(بے) پناہ
افسانہ از، فرخ ندیم
کہانی کے تین حصے ہیں: سر، (نچلا) دھڑ اور پاؤں
”ہاں ہاں، جلدی کرو، اور دیکھ لو بے پناہ محبت کا ثبوت، لمبائی چوڑائی تیس ستر۔ اب خوش …؟“
”جی چل پڑی ہوں، بتایا تو ہے کہ مشکل ہو جاتا ہے ہم جیسے لوگوں کا گھروں سے نکلنا… ہاں نا… ہزاروں طرح کے شک… ہم عورتوں کو تو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے… جی بالکل… آپ یہ سب سمجھتے ہیں…
جی… اسی لیے تو یہ قدم آپ کی طرف اٹھ رہے ہیں… رات کو ایک بات بتانا بھول ہی گئی۔ وہ یہ کہ ہم آپ کی خوشی کی خاطر کھانے پکانا بھی سیکھ رہے ہیں۔ اب اور کیا کیا سیکھنا باقی ہے، یہ بھی بتا دیجیے گا….
جی لا رہی ہوں شناختی کارڈ اپنے ساتھ… ظاہر ہے جو آپ کی خوشی وہی میری خوشی… باتیں کرتے ایک کان تو تھک ہی گیا…
جی بولیں… نہیں پلیز…. ایسی باتیں مت کریں مجھے ڈر لگتا ہے… میں پیار ویار کرنے نہیں آ رہی… نیند پوری کیا کریں نا… اوپر سے سیگریٹ… بڑا آدمی بعد میں بننے کے لیے صحت اور تن دُرُستی کی بھی ضرورت ہوتی یا نہیں…
پہنچ رہی ہوں نا… جی مجھے یقین ہے… اسی لیے تو… ہاں ٹھیک… جی۔ جی نہیں کرتی فون بند… پورا ایک سال ہو گیا اب، دونوں کو راتیں جاگتے… جی کوئی شک نہیں… جی ایک بہن کو بتا دیا تھا… جی وہ آپ کو جانتی ہے… فیس بک والی تصویر اس نے دیکھی ہے…
لے لی ہے میں نے کیب… پر مین روڈ جگہ جگہ سے بلاک ہے۔ کیب والے انکل بول رے ہیں کہ آج بھی مظاہرے ہوں گے۔ اسی وجہ سے آج یُونی وَرسٹی بھی ویران ہی تھی۔ اللہ خیر کرے…
جی وہی آپ کا پسندیدہ رَیڈ کَلر… نہیں… جی… میرا گھر، یا میرا فلیٹ نہیں… بَل کہ ہم دونوں کا گھر، ویسے مجھے… قسم سے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔
گھر والوں سے کیسے چھپا سکوں گی یہ خوشی… سٹام پیپرز…؟ میں نے دیکھے آپ نے دیکھے… ایک ہی بات ہے… جی جیسے آپ کہیں… کر دوں گی…
سائنز کے بعد کیا ہوتا ہے؟… کچہری جانا پڑتا ہے؟ اچھا جیسے آپ کہیں… فی الحال یہی ایک… کہا نا گھر والے کچھ اور ہی نا سمجھ بیٹھیں… ہاں…
آپ کو تو علم ہے نا کہ مجھے آزادی چاہیے۔ ایسی آزادی جو مجھے کچھ ہونے کا احساس دے۔ میری ذات کا نکھار بنے۔ کہیں پناہ ملے مجھے اپنے دکھوں سے۔ کیا بتاؤں کہ میری محرومیوں نے کس طرح سے مجھے جکڑا ہوا ہے۔
آپ تو ہر بات سے آگاہ ہیں۔ میں نے اپنے گھر کی کوئی بھی بات آپ سے نہیں چھپائی… نہیں نہیں… ایسی کوئی بات نہیں۔ مجھے آپ پہ یقین ہے… کیا کہا شکریہ؟ قبول کیا جاتا ہے۔
اچھا… لیں ہم کیب سے اتر نے والے ہیں… لگتا ہے منزل کے قریب پہنچ گئے…
بولیں جی… کس بلاک میں ہے یہ ہمارا فلیٹ؟ قریب ہی ہوں۔ بس تھوڑا انتظار کریں…
عجیب سا محسوس ہو رہا ہے۔ کوئی آس پاس بھی نہیں اور اوپر سے عجیب سی لوکیشن ہے… زومبیز۔۔۔! ہائے اللہ میں مر گئی… میں واپس چلی جاؤں گی…
جی ہیں آپ میری طاقت… مان لیا… پھر بھی… اگر کہیں باہر مل لیتے تو… ہاں ٹھیک نظر آ گیا… کیا کریں زندگی کا اتنا تجربہ کب ہے…. سہمی ہوئی آواز تو ایسی ہی نکلے گی… ہاں…
بلاک نمبر چار… ٹھیک… جی جی سمجھ گئی فلیٹ نمبر بیس… جی یقین ہے نا… دنیا؟ نہیں دیکھی نا… اسی لیے تو رہ گئے ہم سادے…
