شاہ لطیف کو آج کی سسی اور ماروی ڈھونڈتی ہیں
از، کشور ناہید
ایک طرف سعودی عرب میں ولی عہد سعودی عرب کو جدید بنانے، جاز موسیقی کا کنسرٹ منعقد کرنے اور جدید شہر بنانے کا اعلان کررہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں ختم نبوتؐ کے نام پر دھرنے اور جلوس جاری ہیں۔ بسوں میں سوار ہر تیسری سواری کو محبت سے بسکٹ کھلا کر اس کا مال و اسباب لوٹا جا رہا ہے۔
شاہ لطیف! آپ اورنگ زیب کے آخری زمانے میں بھٹ شاہ کے اس علاقے میں پیدا ہوئے، جہاں جاگیرداروں، وڈیروں اور سیدوں کی حکومت تھی۔ آپ کو مال و دولت سے غرض تھی نہ آپ پر سیدوں کا رعب پڑتا تھا۔ آپ تو کونپل جیسی انگلی کو دیکھ کر بھی اپنا دل وار دیتے تھے مگر آپ نے خود کو ملاحوں، مچھیروں، دھوبیوں، چرواہوں، سادھوؤں، خاک نشینوں کو اپنا ہمسر جانا۔
وادی سندھ کی مقبول عام کلاسیکی داستانوں کو بیان کرتے ہوئے، اپنے ذوق جمال کے علاوہ روحانی بالیدگی کو بھی مدنظر رکھا۔ شاہ لطیف بقول شیخ ایاز تصوف پسند ہی نہیں تصوف پرست بھی تھے۔ سندھ کی عشقیہ داستانوں کو بیان کرتے ہوئے، شہر میں اور شُرَفاء کی ثقافت کا اظہار تھا۔
شاہ سائیں نے بقول آغا سلیم اپنی شاعری کا آہنگ اور لہجہ دھتکارے ہوئے عوام سے لیا اور انہی کے لہجے میں محبتوں اور محرومیوں کے گیت لکھے، لفظوں کے صوتی آہنگ کے لیے ایرانی اسلوب شعر کی بجائے مقامی الفاظ، اوزاروں کو ان کے مقامی لہجے ہی میں اپنے شعروں میں استعمال کرتے تھے۔
شاہ سائیں نے عشق کی چوٹ کھانے اور لاحاصل کو حاصل نہ کرنے کی بے تابی اور بے بسی میں تین سال تک جو سفر کیا، وہ سفر ان کے دکھ کا سفر تھا۔ مثلاً اس زمانے میں کیا آج کے بھی جاگیردارانہ معاشرے میں جُولاہوں کا کوئی مقام نہ تھا مگر شاہ سائیں نے لکھا۔
چلو تو جولاہوں کے پاس چلیں کہ ان کا
عشق بہت نازک ہوتا ہے
وہ صرف جوڑنا جانتے ہیں
توڑنا تو وہ جانتے ہی نہیں
آگے شاہ سائیں مچھیروں کی زندگی یوں بیان کرتے ہیں۔
بدبو جن کی خوراک
بدبو دار مچھلیاں جن کی پونجی
سمہ سلطان نے ان سے رشتہ جوڑا
جو دکھوں سے نڈھال ہیں
لطیف کہتا ہے کہ اسے سمہ سلطان
ان ٹھکرائے ہوئے، دھتکارے ہوؤں کی لاج رکھنا
میں آج جب گوادر کے ساحل پر مچھلیوں کو صاف کرنے والی عورتوں کے ہاتھ دیکھتی ہوں تو ان کے ہاتھوں کے ناخن بھی مچھلیاں صاف کرتے کرتے ختم ہوگئے ہیں۔ سمہ سلطان آج کی سمہ سلطان مچھیرن پر کوئی جام تماچی عاشق نہیں ہوتا، اور اگر ہوتا بھی ہے تو آج کےخود ساختہ سردار ان کو غیرت کے نام پر قتل کردیتے ہیں۔
آج کے زمانے میں بھی بہت سی مارویوں کوبہت سے عمر نامی، سومرو بادشاہ زبردستی اِغوا کرتے ہی نہیں ان کو برہنہ کرکے پورے گاؤں میں پِھرواتے ہیں۔
شکر ہے شاہ سائیں! آپ اس زمانے میں نہیں، آپ کی تحریروں اور شاعری کی ہیروئن تو باقاعدہ شہزادیاں تھیں جو طلِسمی محل بھی بنوا لیتی تھیں۔ آپ کے زمانے کی ماروی تو اپنے میکے کی دی ہوئی میلی کملی اپنے سر سے نہیں اتارتی۔
اے عمر بادشاہ! چرواہوں کی یہ رِیت نہیں
کہ غیروں کے عِوض اپنے ہم وطنوں کو بیچ دیں
شاہ سائیں! کیوں یاد کراتے ہو، ہمارے ملک کے بڑے سیاست دانوں نے ڈالروں کے عوض، امریکہ کے حوالے کتنے لوگ کیے اور آج بھی پورے سندھ میں اغوا کیے جانےوالوں کے گھر والے کب سے ان کی واپسی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ شاہ سائیں آپ کی ماروی تو کہتی ہے کہ
عظیم ہیں میرے وطن کی بیٹیاں
جن کا ستر، صحرا ہے
وہ اپنے جسموں کو جنگلی بیلوں
اور درخت کے پتوں سے ڈھانپ کر
صحرا میں گھومتی رہتی ہیں
شاہ سائیں! آپ تو روح اور اس کے علاوہ عشق کی تہوں کو پہچانتے تھے۔ آپ جب مومل کے حوالے سے رانو سے کہلواتے ہیں:
اے میرے اونٹ! چل تو مومل کے دیس چلیں
جہاں مہکتی ہوئی بیلیں ہیں، کنواریاں ہیں
اور ایسے کنول کے پھول ہیں
کہ جن پر بھنورے نہیں منڈلاتے
سسی پنوں کے عشق کی کہانی بیان کرتے ہوئے، آپ کو بھنبھور یاد آتا ہے۔
بھنبھور تیرا میلا تھا
پنوں نے آکر اسے اجلا کیا
کنواریوں نے کپڑے رنگنے سیکھے
اور اس کے رنگ میں رنگ گئیں
شاہ سائیں! اپنی پوری شاعری میں عجمی اور اردو شعری غزل کا پیرایہ نہیں اختیار کرتے وہ علاقائی رسموں، تشبیہوں اور استعاروں کے ذریعے بیان کرتے ہیں:
’’جس طرح کنڈی بھینس کے سینگ بل کھا کر آپس میں لپٹے ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارا محبوب ہماری روح سے بل کھا کر لپٹا ہوا ہے‘‘۔
شاہ سائیں نے شاہ عنایت صوفی کی پیروی کرتے ہوئے، اس دور کے جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف احتجاج کیا اور پورے دور کر ٹھکرا کر ریت کے ایک ٹیلے پرسکونت اختیار کی۔ شاہ عنایت کی شہادت کے موقع پر، گلی گلی آواز اٹھی تھی ’’سارا جہاں منصور ہے، تو کس کس کو سولی پر لٹکائے گا‘‘۔
اسی طرح کی گونج 1979ء میں سنی گئی ’’تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘‘۔ عوامی نعرہ، عوام کا انقلاب کی جانب رجحان شاہ سائیں کے اندر دھڑکتے ہوئے عقیدے، اللہ اور اس کے رسولؐ کے عشق میں رچا ہوا ہر مصرعہ آج بھی سندھ کے پڑھے لکھے تو الگ ان پڑھ ہاریوں کے لبوں پر یوں رواں ہے کہ جیسے سب کچھ ان کے دم سے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسعود کھدر پوش کی ہاری رپورٹ، جس کو آئے ہوئے بھی پچاس برس ہوگئے ہیں، کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ ہمارے ہاری، جن زمینوں سے فصل اگاتے ہیں۔ اس کا ایک چوتھائی بھی انہیں نہیں ملتا۔ وہ اور ان کی عورتیں، وڈیروں کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتے۔
شاہ سائیں! دنیا کتنی بدل گئی مگر سندھ کیا پنجاب کے ہاری کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ آج بھی شاہ سائیں! وڈیروں کے ڈیروں پر ہاری کیا عام انسان کو بھی ننگے پیر، ان کے قدموں میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ آج کی لیلا کے پاس نہ تو لکھا ہار ہے اور نہ چنیسر جیسا عاشق کہ حسن و محبت سے مرعوب ہوکر جان دے دے۔
آج کل میک اپ کرانے کے باوجود مومل جیسا پاگل کرنے والا حسن نظر نہیں آتا بلکہ ایک امریکی خاتون کی شادی یاد آتی ہے، کہ جب سہاگ رات کو اس نے پہلے، اپنی وِگ اتاری، پھر نقلی پلکیں اور دانت تو امریکی پنہوں نے بھاگ کر جان چھڑائی۔ ہمارے پنہوں کا ٹوٹا پھوٹا قلعہ تو کیچ میں ہے۔ مگر سسی، وہ تو اپنے زمانے میں پہاڑ میں دفن ہوگئی مگر آج کی سَسیاں، کبھی چوہے مار گولیاں کھالیتی ہیں تو کبھی بچوں سمیت دریا میں چھلانک لگا دیتی ہیں۔
شاہ سائیں! صرف سندھ کی شہزادیوں کا احوال نہیں سناتے وہ تو سوہنی مہینوال کے عشق کی داستان کو بیان کرتے ہوئے جب یہ لکھتے ہیں کہ سوہنی کو روز مچھلی کھلانے والے مہینوال کو طوفان کی وجہ سے مچھلی نہ ملی تو اپنا پٹ کاٹ کر سوہنی کو کھلا دیا۔
شاہ سائیں! سوہنی تو کچے گھڑے کے باعث اور مہینوال ٹانگ کے زخم کے باعث، دونوں کو دریا نے ہم آغوش کیا۔ اب تو ہمارے دریاؤں میں بھی پانی کم رہ گیا ہے۔ شاہ سائیں! ہمیں داعش اور دہشت گردوں نے گھیرا ہوا ہے۔ وہ وقت ہے کہ کہہ اٹھتے ہیں کہ ’’یاراں فراموش کر دند عشق‘‘
شاہ سائیں! ہمیں تو اب سُروں کی پہچان بھی یاد نہیں کہ کوک اسٹوڈیو میں ہمارے نوجوانوں کی دلچسپی کا سامان ہے۔
بشکریہ: روزنامہ جنگ