شہزاد اظہر ، ایک اہم غزل گو

dr rafiq sandelvi
ڈاکٹر رفیق سندیلوی

شہزاد اظہر ، ایک اہم غزل گو

از، ڈاکٹر رفیق سندیلوی        

شہزاد اظہر سے میرا تعلق بہت پرانا ہے۔ مجھے اس کی ظاہری شخصیت ہمیشہ اس کی باطنی شخصیت میں ضم نظر آئی۔ ادبی دوستوں سے زیادہ تر ہمارا واسطہ چُوں کہ شعر و ادب کے حوالے سے رہتا ہے اس لیے عام طور پر ان کی شخصیت کے سماجی پہلو نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ویسے بھی ادیبوں کی سماجیات کبھی میرا مسئلہ نہیں رہی۔ یہی وطیرہ شہزاد کا بھی تھا۔ بس ایک بار وہ آئی سی بی میں میری پرنسپل شپ کے زمانے میں مجھ سے ملنے کے لیے آیا۔ مقصود اس کا ایم اے انگلش میں بیٹی کا داخلہ تھا جس کے لیے اسے میرا مشورہ درکار تھا۔ ادبی محفلوں اور بیٹھکوں میں وہ مجھ سے ہمیشہ محبت اور تعظیم سے پیش آتا تھا تو اس کی وجہ تخلیق کی نئی بصیرتوں کی طرف میری وہ پیش روی تھی جس نے اس کے آہن کو موم کر دیا تھا او میرے لیے خوشی کی بات یہ تھی اس نے اپنی اس تقلیب کا کئی بار اظہار بھی کیا تھا۔ وہ ادب کی اڑان میں نامعلوم اور نامانوس کا دل دادہ تھا اور اپنے جیسے تشنگانِ شعر کی معیت میں مسرت کشید کرتا تھا۔ ہر چند کہ وہ اس وہم کا شکار بھی تھا کہ شعراء اس سے حسد کرتے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے اس کا وہ شعر یاد آ رہا ہے جو اس نے شامل کتاب نہیں کیا: 

کوہ قامت ہُوں اسی خوف سے رد کرتے ہیں

سب کے سب بونے ہیں جو مجھ سے حسد کرتے ہیں

تعلّی تو خیر تعلّی ہوتی ہے لیکن یہاں شہزاد کے وہم میں کتنا تیقن ہے اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ میں نے جب اس کے سامنے تنویرسپرا کا یہ شعر رکھا کہ “اُٹھا لیتا ہے اپنی ایڑیاں، جب ساتھ چلتا ہے/ وہ بونا کس قدر میرے قدوقامت سے جلتا ہے” تو اس نے کہا کہ میرا روئے سخن کسی ایک بونے کی طرف نہیں۔ یہ ایک پوری کھیپ ہے جو تخلیقی سطح پر بانجھ مگر تنظیمی اعتبار سے بہت فعال ہے۔ خوش خواہوں کے کسی حلقے کا یا کسی ادبی تنظیم کا سہارا لینا اس نجمِ کم نما کی فطرت ہی کے منافی تھا۔ اس کے عجز ہی میں اس کی کبریائی تھی۔ ۔اصلاً اس طرح کے فعال بونوں کے ساتھ اس کا تقابل ہی بے معنی ہے۔ اس کا شعری جہان کوئی اور تھا جس میں اس کا قد اپنی اٹھان کے مرحلے طے کر رہا تھا۔ وہ وجود کی جس تہہِ ساعت گم نام میں مقیم تھا وہ اس کے لیے آرام دہ تھی۔ وہ اپنی ذات میں ایک پرِ کاہِ سخن تھا جسے مرقد کی نہیں، اس الوہی ہَوا کی تلاش تھی جو اُسے ابدُ الآباد تک اڑائے پھرتی۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے جو اس ساری صورتِ حال کی ترجمانی کرتے ہیں:

