شاخ نبات نے کہا اور میں نے سنا
(نصیر احمد)
سورج ڈوبنے سے ذرا پہلے، جب گل گشت مصلہ میں ٹیکریوں پر، درختوں پر، جھاڑیوں پر، پھولوں اور کلیوں پر، ندی کے رواں پانیوں پر، میدان کی سبز گھاس پر، ندی کے ارد گرد بکھرے پتھروں پر، ٹیکریوں کی چٹانوں پر گہری اداسی چھائی تھی، جو سارے ماحول کو شفقتوں سے بھرپور رنج و غم کی چادر میں لپیٹ لیتی ہے۔ کہتے ہیں جب سیدی مولا جہاں سے گزرے تھے، دنیا ایسے ہی سوگوار ہو گئی تھی۔ جان غم زدہ کرنے والی اور دل شکستہ کرنے والی اس اداسی میں گل گشت مصلہ پر کھڑی ہوئی شاخ نبات یوں گویا ہوئی۔
تم جو عظیم آدمی، مہا پرش، فوق البشر اور مرد مومن بننے کے آرزو مند تھے، کتنے چھوٹے آدمی بن گئے ہو کہ میری نگاہ تمھیں افلاک کی وسعتوں میں ڈھونڈتی ہے لیکن تم کہیں زمین کھود کر گھات لگائے بیٹھے ہو، تا کہ کسی راہ چلتے مسافر کو نہ صرف بے درہم و دینار کر سکو بلکہ اس کی زندگی بھی چھین لو۔ تمھارے کمال کی رفعتیں، تمھارے زوال کی حقیقتیں بن گئی ہیں۔ وہ تمھارے برتر احساسات رہزنی کی جمال کاری کے سوا کچھ بھی تو نہیں ہیں۔ تمھاری نیکو کاری وہ ذبح خانہ بن گئی ہے، جس میں بے کسوں اور بے بسوں کے گلے کاٹ کر تم اشرف بننے کے دعویدار ہو۔
تم اشرفیوں کے پجاری، ظلم ڈھا کر، اشرف تو کبھی بھی نہ بن سکو گے مگر جو تم بن گئے ہو، اگر اندھیرے کی بھی کوئی انسانی شکل ہوتی، وہ بھی تم سے پناہ مانگتی۔ داستانوں کی وہ خون آشام بلائیں، وہ زہر ناک چڑیلیں، وہ خوفناک بھوتنے اور وہ خطرناک دیو تو مہربانی کی علامتیں بن گئے ہیں کیونکہ تمھارے بے شرم ظلم و ستم نے خوف کی وہ دنیا تخلیق کی ہے کہ وہ احسن معلوم ہو تا ہے، جس سے ذرا کم ڈر لگے۔
خوف کے زیر اثر تمھارے خوفزدہ سپنوں نے خوشنمائی کے پردے میں زندگی کی بدنمائی میں اضافہ کیا ہے۔ زر و دینار کی مخملی تھیلیوں کے ترانے اپنی جگہ مگر تمھاری ہوس نے بے شمار انسانوں کی زندگیاں ایک مسلسل ماتم بنا دی ہیں۔ تم شیر و شاہین بننے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اپنی انسانیت بھی کھو بیٹھے۔
تم انسانیت کی افضل ترین نمائندگی کے دعوے کرتے ہوئے بردہ و باندی فروش بن پائے اور اس پر تمھاری پارسائی اور پرہیز گاری قاتلوں کے ہاتھوں میں بے گناہی کے بے مصرف پروانے کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ لاشوں کی دلالی کر کے قطب الاقطاب کا خرقہ پہن لینے سے تو سچ نہیں چھپ جاتا۔
دنیا میں صرف پیروکار نہیں ہوتے، مخالف بھی ہوتے ہیں اور سچ سے وابستہ دیوانے بھی ہوتے ہیں جو ناز و کرشمہ کے سارے فسانے کی حقیقت بھی سامنے لا دیتے ہیں۔ ہر وقت تم عشق عشق چلاتے رہتے ہو، تمھارا عشق تو سرمایہ کاری کی ایک شکل ہے، وہی سرمایہ کاری جس سے تم نفرت کرتے ہو۔ تم جنون کا بھی بہت اعتبار کرتے ہو، تمھارے جنون نے لاشیں ہی گرائی ہیں، کبھی کسی بے سہارے ، بے چارے کی مدد کے لیے تمھارا جنون نہیں پہنچا۔
خرد تمھارے نزدیک ایک چنڈال ہے جو تمھیں اعلی حقیقتوں سے دور کردیتی ہے مگر خرد کی تخلیق کردہ اشیا سے وابستہ آسائشوں سے بھی لطف انداز ہوتے رہتے ہو۔شاندار محلات میں نفیس کھانوں سے لطف انداز ہوتے ہوئے تم بندہ صحرائی اور مرد کوہستانی کے گیت گاتے ہو لیکن پانی بھرنے کے لیے میلوں لمبا سفر طے کرنے کا لمحہ آجائے تو تم مقدس اوراق ٹٹول ٹٹول کر ان خواتین کو اپنے سے کم تر انسان ثابت کرنے کے لیے جواز ڈھونڈتے ہو اور دلائل گھڑتے ہو۔
میں نے ظلم سہتے ہوئے تمھارے گریے بھی سنے ہیں اور ظلم کرتے وقت تمھارے قہہقہے بھی۔ تمھیں دوستوں کے خلاف سازشیں کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور دشمنوں کے تلوے چاٹتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ تمھیں انسانیت کی تذلیل پر زار و قطار روتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور آیات و احادیث پڑھتے ہوئے انسانیت کی تذلیل کرتے بھی دیکھا ہے۔
وعدہ و پیمان کرتے ہوئے بھی دیکھا اور عہد شکنی کرتے ہوئے بھی پایا ہے۔ ہاں آسائشوں کی خاطر جنتا کی بھلائی کی خاطر کیے ہوئے سپنوں سے اقرا ر باندھتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور جب معاملات مشکل ہوئے تو سر پر پیر رکھ کر بھاگتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے جب بھی تم نے کوئی بھی زیادتی کی، تمھارے چہروں پر ندامت نہیں دیکھی، رنج نہیں دیکھا، افسوس نہیں دیکھا، تاسف نہیں دیکھا بس تمھارے چہروں پر زہد و تقوی کا فریب اور لوگوں کے لیے ایک نفرت ہی دیکھی ہے۔
اسے بھی دیکھیے: کہنے کو دفاع کا بھی وزیر ہی ہوتا ہے
تمھیں انسانوں اور ان کے خوابوں کو خوش و خرم روندتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور جب تمھارا اعمال نامہ سامنے آیا تو رحم و کرم کے لیے گڑگڑاتے ہوئے بھی دیکھا۔ جرائم کو تم کوستے رہتے ہو مگر ادھر کسی نے ہڈی دکھائی، ادھر کسی نے اشرفیوں کی تھیلی کھنکھنائی، تمھیں مجرموں کو فرشی سلام بھی کرتے دیکھا ہے۔
تمھیں مرد جواں پر کتوں کی طرح بھونکتے ہوئے بھی دیکھا اور پیٹھ پیچھے خنجر گھونپتے بھی دیکھا ہے اور حسینہ رعنا کے چہرے پر تیزاب پھینکتے ہوئے دیکھا ہے۔اور یہ سب کرتے ہوئے تمھارے چہروں پر شرمندگی کا ایک ہلکا سا سایہ بھی نہیں دیکھا، بس وعظ و تقریر میں مبتلا پایا ہے اور اپنی تقدیس کی قسمیں کھاتے سنا ہے۔
مجھے بتاؤ ان سب باتوں میں کیا اچھا ہے جس پر تم ناز کر سکو؟ ایک ذرا بھی کوئی غیر جا نب دار ہو جائے، تم مقدمہ ہار جاتے ہو۔ حقائق کو نظر انداز کر کے تم سپنوں کے ذریعے فیصلے کرتے ہو۔ لوگوں کو پیسے دے کر مجمع اکٹھا کرتے ہو اور کربلا کی باتیں کرتے ہو۔ الزام تراشی کو منصفی کہتے ہو۔
تمھاری نگری میں تو اچھی اور سچی باتوں اور اچھے اور سچے لوگوں کو رسوا ہی دیکھا ہے۔ یہ سچ ہے، شکتی اور روکڑا اگر اس کے ساتھ نہ جڑا ہو، سچ کہنا بے وقوفی ہے۔ یہ انسانیت ہے، اس کی رسوائی ایک کاروبار ہے، جس کی حصہ داری نہ کی تو کسی تبرک سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ جمہوریت ہے، جس کا مطلب کسی سفلے سے اٹھائی گیر کے بے سر و پا احکامات کی تعمیل ہے۔ یہ دین ہے، جس کا مطلب ظالموں کی وکالت اور مظلوموں کی ملامت ہے۔
