شکریہ پروفیسر
نصرت امین
اَگست کی تین تاریخ شروع ہوچکی تھی اور رات کوئی ڈیڑھ بجے کا وقت تھا۔ پروفیسر جمال الدین نقوی کو ایک تیز رفتار ایمبولینس میں کلفٹن کے ایک اسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ میں اپنی کار میں ایمبولینس کے پیچھے تھا کیونکہ مجھے بروقت اطلاع مل چکی تھی۔ اسپتال پہنچنے کے کوئی پندرہ منٹ بعد بتایا گیا کہ پروفیسر اس دنیا میں نہیں رہے۔
چند لمحوں بعد جیو نیوز پر خبر نشر ہوئی اور پھر ایک کے بعد ایک ملکی و غیرملکی آن لائن سروسز پر پروفیسر کے حالاتِ زندگی، سیاسی خدمات اور انگریزی ادب سے اُن کی وابستگی سے متعلق مضامین پڑھنے کو ملے۔ کسی نے کمیونسٹ پارٹی سے ان کی وابستگی پر روشنی ڈالی اور کسی نے مارکسٹ رجحانات سے جمہوریت پسندی کی جانب اِن کے نظریاتی سفر پر قلم اٹھایا۔ سو اندازہ ہوگیا کہ پروفیسر کی زندگی سے جڑے تمام اہم حقائق بیان کئے جاچکے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ میں تو بچپن میں پروفیسر کے گھر کے سامنے لگے ہوئے ایک گھنے پیپل کے نیچے کرکٹ کھیلا کرتا تھا۔ مجھے تو لکھنا ہو گا۔
یہ شاید 1975کی بات ہے۔ ہماری فیملی فیڈرل بی ایریا سے نارتھ ناظم آباد شفٹ ہوئی تو اُس گھنے پیپل کو اپنے نئے گھر سے چند قدم دور لگا دیکھا تھا۔ وہیں ایک شام کرکٹ کھیلتے تین بچوں نے میری خواہش پر مجھے کھیل میں شامل کرلیا۔ کھیل جاری تھا کہ اچانک نیکر اور شرٹ میں ملبوس ایک بچہ بغیر کچھ کہے بیٹ اور بال تھام کر پیپل کے بالکل سامنے والے گھر میں داخل ہوگیا۔
پتہ چلا کہ یہ بچہ بڑا نجمی ہے، چھوٹا نجمی سامنے والی گلی میں رہتا ہے اور یہ بھی کہ بڑے نجمی کے ابا کا نام پروفیسر جمال الدین نقوی ہے۔ وہی جو سرمئی سی ویسپا پر آتے جاتے ہیں۔ چند ہی روز بعد مجھے اور بڑے نجمی کو اوپر تلے نئی بائی سائیکلز مل گئیں سو دوستی پکّی ہوگئی۔
نوازشریف کی جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور واپسی سے متعلق خبریں سنیں تو کم از کم 28 سال پہلے کی ایک شام یاد آگئی۔ جمال صاحب گھر کے آنگن میں بیٹھے کہہ رہے تھے، ’’(پاکستان میں) فوج کی بالادستی کے خلاف سب سے پہلے خود پنجاب ہی مزاحمت کرے گا۔‘‘ پروفیسر کا کہنا تھا کہ پنجاب میں شہریت اور متوسط طبقے کے بڑھنے کی رفتار باقی تین صوبوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور یہی دو عناصر مزاحمت کا سب سے طاقتور منبع ثابت ہوتے ہیں۔
بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے کچھ قوم پرست حلقے پروفیسر کے اس تجزیے سے متفق نہیں تھے؛ بلکہ ناراض تھے! اُن خیال تھا کہ دیہی سندھ میں بہترسیاسی شعور اور بلوچستان میں مستقل ریاستی ظلم و ستم کے سبب مزاحمت کی فیصلہ کن لہر اِنہی دو صوبوں سے اٹھنے کے امکانات کہیں زیادہ روشن ہیں۔
پروفیسر کے تجزیے سے اختلاف کرنے والوں کی یہ انقلابی باتیں کسی ہندوستانی آرٹ فلم کے ڈائیلاگ جیسی متاثر کن ضرور تھیں لیکن اَب کوئی تین عشرے مکمل ہونے کوہیں اور اِن کی ’’فیصلہ کن لہروں‘‘ کا دور دور تک پتہ نہیں۔ البتہ اس عرصے میں تین بار ایک پنجابی وزیر اعظم کو گھر ضرور بھیجا گیا ہے۔
آج پروفیسر کی کہی بات اس لیے بھی سچ ہوتی نظر آرہی ہے کہ نواز شریف ایک صنعت کار ہیں اور صنعت کاری سے ان کی خاندانی وابستگی صوبہ پنجاب میں متوسط طبقے کے پھیلاؤ سے براہ راست تعلق رکھتی ہے اور اِس وقت جبکہ سندھ اور بلوچستان میں مزاحمتی سیاست اور تحریکوں پر بظاہر جمود طاری ہے، نااہل قرار دیا جانے والا سابق پنجابی وزیراعظم، خاص عناصر کی جانب سے مبینہ تنبیہ کے باوجود، جی ٹی روڈ پر قافلے کی صورت میں لاہور کی جانب رواں دواں ہے۔