یہ جو سب اپنے تقابل میں مجھے دیکھتے ہیں

مَیں اگر ان کے جہانوں سے الگ قد کرتا

                    ٭٭٭٭

مَیں بے تنظیم ہوں شہرِ ادب کے کاخ و کو میں 

کسی پر کم کھلوں گا آئنہ ہوتے ہوئے بھی

                    ٭٭٭٭               

مری انگلی پکڑ کر راستہ سیکھے گا چلنا

میں اتراتا ہوں نجمِ کم نما ہوتے ہوئے بھی

                    ٭٭٭٭ 

ہَوا کی مٹّھیوں میں ہوں ابد آباد تک میں

پرِ کاہِ سخن ہوں مجھ کو مرقد کی خبر کیا

                   ٭٭٭٭

میرے خوش خواہ دکھائی نہیں دیتے تم کو

تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو کہ کہاں رہ گیا مَیں

                   ٭٭٭٭

مَیں تہہِ ساعتِ گم نام ہوں، آرام سے ہوں

تم مجھے رہنے دو اے دوست جہاں رہ گیا مَیں

                    ٭٭٭٭

مرے اطراف میں حلقہ نہیں خوش خواہوں کا 

مَیں الگ رہتا ہوں تنہائی کے بل کاغذ پر

     شہزاد کا یہ قضیہ دوسروں کے لیے شاید ایک وہم ہو لیکن خود اس کے لیے ایک حقیقت کا درجہ رکھتا تھا جو شعروں میں ڈھل رہی تھی۔ یا کم از کم اس وہم میں اتنی حقیقت تو ضرور تھی جو کسی وہم میں ہونی چاہے۔ اپنے ہی شہر کے، روایتی اور مفرس مضامین میں گرفتار ان درویش شاعروں کا بھانڈا پھوڑنا شہزاد کے بس میں کہاں تھا جنہوں نے اپنے کلاسیک یعنی اتّم اور امر ہونے کی ایسی ہَوا چلائی ہوئی تھی کہ “خلقِ خدا” آنکھیں بند کر کے ان کی عظمت کی تصدیق کرتی تھی۔ ایسے میں شہزاد کے لڑنے بھڑنے کی طرف کون دھیان دیتا اور دھیان بھی اُس جیسے رند کی طرف جو خود مدہوش ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی معاصرانہ چشمک بے ضرر تھی، یہ اخلاقی ضابطے نہیں توڑتی تھی، یہ چنگاریوں کی طرح بھڑکتی ضرور تھی لیکن کبھی شعلہ نہیں بنتی تھی۔ اپنی ہی الجھن سے گھبرا کرکسی کو انفرینڈ کر دینا اور پھر خود ہی کچھ دنوں کے بعد فرینڈ لسٹ میں شامل کر لینا کوئی بداخلاقی تھوڑی ہے۔ تاہم تعلق جوڑنے اور توڑنے کا یہ سلسلہ اس لیے معنی خیز ہو جاتا ہے کہ اس کے ہاں “تعلّق” کے متنوع حوالوں سے بیسیوں شعر مل جاتے ہیں جس سے اس کی شخصیت میں پڑی ہُوئی نفسیاتی گرہوں کو کھولا جا سکتا ہے۔ پرستانِ تعلق، دروبامِ تعلق، دیوارِتعلق، پیمانِ حرفِ تعلق، گزرگاہِ تعلق، زنجیر تعلق اور صرصرِ تعلق جیسی تراکیب خود بولتی ہیں کہ ان میں کیا کچھ پنہاں ہے۔ ویسے سامنے کی بات یہی تھی جو درست بھی نظر آتی تھی کہ شہزاد ذہنی طور پر لاچار شاعروں اور متشاعروں کے خلاف ایک علامتی مزاحمت میں خود کو فعال رکھتا تھا۔ یہی اس کا کتھارسس تھا جو باقاعدہ ایک احساس کے طور پراس کی غزل گوئی کے عقب میں بھی کارِ فرما نظر آتا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ من وتُو کا تصادم، فرد پر فرد اور سماج کا جبر، مختلف امورِ حیات میں اذہان کی باہمی آویزش اور اپنے ہی باطن میں ہونے والی دوئی اور ثنویت کی جنگ، یہ اور اس طرح کے کئی اورجذباتی زاویے اس کی غزل میں سما گئے ہیں۔ اسی احساس کے تہہ سے پھوٹنے والی ابتلا اس کی ذات کا ایسا احوال بن گئی ہے جس میں افتادِ زمانہ کی مانوس اور نامانوس، معلوم اور نامعلوم صورتوں کے متعدد سلسلے بھی ازخود شامل ہوتے چلے گئے ہیں۔ حتّیٰ کہ زندگی کے رواں سفر میں اچانک در آنے والی بیماری اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والی اداسی اور بےبسی بھی تخلیقی رنگ میں اس کی غزل کا نا گزیر حصہ بن گئی ہے۔ آخری دنوں میں اس کی زبان پر قفل پڑ چکا تھا۔ صرف ایک انگوٹھا تھا جو اسے لفظ سے جوڑے ہوئے تھا۔ یہ وہی عذاب تھا جو کبھی سٹیفن ہاکنگ نے جھیلا تھا لیکن آفرین ہے اس فن کار پر کہ اس حال میں بھی اس نے رقّت و گریہ سے گریز کیا اور اپنے باطنی اندوہ میں اُتر کر اپنے احساسِ مرگ کو ایک ایسی امکانی فضا مہیا کردی جو ترفع کی حامل تھی۔ ترفع اور ترشح تو بیماری کی شدت میں بھی شہزاد کی غزل سے منہا نہیں ہوا تھا۔ ذرا دیکھئے تو جسمانی طور پر مفلوج ہوتا ہوا یہ شاعر کتنے متحرک اور روشن شعر کہہ گیا ہے: 

