شرمین عبید چنائے اور ہراسیت کا منطقہ : آئینے سے ہمکنار ہوئیے
از، علی ارقم
کچھ عرصے قبل کی بات ہے، ہمارے ایک شناسا کی والدہ جو کہ عارضۂ قلب میں مبتلا ہیں، کراچی کے ایک پرائیویٹ ہسپتال کے ایک معروف معالج کے زیر علاج ہیں، گھر والے معائنے کے لئے لے جاتے رہتے ہیں۔
ایک بار اُن کی بھابی ایک بار ساتھ گئیں، تو ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دِیے، اور کہا کہ رپورٹس لاکر دکھانے کے بجائے ان کے پی اے کو واٹس ایپ پر تصویریں بھجوادیں، تو وہ دواؤں میں حسب ضرورت تبدیلی کردیں گے۔
ہمارے ان شناسا نے رپورٹس واٹس ایپ پر بھجوائیں تو پی اے صاحب نے چونکہ مریضہ کے ساتھ ان کی بہو کو آتے دیکھا تھا، وہ سمجھے یہ میسج انہی نے کیا ہے، تو آگے سے میسج کردیا، “آپ کی آنکھیں بہت خوبصورت ہیں۔” اب یہ دیکھ کر یہ صاحب طیش میں آگئے، پر خود کچھ کہنے کے بجائے ہمیں اسکرین شاٹ بھجوادی۔
اب ہم نے اس بندے کو کہا، “آپ مریضوں کی فیمیلیز کے ساتھ ایسا کرتے ہیں، اپنی بیگم کا نمبر دیں، ہم انہیں یہ اسکرین شاٹ بھجوائیں گے، وہ فیصلہ کرلیں۔” اب وہ معافی اور گڑگڑانے پر آگئے، بیوی بچوں کے واسطے دینے لگ گئے۔
ان صاحب نے سب دیکھا تو کہا، “اتنی کلاس کافی ہے، بندہ ٭٭٭٭ ہے، لیکن اب معافیاں مانگ رہا ہے، تو چھوڑ دیں، اس سے زیادہ آگے جانا تکبر کے زمرے میں آئے گا، سو ہم باز آگئے۔
ہمارا خیال تھا کہ متعلقہ ڈاکٹر اور ہسپتال سے بات کی جائے، کیوں کہ ایسے معاملات میں لوگ یہی سوچ کر چُپ رہ جاتے ہیں کہ ایک ٭٭٭٭ تو ہے نہیں، پتھر اٹھاؤ تو نیچے سات نکل آتے ہیں، اس کا یہ ٭٭٭٭ فائدہ اٹھاتے ہیں، کہ ٹرائی کرو، دال گلی تو ٹھیک، ورنہ وہی عامر خان کا ڈائیلاگ کہ لڑکیاں بس کی طرح ہوتی ہیں، پیچھے مت بھاگو، ایک نکلے گی تو دوسری پیچھے آرہی ہوگی۔”
تو بھیّا ہمیں شرمین عبید چنائے کی ذات ، خاص طور پر ان کے نسل پرستانہ اور ایلیٹسٹ افکار سے جتنا بھی اختلاف ہو، ان کے غُصّے کو جائز سمجھتے ہیں۔
تصور فرمائیں، کوئی بندہ کرنا مہا ٭٭٭٭ اور فارغ ہے کہ وہ میڈیکل ایمرجنسی میں آنے والی مریض کے نام سے اس کا فیس بُک اکاؤنٹ نکال ڈالتا ہے، اور بغیر کسی تعارف و شناسائی کے فرینڈ ریکویسٹ بھیج ڈالتا ہے، یہ تو آغا خان کا معاملہ ہے، جہاں اعلٰی طبقے سے تعلق رکھنے والے مریض آتے ہیں، چھوٹے ہسپتالوں کا حال کیا ہے، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں، اچھا ہے ایک ٭٭٭٭ کو ایک انا پرست ٹکر گئی، اور دماغ ٹھکانے آگیا۔
جہاں تک ڈاکٹر کا تعلق ہے، وہ اگر آغا خان میں معالج تھا، تو اسے نوکری کہیں اور مل جائے گی، جتنے لوگ فیس بُک پر ڈاکٹر کے فکرِ معاش کے غم میں پتلے ہوئے جارہے ہیں، وہ بے فکر رہیں! ان کے ہم خیال ڈاکٹرز اور ہسپتال مالکان بھی بہت ہوں گے۔
جو لوگ جنسی طور پر ہراساں کرنے کی اپنی اپنی تشریحات کی بنا پر تبصرے اور چٹکلے لکھ رہے ہیں، اچھا ہے! وہ اپنی اداؤں پر نظرثانی فرمالیں، ایک سنجیدہ معاملے کو عامیانہ انداز گفتگو میں اڑانا شاید مناسب رجحان نہیں ہے۔