شیریں مزاری، اپنی ٹویٹس میں وہ دوسرا ٹیگ کس کو تھا؟
نصرت جاوید
غلط یا صحیح،عرصہ ہوا دُنیا یہ بات طے کرچکی ہے کہ پاکستان میں منتخب سیاست دانوں کی حکومت کا اس ملک کی خارجہ پالیسی طے کرنے میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔ 2008ء سے منتخب ہوتے وُزرائے اعظم اس تاثر کو جھٹلانے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف رہے۔
یوسف رضا گیلانی نے ایک بار معصومیت سے پارلیمان میں یہ سوال اٹھادیا تھا کہ اُسامہ بن لادن کو پاکستان آنے کا ویزا کس نے دیا تھا۔ ”ریاست کے اندر ریاست“ کی بات بھی کہہ ڈالی۔ ”میموگیٹ“ کی وجہ سے ذلیل وخوار ہوگئے۔
ارسلان کے ابو ویسے بھی ان دنوں چیف جسٹس کے منصب پر بیٹھے وطن عزیز کو کرپشن سے پاک کرنا چاہ رہے تھے۔ ”قوم کی لوٹی ہوئی دولت“ کو ملکی خزانے میں واپس لانا بھی انہوں نے اپنا ہدف بنارکھا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مگر ضروری تھا کہ یوسف رضا گیلانی بحیثیت وزیراعظم پاکستان اپنے ہی ملک کے صدر کے بارے میں سوئس حکومت کو ایک خط لکھ کر معلوم کریں کہ آصف علی زرداری نے وہاں کے بینکوں میں کتنی رقوم جمع کر رکھی ہیں۔ گیلانی نے وہ خط لکھنے سے انکار کر دیا۔ ”حیف ہے اس قوم پر….“ کی دُہائی کے ساتھ توہین عدالت کے مجرم قرار دے کر گھر بھیج دیے گئے۔ ان کے بعد آئے راجہ پرویز اشرف نے بالآخر وہ ”چِٹھی“ بھی لکھ دی۔ قوم مگر ابھی تک نہیں جان پائی ہے کہ آصف علی زرداری نے سوئس بینکوں میں کتنے ڈالر جمع کروا رکھے تھے۔ انہیں ملکی خزانے میں واپس لانا تو دور کی بات ہے۔
اس کالم میں ذکر ہمیں قوم کی لوٹی ہوئی دولت کا نہیں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کرنا ہے جس کی تشکیل میں دنیا اور خاص کر ہمارے دشمن ممالک کا دعویٰ ہے کہ منتخب سیاسی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ 1990ء سے شروع ہوکر 2013ء میں تیسری بار وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے والی ”تاریخ“ بنانے کے بعد نواز شریف نے دشمن کے پھیلائے اس تاثر کو جھٹلانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل پر ہمارے ریاست کے دائمی،خاص کر عسکری اداروں کا مکمل اجارہ ہوا کرتا ہے۔ اس ضمن میں اگرچہ ان کی پہلی کوششِ پرواز کے بعد ہمیں ”مودی کا یار“ والی بات سننے کو ملی۔ ابھی تک وہ اس طعنے سے نجات حاصل نہیں کرپائے ہیں۔
لاہور میں ہوئے حالیہ ضمنی انتخاب نے بلکہ ثابت یہ کیا کہ ”مودی کا یار“ والا طعنہ مسلم لیگ کے روایتی ووٹروں کو ”ملی مسلم لیگ“ جیسی جماعتوں کی حمایت پر مجبور کردیتا ہے۔ ممتاز قادری کی پھانسی سے ناراض ہوئے ووٹروں کی تعداد بھی خاصی معقول ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات تک ”مودی کے یار“ اور ممتاز قادری کی پھانسی سے ناراض ہوئی جماعتیں یقینا اس قابل ہوجائیں گی کہ پنجاب کے تقریباََ ہر حلقے سے نون کے لاحقے ولی پاکستان مسلم لیگ کے 15 سے 20 ہزار تک ووٹ ”خراب“ کرسکیں۔
شاید اسی باعث وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد شاہد خاقان عباسی ”اداروں سے معاملات درست کرنے کی“ ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔ اپنی ”حب الوطنی“ کا مظاہرہ کرنے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ سیاہ شیروانی پہن کراس سے خطاب بھی کیا۔ بھارت اور افغانستان کے بارے میں ان کی تقریر کے ذریعے وہ پیغام کھلے اور واضح الفاظ میں دے دیا گیا ہے جو ایمان کی حرارت سے مالا مال پاکستانی عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے کئی برسوں سے دینا چاہ رہے تھے۔ میری بدقسمتی البتہ یہ رہی کہ شاہد خاقان عباسی کے ایمان افروز خطاب کے وقت پاکستان میں رات کے تین بجے ہوئے تھے۔ ہمارا اجتماعی ضمیر شاید اس وقت بھی جاگ رہا ہوگا مگر آنکھیں اور کان نیند سے بند ہوچکے تھے۔ ہم پاکستانیوں کے لیے وزیراعظم کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب لہذا ”جنگل میں مورناچا….“ والا معاملہ ہوگیا۔