کہی کی چال بھی لگتی ہے ان کہی والی

یہ انگلیوں کی کتابت ہے بے بسی والی

ہزار عکس مری کرچیوں میں چِھل رہے ہیں 

یہ ٹوٹ پھوٹ کی صورت ہے آخری والی

کسی کو خانہ بجاں کہہ نہیں سکوں گا میں 

کہ اب تو اپنی سکونت ہے عارضی والی

لگا ہوا ہوں مَیں تارِ طلب ہِلانے میں

نکل بھی سکتی ہے اک شکل سمفنی والی

                   ٭٭٭٭

ہمیشہ کے لیے لگتی ہے اور گھنی چُپ ہے

یہ پہلے والی نہیں ہے یہ دوسری چُپ ہے

مَیں زندگی تری چہکار چاہتا ہوں مگر

یہ مسئلہ ہے مرے پیشِ پا کڑی چُپ ہے

یہ میرا دل، یہ گلستانِ نخلِ خوش آثار

یہاں خزاؤں کے ڈیرے ہیں کیسری چُپ ہے

سفید پوشئ ہستی کی خیر کیا مانگوں

بتا رہے ہیں مجھے داغ جامنی چُپ ہے

                    ٭٭٭٭

زندہ رہنے کے لیے مر جانے والا شخص ہوں

مَیں بہادر ہی سہی پر جانے والا شخص ہوں

باغ سے رخصت کے سب آداب ازبر ہیں مجھے

پنچھیوں پیڑوں سے مل کر جانے والا شخص ہوں

ہو چکی ہنگامۂ دُنیا میں مجھ شاعر کو شام

واپسی کا وقت ہے گھر جانے والا شخص ہوں

                     ٭٭٭٭

افتاں خیزاں یہ اُڑاٸے لیے جاتی ہے مجھے

اور مَیں چپ چاپ رخِ بادِ فنا دیکھتا ہوں

 صابر ظفر کی زمین میں شہزاد نے جو غزل کہی ہے اس میں وداعی احساسِ پھولوں کی طرح ترو تازہ نظر آتا ہے جیسے یہ احساس فنا سے زیادہ بقا کا امین ہو۔ پھر دِلّی کا خوش بیان درِعدن پر استقبال کو آئے تو موت اور بھی قابلِ قبول ہو جاتی ہے:

بُہت سے اشک ہیں کُچھ موم بتیاں اور پھُول

کسی وداعی جنم دن کا کارواں اور پھُول

ہَوا دُعا کو رُکی ہے کسی کی تُربت پر

یہ ادھ جلی سی اگربتّیاں دُھواں اور پھُول۔

جو یہ بہم ہوں تو پھر کیا ضرورتِ دیگر

بقا کے باغ میں اک کنجِ مہرباں اور پھُول

درِ عدن پہ نہ زحمت اُٹھاٸے کوٸی بھی اور

مجھے بہت ہے وہ دِلّی کا خوش بیاں اور پھُول

     صابر ظفر نے جس مطلعے “خزاں کی رُت ہے، جنم دن ہے اور دھواں اور پھول/ ہَوا بکھیر گئی موم بتّیاں اور پھول” سے غزل کا آغاز کیا تھا، اس میں “اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے” والی ایک حزنیہ فضا تھی جب کہ اس فضا کے متوازی شہزاد کا مطلع ہی نہیں جس میں نصف الفاظ صابر ظفر سے مستعار ہیں بلکہ چاروں اشعار اس حوالے سے یاد رکھے جائیں گے کہ ایک مرتے ہوئے شخص کے تصوراتی نظام میں صابر ظفر کی زمین اوراس زمین میں برتی گئی ردیف نے کس طرح نفوذ کیا کہ وہ ایک الگ طرح کے حُسنِ معنی کے فروغ کا وسیلہ بن گئی۔ 

shahzad azhar urdu poet
شہزاد اظہر

     اب واپس پلٹیے اور شہزاد کے وہ اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں نفسی سطح پر اس کے مزاجی و طبعی زاویے ایک دوسرے کے متوازی و متقابل آ کر مختلف رنگوں میں نمایاں ہوئے ہیں:

