شکیل عادل زادہ : اے عشقِ جنوں پیشہ
ڈاکٹر شاہد صدیقی
کراچی میں ساحلِ سمندر پر واقع ایک معروف ریستوران ؛ رات کاوقت، ٹھنڈی ہوا اور سمندر کی ڈوبتی ابھرتی لہریں۔ پانی کی سطح کوچھُو کر ہوا میں بلند ہوتے بگلے اوران کے سفید پروں کواُجالتی ہوئی روشنیاں۔ ایک خواب کا سا منظر۔ لکڑی کے بنچوں پر آمنے سامنے بیٹھے میں اورشکیل عادل زادہ ۔وہی سب رنگ کے عشق میں گرفتار کرنے والا شکیل عادل زادہ ۔ میں نے سمندر پر نگاہ کی ایک پرندہ اپنی لہک میں باقی پرندوں سے بہت آگے بہت اوپر اڑتاچلاجارہاتھا۔
میں نے اپنے سامنے بیٹھے شکیل عادل زادہ کو دیکھا جس کا معاملہ بھی کچھ ایساہی تھا۔وہ جو اپنی طرز کی نثر کا موجد تھا اور جس نے ڈائجسٹ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا تھا۔ جس کے سب رنگ کی پتنگ اڑتے اڑتے آسما ن کی بلندیوں میں تارہ بن گئی تھی۔ جس نے ہماری نسل کے کتنے لوگوں کوایک طویل عرصے تک اسیربنائے رکھا۔اس پر کئی برس بیت گئے ہیں۔ سب رنگ کاآفتاب اب کنارے پرجالگا ہے لیکن اس کی تمازت ہے کہ کم ہونے میں نہیں آتی۔
شکیل عادل زادہ سے میرا پہلا باقاعدہ تعارف سترکی دھائی میں ہوا۔ یہ دھائی ادب اورموسیقی میں نئے تجربوں کی دھائی تھی۔ سب رنگ جنوری 1970 میں ایک نئی چھب، ایک انوکھی آن بان کے ساتھ نمودار ہوا۔ سب رنگ کا جواں سال مدیر عالمی ڈائجسٹ میں کام کرنے کا تجربہ اپنے ساتھ لایاتھا۔ شکیل عادل زادہ کو معلوم تھا کہ سب رنگ کو کچھ نیا کرکے دکھانا ہوگا۔ اس کی جیب میں سرمایہ تونہیں تھا لیکن ایک جنون تھا، ایک جذبہ تھا، ایک عشق تھا۔ کچھ نیا کرنے کی امنگ، کچھ الگ کرنے کی تڑپ۔
سب رنگ کا پہلا شمارہ پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا۔ سال کے آخرتک یہ تعداد تیس ہزارہوگئی۔ پانچ سال تک یہ تعداد ایک لاکھ سے اوپرچلی گئی تھی اور پھرڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ یہ اس وقت کسی بھی رسالے کی ریکارڈ اشاعت تھی۔ وہ کیا عوامل تھے جنہوں نے مختصرعرصے میں سب رنگ کو برصغیر کا ایک ممتاز اور کثیر الاشاعت رسالہ بنادیا۔ اپریل 2017 میں مجھے معروف کالم نگار رؤف کلاسرا کے ہمراہ شکیل عادل زادہ سے ایک طویل انٹرویو کاموقع ملاجس میں سب رنگ کے امتیازات پربھی گفتگو ہوئی۔
شکیل عادل زادہ کا کہنا تھا کہ کہانیوں کے انتخاب کا ایک کڑا معیار اور طریق کار تھا۔ اسی طرح ایک مسودے کی پروف ریڈنگ پانچ مختلف افراد کرتے تھے۔ زبان وبیان کی درستی کاخاص اہتمام تھا اور اس شعبہ کے سربراہ معروف شاعر اورزبان دان انور شعور تھے۔ کہانیوں کے ہمراہ سکیچزکی روایت بھی سب رنگ سے شروع ہوئی، اقبال مہدی اوربعد میں انعام راجہ کے سکیچز نے کہانیوں کوچار چاند لگا دیے۔
شکیل عادل زادہ ہرچیز کودرجۂ کمال پردیکھنے کاخواہش مندتھا۔ سب رنگ کے سرورق کیلئے اس وقت کے واٹرکلر کے بڑے مصور منظور مرزا کا انتخاب ہوا بعدمیں سب رنگ کے خوبصورت سرورق بنانے میں ذاکر کے ُموقلم کاحصہ تھاکہانیوں کے درمیان کہیں کہیں اقوال زریں، لطائف اورہلکی پھلکی تحریریں چوکھٹوں میں نظرآتیں۔
سب رنگ میں اداریے کے علاوہ ایک ذاتی صفحہ ہوتا جسے شکیل عادل زادہ خود تحریر کرتے اور یہ سب رنگ کے قارئین سے ان کی ذاتی گفتگو ہوتی۔ شکیل عادل زادہ کی ٹکسال میں وہ خوش رنگ لفظ ڈھل کر نکلتے جن کا روپ سب سے الگ اورتاثیرسب سے جدا ہوتی۔ سب رنگ میں معروف ادیبوں کی تحریروں کی ایک کہکشاں ہوتی جن میں راجندرسنگھ بیدی، اشفاق احمد، منٹو، کرشن چندر، احمد ندیم قاسمی، شوکت صدیقی، اسد محمد خان، بہزاد لکھنوی شامل ہیں۔ سب رنگ کاایک اوراحسان عالمی ادب سے کہانیوں کے تراجم کی اشاعت تھی، مغربی ادب سے تراجم کے علاوہ سب رنگ میں جنوبی ایشیا کی کہانیوں کا انتخاب بھی چھپتا تھا ہرکہانی اورکہانی کارکے بارے میں خوبصورت تعارفی جملے بھی ہوتے۔ ایک کہانی کے بیسیوں عنوانات سوچے جاتے۔ یہ تھا وہ عشق جس میں سب رنگ کے دفترمیں کام کرنے والے سب لوگ مبتلا تھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے سب رنگ ایک جذبہ اورجنون بن گیا لوگ اس کے انتظار میں ایک ایک دن گنتے شکیل عادل زادہ کوبخوبی علم تھا کہ سب رنگ کی مقبولیت کی وجہ اس کا اعلیٰ معیارہے۔ اسی معیار کوبرقرار رکھنے کی کوشش میں سب رنگ کی اشاعت میں وقفہ پڑنے لگا۔ کوئی اور رسالہ ہوتاتو باربار کی تاخیرسے لوگ منہ موڑ لیتے لیکن یہ سب رنگ تھا اوراس کے قارئین اس کے دیوانے تھے۔ بعض اوقات اشاعت میں مہینوں کی تاخیر کے بعد بھی جب سب رنگ آتا تو لوگ پروانوں کی طرح امڈ آتے۔
شکیل عادل زادہ محض ایک انتظامی مدیر نہیں تھا بلکہ سب رنگ کی رگوں میں سرایت کرجانے والے اس جذبے کانام تھا جس کی جھلک سب رنگ کی ہرکہانی اورہرسطر میں نظرآتی تھی اور پھر اس غارت گرِ عشق قسط وار کہانی”بازی گر‘‘کا ذکر جوشکیل عادل زادہ کے دستِ ہنر کا اعجاز تھا جس کا مرکزی کردار بابرزمان خاں ایک تبتی لڑکی کورا کی محبت میں گرفتاراس کی تلاش میں شہردرشہر بھٹک رہاہے۔ بابرزمان پاڑے کے شہنشاہ بٹھل کالاڈلاہے ،یہ کہانی اردو کی چندبہترین طویل کہانیوں میں شمارکی جاسکتی ہے۔میراشکیل عادل زادہ سے ایک خاموش محبت کا رشتہ کئی دھائیوں پرپھیلا ہواہے پھر ایک دن ایک اور آشفتہ سر رؤف کلاسرا سے اچانک ملاقات ہوئی۔
پہلی ملاقات ہی میں مجھے یوں لگا جیسے ہم ایک دوسرے کوایک مدت سے جانتے ہیں۔انگریزی ادب کی تعلیم، سب رنگ سے محبت اور کتابوں سے عشق ہمارا مشترکہ اثاثہ تھے۔ ہم جب بھی ملتے شکیل عادل زادہ کاذکرضرور ہوتا اورہم ایک خواہش کااعادہ کرتے کہ شکیل عادل زادہ کواسلام آباد میں بلایاجائے اوران کے اعزاز میں ایک شایانِ شان تقریب برپا کی جائے۔ اسلام آباد کے موسم کی اپنی اداہے دودن گرمی پڑے تو تیسرے دن بارش ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی ایک دن تھا اسلام آباد میں بارش کی ہلکی پھوار پڑرہی تھی یہ موسم کتنی بھولی بسری یادوں کوجگادیتاہے۔
مجھے سب رنگ اوراس سے جُڑے دنوں کی یادآگئی میں نے شکیل عادل زادہ کوفون کیا اوران سے اس خواہش کااظہار کیاکہ کیا سب رنگ کے پرانے شمارے مل سکتے ہیں؟ انہوںنے کمال مہربانی سے پرانے شماروں کے دوباکس بھجوانے کااہتمام کیا۔ میں نے دوسرا باکس سب رنگ کے عشق میں شرابور رؤف کلاسرا کے حوالے کردیا کہ وہی اُس کا سب سے زیادہ حق دار تھا۔ اس روزہم دونوں سب رنگ کے پرانے شمارے سامنے رکھ کریوں خوش ہوتے رہے جیسے کسی بچے کو اس کا من پسند کھلونا مل جائے۔معروف شاعر اور محقق عقیل عباس جعفری نے پیشکش کی ہے کہ و ہ سب رنگ کی فائل مکمل کرنے میں ہماری مدد کریں گے۔
ہماری خواہش پرشکیل عادل زادہ اسلام آباد تشریف لائے جہاں ایک خصوصی تقریب میں ان کی ادبی خدمات کوخراج تحسین پیش کیاگیا ،تقریب میں ان سے سب رنگ کے احیاء کے بارے میں سوال کئے گئے۔ ایک سوال یہ بھی ہواکہ بازی گرکی کہانی کب ختم ہوگی؟ کب بابرزمان کوراسے ملے گا؟ لیکن کسی کو اس کا جواب نہ ملا۔ آج یہی سوال میں نے کر اچی میں سمندر کے کنارے واقع ریستوران میں اپنے سامنے بیٹھے شکیل عادل زادہ سے کیا۔ میرے سوال کے جواب میں شکیل عادل زادہ نے آسمان میں اڑتے، روشنی میں نہاتے ہوئے پرندوں کو دیکھا پھر سمندر کی لہروں پر نگاہ کی اور بات بدل دی۔ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال چمکا۔ کیا ضروری ہے کہانی کو مکمل کیا جائے؟ کیوں نہ کہانی کو ادھورا چھوڑ دیا جائے؟ جو مزا تجسس میں ہے وہ تکمیل میں کہاں؟ وہ جو منیر نیازی نے کہا ہے:
ـ ـایک اوجھل بے کلی رہنے دو
ایک رنگیں ان بنی دنیا پر
ایک کھڑکی ان کھلی رہنے دوــ
اس ان کھلی کھڑکی کے اس طرف کیا کیا خوش رنگ منظر ہوں گے، ان کے تصور سے ہی سوچ مہکنے لگتی ہے ۔کبھی کبھی راستے منزلوں سے زیادہ دل فریب ہوجاتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ شکیل عادل زادہ، بابرزمان اورکورا کے دلوں کوبھی راستوں کے حسن نے اپنا اسیر بنا لیا ہے۔ہماری دعا ہے کہ بابرزمان کی تلاش کاسفرجاری رہے، کورا کی دلکشی یوںہی برقرار رہے، شکیل عادل زادہ کی دیوانگی کبھی ماند نہ پڑے اوراس کی پیشانی پرعشقِ جنوں پیشہ کااعزاز سب رنگ کی صورت یوں ہی جھلملاتا رہے۔
Very Good