بھارت کی وزیر خارجہ اس تقریر سے البتہ بہت چراغ پا ہوئی ہیں۔ اپنے ملک کی جانب سے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کی قدیمی اور جیالی کارکن نے ہندی زبان میں پاکستان کے خلاف وہ سب کچھ کہاجو بھارت کی گلیوں میں ووٹ لینے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اس کے خطاب کے لیے وقت بھارت کے سفارت کاروں نے وہ لیا جو اس خطے میں شام کے 8سے نو بجے کے درمیان ہونے کی وجہ سے ٹیلی وژن کا پرائم ٹائم کہلاتا ہے۔ بھارتی شہریوں کی اکثریت نے اپنی وزیر خارجہ کو شاہد خاقان عباسی کو نام لے کر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی سکرینوں کے ذریعے براہِ راست دیکھا۔
سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے جید سفارت کار اپنے وزیراعظم کی تقریر کے لیے وہ time slot کیوں manage نہ کر پائے جب ہم پاکستانیوں کی اکثریت بھی اپنے ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھی ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے دفتر سے ایسا سوال اٹھایا ہی نہیں جائے گا۔ اٹھا بھی دیا تو اس کا جناتی انگریزی میں ایسا جواب آئے گا جسے سمجھنے کو اک عمردرکار ہوگی۔
ایمان داری کی بات ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی تقریر کے ساتھ ”جنگل میں مور ناچا….“والا معاملہ ضرور ہوا مگر سفارت کارانہ حوالوں سے یہ ایک سخت۔انتہائی مدلل اور پاکستان کے کیس کو کھل کر بیان کرنے والی تقریر تھی۔ اس تقریر سے اگرچہ تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری ہرگز مطمئن نہیں ہوئی ہیں۔ اپنے ٹویٹس کے ذریعے وزیر اعظم کی تقریر کی خامیاں بیان کرتی رہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے فقط وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا کڑا جائزہ ہی نہیں لیا۔ نیویارک میں قیام کے دوران وزیراعظم نے جس فورم سے بھی خطاب کیا، ڈاکٹر صاحبہ نے اسے تنقیدی نگاہ سے دیکھا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی ایک بہت ہی متحرک رکن ہوتے ہوئے وزیر اعظم کی نیویارک میں مصروفیات پر نگاہ رکھنا ان کا حق تھا۔ ایک حوالے سے فرض بھی کہ مجھ ایسے جاہل پاکستانی اپنے وزیر اعظم کی کارکردگی کا جائزہ ڈاکٹر صاحبہ کی نگاہ سے لے پاتے جو دفاعی امور کی ایک جید استاد بھی ہیں۔
ڈاکٹر شیریں مزاری کے شاہد خاقان عباسی کی نیویارک میں مصروفیات پر تنقیدی ٹویٹس دیکھتے ہوئے مجھے اچانک احساس ہوا کہ انہوں نے اپنے کئی ٹویٹس میں DG-ISPR کو بھی tag کیا ہوا تھا۔ انٹرنیٹ کی زبان میں tag کرنا کسی شخص کو اپنے پیغام کی نقل بھیجنے کے مترادف ہے۔ میرے ذہن میں معصومانہ سوال صرف یہ اٹھا تھا کہ دفاعی امور کی ایک جید عالم اور استاد محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری جو پاکستان کی ”سب پر بالادست“ ہونے کی دعوے دار پارلیمان کی رکن بھی ہیں، وزیر اعظم کی نیویارک میں کارکردگی پر تنقیدی ٹویٹس لکھتے ہوئے DG-ISPR کو tag کیوں کر رہی تھیں۔ کیا اس tagging کا مقصد عسکری قیادت کو آگاہ رکھنا تھا کہ وزیر اعظم deliver نہیں کر پارہا ہے اور پاکستان کو اب دنیا سے do more کا تقاضا کرنے کے لیے کوئی اور راستہ ڈھونڈنا ہوگا۔
اس سے بھی اہم بات یہ کہ ”دشمن“ کی صرف ”زبان ہی نہیں، آنکھیں بھی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے تنقیدی ٹویٹس اور اس میں واضح tagging سے اسے پیغام کیا دیا گیا ہے۔ ماﺅف ہوئے ذہن والے سرکو اپنے ہاتھ میں پکڑے مجھے سمجھ ہی نہیں آرہی کہ مذکورہ بالا سوالات کے جواب لکھنے کی حماقت کر ہی ڈالوں یا نہیں۔
روزنامہ نوائے وقت کا شکریہ