پروفیسر سے جڑی یادوں کی اس بارات میں وہ دن بھی شامل ہے جب بڑے نجمی نے فون پر گھرآنے کو کہا۔ شام کو پہنچا تو دیکھا کہ ان کے گھر میں اور بھی مہمان ہیں۔ پروفیسر صاحب نے مجھے لان میں موجود ایک انتہائی باوقار خاتون کے ساتھ والی کرسی پر بٹھا دیا! لوگ خاتون کے گرد منڈلا ہی رہے تھے کہ مجھ پر انکشاف ہوا کہ وہ اردو کی سب سے بڑی ناول نگار قرۃ العین حیدر ہیں! میری کیفیت ناقابل بیان تھی۔
اس یادگار شام کا ایک یادگار ڈرامہ اُس وقت رونما ہوا جب ایک معتبر مہمان مصنفہ سے مخاطب ہوئے، ’’آپ کا ناول ’’آگ‘‘ بے مثال ہے۔‘‘ اپنے ناول ’’آگ کا دریا ‘‘ کا غلط نام سن کر قرۃ العین حیدر کچھ بے آرام سی ہوگئیں، بولیں: ’’کم از کم میں نے ایسا کوئی ناول نہیں لکھاـ‘‘ ماحول کو تلخ ہوتا دیکھ کر پروفیسر نے مہمان کا دفاع کیا، ’’ارے بھئی، ایک لفظ کہنے کے بعد اکثر ان کا گلا بیٹھ جاتا ہے۔‘‘ قرۃ العین حیدر صاحبہ سے ہنسی ضبط نہ ہوسکی؛ اور ماحول ٹھیک ہوگیا۔
نوّے کی دہائی میں بڑے نجمی کے امریکہ چلے جانے کے بعد بھی دیر سویر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پروفیسر سے قربت بڑے نجمی سے میری دوستی کا خوبصورت ترین محاصل تھی۔ اس دوران ہم نے کئی گھر بدل ڈالے؛ اور غالبا ً 2003 کے وسط میں ایک بار ان کے گھرپہنچا تو معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب کینٹ کے علاقے میں شفٹ ہورہے ہیں۔ میری بچپن کی یادوں میں بسے اس گھر میں ہر طرف سامان بکھرا پڑا تھا۔
تھوڑی دیر کے لیے گیٹ سے باہر آیا تو سامنے پیپل کے گھنے پیڑ کو اپنی جگہ دیکھ کر نہ جانے کیوں کچھ ڈھارس سی بندھ گئی۔ پھر پہلی بار اُن کے نئے گھر گیا تو پروفیسر کا پہلا جملہ تھا، ’’جانتا ہوں تمہیں یہ گھر زیادہ پسند نہیں آئے گا؟‘‘
میں سال 2013 میں اپنی والدہ کے ساتھ ہندوستان گیا جہاں بہت سے اپنوں سے مل کر میری دنیا بدل گئی۔ واپسی کے چند ہفتوں بعد پروفیسر کے گھر گیا تو میری ہندوستان یاترا پر بات کرتے ہوئے کسی سوچ میں گم ہوگئے، بولے، ’’میاں تمہارا آبائی علاقہ الہ آباد سے کتنی دور ہے؟‘‘ میں نے بارہا انہیں ہندوستان جاکر اپنوں سے ملاقات کا مشورہ دیا۔ ایک دن کہنے لگے، ’’میاں اگر میں چلا گیا تو مجھے یہاں واپس نہیں لا سکوگے۔‘‘
اگرچہ پروفیسر کو پاکستان میں بھی بہت عزت و توقیر ملی لیکن سوچتا ہوں کہ اَگر قرۃ العین حیدر، سجاد ظہیر اور طلعت محمود کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پروفیسر بھی ہندوستان لوٹ جاتے تو شاید ان کی اہمیت کو سمجھنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی: آبادی نہیں بلکہ آگہی کی سطح میں فرق کے سبب! شاید انہیں وہاں وہ رتبہ مل جاتا جس کے وہ مستحق تھے۔
پروفیسر کی علالت کے سبب گزشتہ ہفتے بڑا نجمی کراچی پہنچا؛ اور دو اگست کی شام اِن ہی کے گھر پر ہماری ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران محسوس ہوا کہ پروفیسر کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ کوئی آدھی رات کے وقت گھر لوٹ رہا تھا کہ بڑے نجمی نے سیل فون پر فوراً گھر آنے کو کہا۔ وہاں پہنچا تو ایک ایمبولینس پروفیسر کی گھر کی جانب بڑھ رہی تھی؛ اور یہی وہ ایمبولینس تھی جس کا میں نے اسپتال تک پیچھا کیا تھا۔
جمعرات تین اگست کی شام پروفیسر جمال الدین نقوی کی تدفین کے بعد واپسی پر پرانے محلے سے گزرنے کا دل چاہا۔ پہنچا تو دیکھا کہ اب وہاں نہ پروفیسر کا پرانا گھر موجود تھا اور نہ ہی پیپل کا گھنا درخت ! لیکن کہتے ہیں کہ مادّہ اور نظریات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ تغّیر اُنہیں قائم رکھتا ہے؛ کسی نہ کسی انداز میں، ہمیشہ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