یہ لگ رہا ہے مجھے دوستوں کی دشمنی سے

مَیں لاکھ نرم سہی پھر بھی سخت آدمی ہوں

                   ٭٭٭٭

بگڑ گیا ہے توازن کسی تعلّق کا

سو میٹھا کم ہوں زیادہ کرخت آدمی ہوں

                    ٭٭٭٭

مکالمے میں سہولت کا خوف رہنے لگا

مَیں تلخ شخص ہوں پر مہربان باتیں کروں

                   ٭٭٭٭

دوستوں والا گداز اس میں کہیں ہے موجود

یہ جو لہجہ تمھیں لگتا ہے حریفانہ مرا

                    ٭٭٭٭

ہر کسی شخص سے بِھڑ جانے کی عادت کیا ہے

دل کے اس رند کو اب ہوش میں لانا پڑے گا

                        ٭٭٭٭

یہ سبز پیڑ، یہ ہم خاک و ہم نشیں میرے

غنیم ہوں بھی تو آری سے کاٹتا نہیں مَیں

                    ٭٭٭٭

تیکھے سے تیکھے کی جانب اُڑ کر سب آتے ہیں

میرا دشمن مجھ سے بہتر شعر ایجاد بھی کرتا

shahzad azhar urdu ghazal poet

ان اشعار میں دوستی و دشمنی اور تلخی و مہربانی کے جو رویّے ابھرے ہیں، ان کی جڑیں کسی سماجی رابطے کی استواری میں پیوست ہیں نہ اس کے برگ وبار کسی افادی تعلق میں پھوٹتے ہیں۔ اسی طرح معاندانہ ردِ عمل بھی کسی قسم کا قبائلی سروکار نہیں رکھتا۔ اصلا یہ اشعارایک ایسے فنکار کے روحانی مقام یا ذہنی پڑاؤ کا احاطہ کرتے ہیں جو طرف داری اور غیر طرف داری کی عمومی تقسیم سے بالا تر ہو کر زندگی کو دیکھ رہا ہے۔ ہم نشینی و روئیدگی کا احترام کرنا چاہے اس کا تعلق غنیم ہی سے کیوں نہ ہو اور لہجے میں گداز کا اہتمام کرنا چاہے وہ حریفانہ ہی کیوں نہ ہو، یہی اختصاص تو آرٹسٹ کو آرٹسٹ بناتا ہے جس کے باعث اسے دوسروں پر فوقیت ملتی ہے۔ اس فوقیت میں فکری اور فنی دونوں سطحیں عمل آرا ہوتی ہیں۔ یہ وہ مزاجی تناظر ہے جس نے باز یافت کے عمل میں شہزاد کے شعری تشخص کو دوسروں سے علاحدہ کر دیا ہے۔ اس تشخص میں حسیاتی سطح پر تنہائی کا پہلودار احوال بار بار لپیٹ میں لے لیتا ہے جس کے ذریعے ذات میں دھڑکتی ہوئی تنہائی اور تنہائی میں دھڑکتی ہوئی ذات کی آواز صاف سُنائی دیتی ہے۔ معاصرغزل میں ذات اور تنہائی کی ہم رشتگی متعدد طرفیں اور جہتیں رکھتی ہے جن کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ یہاں کوئی موازنہ تو مقصود نہیں لیکن اس مطالعے میں بھی شہزاد کی غزل مغائرت اور بیگانگی کی مخصوص وجودی فضا سے الگ اور دور نظر آئے گی۔ مثلاً یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