جی اتر گئی کیب سے… ہاں دے دیے پیسے… ہمیں کیا معلوم جی۔ ابھی تو چوتھا سمیسٹر ہے۔ میرا بی بی اے ختم ہو گا تو عملی زندگی شروع ہو گی۔ تب جا کے کہیں دنیا کا بھاؤ معلوم ہو گا۔
مجھے بہت فکر ہے اپنی اور گھر والوں کی۔ بتایا تھا نا کہ ٹیوشن کر کے یُونی وَرسٹی کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔
آپ ٹھہرے بڑے لوگ… بڑے پراجیکٹ… بڑی ذمے داریاں… پراپرٹی کی لین دین… بڑے مسئلے… جی جی، کورٹ کچہریاں بھی ساتھ… اف توبہ… اتنے کام…! بڑے لوگوں کے بڑے بڑے کام۔ ہم ٹھہرے عام عوام۔ بے پناہ محرومیوں کے مارے۔۔۔بس کسی کا ہاتھ تھامتے ہی ایک اعتماد حاصل ہوا ہے۔
ایسا مت کہیں… مجھے اچھا لگتا ہے بچوں کو ا، ب پڑھانا… آپ نہیں دیکھتے وہ ڈاکیُومینٹریز… اگر آگے بڑھنا ہے تو ا، ب پر یقین رکھنا ہے۔ عورت کو تو لازمی آگے بڑھنا ہو گا، ورنہ… ابھی تو پڑھانے دیں… بس کچھ مسائل ہیں نا… اچھا ٹھیک…
یہاں تو بہت ویرانی ہے… خاموشی… عجیب سی لوکیشن ہے… آپ باہر آ جائیں نا… جی پہنچ چکی ہوں۔ ہائے تھک گئی میں تو سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے…
فلیٹ نمبر بیس کے سامنے ہوں اب۔ دروازہ کھولیں… دیکھو تو باہر کون آیا ہے!“
دروازہ کھلنے سے پہلے، اچانک، کسی چڑیا کے چلّانے کی آواز اِس کے دل کی دھڑکن تیز کر دیتی ہے اور ماتھے پر اتنا پسینہ آ جاتا ہے کہ سر کے نرم بال وہیں جم جاتے ہیں۔ زردی مائل ہاتھوں پر تھرتھراہٹ طاری ہونے سے پشت کی مہین رگیں مزید گلابی ہونے لگتی ہیں۔ سرخ رنگ کے سینڈلز میں لرزتے پاؤں بھی پیلے زرد ہوتے کانپنا شروع ہو جاتے ہیں اور زبان یوں سوکھنے لگتی ہے جیسے ایک قطرہ پانی نہ ہو۔
زندگی کے تیئس سالوں میں پریشانیاں بھی ملیں لیکن اس دھڑکے کی شدت نا قابلِ برداشت حد تک زیادہ تھی کہ سرخ لباس میں مضطرب پورے وجود کے بھونچال کو سنبھالتے وہ گرنے لگی تھی۔
کالے رنگ کا بِلّا مُنھ میں ایک دبلی پتلی چڑیا دبوچے ایک خوف ناک اعتماد کے ساتھ اِس کے حواس روندتا چلا جاتا ہے۔ دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی بے یقینی کی ویران منزل پر ایک دیوار کے سہارے کھڑی یہ اِدھر اُدھر دیکھتی ہے۔ ایک لمحے کو اِسے ایسا محسوس ہوا جیسے پورا بلاک کسی وحشت بھرے بلے کا جبڑا بن چکا ہو اور وہ چنگھاڑتا ہوا بند ہو رہا ہو۔
اس کے دیکھتے ہی عین توقع کے بر خلاف مطلوبہ دروازہ کھلتا ہے اور لگ بھگ پینتیس سالہ مضبوط جسم کا ایک سانولا سا شخص موبائل ہاتھ میں لیے تقریباً پیسنے میں بھیگا ہوا اس کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔
”آ آ آ پ نے وہ آواز نہیں سنی؟“ اِس نے اُکھڑی ہوئی سانسوں سے ایک انجان شخص کو اپنے پیچھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”سنی ہے۔ مگر اِس قسم کی آوازیں تو آتی ہی رہتی ہیں۔ مجھے کیا لگے۔ اپنے کام سے کام رکھتا ہوں۔“
”آپ۔۔۔؟اِس نے اُس کی آواز پہچانتے پوچھا،”اور یہ مونچھیں اتنی بڑی کیسے ہو گئیں؟ لگتا ہے فیس بک والی تصویر کافی پرانی ہے۔ اور وہ لمبے بال کہاں گئے؟“
”محبت میں تھوڑا بہت جھوٹ تو چلتا ہی ہے نا۔ اور تم نے دیکھا نہیں باہر کتنی گرمی ہے۔ اس گرمی میں لمبے بال بے وقوف ہی رکھیں گے۔ میں غلط تو نہیں کہہ رہا… ڈرو نہیں جانی۔ میں تمھیں کھا تھوڑی جاؤں گا، اندر آ جاؤ، یہاں ہی بولتے جانا اچھا نہیں لگتا۔“ اُس نے اعتماد کے ساتھ اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”اور یہاں اتنی خاموشی کیوں ہے؟ اور کیا لائٹ نہیں ہے؟“ دروازے سے داخل ہوتے اِس نے پہلا سوال کیا۔
وہ تھوڑا ٹھہرا، اس کی آنکھوں میں ڈر پڑھتے جواب دیتا ہے،” ایک تو یہ کہ ان فلیٹوں میں زیادہ تر دفتروں میں کام کرنے والے رہتے ہیں۔
ملازم لوگ۔ ایک دو اضافی چھٹیاں مل جائیں تو بھاگتے ہیں اپنے دیہاتوں کی طرف۔ پورا ملک جام ہے آج کل۔ جگہ جگہ مظاہرے اور جلسے جلوس۔ مولویوں کو آخر آئی ہوئی ہے۔ انھوں نے بھی فائدہ اٹھایا اور بھاگ گئے۔
دوسری وجہ یہ کہ اس کے ساتھ ایک اور فلیٹ ہے، وہ بھی خالی ہے۔ اس لیے اِدھر، اِس کونے کی طرف، کوئی آتا ہی نہیں۔ یہی ہے ہم دونوں کا فلیٹ،بس یہ ساتھ والا بھی اپنا ہی سمجھو جانی۔ سمجھ لو اپنا ہی ہے۔ دونوں تیس ستر کے ہیں، برابر…،“ اُس نے اِس کی آنکھوں میں پھڑکتی ہوئی بے چینی کو پڑھتے ہوئے جواب دیا۔
”اور یہ کہ میری ہر چیز تمھاری ہے۔ کہتے ہیں ہر مرد کی کام یابی کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ذرا اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دو۔“
یہ چپ چاپ کھڑی آس پاس دیکھتی رہی۔ ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ کر۔ اِس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ بلا، چڑیا دبوچے ایک محفوظ پناہ تلاش کر رہا تھا… پھر وہی چِیں چِیں کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔
دونوں کھلے ہوئے دروازے سے باہر دیکھتے ہیں۔ کالے بھجنگ بِلّے کے مُنھ میں چڑیا ابھی تک پھڑپھڑاتے، کلبلاتی اور چیختی جا رہی تھی۔ بِلّے کو کسی محفوظ جگہ کی تلاش تھی۔ اِن دونوں کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی آنکھوں میں چمک لیے، اپنے شکار کے سانس گننے لگ جاتا ہے۔”
میں چڑیا کو آزاد کرا دوں؟“ یہ کہتے ہی اِس نے باہر کی طرف قدم رکھنے کی کوشش کی ہی تھی کہ ایک دم لرز گئی۔ ایک لمبے آہنی ہاتھ نے اِس کی کلائی کو اس طرح جکڑ لیا تھا کہ اِس پر سکتہ طاری ہو چکا تھا۔ اس سنّاٹے میں وہ سامنے کھڑے دیو ہیکل شخص کو دیکھتی سنتی رہی:
”بھئی موج مستی کرنے دو اُسے۔ یہاں ہر کوئی کسی نہ کسی کو کھا رہا ہے۔ اِس کو کسی نہ کسی نے تو کھانا ہے۔ کوّے چیلیں شکرے، بس کھا رہے ہیں، ان کا اپنامقدر! بس جو پہلے کھا گیا، کھا گیا۔ قدرت کو یہی منظور ہے۔ دانے دانے پہ لکھا ہے، کھانے والے کا نام۔
چلو اندر کمرے میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔“ اُس نے اِس کا ہاتھ پکڑا اور کمرے میں لے جاتے ہوئے کہنے لگا، ”اِس منحوس چڑیا کی چیخوں نے میری بات کا ستیاناس کر دیا۔ ہاں تو میں پوچھنے لگا تھا کہ آئی ڈی کارڈ کہاں ہے؟ بیگ میں؟ اچھا رہنے دو ابھی، پھر دیکھتے ہیں سارے کاغذات، بتا دیناگھر والوں کو…“
دوسری منزل کے اس ویران سے فلیٹ کے دو بیڈ، ایک کچن اور ایک باتھ ہیں۔ ایک ویران سے کمرے میں ایک عام سا بیڈ پڑا ہے جس کے اوپر پنکھا چل رہا ہے۔ اسے بیڈ پر بٹھاتے اور اپنائیت سے پاس بیٹھتے اِس کے ہاتھوں سے کھیلنے لگتا ہے… ”ماں کی خواہش تھی…“
یہ اس کی طرف بے چینی سے دیکھتی ہے جیسے پوچھنا چاہ رہی ہو کہ ماں کی کیا خواہش تھی… لیکن پھر سے چیں چیں چیں کی دل خراش آوازیں چھت سے نیچے گر رہی تھیں۔
نوکیلے پنجوں کے سہارے بِلّا گھروں کی حدیں پھلانگتا اب بھی کسی سنسان جگہ کی تلاش میں تھا۔ تازہ گوشت بھری قسمت اُس کے جبڑوں میں آخری سانس لے رہی تھی۔ وہ واقعی قسمت کا دھنی تھا۔ اُس نے مچلتا ہوا دایاں ہاتھ اپنے چھوٹے چھوٹے بالوں بھرے سر پہ پھیرتے ہوئے کچھ سوچا اور خالی کمرے کے واش روم میں جلتی ہوئی لائٹ بجھانے کے لیے اٹھا پھر واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔
”آپ ماں کی خواہش بتارہے تھے،“ وہ اس کے جھکے ہوئے چہرے کو دیکھتے پوچھتی ہے۔ ”بتاتا ہوں… “ اور وہ خاموش نگاہیں جھکائے کچھ سوچنے لگتا ہے…
وہ چپ تھا، ایسے جیسے باہر ایک کونے میں بیٹھا بِلّا چُپ تھا۔ سانس لیتی ہوئی چڑیا کے جسم پر پنجے جمائے۔ اُس نے بیڈ کے نیچے پڑے کالی نال والے پستول کو ہاتھ میں پکڑا اور دروازے کی طرف بڑھنے لگا، اس کے لیے یہی ایک فیصلہ کن وقت تھا۔ اپنی شہادتی انگلی اپنے ہونٹوں کے قریب لاتے اُس نے اِسے خاموش رہنے کا یوں خوف ناک اشارہ کیا کہ یہ لرزتی ہوئی وہیں بیٹھی کانپنے لگی۔
”ایک فائر ماروں گا اور بلے کا کام تمام ہو جائے گا… بولو… جاؤں…؟“
یہ سب بھی اتنا اچانک ہوا کہ یہ خوف سے چپ بیٹھی رہی… جیسے لب سل چکے ہوں… یہ سوچ رہی تھی کہ وہ کالے رنگ کا پستول ہاتھ میں لیے دروازہ کنڈی لگاتا کتنا بھیانک زومبی لگ رہا تھا۔
لیکن وہ تو پچھلے دنوں فون پر بتا چکا تھا کہ پراپرٹی کے کام میں دلیری شرط ہے۔ لیکن یہ کیا… وہ تو بد معاشی کی حد تک دلیر ہو چکا…
اسے ایک اور دھچکا لگا… کچھ سمجھ آنے سے پہلے ہی اس کے اندر کا وحشی باہر آ چکا تھا۔ خوف اور خِفّت سے یہ اپنے اندر دھنستی جا رہی تھی۔ وہ تو بہت کچھ کہنے سننے آئی تھی۔ عمر بھر کی باتیں۔ اور کچھ اپنے گھر کی باتیں۔ مگر وہ تو پستول ہاتھ میں لیے کسی بھوکے اژدہے کی طرح اس کی پسلیوں کے گرد لپٹے جا رہا تھا۔
کہتا تھا تو جاگیر ہے، بس میری۔ اب اُس کی انگلیاں اس کی پلاٹنگ کرتی نیا نقشہ تیار کر رہی تھیں۔
یہ آنکھیں بند کیے بلّے کو دیکھ رہی تھی جو اِس کے بال و پر نوچ کر چڑیا کی کھال چاٹ رہا تھا۔” کسی طرح اُڑ گئی ہوتی… ایک موہوم سی خواہش اِس کے دل میں پر مارنے لگی۔ یا پھر اب تک مرچکی ہو گی…“
یہ اپنی گردن پر بد بُو دار زبان محسوس کرتے ہوئے سوچنے لگی تھی کہ اس کی لاش اس کے گھر تک کیسے پہنچے گی… اور گھر والے کیا سوچیں گے… اِس کی چیخوں اور سسکیوں کے بدلے، اس تاریک کمرے سے بس یہی جواب ملا تھا۔ “وہ کیا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔“
چڑیا بہت چیخی تھی۔ چلّائی تھی۔ مگر طاقت کے سامنے اِس کی چیخیں دھاڑیں بین سب دم توڑ گئے۔ پھڑپھڑاتی رہی مگر اِس کی آنکھوں کے سامنے اِس کے کھمب (پر) نوچ کر ایک طرف پھینک دیے گئے، ہر طرح سے بے بس کر کے جلدی جلدی اِسے سر سے پاؤں تک ایسے ادھیڑا گیا کہ اس کا جسم لِیرو لِیر ہو گیا۔
اپنے بچاؤ کی خاطر اِس کی چونچ اور ناک بازو بھی چھلنی ہوئے۔
نوکیلے دانتوں سے چھاتی چھلنی ہو گئی۔ زبان تالو سے لگ گئی۔ بازو، ٹانگیں اور پھر سارا گوشت نڈھال اور بے بس ہو گیا، ایسے جیسے کسی اژدھے کی ہیبت ناک جکڑ میں شکار ٹوٹتا چلا جاتا ہے۔ آنکھیں بند ہونے لگیں تو اِسے ایسا محسوس ہوا جیسے اِس کی بے بس ذات کو درمیان سے کسی کلھاڑے سے چیرا جا رہا ہو۔
ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ… زاور سے زبر، ز سے زیر، پ سے پیش… ط سے طاقت
[ نوٹ: اس بیانوی مداخلت کی ضرورت اس لیے پڑی کہ کچھ معاملات پر تبادلۂِ خیال جمہوری قدروں کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔ اس کہانی کی قرأت کے دوران آپ محسوس کر رہے ہوں گے کہ علامت، تجرید اور ایک رواں کہانی میں توازن رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
راوی نے علامت کیوں استعمال کی؟ ظاہر ہے علامت متن کی تہہ داری کا سبب تو بنتی ہے، ساتھ ہی راوی کی گردن کے تحفظ کی ضمانت بھی ہے۔
دوسرا یہ کہنا تھا کہ آپ کا اپنا تخیل ہے۔ کیا آپ کو علم نہیں کہ اس طرح کی شرم ناک خوف ناکیوں میں عورت کے (جسم کے) ساتھ کیا کچھ ہوتا (رہا) ہے؟ تو، خود، آپ اپنے تخیل میں کہانی کے درمیان والا حصہ متن کیجیے، ہمت کریں اور سوچیں، کہانی کا زیرِ ناف دھڑ، آپ کے تخیل کے حوالے۔
راوی کا یہ بھی کہنا ہے وہ خود کیوں ایک غارت گر مرد کی ہوس پرست لذتوں پر پوری بپتا لکھتے اپنا خون جلائے اور ایک کم زور عورت کی چیخیں دھاڑیں سنتے، اذیت سہے، پرائی آگ میں جلے۔ ہر بار راوی یا مصنف کی اخلاقیات کا ہی امتحان کیوں؟
تیسری بات، واقعی میں، آپ مان لیجیے کہ مرد لکھاری یا قارئین، خواتین کے تجربات سے بیانوی انصاف نہیں کر پاتے۔ اس افسانے کے حوالے سے، زیادہ تر مرد قارئین یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس لڑکی کے ساتھ بہت ظلم ہوا، زیادتی کی گئی، یا زبردستی کی گئی وغیرہ وغیرہ۔
اور عین ممکن ہے کچھ مرد حضرات ایسا رد عمل ظاہر نہ کریں کیون کہ وہ کہانیوں کے انجام کو مکافاتِ عمل سے مشروط کر کے دیکھتے ہیں۔
ایک سنجیدہ عورت کی قرأت، تشریح، تفہیم اور تعبیر، اس کے بر عکس، بہت مختلف ہو گی۔ اس کی بنیادی وجہ ہے سماج، کسی کہانی میں زبر اور زیر ہونے کے تجربات میں فرق ہوتا ہے۔
سو، اس کہانی کے قارئین (خواتین و حضرات) کو کہانی کی تخلیقِ نو کا وقت دیا جاتا ہے، تا کہ وہ اپنی جلد کی زبان اور صنفی محسوسات کے مطابق اپنے اذہان میں پورا واقعہ تشکیل دیں__ وہ بھی مرحلہ وار__ تمام اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے ہوئے۔
چوتھی، یہ کہ اس طرح کے فکشن میں راوی کو کچھ خلا چھوڑ ے پڑتے ہیں کیوں کہ حقیقت پسندی کے دعووں کے با وجود راوی کا تخیل آزاد نہیں۔
ایک نظریاتی ریاست اور سماج میں تخیل اور تخلیق دونوں کی حدود و قیود ہیں۔ ادبی، اور نفسیاتی حقیقت پسندی تو کسی بھی فعل کی جزئیات تک سے انصاف کا تقاضا کرتی ہے، ایسے ہی جیسے عدالت کسی ریپ کے بعد مرحلہ وار اکائیاں جوڑتی ہے، لیکن مروج تصورِ ادب میں ایسا ممکن نہیں۔
پانچویں، ممکن ہے کچھ لوگوں کو یہ غیر افسانوی تحریر نا گوار گزرے، لیکن کیا کریں یہ بھی ضروری تھا۔ شکریہ، چلیے کہانی کے انت کی طرف۔]
رالیں صاف کرتے ہوئے وہ پنجوں کے بل اُٹھا اور جلدی سے کپڑے پہننے لگا۔ قریب ہی کہیں فائرنگ کی آواز نے اسے تھوڑا مضطرب کیا۔ پاس پڑی گی سی دودھیا رنگت کی بدن بھری اذیت کو نظر انداز کرتے بولا، ”شرم کرو چادر تو اوڑھ لو۔ چلو اُٹھو اور رونا دھونا بند کرو۔ میری بات غور سے سنو۔ یہ موبائل سِم میں تمھارے سامنے توڑ رہا ہوں، جاتے جاتے سڑک کے کنارے کسی گٹر میں پھینک جاؤں گا۔ آنکھیں کھولو۔اپنے آپ کو سنبھالو۔ خُدا کی قسم تمھیں کچھ نہیں ہو گا۔“
