس نے اخلاقیات یا مذہب کے نام پر فطرت کے بنائے ہوئے صنفی رشتوں میں نہ صرف بگاڑ پیدا کیاہے، بلکہ انھیں گھٹیا سطح پر لاکھڑا کیا ہے۔
شکوک، عناد اور اضطراب کی ایسی فضا میں مرد وزن کے بیچ میں اعتبار اور گرم جوشی پر مبنی صحت مندانہ تعلقات جنم نہیں لیتے۔ اگر چہ محبت (love) کی طاقت ور جبلت اس طرح کے منفی رشتے کو کم ضرور کرتی ہے، خاص طور پر مردوں میں،لیکن عورت پھر بھی دفاعی اور شکی روّیہ بر قرار رکھتی ہے۔ استرداد، استحصال اور دل شکنی کے مذکور ہ بالا عوامل موجودگی میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ ہمارے معاشرے میں جنس کے بارے میں ایک صحت مند اور عقلی (rational) رویہ قائم ہو سکتاہے۔ چنانچہ ہمارے سماج میں لڑکا ہو یا لڑکی دونوں مسخ شدہ جنسی رویے اور دبی ہوئی شخصیتوں کے ساتھ بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں۔
نوجوان جوڑے میں جنسی خواہش چوں کہ شدید اور مسلسل ہوتی ہے، اس لیے باربار کے جنسی عمل کے بعد ہی نوبیاہتا جوڑا شرم اور گناہ کے ابتدائی احساس پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ سماج کی جنسی ملاپ پر غیرضروری پابندیاں ’’چاہے جانے ‘‘کی فطری جبلت کے آگے خس وخاشاک کی طرح بہہ جاتی ہیں۔ مرد ہو یا عورت، ہر ایک کو اس بات کی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ اسے چاہا جائے۔اور محبت کے زیرِ اثر جنسی ملاپ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ آپ پرکشش، چاہت کے قابل اور لائقِ عزت ہیں اور یہی ثبوت ہردو جانب فریق کی عزتِ نفس اور خوشی کے لیے لازم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہایت گھٹن اور پابندیوں کے ماحول میں پلے ہوئے افراد بھی محبت کے اس طاقت ور محرک کی وجہ سے اپنے آپ کو دوسرے کے سپرد کردیتے ہیں اوربسا اوقات سماجی پابندیوں کی پروا بھی نہیں کرتے۔
امریکی ماہر بشریات جی پی مدوک سماجی اور ثقافتی نقطۂ نظر سے جنسی مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس مسئلے کا سامنا تمام معاشروں کو کرنا پڑا ہے کہ جنس پر کنٹرول بھی کیاجائے اور اس کی مناسب حد تک چھوٹ بھی دی جائے،چنانچہ اس کے حل میں بھی سبھی سماجوں نے حدود اور ممانعتوں کے ساتھ کچھ اجازتیں بھی دے رکھی ہیں، تاکہ معاشرے کو انتشار زدہ جنسی دوڑ سے محفوظ رکھاجاسکے۔ اجازتی ضوابط ایسے ضرور رکھے جاتے ہیں جس سے فرد کی کم سے کم جنسی ضرورت کی تسکین بہرحال ممکن ہو سکے۔
جنسی ضوابط کا تاریخی پس منظر
قوموں کے جنسی رویوں پر نظر ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے تاریخی ورثے کا مطالعہ کیا جائے۔ اپنی سماجی تنظیم، فلسفے اور قانون کے لحاظ سے مغربی تہذیب کی جڑیں بنیادی طور پر یونان اور روم میں پیوست ہیں،جس پر یہودیت اور عیسائیت کی گہری چھاپ پڑی ہوئی ہے۔ اس تاریخی ملغوبے میں متضاد عناصر شامل ہیں۔ وہاں شخصی آزادی کا بے حد احترام تھا لیکن قانون اور مناسب طریقے پر بھی بہت زور دیا جاتا تھا۔ جہاں روم اور یونان کی اصنام پر ستی کا ٹکراؤ یہودی و عیسائی وحدانی تصورِ خدا سے ہوا وہاں یونانیوں کی جنسی مباحت (permissiveness) کاتضاد ابتدائی عیسائیت کی مجنونانہ جنس دشمنی کے ساتھ پیدا ہوا۔ رہبانیت کے تصور کا ارتقا اس خیال کی پیداوار تھا کہ اس نفس پر ستانہ مادی دنیا کے مقابلے میں ایک روحانی دنیا ہے جو اچھی ہے، چنانچہ گوشت پوست کے اس جسم اور روح کے درمیان مسلسل کشمکش چلتی رہتی ہے۔
چونکہ جنسی فعل کا تعلق جسمانی لذت کے ساتھ ہے، لہٰذا یہ بھی روح کی دشمن ہے۔ یہودیت بھی جسم اور روح کی مذکورہ تقسیم کی قائل تھی۔ اسی طرح ابتدائی عیسائی دور میں شادی سے باہر جنسی بندھن ناقابلِ تصور تھا۔ شادی بھی محض افزائش کی خاطر ایک بدبخت ضرورت تھی نہ کہ ذریعۂ لذت۔ عیسائیت میں نہ تو خدا کی کوئی بیوی ہے نہ اس کے نبی کی،اور ان کی جنت میں بھی جنسی زندگی کا تصور نہیں ملتا۔ عیسوی مذہب میں جنس دشمنی کا سبب ان کا وہ الہامی نظریہ تھا جس کے مطابق قیامت نزدیک تھی اور انسان کی اس مادی دنیا سے خلاصی جلد ہی ہونے والی تھی۔ لیکن بعد ازاں جب یہ احساس ابھرا کہ ابھی انسان نامعلوم مدت تک اس دھرتی پر زندہ رہنے والا ہے، تب جنسی ضوابط میں نرمی کی گئی۔ روح اور مادے کے درمیان تفریق اور روح کی برتری کا تصور صرف یہودی اور عیسائی مذہب کا خاصہ ہی نہیں، اس نظریے سے دیگر مذاہب بھی متاثر ہیں۔ اسلام کے اندر بھی یہی عقیدہ پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔
جس طرح یہودی اور عیسائی مذہب جنسی گناہ اور اس کی طرف ترغیب کا سارا بوجھ عورت کے کندھے پر ڈال دیتے ہیں،اسلام میں بھی عورت روحانی طور پر ایک کمزور مخلوق ہے جو شہوانی جذبے کے آگے آسانی سے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ وہ حوا کی طرح مرد کو گناہ کی طرف مائل کرتی ہے۔ اس طرح مردوں نے مذاہب کی آڑ میں اپنی گناہ آلودہ خواہشوں کو عورت کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بری کرلیا! اگر چہ آج کی دنیا میں تھیاکریسی کا خاتمہ ہو چکا ہے اور قانونی کنٹرول مذہبی پیشوائیت سے ریاست کو منتقل ہو چکا ہے، لیکن ہمارے موقع پر ست حکمرانوں کی وجہ سے مذہبی پیشوائیت کو ماورائے قانون سماجی ضوابط پر اب بھی طاقتور کنٹرول حاصل ہے۔
بعض معاملات میں ملاؤں کی شریعت ریاستی قوانین سے زیادہ موثر ہو جاتی ہے۔ اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ ریاست کی بنائی ہوئی سیکولر عدالتوں میں جج صاحبان نے شریعتی بنیاد پر فیصلے سنانے شروع کردیے ہیں، جو انسانی حقوق اورسول سوسائٹی کے مروجہ اور ان عالمی معیاروں کے صریحاً خلاف ہوتے ہیں جن پر ہماری ریاست نے دستخط کر رکھے ہیں تاکہ دنیا ہمیں وحشی اقوام میں شریک نہ سمجھے۔ جیسے غیرت کے نام پر عورت کے قتل کو جائز قرار دینا یا پھر شادی کے لیے مرد سرپرست (ولی) کی اجازت کو ضروری قرار دینا وغیرہ۔ مغرب میں مذہب سماجی کنٹرول کے میکا نزم کی حیثیت سے خاصا کمزور ہو چکا ہے۔ وہاں جنس اور اس پر پابندیوں سے متعلق قوانین کافی حد تک نرم ہو چکے ہیں۔ مغرب کی دنیا میں جنس اب گناہ نہیں فطرت کی دی ہوئی صلاحیت ہے جسے تعمیری انداز سے استعمال کیا جاسکتا ہے، جب کہ ہمارے جیسے پسماندہ مشرقی سماجوں میں مذہب کے زیر اثر جنس آج بھی پر اگندہ اور گناہ آلودہ فعل ہے۔
