شہباز گل اور علی وزیر
از، یاسر چٹھہ
جس سے حکمت، دانش، انسانی ہم احساسی اور فہم کی بات سننے کو ملے وہ آپ کا محسن ہوتا ہے۔
مجھ نا سمجھ کو شہباز گُل جیسے دھمکی باز، فسطائی مزاج اور عمران خان کے خام چیف آف (اِن)سِول سٹاف افسر شہباز گِل کے لیے آنسووں کی جھڑی کی دعوت ضرور قابلِ قبول ہو گی؛ مگر یہ دعوت صرف وہی دیں جنھوں نے علی وزیر کے معاملے پر بھی اتنی ہی انسانیت دکھائی تھی۔
دیکھیے، اپنے سے کسی مختلف خیالات رکھنے والے کو اس کے فکری مَیلان اور اخلاقی بنیادوں کے تضاد کی چتاؤنیاں دینے سے قبل تھوڑا سا خود اپنے کلف والے لباس پر بھی استری مارنا، برا یاد داشتی پیام ہر گز نہیں؛ بل کہ ہم سب کے لیے بھلائی کی پیام بَری ہے۔
رعُونت، اکڑ فُونی اور خود کو جواب دہی سے بالا سمجھ کر اور same page کے راجے بن کر پی ٹی آئی نے اپنے سُرنگی ویژن کے متبادل خیال رکھنے والوں کی مَیّتوں تک کا لحاظ یا پاس نا رکھا۔
آج وہ ہمارے اخلاقی ما فی الضّمیر کو کُہنیاں مار کر، بھاگ کر ہمارے کُرتوں کے پچھلے کونے کو پکڑتے ہیں، اور لشکرِ یزید سے نکل کر خود کو حُر قرار دینے کی ویسی ہی کوشش کرتے ہیں، جیسی اُڑے رنگوں والی کوشش عمران خان ریاستِ مدینہ بنانے کے لیے کرتے رہے۔ اس ان کی اپنی ہی طرز کی کوئی مدنی ریاست سازی کی کوشش میں سر گرداں رہنے کے کارِ ثواب میں ابراج گروپ سے حاصل جُوے اور قِمار بازی کے پیسے جھونکتے رہے، اور قِمار خانی کرتے رہے۔
یہی بات پاکستان مسلم لیگ حکومتی گروپ کے اخلاقی چوکی داروں کو بھی باور کرائی جاتی ہے کہ کل کو ان کے کسی گُڈّی پٹولے کے ساتھ بھی شہباز گُلی ہوتی ہے تو وہ بھی ہمیں چتاؤنی دینے سے باز رہیں۔ ایسا رویہ رکھنے پر ہماری جانب سے دور سے ہی کہا جائے گا:
شکریہ میاں حمزہ شہباز شریف!
تنویر انجم نے کیا خوب کہا ہے:
اصل کے زمانے
لوٹ کر نہ آنے والوں کے ساتھ
دُھند کے اس پار چلے گئے
یہ دل وہ موسیٰ ہے
جو آگ لینے گیا اور اُسے صرف آگ ہی ملی
انگاروں کو تھام کر
موسیٰ نے اپنے ہاتھ جلا لیے
اور زندگی کے رنگ نے
جلے ہوئے ہاتھوں پر چڑھنے سے انکار کر دیا
اصل کے زمانے
لوٹ کر نہ آنے والوں کے ساتھ
دھند کے اس پار چلے گئے
یہ دل وہ موسیٰ ہے
جو آگ لینے گیا اور اسے صرف آگ ہی ملی
انگاروں کو تھام کر
موسیٰ نے اپنے ہاتھ جلا لیے
اور زندگی کے رنگ نے
جلے ہوئے ہاتھوں پر چڑھنے سے انکار کر دیا
میں تکمیل کے صحرا میں بھٹکتا ہوا ذرہ ہوں
سورج ہونے کے گمان سے دور
اور بچے ہوئے لمحوں کو گود میں لیے زندگی
ہر رائیگاں صبح کی چِتا پر
ستّی ہو جانے والی بیوہ ہے