پھر پستول اپنے نیفے میں دباتے ہوئے کہنے لگا۔ ”کچھ ہی دنوں بعد تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی۔ تم پیاری ہی اتنی ہو کہ میں اپنے آپ کو روک نہ سکا۔ بس… ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔“
اِس کی آنکھیں بَہ دستور بند تھیں۔ جان چکی تھی کہ ہڑپ ہو چکی، کالا بلّا اِسے اچھی طرح بھنبھوڑتا کھا چکا۔ یہ خوش نہیں تھی کہ یہ زندہ ہے۔ بس سوچ رہی تھی کہ زندگی بھر کا پچھتاوا، کیسے کتے کی طرح اس کا پیچھا کرے گا… اور یہ اس پچھتاوے سے بھاگتی قبر میں اتر جائے گی… کاش کہ اِس کا پہلا قدم اُس کی طرف نہ اٹھتا…
زندگی میں پہلا موقع تھا جب اِس سے اِس کی اپنی آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں۔ اِس پر سکتہ طاری تھا۔ اچانک اِس کی سماعت سے پھر ایک بھیانک آواز ٹکرائی۔ ”میں نے کہا نا رونا دھونا بند کرو ورنہ فائر مار کر ساری کہانی ختم کر دوں گا۔“
اِس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور چیختے ہوئے بولی۔”مارو نا… مارتے کیوں نہیں۔ کہانی تو ختم ہو گئی۔ اب میں نے کیا کرنا ہے زندہ رہ کر۔“
سارا وجود ایسے لرز رہا تھا جیسے کسی بھونچال کی جکڑ میں ہو۔ لرزتے ہوئے ہاتھ پاؤں اِس نے سمیٹتے ہوئے کہا، ”مجھے… برباد کر کے… تم جا رہے ہو…تم… مجھے… اس طرح… لیکن میری بات سنتے جاؤ۔“
اور یہ جسم کے ساتھ پاؤں سمیٹتے اور گھٹنوں میں مُنھ چھپائے سسکیاں لینے لگی۔ مگر اُسے جلدی تھی۔ ”دیکھو،“ وہ انھی قدموں پیچھے مڑکر دھاڑا،
”چیخو گی، پکارو گی تو مُنھ کالا کرو گی… اپنا اور اپنے خاندان کا زمانے بھر میں۔ اپنا حلیہ درست کرو جلدی سے۔“
شرٹ کے ایک کنارے سے اپنا مُنھ صاف کرتے اس نے ساری ہمت اکٹھی کی اور جواب دیا، ”دیکھنا میری بد دعائیں تجھے بھی ننگا کریں گی۔ یاد رکھنا۔ میرا خون کیا تم نے۔“
یہ ہچکیاں لینے لگی۔ اور وہ، اِس کی سسکیوں کی پروا کیے بَغیر، دروازے کی کُنڈی کھولتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھنے لگا… دو قدم باہر نکلا… پھر پلٹا اور نیفے میں ٹکائے پستول پر ہاتھ رکھ کر غرّانے لگا، ”لگتا ہے تجھے شرافت کی زبان سمجھ میں نہیں آتی… “
یہ چپ رہی اور ہچکیاں لیتے ہوئے اُس کی طرف نہیں، دروازے سے باہر دیکھنے لگی۔
”شرم کر شرم۔ بے وقوف عورت۔ اُٹھ اور اپنے کپڑے پہن۔ دفع ہو جا جلدی سے۔“ وہ، دو قدم پیچھے مڑتے اور کمرے کی ایک تاریک سی دیوار کے قریب پھینکے گئے اس کے مُنھ پر اس کے چھوٹے بڑے کپڑے پھینکتے ہوئے بولا۔
”میں تمہارے گھر تک جاؤں گی۔ کہاں تک بھاگو گے۔“ وہ اپنے کپڑوں سے اپنا جسم چھپاتے اور قمیص کی آستینوں سے آنسو پونچھنے لگی۔
”کون سا گھر؟ اللہ کی قسم سب جھوٹ ہے۔ پاگل عورت… جلدی کر۔‘‘ وہ اس کو کپڑے پہنتے دیکھتا ہے اور پھر دروازے سے باہر کی آوازوں پہ کان دھرتے ہوئے بولا۔
قریب ہی ڈبل روڈ پرسے شور اٹھتا ہے، وہ تھوڑی دیر بے چینی سے دروازے کی چوکھٹ پر ٹہلتا ہے۔
