غوطہ کی شام غریباں
از، حسین جاوید افروز
پچھلے دنوں ایک خبر نظر سے گزری کہ گلگت بلتستان کے حسین مقام استور میں پہاڑوں کی بلندیوں پر بسنے والے ایک مارخور کو ایک گورے نے شکار کرتے ہوئے مار گرایا۔ یہ الگ بات ہے کہ مارخور کے اس شکار کے عوض اس گورے کو 76 لاکھ روپے حکومت کو ادا کرنے پڑے۔ میں نے سوچا کہ چلو کم از کم مارخور جیسے باوقار جانور کی جان کی کچھ تو قیمت ہے۔ جبکہ ستم ظریفی تو دیکھیے کہ انسانی جان کی قیمت شام میں اتنی گر چکی ہے کہ Syrian Observatory for Human Rights کے مطابق مشرقی غوطہ میں 18 فروری سے اب تک 600 سے زائد افراد جن میں 120 کے قریب معصوم بچے بھی شا مل تھے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جی ہاں دمشق سے محض پندرہ کلومیٹر کے دور مشرقی غوطہ کے علاقے میں موت کا ننگا ناچ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جاری ہے۔
ہم ابھی دسمبر 2017 میں عراق اور شام میں داعش کی کامل شکست پر فخر وانبساط سے لبریز ہوئے جارہے تھے کہ غوطہ کی بدترین جنگ نے عالم انسانیت کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ دریائے بردی کے کنارے آباد غوط ،دمشق کے مضافات کے ساتھ ہی ہے جو کہ2011 سے ہی بشار الاسد کے اقتدار کے خلاف باغیوں کے گڑھ کی حیثیت رکھتا تھا ۔اور اہل غوطہ نے نہایت ہی پرجوش ہوکر بشار الاسد کے خلاف باغیوں کی حمایت بھی کی ۔ 2012 میں تو ایسا لگ رہا تھا کہ غوطہ دمشق کے سقوط میں اہم کردار ادا کرے گا جب باغیوں نے کئی سو افراد دمشق پر یلغار کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیے۔ لیکن اسد کی افواج نے دسمبر 2013 سے ہی مشرقی غوطہ کا محاصرہ کررکھا ہے ۔ تاہم باغیوں نے غوطہ میں کئی درجن خفیہ سرنگیں بنائی ہوئیں ہیں جس سے اسد کی افواج کے لیے براہ راست حملہ کرنا فوری طور پر ممکن نہیں رہا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ شامی جنگ میں ایران اور روس کی شمولیت نے زمینی حقائق بشار الاسد کے حق میں کر دیے۔
اس کارخیر میں حزب اللہ نے بھی سرکاری افواج کی کھل کر پشت پناہی کی یوں اہل غوطہ کے لیے ایک کٹھن دور کا آٖغاز ہوگیا۔ اس محاصرے سے تقریباٰ پانچ لاکھ نفوس پر م مشتمل آبادی محصور ہوکر رہ گئی ۔یوں شامی افواج کی ناکہ بندی کی بدولت شہر میں خوراک کی کمی اور صحت کے گوناگوں مسائل نے جنم لیا ۔یاد رہے ان پانچ لاکھ افراد میں دو لاکھ تعداد بچوں کی بھی ہے جن کے مستقبل پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔مشرقی غوطہ میں باغیوں کے چند گروپس جن میں ’’النصرہ فرنٹ ‘‘جو اب جباۃ فتح اشام بن چکی ہے، سعودی حمایت یافتہ جیش الاسلام ،قطر کی حمایت یافتہ فیاق رحمن اور ہیت التحریرشام شامل ہیں۔ یہ گروپس بشار الاسد کے خلاف لڑتے لڑتے اب کچھ عرصے سے آپس میں بھی دست و گریبان ہوچکے ہیں، اس سے قبل دسمبر 2013 میں ادرا ردا کے علاقے میں جب ان باغیوں نے قبضہ کیا تو وہاں کی شیعہ آبادی پر شرمناک مظالم ڈھائے اور خواتین کو پنجروں میں بند کر کے رکھا گیا۔
یہ اس لیے کیا گیا کہ تاکہ غوطہ میں باغیوں پر کی جانے والی شامی بمباری کا سلسلہ روکا جائے۔ لیکن بعد ازاں دسمبر 2014 میں شامی فوج نے ادرا کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔ اس وقت اب غوطہ کے باغی گروہوں پر سرکاری افواج کا بھی دباؤ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے ۔جن کی کمانڈ صدر بشار کے بھائی مہار اور جنرل سہیل حسن کے ہاتھ میں ہے جو ٹینکوں،فیلڈ گنوں اور آرمرڈ ڈویژن کی معیت میں آخری ضرب لگانے کو بے تاب ہیں۔اسد نے فوج کو ایک ہی مشن دیا ہے کہ باغیوں کو مسلسل محاصرے اورفاقوں کے ذریعے سرنڈر پر مجبور کرو۔
باغیوں کو بتا دو کہ اب ’’سقوط غوطہ‘‘ ان کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے ۔ویسے بھی داعش کے شمالی اور مشرقی شام میں انہدام کے بعد شامی سرکاری افواج کا مورال آسمانوں کو چھو رہا ہے۔ شامی فوج کی ٹائیگر فورس کے سربراہ جنرل سہیل حسن کے مطابق ’’اب ہم ان باغیوں کو سبق سکھائیں گے۔ اب ان کی پیاس کو کھولتے پانی اور خون سے ہی بجھایا جائے گا‘‘۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ 24 فروری کو سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد پر بالکل بھی عمل نہیں کیا جارہا۔ اور یہ فارمولا کہ 30 دن کے لیے سیز فائر کیا جائے اپنی موت آپ ہی مر چکا ہے۔ یہاں تک کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی اپیل پر بھی کسی فریق نے کان نہیں دھرے کہ کہ روزانہ کی بنیاد پر پانچ گھنٹے جنگ بندی کی جائے تاکہ محصورشہریوں کو ہنگامی طور پر انسانی بنیادوں پر امداد پہنچائی جائے۔
یوں جنگ بندی کا عمل معدومیت کی جانب گامزن ہے۔ دوسری جانب شدید لڑائی کے بعد شامی آرمی دھیرے دھیرے غوطہ میں قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جہاں اسے باغی گروہوں کی جانب سے کڑی مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے تو وہاں روسی فضائی کمک اس کے لیے بمباری کر کے حالات سازگار بنا دیتی ہے۔ جبکہ اس مشکل کی گھڑی میں غوطہ کے باغیوں کے پاس یہ آپشن بھی کھلا ہے کہ وہ موصل کی طرز پر شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کریں اور فرار کی تگ ودو جاری رکھیں۔لیکن شامی ،روسی فضا ئیہ اور باغیوں کے نشانے پر غوطہ کے یہ بے بس مجبور عوام ہی ہیں جو دن رات لاشوں کے انبار میں ،خوراک اور صحت کی سہولیات سے محروم ایک قیامت ضعریٰ سے گزر رہے ہیں۔غوطہ کے گلی کوچے دھول اور ملبے کے ڈھیر کا مجموعہ بن چکے ہیں۔
کہیں کہیں شامی ہیلی کاپٹر وں سے بیرل بموں سے بمباری کی جاتی ہے تو کہیں باغیوں کے مارٹر حملوں نے زندگی بے وقعت کر دی ہے ۔غوطہ اور دوما میں زندگی ایک بھیانک خواب کا روپ دھار چکی ہے ۔بلاشبہ یہ سات سالہ شامی جنگ کا بدترین اور خونی فیز ہے جو کہ غوطہ میں جاری ہے ۔شامی امور کی ماہر جنیفر کیفریلا کے مطابق’’ بشار الاسد اس وقت فتح کے نشے میں چور شام کے ہر کونے پر اپنا غلبہ چاہتا ہے ۔چاہے اس کے لیے کتنا ہی خون کیوں نہ بہانا پڑے‘‘۔ اس پر ستم یہ کہ اس خون آشام مہم میں اسد کی فوج کی جانب سے کلورین گیس کا بھی بطور کیمیاوی ہتھیار شرمناک استعمال کیا گیا ہے۔
جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔ یاد رہے کہ اگست 2013 میں بھی اسد نے یہاں کیمیاوی ہتھیار استعمال کیے تھے۔ طویل محاصرے کی مدد سے اپنے حربی مقاصد کا حصول بشار الاسد کا پرانا مشغلہ رہا ہے۔ اسی طرح کی حربی تدابیر اختیار کر کے اس نے دسمبر 2016 میں الیپو بھی واپس لے لیا تھا۔ اس وقت الیپو میں بھی تین لاکھ آبادی محصور ہو کر رہ گئی تھی ۔تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ غوطہ میں ہسپتال،بازار حتیٰ کہ مساجد بھی روسی اور شامی بمباری سے محفوظ نہیں رہی۔ لہذا روئے زمین پر مشرقی غوطہ جہنم زار بن چکا ہے ۔بچے کچے ہسپتالوں میں ایک بستر پر دو دو افراد لیٹے ہوئے ہیں۔ تادم تحریر2018 میں شام کی تازہ ترین صورتحال کچھ یوں ہے کہ کرد فورسز رقاء ، کوبانی ،مشیلی اور حسا کے علاقوں پر قابض ہیں۔ جبکہ آفرین کے علاقے میں ان کو ترک فورسز کے سامنے پسپا ہونا پڑا ہے۔ جبکہ اسد کی سرکاری افواج، دمشق، پالمیرا، حلب، ابو کمال،حمص،طرطوس، لطاکیہ ،الیپو اوردیر الزورپر قابض ہوچکی ہیں۔ جبکہ شامی باغی ادلیب اور چند جنگجو گروہ غوطہ میں کنٹرول قائم رکھے ہوئے ہیں۔
مشرق وسطٰی کے امور کے ماہر تجزیہ نگاررابرٹ فسک کے مطابق اس وقت حمص سے الیپو ،ڈیرا سے دمشق تک شامی فوج کے مسلح کانوائے ہر جگہ اپنی فاتحانہ موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔ گویا شامی عوام کو یہ تاثر نہایت ہی طمطراق سے دیا جارہا ہے کہ دمشق نے اپنی ریاستی رٹ بڑی حد تک بحال کر لی ہے ۔جہاں ایک طرف بشار الاسد روز بروز استحکام پذیر ہوتا جارہا ہے اور شامی افواج بھی کامل فتح کے نعرے سے لبریز ہیں۔ وہاں اس کے حریف باغی گروپس جن میں قطر کے حمایت یافتہ فیاق الرحمن ،سعودیہ کے جیش السلام اور النصرہ شامل ہیں ان میں پھوٹ پڑ چکی ہے۔
شاید اب ان کے لیے غوطہ کا سقوط مقدر بن چکا ہے ۔اگر ہم شام کے مستقبل پر غور کریں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب غوطہ کے بعد ادلیب بشار الاسد کا اگلا ہدف ہوگا ۔اس کے بعد آفرین اور رقاء کی باری بھی آئے گی جہاں ترک اور امریکن فورسز میں خاصی گرما گرمی چل رہی ہے۔ ایسے میں کردوں کی مستقل حمایت امریکہ کیسے جاری رکھ پائے گا؟ یہ آنے والے دنوں میں اہم سوال ہوگا۔
لیکن اس سے بھی اہم سوال تو یہ ہے کہ اب ہم شام میں کتنی ایسی دلدوز اور روح فرسا تصاویر مزید دیکھ سکتے ہیں جن میں والدین اپنے بچوں کے لاشے تھامے کھڑے ہوں۔ ایک معصوم بچے کی لاوارث لاش جو کہ ساحل سمندر پر پڑی عالمی برادری کے بے جان ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہو۔ اس کشت و خون کے لامتناہی سلسلے کے آگے کون بند باندھے گا ؟کیا ہم اسے بشارالاسد کی جیت قرار دے سکتے ہیں؟ شاید حربی نقطہ نظر سے بشار الاسد شامی منظر نامے کے سب سے اہم کھلاڑی بن چکے ہیں لیکن یہ بھی ایک تلخ سچ ہے کہ جہاں بشار الاسد جیت گئے وہاں انسانیت کی شرمناک ہار ہوئی ۔