یہ دھڑکتی ہوئی تنہائی یہ سہما ہوا دل

چاپ سرگوشی کی آنے لگی صورت کے بغیر

                   ٭٭٭٭

اکیلے پن کا علاقہ ہے کیکروں کی قطار

کسی طرح سے پرندوں کے ساتھ دھوپ گزار

                   ٭٭٭٭

چُگتے رہتے ہیں پرندے بھی اکیلا پن مرا

میرا مالک میری دولت میں کمی کرتا نہیں

                 ٭٭٭٭

میری تنہائی مرے ساتھ جہاں بیٹھتی ہے

خود کو اس بینچ کے کونے سے اُٹھاتا ہُوا مَیں

                  ٭٭٭٭

مَیں بھانت بھانت کے لفظوں کے ساتھ رہتا ہوں

 پَر اس طرح مری تنہائی کم نہیں ہو گی

                 ٭٭٭٭

لطفِ تنہائی کو معدوم بناتا نہیں مَیں 

مستقل دامِ ملاقات میں آتا نہیں مَیں

                  ٭٭٭٭

تنہائی میسر ہے تو یخ بستگی کیسی

اے دوست کسی شکل میں شعلے کی بھڑک تک

                 ٭٭٭٭

کھا ہی جاتا مری تنہائی کا آزار مجھے

چاند نکلا تو لگی رات چمک دار مجھے

                 ٭٭٭٭

کہیں کسی زرد رُت کی تنہائی بانٹنی ہے 

یہ مَیں جو پیڑوں کا رنگ آنکھوں میں بھر رہا ہوں

                   ٭٭٭٭

ایک پرچھائیں مرے ساتھ رہا کرتی ہے

کوئی تنہائی کہے گا مری تنہائی کو

                      ٭٭٭٭

والہانہ میں بغل گیر ہُوا ہوں خود سے

ہے کہاں مجھ سے زیادہ کوئی دیوانہ مرا

معانقے کا یہ والہانہ پن اور دیوانگی کا یہ نظارہ دیدنی ہے۔ بڑی بات ہے کہ شہزاد کو اکیلے پن کی دولت میسر آئی اوراس نے اس کے وسیلے سے خود کو دریافت کیا، ورنہ وہ تو اپنی پرچھائیں کو بھی اپنی تنہائی میں حارج سمجھتا ہے۔ یہ سوال توجہ طلب ہے کہ پرچھائیں ساتھ ہو تو تنہائی کو تنہائی کون سمجھے گا۔ خود سے بغل گیر ہونا، اپنی تنہائی میں داخل ہونا، اس سے خود کو بچانا یا اس کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرنا یا اپنی تنہائی کو بانٹنا اصلاً خود دریافتی ہی کی منزلیں ہیں جن سے شہزاد گُزر رہا تھا۔ اس کے یہ اشعار دیکھئے جن میں نرگسیت کا ایک نیا پیرایہ نمودار ہوا ہے جس کا تعلق لفظ کے اس گھر سے تھا جس میں شہزاد کو اقامت پذیر ہونے کا شرف حاصل ہوا :

رنگ جس کی آب میں تھے خواب زادہ کون تھا

خوب صورت آدمی مجھ سے زیادہ کون تھا

                         ٭٭٭٭

دائیں بائیں مورچھل جھلتے تھے کس کو سبز لفظ

تختِ اقلیمِ ہنر کا شاہزادہ کون تھا

                           ٭٭٭٭

مجھ سے آباد ہوا تھا مرے حصے کا ورق

لفظ کا گھر تھا مجھے جس کی اقامت ملی تھی

     شہزاد جس خوب صورتی کو نشان زد کرنا چاہتا تھا وہ فن کی خوب صورتی تھی۔ جس تخت پر وہ براجمان ہونا چاہتا تھا وہ اقلیمِ ہُنر کا تخت تھا۔ غور کیجیے تو اس کی غزل اسی خیال اور اسی فضا کے اردگرد گھومتی ہے۔ اس کے استعارے اسی سے جنم لیتے ہیں اور ذیلی و ضمنی یا معاون و مددگار استعاروں سے جُڑ کر شعر اور شاعر کے تعلق اور لفظ و معنی کے رشتے کو تفہیم کے ایک نئے دائرے میں لا کر کشودِ ذات کا احساس دلاتے ہیں۔ یہ اشعار دیکھیے: 