(ا) شادی
جب شادی کا ادارہ وجود نہیں رکھتا تھا،تب جنسی ملاپ کے لیے کھلی مقابلے بازی تھی۔ شادی کے ادارے نے مرد اور عورت کے لیے نہ صرف جنسی ساتھی کو یقینی بنایا،بلکہ انھیں ذہنی فرصت بخشی کہ وہ اپنی توانائی اور وقت کو جنسی تسکین کی تلاش میں صرف کرنے کی بجائے انھیں زندگی کے دوسرے مفید معاملات میں لگا سکیں۔ ورنہ شادی کے ادارے سے قبل بزرگ حضرات اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے خاندان کی جوان لڑکیوں پر قبضہ کرلیتے تھے اور اپنے نوجوانوں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ جنسی ساتھی کے طور پر بیرونی قبائل کی عورتوں پر ہاتھ صاف کریں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شادی کا ادارہ محض بچوں کی نگہداشت کے لیے نہیں بنا تھا، کیونکہ اس کے لیے متبادل انتظامات بھی ہو سکتے ہیں۔
(ب) بالجبر جنسی تعلقات پر کنٹرول
کسی کے ساتھ بالجبر جنسی فعل کرنے کو اس لیے ممنوعہ قرار دیا گیا تاکہ متاثرہ فریق کے جذبات کو ٹھیس پہنچنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غصے اور انتقام سے بچا جائے اور شاید اس لیے بھی کہ جبری جنسی رشتے سے پیدا ہونے والے بچے کے امکان کو ختم کیا جاسکے۔
(ج) خونی رشتوں کے درمیان ممانعت
تمام معاشروں نے محرمات سے مباشرت کو ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ قدیم لوگ جدید سائنس کے علم جینیات کے اس انکشاف سے اگرچہ ناواقف تھے کہ قریبی خونی رشتوں میں شادی کمزور بچوں اور پیدائشی بیماریوں کا سبب بنتی ہے، البتہ محسوس ہو تا ہے کہ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ سوسائٹی اپنے ہی جالے میں الجھ کر بند نہ ہو جائے۔
(د) جنسی استثنا
یہ بات تسلیم کی گئی کہ انسان کسی ایک ضابطے کے تابع مستقل طور پر نہیں رہ سکتا، چنانچہ کچھ مستثنیات بھی بنائی گئیں۔ مثلاً طلاق کا نظام وضع کرکے شادی میں استثنا پیدا کی گئی، تاکہ شادی کی ناکامی کی صورت میں اسے توڑ کر کسی دوسرے کے ساتھ جنسی رشتہ قائم کیا جاسکے۔ کئی معاشروں میں شادی کے بعد بھی اپنے کسی مخصوص رشتے دار سے جنسی ملاپ جائز سمجھا جاتا ہے۔ مذہبی اور دیگر تہذیبی تہواروں میں عارضی طور پر جنسی پابندیاں اٹھالی جاتی رہی ہیں۔ آج بھی دنیا کے بیشتر اقوام اور ممالک میں جنسی عمل کی خرید و فروخت کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں قائم و دائم ہے، جہاں حسب ضرورت جنسی تسکین کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
good article, but my research says that life on earth started not 3 billion years ago but 2 billion and 90 crore years ago.
بہترین تحریر۔ ہمیشہ کی طرح۔