یہ شجاعت ہے، جب دوستوں اور معشوقوں پر زندگی نامہربان ہو تو ان پر چھپ چھپ کر سنگ باری کرنا اور چلا اٹھنا کہ میں تو باغی ہوں۔ یہ ترقی ہے، جس کا مطلب میرے لیے محل اور تمھارے لیے قتل گاہ ہے۔ یہ اخلاقیات ہیں، دن رات بھرشٹا چار دیکھتے ہوئے بھی، ہاتھ سے روکنا، زبان سے ملامت کرنا تو درکنار دل میں بھی اسے برا کہنے کی ہمت نہیں ہے کہ ظالم چہروں کے مطالعے سے وہ نتیجہ نہ اخذ کرلے، جس کا صلہ اس سے وابستہ آسانیوں سے محرومی کی صورت میں ملے مگر رکوع و سجود و قیام و قعود، وضو و درود کی پھرتیاں تو تیز تر ہوتی جاتی ہیں۔
یہ علم ہے،خرافات پر مبنی روایات، دلائل اور ثبوت سے محروم دعوے، شدت جذبات سے بھرپور کہانیاں جن کی بنیاد پر زندگیوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ یہ عا شقی ہے، جس میں ساری وفاداری اپنے جاہلانہ اغراض و مقاصد سے ہے اور اغراض و مقاصد کیا ہیں؟
دکانداروں کی طرح گھٹیا مال کو اچھے ماحول کے ذریعے فروخت کرنے کی کوشش ہے۔ یہ دوستی ہے، چڑیوں کو معلوم ہو جاتا ہے، جب سانپ ان کے درخت کے نیچے رینگتا ہے، مگر دوست ایسا بھیس بدل لیتے ہیں کہ جب خنجر آرپار ہو جا تا ہے، تب معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوستانہ مہربانی کا شاخسانہ ہے۔
تمھاری گفت گو میں شیر دھاڑتے ہیں مگر تمھارے اعمال میں سے میں نے گیدڑ ہی بھاگتے دیکھے ہیں۔ تم قصر سلطانی کے گنبد پر نہیں بسیرا کرتے کہ وہ پھر بھی اونچی جگہ ہے، تمھاری جگہ تو میں نے غنڈوں کے پیروں میں ہی دیکھی ہے۔ میں تم سے ناراض اور خفا ہوں، کاش تم اپنی آدمیت عزت کرتے اور یہ آدمی سے اعلی ہستی بننے کے بے کار سپنے نہ دیکھتے، جانوروں سے رومان نہ منسلک کرتے اور اپنی آدمیت سے مطمئن ہو جاتے۔
کاش تم جنگ و جدل کو انسانیت کی اعلی شکل نہ جانتے۔ لیکن میری تم سے پھر بھی امیدیں ہیں کہ ایک دن تم آدمیت سے خالی ان سپنوں کا پیچھا چھوڑ دو گے۔ امن و آشتی ، عزت و محبت علم و آزادی کی رفعتوں سے آشنا ہو جاؤ گے۔
میں تم سے شاید پھر کبھی مخاطب نہ ہوں مگر ایک بات پر تمھیں کبھی بھی نہ معاف کروں گی کہ تم نے جو رند بلانوش، درویش بے غرض، شاعر حق گو و حق جو، دانائے شہر اور دیوانے کے ساتھ کیا، وہ قابل معافی نہیں ہے۔
یہ سب تو میرے تحائف تھے، تم نے کوڑے دان میں پھینک دیے۔ میں تو اسی بات پر مامور ہوں کہ ان سب کو سمیٹ سنبھال لوں اور وہ میں کر بھی لوں گی مگر تم نے اپنا بہت نقصان کیا ہے۔تمھاری زندگی سے خلوص رخصت ہوا اور تمھاری محفلوں سے سر خوشی اور تمھارے کھانوں سے ذائقہ۔ تمھیں پھر دوست نہیں ملیں گے۔
نہ تم سخاوت کر سکو گے اور نہ تم اس سے آشنا ہو سکو گے۔ نہ تم اچھا شعر سمجھ سکو گے، نہ اچھا شعر کہہ سکو گے، نہ اچھا نغمہ سوچ سکو گے، نہ اچھا گیت سن سکو گے، بس رہٹ کے بیلوں کی طرح قدیم دائروں میں گھومتے رہو گے۔
نہ کوئی نیا بنا سکو گے اور نہ کوئی نیا دریافت کر سکو گے، تمھاری ہر خوشی کرائے کی ہو جائے گی۔ تمھارے لیے لطف و لذت کے سارے باب بند ہو جائیں گے اور تمھارے لیے چیخیں اور نعرے بچیں گے یا دکاندار کی بناوٹی اور بے معنی مسکراہٹ۔
یہ کہہ کر شاخ نبات اندھیرے میں گم ہو گئی اور سننے والوں کے چہروں پر جنازے اور قبرستان رواں دواں ہو گئے جو جلد ہی ایک نہ مٹنے والے اندھیرے کا حصہ بن گئے۔