شناخت نامہ ، برائے ہمارے مسیحی
تبصرۂِ کتاب: زاہد یعقوب عامر
القابات سے نوازے جانے والے معاشرے کے معماروں اور محسنوں کو سلام عقیدت سڑکوں پہ کوڑا صاف کرتے۔ چوڑا، گگڑا، اور چمار کے حیرت اور اچنبھے کی بات نہیں۔ کوئی ایسی بات بھی زیرتحریر نہیں جو سمجھ میں نہ آسکتی ہو۔ مسیحی پاکستان کا وہ حصہ ہیں جنہوں نے اپنی صلاحیتوں، کوششوں، خون، پسینے کے ساتھ اس ارض پاکستان کو دوام اور استحکام بخشا۔
یہ باتیں اور حقائق شاید اتنے واضح نہ تھے۔ ان نشانات اور مقامات تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی کہ ان تمام حقائق کو معاشرے تک پہنچایا جائے۔ یہ ہمارے قابل قدر دوست اعظم معراج کی بیس سالہ محنت کا ماحصل ہے کہ انہوں نے قیام پاکستان سے لے کر استحکام پاکستان کے سفر میں مسیحی بھائیوں کے کردار کو اجاگر اور ایک کتاب میں یکجا کیا ہے۔
معاشرے میں جہاں پہلے ہی تفاوت، متفرق ترجیحات اور عدم مساوات ہے وہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پاکستان کے قیام کے وقت موجود اقلیتیں ایک تہائی رہ گئی ہیں۔ کہاں گئے وہ تحریک پاکستان کے سپاہیوں کی اولادیں؟ کندن لال رلیا رام کی نسلیں اور الفرڈ پرشاد کے جانشین۔ ہیڈ ماسٹر فضل الہی’ کے فرزند جو تحریک پاکستان کے اس جانثار پر مان کرتے۔
ان مسیحوں کی نسلیں کہاں ہیں جنہوں نے سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کیا، جنہوں نے یوم نجات منایا۔ جنہوں نے باؤنڈری کمیشن کے کردار پر آواز بلند کی۔ اعظم معراج نے اپنی کتاب ”شناخت نامہ“ میں ان تمام حقائق کا کھوج لگایا ہے۔ ان لوگوں کو احساس تفاخر دیا ہے کہ آؤ ہم سب مل کر اس وطن کے ”سبزوسفید ہلالی پرچم“ کو تھامیں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیں۔
عدلیہ، سیاست، صحافت، صحت، دفاع ہر شعبہ زندگی میں مسیحی بھائیوں کا کردار بہت اہم ہے۔ ہلواڑہ کا فضائی معرکہ ہو یا کارگل کی لہو رنگ وادیاں۔ سوات آپریشن سے لے کر وانا وزیرستان اور گیاری۔ ہر جگہ ان جانبازوں کی بہادری کے قصے رقم ہیں۔ سیسل چوہدری، ونگ کمانڈر مڈل کوٹ، میجر سرمس رؤف کس کس جانباز کی بہادری کے قصے سنیں۔غازیوں اور شہیدوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ 69 شہداء کی داستان شجاعت ہے جو اپنی جان اس دھرتی پر وار گئے۔
اعظم معراج کی اس کتاب کی تیاری کے بہت سے مراحل میرے سامنے طے ہوئے۔ جاں فشانی، لگن اور عرق ریزی کا مقصد خود نمائی نہیں خود شناسی تھا۔ معاشرے کے چوڑوں، گگڑوں کو احساس تفاخر دینا تھا۔ ان کو بتانا تھا کہ وہ بھی اس دھرتی ماں کے وارث ہیں۔یہ آسمان ان کا بھی اتنا ہی ہے جتنا کسی دوسرے کو سر اونچا کرنے سے نظر آتا ہے۔
اس پر نظر آنے والے ستاروں میں وہ مسیحی شہید بھی ہے جس نے اسلامک یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا کے داخلی دروازے پر ایک خودکش حملہ آور کو دبوچ لیا تھا۔ جس کا جسم اسلامک یونیورسٹی کی معصوم بچیوں کو بچاتے بچاتے چیتھڑوں میں بٹ گیا تھا۔ اسی سانحے میں میرے دوست سید زبیر اشرف کی اکلوتی بیٹی آمنہ شہید ہوئی تھی۔ وہی آمنہ جس کا کمرہ آج بھی زبیر بھائی کے گھر میں اسی طرح سجا ہوا ہے۔ اس کی یادوں سے مہکتا ہے۔ اگر پرویز مسیح آگے بڑھ کر اس حملہ آور کو نہ دبوچتا تو شاید ایسی کئی ایک آمنہ اور ان کے والدین بھی انہی صدموں کا شکار ہوتے۔
افواج پاکستان کے تھری سٹار جنرل سے لے کر پاک فضائیہ ، بحریہ ، رینجرز، پولیس سب شعبہ ہائے دفاع میں مسیحیوں کی خدمات قابل قدر ہیں۔ اور اعظم معراج نے بہت محنت سے یہ حقائق اکٹھے کیے ہیں۔ اس کتاب کا ”معرکہ بڑاپنڈ“ پڑھنا میرے لیے ایک بہترین تجربہ اور خوش کن احساس تھا۔ لیفٹیننٹ (ازاں بعد کرنل) ڈیرک جوزف کی بہادری کی داستاں میرے ددھیال کے گاؤں میں رقم ہوئی۔ اس 1965 کے جنگی معرکے کی تفصیل پڑھتے ہوئے ایک انجانا سا احساس مسرت تھا۔
پڑھتے پڑھتے بات 13 لانسرز یونٹ تک پہنچی جس میں میرے بہترین دوست عاطف ذیشان عباسی نے ہمیں مدعو کیا اور یونٹ کے تاریخی میوزیم کا بھی تعارف کرایاتھا۔ پندرہ سال پرانی یہ ملاقات، کارگل کی جنگ کے قصے۔ ہم نے مل کر دھرائے تھے۔یہ یونٹ برطانوی افواج کی طرف سے تعمیر کیا گیا اور اس کی بہادری کی داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہ میری اپنی یادوں کا حصہ ہے جو اس کتاب کے مطالعہ کے ساتھ خوبصورت اور یادگار ماضی میں لے گیا۔ایک خوشگوار احساس دے گیا۔
”شناخت نامہ“ کے بعد اعظم معراج کی حالیہ کتاب ”شان سبز وسفید“ بھی گذشتہ ماہ شائع ہوچکی ہے جس میں 86 مسیحی شہداء کا تذکرہ شامل ہے۔ اس کتاب پر مفصل گفتگو تو بعد میں کروں گا مگر شہر شہر سجتی محفلوں، مسیحی عبادت گاہوں اور بیرون ملک بسے پاکستانی مسیحیوں کو یہ کتب بطور تحائف بھیجی جا رہی ہیں۔ عسکری میوزیموں میں ان شہداء کی تصاویر بطور خاص آویزاں کی جارہی ہیں۔
پاکستان کے کسی کونے میں کسی مسیحی بھائی سے ہونے والی زیادتی پر ایک مخصوص طبقہ نفرت اور حقارت کا ایک بازار گرم کر دیتا ہے۔ اعظم معراج کی تمام کوششوں کو آگ لگ جاتی ہے۔ ظلم اور زیادتی کسی کے ساتھ روا رکھنا جائز نہیں۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے کہ یہ کسی طبقے کے ساتھ نہیں ایک پاکستانی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہے۔ اس معاشرے اور ملک کے باسی کے ساتھ زیادتی ہے۔ اور ہم سب کا اپنا ہے۔ان کے دکھ درد مسائل اور مشکلیں ہم سب نے مل کر دور کرنی ہیں۔
اعظم معراج نے اپنی تحقیقی کتاب کے ذریعے مسیحی نسلوں کو پاکستان کے ساتھ مزید جوڑ دیا ہے۔ میں کافی عرصہ سے اس کتاب پر تبصرے، ستائیش اور محبت بھرے مضامین پڑھ رہا ہوں۔ میں نے اس پر کچھ لکھنے میں کچھ تاخیر کی ہے جو کہ اس اہم مقصد اور پرخلوص اعظم معراج کے ساتھ کچھ غیرمناسب سا رویہ ہے۔ مگر مجھے معلوم ہے کہ کراچی ڈی ایچ اے کا یہ صاف ستھرا بزنس مین، لکھاری، محقق، دانشور، صلح جو، ایسے کئی رویوں اور زیادتیوں کا عادی ہے۔ اسے مشکلیں سہنا اور اپنوں کو جوڑ کر رکھنا خوب آتا ہے۔ اپنی کئی سالوں کی رفاقت میں ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانا تو بنتا ہے۔