”جب تک زندہ رہوں گی تیرے لیے بد دعا کروں گی۔ خُدا تجھے غارت کرے۔“ اِس نے بھرائی ہوئی آواز میں اُسے بد دعا دی۔
لیکن اُس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اِسے آخری دفعہ دیکھا اور تیزی سے قدم اٹھاتے کمرے سے باہر نکل گیا اور یہ حلیہ درست کرتی… مردہ پاؤں پہ لڑکھڑاتی …
[یہاں حلیہ درست کرنے کے ثقافتی معنی ہیں جو قاری کی تفہیم سے مشروط ہیں، یہاں اس لڑکی نے اپنا حلیہ کیسے درست کیا، وہ مرحلہ وار اذیت کیسے طے کی، بَہ وجوہ نہیں لکھی جا سکتی۔
یہ مرحلہ بھی قاری کے تخیل اور اس کی تفہیم پر چھوڑا جاتا ہے، کہانی کے شروع میں بتا دیا تھا کہ اس فلیٹ میں ایک واش روم بھی ہے جس کی لائٹ جل رہی تھی، جو بعد میں اُس نے، بَہ وجوہ، بجھا دی تھی، کیا کہانی میں اس واش روم کا ذکر بے وجہ تھا؟
عام فہم کا متنی تقاضا یہی ہے کہ کہانی میں ہر وہ چیز جس کا ذکر ہو کہیں نہ کہیں اس کا استعمال بھی ہوتا ہے، خیر، یہ بھی قارئین، جن میں خواتین و حضرات دونوں شامل ہیں، کے تخیل پر منحصر ہے کہ وہ واقعات کی کڑیاں کس طور ملاتے ہیں]
… اپنے جوتے پہننے لگی۔
وہ اس دوران یہ فیصلہ… کر چکی تھی کہ اُس کا چہرہ نوچ ڈالے گی۔
دروازے سے باہر نکلتے ہوئے اِس نے بائیں طرف دیکھا۔ معروف ہاؤسنگ کالونی کے بلاک نمبر چار میں تیس ستر کے فلیٹ کے باہر پھولے ہوئے پیٹ کے ساتھ کالا بِلّا انگڑایاں لے رہا تھا۔
”لعنت ہے تیری شکل پر،“ یہ اُس پر نفرت بھرا جُوتا پھینکتے ہوئے بولی۔ غُرّاتا ہُوا بِلّا تیزی سے اِس کے پاس سے گزر گیا۔ یہ بھی اُس کے پیچھے پیچھے، جوتا اٹھاتے، سیڑھیاں اترنے لگی اور چھوٹی سڑک سے ہوتے مین روڈ کی طرف مُڑی۔
دور بجلی کے کھمبے کے پاس اِسے وہ بھی مُڑتے ہوئے دکھائی دیا جہاں پولیس ناکہ لگائی کھڑی تھی۔ اِس نے زور سے چیختے ہوئے پولیس کو آواز دی اور اُس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی:
”اُس سفید شلوار قمیض والے کو پکڑو۔ وہ میرا مجرم ہے… اس نے میرا… یہ…” چلتے چلتے وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔
پولیس کے ساتھ ساتھ یہ چیخ اُس کے کانوں سے بھی ٹکرائی۔ نیفے پر ہاتھ رکھ کر وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگا اور پھر ایک دم بھاگنے لگا۔
پولیس کو اس کی چال پر شک ہوا۔ ڈنڈے ہاتھوں میں لیے کچھ سپاہی اُس کے پیچھے پکڑو پکڑو کہتے بھاگنے لگے۔
حلیے کی پروا کیے بَغیر یہ بھی سینڈل گھسیٹتی اسی طرف جا رہی تھی جہاں چوک سے شور بلند ہوتا دیواریں ہلا رہا تھا۔
اِس کے اور اُس کے درمیان ایک ہجوم حائل ہو چکا تھا جو پولیس چوکی کو دیکھ کر ایک دم بپھرا اور اچھل اچھل کر ارد گرد کی املاک کو آگ لگانے لگا تھا۔
یہ، آنسووں سے تر آنکھوں سے، ہجوم کے پار ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھتے اُسے تلاش کرنے لگی۔
پہلے تھوڑی گرد سڑکوں سے اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے تیز ہوائیں جھکڑوں میں بدلنے لگیں۔ رنگ بَرنگے کپڑوں سے مُنھ سر چھپائے کچھ لوگ ملعون دُکانوں پر پتھر پھینکنے لگے، جیسے زومبیز گلیوں اور سڑکوں میں جمع ہوتے جاتے ہیں، ایسے ہی یہ لوگ اکٹھے ہوتے جاتے اور جو ہاتھ لگے پھینکتے جاتے۔
دیواروں پر لٹکے اشتہارات جلنے لگے تھے۔ یہ دُکان مردُود، وہ دفتر کفر کی آوازیں کان پھاڑ رہی تھیں۔ اِسے ایسا لگا جیسے اِس کا جلاؤ گھیراؤ ہو چکا ہے اور پتھر اِس کے چہرے اور سر سے پاؤں تک جسم کے ہر حصے کو چھلنی کرتے نیچے گر رہے ہیں۔ انہی قدموں پر اِس نے اپنے آپ کو سنگ سار ہوتے اور بُری طرح بھسم ہوتے بھی محسوس کیا۔
آگے بڑھتے زومبیز کی بھیڑ میں بھوکی پیاسی یہ اپنے آپ کو جھکڑ سے بچانے ایک دُکان کے ساتھ اوپر کے فلیٹس کی طرف جاتی سیڑھیوں میں چھپتی ہے۔
ہجوم کے پار کا منظر تھوڑا واضح ہوا تو اِس نے اسی زمین میں زلزلہ محسوس کیا جہاں اِس کے لڑکھڑاتے قدم دیوار کے سہارے اُسے تلاش کرنے میں سنبھل رہے تھے۔
عین چوک کے پار جُوں ہی پولیس کے چند سپاہی ڈنڈے برساتے اُس کے پاس پہنچتے ہیں تو ایک دم اس نے نیفے میں کَسے پستول کو ہوا میں لہرایا اور ایک دو تین اکٹھے فائر کر دیے۔ تینوں پولیس والے، انہی قدموں پر جمے یوں نیچے گرے جیسے گولیاں ان کے ٹخنوں کے آر پار نکل گئی ہوں اور دہشت مارے یہ انھی سیڑھیوں پر گر چکی تھی جہاں اس کی ٹانگیں جھکڑ میں لرز رہی تھیں۔
ایسا نہ ہو کے اب آگ اسے جلا کر راکھ کر دے، یہ وہیں بیٹھی چیختی چلانے لگی، لا یعنی آوازوں کے بھوت، کچھ دیر بعد، کفر شکن آگ برساتے پاس سے گزرتے گئے۔ اِس دوران، اِس کا مجرم قرار اِس کی نظروں سے بہت اوجھل ہو چکا تھا۔ کہاں… ؟ اِسے نہیں معلوم…
اُسے کیا معلوم کہ یہ اُسے دیکھ رہی تھی کہ نہیں، وہ تو، سر پٹ، بھاگتا جا رہاتھا، نیفے پر ایک ہاتھ رکھے۔ پیچھے اُس کے پولیس لاٹھیاں برساتی قریب تر ہوتی جا رہی تھی۔ بھاگتے بھاگتے اُسے بائیں طرف ایک وسیع میدان ملا جسے ٹینکی والا گراونڈ کہتے ہیں، اب میدانِ جنگ بن چکا تھا، جس کی ایک طرف کچھ درخت تھے، ان درختوں کے نیچے پولیس کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ لیکن سپاہی لوگوں پر آنسو گیس، ماں بہنوں کی گالیاں اور لاٹھیاں برسانے میں مصروف تھے۔
اُس نے پیچھے مڑکر دیکھا۔ پیچھے بھی پولیس اور آگے بھی، کچھ غلیظ گالیاں اُس کے سر پر بھی پڑیں لیکن یہ موقع جان بچانے کا تھا۔ اُس نے نیفے سے پستول نکالا اور پولیس والوں کی طرف اکٹھے تین فائر کیے تا کِہ پولیس ڈر کر پیچھے ہٹ جائے۔
جب پولیس تھوڑی پیچھے ہٹی تب، وہیں، ایک سرکاری عمارت کی اوٹ سے، پستول قمیص میں چھپاتے، وہ بھی میدان میں داخل ہوا جو بپھرے ہوئے ہجوم اور پولیس کی بھاری نفری کے درمیان تصادم کا مرکز بنا ہوا تھا۔
بھاگتے بھاگتے وہ لڑکھڑا کے نیچے گرنے لگا جیسے چار ٹانگوں پر آ چکا ہو۔ پستول اُس کے نیفے سے پھسلا اور پاؤں کی ٹھوکر سے دور جا گرا۔ مگر اب اس کے پاس وقت کم تھا۔
آنسو گیس کے گولے، اس کے آگے پیچھے، گر رہے تھے۔ کچھ لوگ، جن کے چہرے اُس سے کافی مختلف تھے، اور جو اپنے زخمی ساتھیوں کو اٹھاتے اونچی آوازوں میں نعرے لگاتے پتھر پھینکتے جا رہے تھے۔ انھوں نے بھی اسے حیرت سے دیکھا۔ عین ممکن تھا کوئی بپھرا ہوا پتھر اس کا کام تمام کر دیتا۔
جب پولیس والے درختوں کے پیچھے رکتے شیلنگ کرنے لگے، کچھ فاصلے پر، زمین سے اُٹھتے ہوئے دُھویں کے پاس اُسے سفید رنگ کی ایک کچلی ہوئی ٹوپی ملی۔
اپنے قدموں پر جھکتے ہوئے جلدی سے اُس نے اُٹھائی، سر پر رکھی… اور اچھل اچھل کر کفر کے خلاف، نعرے لگاتا پولیس پر پتھراؤ کرنے لگا۔