شرم آتی ہے اب دعا کرتے
از، معصوم رضوی
ہماری معاشرتی اور اخلاقی اقدار تنزلی کی کس تہہ تک پہنچیں گی کوئی بھی نہیں جانتا۔ برائی میں سے برائی کا عُنصر ہی ختم ہو گیا، بری چیز، بری بات، برا عمل اتنا عام ہو گیا ہے کہ کوئی بھی اسے برا نہیں بلکہ اسمارٹنس جانا جاتا ہے۔
زندہ معاشروں میں تبدیلی کی زندگی کی علامت ہوتی ہے مگر ہمارا معاشرہ آنکھوں کے سامنے موت جیسی تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس میں ہم سب پورا پورا حصہ ڈال رہے ہیں۔ مذھبی رہنما دھڑلے سے قتال کا پرچار کرتے ہیں تو روشن خیال تمام حدود قیود کو انسانی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہیں۔
قدامت پسند بیانیہ قرون اولیٰ میں لے جانا چاہتا ہے تو جدیدیت پرست یورپ اور امریکہ کو پیچھے چھوڑنے کا درس دیتے ہیں۔ اپنے اپنے مفادات کے تابع فریقین یہ سمجھنے پر تیار نہیں کہ پاکستان کی 80 فیصد آبادی ایک عام اور نارمل زندگی گزارنا چاہتی ہے مگر دو بیانیوں کی چیخ و چنگھاڑ عام پاکستانی سوچ کا نگل رہی ہے۔
قصور میں وڈیو اسکینڈل ہوا، حکومت پنجاب نے مجرمانہ بے توجہی برتی، شور مچا تو ملزمان گرفتار کرنا پڑے مگر سرکاری توجہ پھر بھی نہ ملی، سو مقدمہ چلا مگر چند کے علاوہ تمام ملزمان رہا ہو گئے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ متاثرہ بچے اور خاندان معاشرتی نفرت کا شکار اور گھناؤنے ملزمان دھمکیاں دینے کے لیے آزاد ہیں۔
اب نتیجہ یہ ہے کہ صرف ایک سال میں بارہ معصوم کلیاں زیادتی کا شکار ہوئیں، بارہویں بچی زینب کے بہیمانہ قتل نے توجہ حاصل کی تو ملزم عمران پکڑا گیا۔
بہرحال سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور عوام پر احسان دھرنے کے لیے غم زدہ والد کو بلا کر خادم اعلیٰ نے پریس کانفرنس کا اہتمام کیا، وزیر قانون، ترجمان اور دیگر حکام نے خوش گوار موڈ میں پوری ڈھٹائی کے ساتھ مبارک بادیں وصول کرتے رہے، بےشرم تالیاں بجتی رہیں، بے ضمیر قہقہے لگتے رہے، جشن کے اس ماحول میں صرف ایک شخص اجنبی کی طرح سر جھکائے بیٹھا رہا، وہ زینب کا باپ امین انصاری تھا۔
سیاست داں بخوبی جانتے ہیں کہ نقصان سے فائدہ کس طرح اٹھایا جا سکتا ہے، المیوں کو جشن میں کیسے تبدیل کیا جاتا ہے۔ بارہ بچیوں کے ساتھ ہونے والے گھناؤنے جرم پر بے شرم وزیروں سمیت تمام متعلقہ حکام سے استعفیٰ طلب کیا جانا چاہیے تھا، ایک سال سوئے رہنے پر وزیر قانون، پولیس اور دیگر حکام کی تنزلی ہونی چاہیے تھی مگر سیاست کا رنگ دیکھیے کہ الٹا وزیر اعلیٰ شہباز شریف تعریفوں کے ڈونگرے برساتے رہے، حکام مبارک بادیں وصول کرتے رہے، میڈیا تالیاں بجاتا رہا۔
زینب کا قاتل صرف اس لیے گرفتار ہوا کہ عوام نے آواز اٹھائی، جس کے باعث میڈیا بھی جاگا اور معاملہ یہاں تک پہنچا، حضور مجھے اپنی جہالت کا مکمل اعتراف ہے مگر صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ گیارہ بچیوں پر آواز نہ اٹھانے کا قصور وار کون ہے؟
مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طالب علم مشعال کو ساتھی طالب علموں نے مذھب کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا، اس قتال میں تمام مکتبۂ فکر کے لوگ شامل تھے۔ ابھی مشعال خان قتل کیس کا مقدمہ چل رہا ہے کہ شبقدر میں انٹر کے طالب علم نے پرنسپل کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا کیونکہ اس نے فیض آباد دھرنے میں شرکت کے لیے کی جانیوالی غیر حاضریوں کے بارے میں پوچھا تھا، قاتل طالب علم ذرا بھی شرمندہ نہیں کیونکہ اس نے یہ کام خدا کی رضا کے لیے کیا ہے۔
