شیما کرمانی کی رقص کرتی باتیں
شکور رافع
‘‘ہیلو، بھئی آ رہا ہے نا شام، انجمن ترقی پسند اسلام آباد کے اجلاس میں؟’’
‘‘کس کا لیکچر ہے اس بار؟’’
‘‘شیما کرمانی۔۔۔ کون ؟ ۔۔ وہ ڈانسر نا ۔۔ یارر۔۔اب رقاصائیں لیکچر دیا کریں گی ۔۔ ’’
‘‘کیا مطلب.. جہالت مت بکو۔ وہ فنون لطیفہ کا بے حد نتھرا ذوق رکھتی جینئس ہے۔’’
‘‘نون لطیفہ؟۔۔ہاہا۔۔ بھائی ۔۔یہاں دہشت گردی ، غربت اور جہالت جیسے عفریت ڈکار رہے ہیں اور آپ بادشاہوں کے ہاں مجرا بجا لینے والے فن سے سماجی شعور کریدنےچلے ہو۔۔’’
‘‘اچھا چل تو۔۔ دیکھنے سننے میں کیا ہرج ہے۔۔اچھا۔ چل۔۔’’
پہلی خوشگواریت یہ دیکھی کہ رائٹرز کیفے کھچا کھچ بھرا تھا بلکہ بہت سی معتبر علمی وادبی شخصیات دروازے کے باہر کھڑی اس اڑسٹھ سالہ رقاصہ کو دیکھنا چاہتی تھیں ، سننا چاہتی تھیں۔
نفیس شائستہ نستعلیق شخصیت ۔۔
ضیائی عہد کی بلوغتی تربیت کا اثر باقی تھا سو ظاہر کی آنکھ سے تاڑا۔۔۔
عمارت عظیم ہے!
اور پھر شیما نے مسکراتے ہوئے لیکچر شروع کیا تو تقریر کی لذت دیکھ کر غالب سرگوشے۔
بالائے جاں۔۔۔ عبارت کیا، اشارت کیا ادا کیا، ۔۔۔
شعور و آگہی والی سنجیدگی سے مزین ۔۔۔ سنگین مگر رنگین گفتگو جو سر پیر پھیرتی رقاصہ کے بجائے کسی سرپھرے باذوق انقلابی باوے سے ہی متوقع ہوتی ہے۔
‘دیکھئے رقص کی اہمیت و ضرورت پر تو تب بات کریں گے نا جب چاند زمین کے، زمین سورج کے اور سب سیارے نظام شمسی میں ترتیب اور تنظیم سے رقص کرنا چھوڑ دیں گے۔ جب اس زمین کو کھودو گے تو تین ہزار سالہ قدیم ڈانسنگ گرل نہیں نکلے گی، دھمال ڈالنے والوں کو مارنے والا کوئی خودکش بمبار نکلے گا۔
جب رقصاں ہوائیں بے ترتیب ہو کر اتنی شدت سے چلا کریں گی کہ غنچے سمن و گلاب بن کر رقص کرنے سے قبل ہی اجڑ جائیں گے، بکھر جائیں گے۔
میں رقص بارے آپ سے اور کیا کہوں کہ باہر تو باہر، اس کائنات سے سفر کرتی اندر ذات تک میں جب امن ومحبت اور سوز و ساز کا چراغ جلتا ہے تو رومی ، بلھا، شمس سب عکس در عکس رقص کرتے ہیں۔ سرور پاتے ہیں۔ قلب و حضور پاتے ہیں۔
اس کے محبوب لال شہباز قلندر نے ہی تو کہا تھا
نمی دانم کہ آخر چوں دمِ دیدار می رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوقے کہ پیشِ یار می رقصم
(یہ تو نہیں معلوم کہ وقت دیدار یار میں عالم رقص کیوں طاری ہو جاتا ہے لیکن اپنے اس ذوق پر نازاں ہوں کہ اپنے یار کے سامنے رقصاں ہوں۔)
لوگوں نے جھرجھری لی۔
کیا ‘دھا دھن دھا’ پھرنے والی نسوانی فکر اتنی توانا اور پر اثر ہو سکتی ہے کہ اظہار کانوں کے بجائے دل پہ ابلاغی رقص کر تا پھرے۔
ڈیڑھ گھنٹے کے مختصر وقت میں بہت سارے دکھوں کی پوٹلی یک جنبش نگہ یہ قتیل ادائے ناز اٹھانے پہ مصر تھی۔
سماج ۔۔۔ جہالت ۔۔ دہشت ۔۔ غربت ۔۔ملائیت ۔۔آمریت ۔۔اقلیتوں، عورتوں اور بچوں پر ظلم، وبال ، استحصال۔
اس کے خیال میں آرٹ اور ثقافت سے ان مسائل کو حل نہ بھی کیا جا سکتا ہو، ان کا ادراک تو کیا جا سکتا ہے۔ سردست سوسائٹی کا اصل مسئلہ تو دکھوں کے مداوا کے بجائے تکلیف کی تشخیض ہے۔ موسیقی سے، رقص اور ناٹک سے اگر عوام کو دھیمے سروں میں ان کی اصل بیماری طبقاتی سماج اور غربت و جہالت کے راج سے فرار کی تحریک مل سکے تو کیا برا ہے۔
‘‘دیکھیے جب سیہون میں دھمال ڈالتے ہوئے لعل شہباز کے احاطے میں خون شکست کا منظر پیش کر رہا تھا تو تب آہ و زاری، بیان بازی اور مزاحمتی نعروں کے بجائے وہاں پہنچ کرشکست کو مزاحمت کا عملی ثبوت دینا تھا اور وہ ہم نے ہمارے ساتھیوں نے دیا۔’’
اس نادم دوست کو کچھ یاد آیا اور سرگوشی کی:
‘‘یاد آیا ۔یار۔۔ لعل شہباز قلندر پر خود کش حملے میں ، جذب و مستی میں ڈوبے سینکڑوں جسموں کے اعضاء جب، فضا میں بکھرے تھے توواقعی پورے ملک میں دہشت سراسیمگی پھیل گئی تھی۔ تب اس نے کمر باندھی، مزار کے احاطہ میں پہنچی اور دہشت و خوف کی فضا میں ایسی قلندرانہ دھمال ڈالی کہ ‘جھولے لعل’ کے نعرہ مستانہ نے سیہون کے انسان دوست مزار کی رونقیں پھر سے دوبالا کر دیں مگر یہ تو آج معلوم ہوا ہے کہ یہ صرف کلاسیکل رقاصہ نہیں، ترقی پسند آرٹسٹ، روشن خیال دانشور اور سچی کھری ایکٹویسٹ بھی ہے۔’’
شیما کا لیکچر وقیع تھا۔ کلبلاتے سماج کا نوحہ تھا اور سسکتی عورتوں کا مرثیہ۔
‘‘دیکھیے، ایک ہزار خواتین سالانہ عزت کے نام پہ قتل ہوتی ہیں۔ ونی کی رسم، قرآن سے شادی، تیزاب گردی ، مذہب گردی ، جہل گردی ، دہشت گردی ، ترکہ گردی۔ چوبیس گھنٹے کی ذمہ داری ، غریب کی جورو سب کی لاری ، گھر میں غیرت باہر یاری ، کاروکاری ، کاروکاری۔’’
مجھ سمیت کئی پدر شاہی ماتھوں پر پسینہ تھا۔ شاید ہال کی گرمی تھی یا فکرو خیال کی مگر اکثریت سرشار تھی، محو تھی ، بے باکانہ فکر کے موتی چنتی تھی، سر دھنتی تھی۔ سر دھنتے ہوئے، تاہم ، یہ مسافرسوچ رہا تھا۔
کاش وہ نسوانی کے ساتھ آج ایک اجتماعی انسانی دائرے کا ہیولا بھی کھنچتی جاتیں جو کہ وہ جانتی ہیں۔ جس معاشرے میں تیرہ فیصد بچیاں سکول جاتی ہوں اور بارہ فیصد اکیلے باہر نہ نکل سکتی ہوں، وہاں عورت کے شعور، آزادی اور صنفی برابری پر کام کی بے پناہ ضرورت ہے، لیکن اس اجتماعی سماجی شعور کو عورت کی ‘آزادی محض’سے مشروط کر دینا ہی کیا انسان کی آزادی ہے؟
استحصالی نظام میں مغربی عورت ایک سو سال سے آزاد ہے؟ کیا پرسکون ٹھہری؟
اور اپنی تو لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتیں۔ ایسی ‘مظلومات’ کو سرمائے کے کھیل کے بنیادی شعور بنا آزادی مل بھی گئی تو کیا وہ ایسی چکا چوند خواتین کو آئیڈیلائز نہیں کریں گی جو سرمایہ دارانہ نظام میں ، اشرافی نسبت، شہوانی عریانیت ، حیوانی جنسیت، یا ظاہری شکل و صورت کی قیمت پر یا کسی بھی اور انفرادی قابلیت پر خود کو آزاد ظاہر کرتے کرتے کھلونا بن جاتی ہیں اور کھلونے پر مہناز نے گیت گایا ہے کہ
کھلونے تری زندگی کیا
سب کا دل بہلائے گا
اک دن ٹوٹ ہی جائے گا
کھلونے تری زندگی کیا
سوسائٹی میں ‘مرد عورت’ کی تقسیم کے بجائے ‘ظالم مظلوم’ کے طبقات پر فوکس رہنا کیا سماج بدلنے کا زیادہ آزمودہ کلیہ نہیں بن سکتا ؟
کیا بنیادی مسئلہ صنف کا ہے یا طبقے کا؟
کیا حکمران اشرافیہ کی عورت بھی مظلوم ہے؟
اس آئیڈیلائز کی جانے والی آزاد عورت کی دولت، عزت، شہرت کے تمغوں میں سے نسوانیت اور نسبت نکال دیں تو کیا جدید خود مختار عورت ، بہتر سماج کے لیے مثبت کردار ادا کرنے والوں کی صف میں کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ شاید اکثریت نہیں!
سیاست دیکھیے، میڈیا دیکھیے، ماڈلنگ دیکھیے ، این جی اوز دیکھیے۔۔ آج ہی یاسمین راشد سے مریم نواز تک کو دیکھ لیجیے۔
خیر۔ ایک سیدھی سی رپورتاژ میں کیسی بھی لطیف باریکیاں چھڑک دیں، رہتی صحافتی ادب کا حصہ ہی ہے سو
سو یہ سب کہنا ان کا حق نہ تھا، اپنی خواہش تھی اور ہرخواہش خبر نہیں بنا کرتی۔
بھلا اس میں کیا شک کہ جو کام وہ نصف صدی سے کرتی آ رہی ہے اور اب بھی کر رہی ہے، وہ بہت سے جغادری دانشوروں سے باون فیصد زیادہ ہے۔
سماج سے اور روایت رواج سے جڑتی کٹتی ، جلتی پھٹتی رقاص بہ رنگ مہ سیما ، بہ انداز ماہی سیما ۔۔۔شیما!
‘ساقیا! رقص کوئی رقصِ صبا کی صورت’ کی عملی تشریح۔۔
بظاہر ایک رنگین تیرتی مچھلی۔ پاس جا کے دیکھیے تو دریا میں چھوٹی مچھلیوں کا رزق آب بن جانے پر یہ ماہی دھنک رنگ تڑپتی ہے، مچلتی سسکتی ہے، مگرمچھوں سے الجھتی ہے، ملنگ اس عمل کو رقص کہتے ہیں اور دیوانے اسے وحشت۔
ایسا ہی ایک ‘حساس ملنگ’ (قابل احترام فرنود عالم) اسی مجلس میں بیٹھے اپنے ان ان لکھے جملوں پہ رشک کرتا ہو گا۔
‘‘شیما کرمانی کا رقص حرفِ انکار کا عکس ہے۔ (۔۔۔) دل پہ گرے مظلوم کے لہو کا قرض ہے۔ ڈھول کی تھاپ پر نہیں، شیما کرمانی تلوار کی دھار پر رقص کرتی ہے۔ ہمارے تڑپتے ہوئے جذبات کو سمیٹ کرمجسم پیکر بنادیا جائے تو شیما کا رقص بنتا ہے اور شیما کے تڑپتے رقص کو تحلیل کردیا جائے تو ہمارے جذبات بن جاتے ہیں۔’’
آخر میں معزز شرکا کے نام :
سید سجاد مہدی، امداد آکاش، احمد سلیم ، وسیم الطاف ، ڈاکٹر صلاح الدین درویش، فرنود عالم ، ڈاکٹر حمیرا اشفاق، ڈاکٹر رفعت اقبال ، فقیر سائیں ، یاسر چٹھہ، کبیر خان ، عثمان عالم ، ڈاکٹر اسلم چوہان ، محبوب ظفر، جہانگیر عمران، نجمہ ریحانہ ، ایم اے آر خلیق، فوزیہ شاہد ، حارث عباس ، زبیر لطیف ، احمد عمار ، سی آرشمسی ، ڈاکٹر بشیر شاہ ، ڈاکٹر وجیہہ جاوید ، ڈاکٹر سیما خان ، ڈاکٹر نادر محمود ، امان خان ، ثروت چوہدری ، عامر رضا ، اظہار بخاری ، تیمور ذوالفقار ، ضیا الاسلام ، نذیر خان، شکیل خان، چوہدری خالد ، جاوید انوار ، ناصر عباس ، ارشاد بخاری ، ارشد نذیر ، حسن رضا ، عدنان یوسف ، اکرم نازی ، شاہد منصور ، طیب عزیز ، مس شازیہ ، رضوان اختر ، مس شبانہ ، وقاص ستی ، شکور رافعؔ، جاوید اختر ، علی جان اور ڈاکٹر لطیف جاوید (صدر انجمن ترقی پسند مصنفین ، اسلام آباد) کے ساتھ دیگر محترم مہمان جو ‘حاضری رجسٹر’ میں اپنا نام نہ لکھ پائے۔
معذرت اور شکریہ:
انجمن ان تمام افراد سے تہ دل سے معذرت خواہ ہے جو بالخصوص پروگرام میں شرکت کرنے آئے مگر ہال میں جگہ نہ مل سکنے پر تقریب سے محروم رہے۔ مستقبل میں انجمن ایسے کسی بھی معروف پروگرام میں بڑے ہال کا انتظام کرے گی۔
( بیرون ملک ہونے کے باوجود سوشل میڈیا پر تقریبی دعوت دینے پر ترقی پسند دانشور جناب ارشد محمود خصوصی شکریے کے مستحق ہیں۔)