سرِ قرطاس جو مصرعے کی روانی کم ہے

کیا کہیں جوئے خیالات میں پانی کم ہے

                  ٭٭٭٭

پھڑپھڑاتے ہوئے لفطوں کی طرف دیکھتا ہوں 

یہ پرندے ہیں خیالوں کی طرف جاتے ہوئے

                    ٭٭٭٭ 

مجھ کو سطر گری دل کی دھڑکن نے سکھلائی

مَیں اس کام میں دیکھتے دیکھتے مایہ ناز ہُوا

                     ٭٭٭٭ 

یہ جو احساس میں اک سطر ہے نم بستہ سی

مجھ کو لگتا ہے یہاں مجھ سے زیادہ تم ہو

                    ٭٭٭٭

جو ٹہنی پر ہمکتا ہے اسے گُل کہہ رہا ہوں

جو کِھل سکتا نہیں اس لفظ کا اقرار کب ہے

                     ٭٭٭٭

بولوں تو کھا نہ جائے مری بات کو ہَوا

لکھوں تو میرے حرف کو دیمک کا ڈر نہ ہو

                        ٭٭٭٭

کاغذ کو دشت جان کے تیرا خیال رکھ دیا 

مصرع نہیں کہا میاں مَیں نے غزال رکھ دیا

                     ٭٭٭٭   

مصرعے میں آنکھ کھولنا،مصرعے میں آنکھ موندنا

مَیں نے کہیں کہیں یہ کام حسبِ کمال رکھ دیا

                       ٭٭٭٭

چاہے پٹ ان کے سمندر کی طرف کھلتے ہوں

سب کے سب لفظ ہَوا دار نہیں بھی ہوتے 

                       ٭٭٭٭

معانی ہیکل مستور ہے لیکن کہاں ہے

کسی کو ان کہے لفظوں کے معبد کی خبر کیا

                         ٭٭٭٭

بہت کم منحرف ہوتے ہیں میرے لفظ مجھ سے

کہیں تم دیکھتے میرا کہا ہوتے ہوئے بھی

                           ٭٭٭٭

مَیں ہر ہر لفظ میں رکھتا تھا اپنی سانس شہزاد

مرا مصرع یوں ہی اتنا ہرا ہوتا نہیں ہے

                         ٭٭٭٭

کہی باتوں کی ہم ہر ہر کگر کو دیکھتے تھے

کہ جب تجدیدِ معنی سے ٹھنی ہوتی نہیں تھی

                         ٭٭٭٭ 

جہانِ رنگ کا حاصل بنائے ہیں ہم نے

یہ مصرعے تھوڑی ہیں دو دل بنائے ہیں ہم نے

                      ٭٭٭٭ 

جو لفظ اچھا لگے اس میں بیٹھ جاؤ تم

کہ جتنے پھول تھے محمل بنائے ہیں ہم نے

      شہزاد کی غزل حرف، لفظ، معنی، مصرع، شعر، سخن، ہُنر، متن، کاغذ، سطر اورغزل جیسی لفظیات سے مرتب ہوتی ہے اور بہ تکرار اس کے شعروں میں تانے بانے کی طرح متحرک رہتی ہے۔ بسا اوقات یہ اپنی بُنترکے عمل میں حسبِ ضرورت دوسری لفظیات کے گُل بوٹوں سے اپنے فیبرک کو مختلف ڈیزائن دے کر دیدہ زیب بھی کرتی چلی جاتی ہے اورخیال آرائی کے ساتھ ساتھ تجدیدِ معنی بلکہ کہیں کہیں تردیدِ معنی کا انصرام بھی کرتی ہے۔ اسی طرح غزل کا لفظ جس سے غزال بھی جُڑا ہوا ہے، شہزاد کے شعورو لاشعورمیں کارفرما وہ کلیدی لفظ ہے جس سے اس کی پرواز اور حدودِ پرواز کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ لگتا ہے اس کی جان غزل میں اٹکی ہوئی ہے، بہ طورِصنف بھی، بہ طورِ لفظ بھی، بہ طورِ معنی بھی، بہ طورِ سطر بھی، بہ طورِمصرع بھی، بہ طورِ شعر بھی، بہ طورِمتن بھی اور بہ طورِ کاغذ بھی۔ میر کی زمینوں کے انبار سے کاغذ والی زمین یونہی اس کی غزل میں نہیں درآئی کہ اس نے یکے بعد دیگرے غزلوں کا پنج سورہ تخلیق کر ڈالا۔ خود اس نے اپنی ان غزلوں کو اس زمین میں کہی گئی دوسرے شاعروں کی غزلوں پر فوقیت دی ہے۔ شہزاد کو معلوم تھا کہ غزل کے جادے پر جگہ جگہ میر کے نشانِ قدم ہیں۔ اس نے اپنی افتادِ طبع کے مطابق زمینِ میر میں اشعار کی بندش پر اس عقیدت کے ساتھ کام کیا کہ “کاغذ” کا لفظ اس کی بنیادی لفظیات میں شامل ہو گیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس لفظ کے ذریعے اس کا تخلیقی وجود معنی آفرینی کے ایک اور رُخ پر جھلک سکتا تھا اورایک ناگزیر جزو کی طرح اس کے باقی کلام سے ہم آہنگ بھی ہو سکتا تھا۔ میر کے بعد اس زمین کو برتنے کی اوّلیت کا بھلے کوئی بھی دعوا کرے یا نئی غزل لکھ مارے لیکن جو نسبت اس کے ساتھ شہزاد نے قائم کی اوراسے اور بھی زندہ کرنے کا جتن کیا، اس تاثر کے ساتھ کہ دھڑکتا ہوا دل کاغذ پرآ جائے،اس کی داد بنتی ہے۔ واقعی ان غزلوں کے اشعار اپنے قرآتی تفاعل میں تحیّر اور گداز سے ہم کنار کرتے ہیں اور تشکیلی سطح پر الفاظ کی اسی فضا میں لے جاتے ہیں جو شہزاد کی قائم کردہ ہے جس میں اس کی پسندیدہ لفظیات کی تکرار کے ساتھ ساتھ اپنے تناظر کے لحاظ سے توسییع کا سازو سامان بھی موجود ہے۔ پہلے بحوالۂ غزل اس کے کچھ چیدہ چیدہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

غزل کے پیڑ میں اشکالِ حُسن تھیں کتنی

 مگر وہ سطر وہ اک شاخ کیسری والی

                  ٭٭٭٭   

غزل سے تنگ ہوں تابِ نوا ہوتے ہوئے بھی

مَیں کم کم سانس لیتا ہوں ہَوا ہوتے ہوئے بھی

                  ٭٭٭٭

وہ رنگِ وحشتِ اسلوبِ شعر ہے میرا

غزل کہوں تو غزال آئینے میں آتا ہے

                ٭٭٭٭

یہ جو مَیں تیز ہواؤں میں غزل کہتا ہوں 

پائیدانوں سے مرے پاؤں کھسکتے ہی نہیں

                 ٭٭٭٭

ورق نوردی کی وحشت ہے اور خیال نیا

غزل کہوں تو بھرے چوکڑی غزال نیا

                 ٭٭٭٭

غزل شادابئ دل ہے، نمِ عرضِ ہُنر ہے

ہرے لفظوں کے دامن میں ہے پھلواری ہماری

                 ٭٭٭٭

تیشۂ عرضِ ہُنر سے توڑ دے چپ کا پہاڑ

لکھ غزل شہزاد اظہر اور مصیبت سے نکل

اور اب بہ حوالۂ کاغذ یہ اشعار دیکھئے:  

اپنے لکھّے ہوئے کو موت کہاں کاٹتی ہے

زندگی کرتی ہے سو ردّ وبدل کاغذ پر

 ساعتِ حزن کبھی ہنستی ہوئی آ مرے پاس

اے اجل میرے لیے رنگ بدل کاغذ پر

اے مرے لفظ تجھے لکھا تو دھڑکا کیا تُو

چل مری سانس کے آہنگ میں چل کاغذ پر

                    ٭٭٭٭        

یہ جو رہ رہ کے دھڑکتی ہے غزل کاغذ پر

اس پری کو نہیں چھو سکتی اجل کاغذ پر

اس غزل میں نہیں کھپ سکتا چُرایا ہُوا متن

کوئی رہ پایا میاں! میر کے بل کاغذ پر

اتنے برسوں سے یہی کھیل تو کھیلا کیا مَیں

اے مرے لفظ مری گیند اچھل کاغذ پر

                    ٭٭٭٭

مَیں نے اک سطر کوخود دیکھا ہے گلشن ہوتے

پھر پرندوں کو چہکتے بھی سُنا کاغذ پر

                  ٭٭٭٭

یہ جو ہم کرتے ہیں کچھ خواب رقم کاغذ پر

سطرِ شاداب سے آ جاتا ہے نم کاغذ پر

کچھ گراں بارئ الفاظ سُبک کیجیے گا

ڈالیے بوجھ مگر اک ذرا کم کاغذ پر

شعر کے پیڑ پہ چہکار پرندوں کی سُنو

روز پڑتے نہیں گلشن کے قدم کاغذ پر 

                   ٭٭٭٭  

یہ گلابی سی سجل ایڑیاں دھر کاغذ پر

اے مرے حرفِ ہُنر روشنی کر کاغذ پر

دل و قرطاس تری رہ میں پڑے ہیں دونوں

اک قدم دل پہ مگر دوسرا دھر کاغذ پر

یہ تری اپنی ہی اقلیم ہے جس رنگ میں کِھل

لفظ ہے تو تجھے کس بات کا ڈر کاغذ پر

 غور کیجیے، “غزل” اور پھر “کاغذ” سے منسلک ان اشعار میں حرف، لفظ، سطر، متن، الفاظ، قرطاس اور شعرجیسی لفظیات کا معنوی عمل دخل ایک لازمی طریقِ کار کے طور پر موجود ہے ۔ سو اس میں کوئی شک نہیں کہ شہزاد کی تخلیقی پرواز زیادہ تر اپنی بنیادی لفظیات کے زیرِ اثر رہتی ہے اور اسی سے متصل ہو کراپنی توانائی بھی صرف کرتی ہے لیکن کچھ ایسے مقامات بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں جہاں توسیع کی لہر یک سَر آزاد ہو کر اپنی روانی میں شعر کو بالکل ایک نئی فضا میں لے جاتی ہے مگر مصرع سازی کا پیٹرن اور کہنے کا ڈھنگ وہی رہتا ہے جو شہزاد کی اس طویل ریاضت کا حاصل ہے جسے وہ سطر آرائی، متنی تنوع اور تمثالی موافقت کا نام دیتا ہے۔ اس ضمن میں “احساسِ مرگ” اور “تنہائی” کے حوالے سے پیش کردہ اشعار مکرر دیکھے جا سکتے ہیں۔ مزید اشعار حسبِ ذیل ہیں: 

یہ کب کہا کہ کہانی میں رونما نہیں مَیں

فروزاں ہوں تو سہی شمعِ واقعہ نہیں مَیں

                   ٭٭٭

آگ کیا کرتی لپٹتی نمِ خار وخس سے

ہر جگہ وصل کے آثار نہیں بھی ہوتے

                 ٭٭٭

یہ مَیں جو مانگنے لگا دریا سی زندگی

ممکن ہے مجھ سے ایک بھنور بھی بسر نہ ہو

                    ٭٭٭

مرے گلاب نہیں خواب جھڑنے والے ہیں 

خزاں کا پیڑ نہیں مَیں خزاں کا آدمی ہوں

      یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ شہزاد کی بنیادی لفظیات کے اندر جو دوسری مِلی جُلی لفظیات کارفرما ہے اس میں مظاہرِ فطرت سے متعلقہ لفظیات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ویسے لفط “تعلق” کی طرح پری، سلک اور تٹ بھی اس کے پسندیدہ الفاظ ہیں۔ اسی طرح سب جانتے ہیں کہ وہ گلزار کی شاعری کا بھی بہت بڑا مداح تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ نظم میں گلزار کو ورڈکٹ دینے والا یہ شاعر غزل میں اسے بن چھوئے ہی گزر جاتا، سو اس کے ایک شعر میں موگرے کے پھول ثانیہ بھر کے لیے مہکتے ہیں اور “لڑکی” ردیف والی غزل میں “چھپا کہ چھئی” والی لڑکی اپنی مدھم سی جھلک دکھا کرغائب ہو جاتی ہے۔ آتی ہوئی لہروں پہ جاتی ہوئی لڑکی کو سطر میں لانا واقعی مشکل ترین کام تھا۔ شہزاد نے اس کا باقاعدہ اعتراف تو نہیں کیا لیکن مجھے اُس کا یہ شعرایک اعتراف ہی لگتا ہے: 

تُم اس غزال سی لڑکی کو سطر میں لاتے

یہ کیا ہُوا میاں کم پڑ گئی ریاضت کیا

     اس طرح کا شعر شہزاد اظہر ہی کہہ سکتا تھا جس میں غزل غزال میں بدل سکتی تھی۔ بلاشُبہ وہ شعر کے الگ جہانوں کا ایک زائر تھا۔ لفظ کی سبزگی و ہریالی اسے بے حد عزیز تھی۔ سطر گری اس کے لیے سلک گری کا درجہ رکھتی تھی۔ اس کی ساری جد وجہد ایک سطر نو، ایک سطرِ شاداب، ایک سطرِ تر کے لیے تھی۔ افسوس کہ موت نے اسے بہت جلد اُچک لیا اور کتنے ہی اش

عار جو اُس کے قلب میں موج زن تھے، ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے ورنہ اس کا تخلیقی وفور تو اس منزل پر پہنچ گیا تھا،جہاں شمارِ نٖغمہ ممکن ہی نہیں ہوتا:

مَیں غزل کہتے ہوئے طغیانِ موسیقی میں ہوں

تارِ دل چھڑ جائے تو کوئی شمارِ نغمہ ہے!