روشن خیال پہلے مذھبی جنونیت کو مدرسوں سے جوڑتے تھے مگر اب خاموش ہیں جب جدید جامعات اور کالجز میں یہ زھر اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ بے حسی کی دلدل میں غرق ہم کبھی کبھار کسی ظلم پر آواز اٹھا دیتے ہیں تو حکام بالا احسان فرما کر مسئلہ حل کر دیتے ہیں ورنہ اس معاشرے میں کوئی کسی کے لیے آواز بلند نہیں کرتا۔
اپنی اپنی دنیا میں مگن بائیس کروڑ انسانوں کا یہ گروہ ظلم اور نا انصافی سہنے کا اتنا عادی ہو چکا ہے کہ کوئی سوال نہیں اٹھاتا، ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑتا، ظلم ہوتا دکھائی دے تو نظریں چرا کر گزر جاتا ہے۔ کیا خوب کہا ہے فرحت احساس نے
میں ایک فرد صف آرا معاشرے کے خلاف
اور ایک فرد میں پورا معاشرہ بھی ہوں میں
علامہ ابن خلدون کہتے ہیں کہ دنیا میں ترقی اور عروج پر پہچنے والی قوم کردار اور اخلاق کی حامل ہوتی ہے جبکہ بدکردار اور بداخلاق قوموں زوال اور پستی سے دوچار ہوتی ہیں۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اور جب اس کُلیے پر یقین آ جائے تو ذرا موجودہ دنیا پر نظر ڈالیں بہت کچھ عیاں ہو جائیگا، خداوند تعالیٰ نے جنہیں عروج کی نعمت دی ہوئی ہے ان معاشروں کی بنیاد انسانیت پر ہے۔
مگر ہم نے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ حقیقت سے پرہیز کرنا ہے، کیا یہ درست نہیں ہے کہ پاکستان معاشرہ طبقاتی، مذھبی، مسلکی، لسانی، فرقہ وارانہ، علاقائی اکائیوں میں بٹا ہوا ہے۔ سیاسی انتشار، مذھبی، مسلکی، علاقائی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل عام، بازاروں میں ملاوٹ شدہ اشیا خورونوش، رشوت ستانی، چوری چکاری جیسی سماجی برائیاں اب برائی نہیں بلکہ ہماری سرشت کا حصہ بن چکی ہیں۔
کیا یہ درست نہیں کہ ہم ذاتی مفاد کی خاطر مذھب تک کو استعمال کرنے سے ذرا دریغ نہیں کرتے۔ کیا یہ درست نہیں کہ ہم قول و فعل کی عظیم منافقت کا شاہکار ہیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ ہم ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد ہر ترجیح دیتے ہیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ ہم اپنی تمام حماقتوں اور غلطیوں کا دوش دوسروں پر ڈال کر بے حسی کی دلدل میں غرق ہو جاتے ہیں۔
زہر پھیلاتے سیاستداں، کفر کے فتویٰ بانٹتے علماء، کج فہم حاکم، بے شرم سماج، پھر بھی معاشرے میں ہونے والی ہر خرابی کا سہرا یا تو یہود و ہنود کی سازش قرار دیا جاتا ہے یا حکومت کی نااہلی، تو حضور ہم کہاں ہیں، کیوں ہیں اور کیسے ہیں، کیا کبھی اس پر بھی غور کیا ہے؟
یقین جانیے پاکستان کو اصل خطرہ باہر سے نہیں اندر سے ہے، ایک ایسا معاشرہ جو صحیح اور غلط میں تمیز کی صلاحیت کھو بیٹھا ہو، جہاں اخلاقیات کو فرسودہ اور بے معنی تصور کیا جاتا ہو۔ ایمانداری، خلوص، سچائی، فرض شناسی اور دیانت داری کو بے وقوفی سمجھا جاتا ہو۔ رشوت، سفارش، خود غرضی، ناانصافی کی مذمت تو کی جاتی ہو مگر عمل سے گریز کیا جاتا ہو۔ ہر شخص مذھبی مبلغ مگر دین کی اصل روح سے دور، خیروشر پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہو۔
ذرا ایک بار اپنے دل سے پوچھیں، کیا اسے بھی یہود و ہنود کی سازش قرار دیا جا سکتا ہے۔ مفادات کے حصول کے لیے ہر ناجائز راستہ اختیار کرنا آج ہماری پہچان بن چکا ہے۔ ایسے میں کرپشن، بدعنوانی، ظلم، خباثت، ناانصافی اور بےشرمی پر خاموشی معاشرے میں عام کیوں نہ ہوں کیونکہ خود بائیس کروڑ عوام بھی تو اس کا حصہ ہیں۔
ایسے میں سیاسی قائدین، مذھبی رہنما، سماجی کارکنان، مہم جو ادارے اور لالچی تاجر کیوں نہ فائدہ اٹھائیں، ایسے معاشرے میں جنگل کا قانون کیوں نہ نافذ ہو جہاں ہر بڑا درندہ چھوٹے جانور کا شکار کرتا ہے۔
معذرت چاہتا ہوں مگر یقین جانیں اس صورتحال میں ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں، بقول حبیب جالب
مدتیں ہو گئیں خطا کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے