شہباز گل جنسی تشدد کا الزام جنسی تشدد میں قصور کس کا ہوتا ہے؟
از، علی ارقم
کچھ دن پہلے انتہائی معتبر صحافی مطیع اللہ جان کے وی لاگ میں ان کی شہباز گل سے گفت گو ہوئی جس میں شہباز گل اور اس کا ٹولہ مطیع اللہ جان پر جُملے کَستے رہے کہ جبری طور پر اٹھائے جانے کے دوران ان پر جنسی تشدد کیا گیا ہو گا۔
قطعِ نظر اس بات کے کہ ایسا ہوا تھا یا نہیں، مطیع اللہ جان اس کی پروا کیے بہ غیر اپنے سوالات دُہراتے رہے اور ذرا سا بھی جھجک نہیں دکھائی۔ اگر ایسا کوئی بھی تشدد ہوا تو اس میں مطیع اللہ جان کے لیے شرمندگی یا رسوائی کی کوئی بات نہیں تھی۔
کیوں کہ حراست کے دوران کسی بھی قسم کا سلوک چاہے، وہ تشدد کی کوئی بھی قسم ہو، اس سے زیرِ حراست فرد کو شدید جسمانی اور ذہنی اذیت میں مبتلا کر کے توڑنا مقصود ہوتا ہے۔ وہ آج بھی اپنی طرزِ صحافت پر ڈٹے ہوئے ہیں جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ شکست خوردہ وہ نہیں، اُن کے مخالفین ہیں۔
عمران خان کا شہباز گل پر تشدد کا الزام، اس بات سے قطعِ نظر کہ درست ہے یا نہیں، ظاہر ہے تحقیق سے ہی پتا لگایا جا سکتا ہے، لیکن اس میں شہباز گل کے لیے کسی بے عزتی یا بے توقیری کا تأثر نکالنا احمقانہ ہے۔ تشدد کی کوئی بھی قسم، کسی بھی سطح پر ہو، وہ قابلِ مذمت ہے۔
موہُوم سی امید بھی ہے کہ شاید اعلیٰ سطح پر ایسی کوئی مثال قائم ہو تو کسی دن نچلی سطح پر اور حقیقی سیاسی کارکنوں کی زیرِ حراست تشدد کے خلاف کل بات کرنا، آواز اٹھانا آسان ہو جائے۔ یہ راستہ کٹھن ہے، یہ منزل آساں نہیں۔ لیکن طاقت ور طبقات کے باہمی تصادم اور کش مکش سے کُھلنے والے تضادات، ان سے بندھے کاسہ لیسوں کے حیلے و بہانے سننا دل چسپ ہے۔
تضاد جتنا کھلے گا، راہیں بھی کھلیں گی، انجوائے کریں۔
بس یہ نہ کہیں کہ اوئی اوئی بے عزتی ہو گئی، عزت لٹ گئی، ہمارے بڑے بہادر اور جرّی دوست ہیں جنھوں نے زندان خانوں کا یہ یہ جبر سہا ہے، لیکن قدم لرزاں نہیں ہوئے، اور نہ ہی ان کی قدر و منزلت میں کوئی کمی آئی ہے۔