سیاست اور فلسفہ
(از، برٹرینڈ رسل، ترجمہ کار: نصیر احمد)
برطانوی جدید یورپی اقوام میں نمایاں ہیں۔ ایک طرف اپنے فلاسفہ کی مہارت اور دوسری طرف فلسفےکی حقارت کے باعث۔ ایک لحاظ سے دونوں طرح کے برطانویوں کا رویہ خرد پر مبنی ہے۔ لیکن فلسفے کی حقارت اگر اتنی بڑھ جائے کہ وہ ایک نظام کی شکل اختیار کرلے تو ہ بذات خود فلسفہ بن جاتی ہے۔ یہ وہ فلسفہ ہے جسے امریکی اوزار پسندی کہتے ہیں۔ اگر یہ اوزار پسندی برا فلسفہ ہے تو بھی میرے خیال میں اس منفی احترام کے لائق ہے جس کے قابل ہم چیتوں اور آسمانی بجلی کو سمجھتے ہیں۔
مثبت فلسفے کا کس قدر احترام کیا جائے؟ میں اس سوال کو ایک کھلا سوال ہی رہنے دیتا ہوں۔
فلسفے اور سیاست کا تعلق یورپ کے دوسرے ملکوں کی نسبت برطانیہ میں کم واضح ہے۔ خرد پسندی جدیدیت سے وسیع بنیادوں پر مربوط ہےلیکن ہیوم ایک ٹوری تھے اور فلسفی جسے مثالیت پسندی کہتے ہیں اس کا قدامت پسندی سے گہرا ناتا ہے لیکن ٹی ایچ گرین لبرل تھے۔
یورپ کے دوسرے ملکوں میں یہ (برطانوی انھیں بر اعظمی کہتے ہیں اور لارڈ رسل نے بھی یہی کہا ہے) فرق صاف ظاہر ہے، وہاں نظریات کے ایک سلسلے کو مکمل طور پر ماننے اور مسترد کرنے کی زیادہ آمادگی پائی جاتی ہے، ہر علیحدہ حصے کا تنقیدی جائزہ لیے بغیر۔
اکثر مہذب ممالک میں فلسفہ زیادہ تر زمانوں میں ایک ایسا معاملہ رہا ہے جس پر حکام اور سرکاری رائے کا بہت اثر رہا ہے جہاں جمہوریت اور آزادی کی کمی ہے وہاں ابھی تک فلسفے کے معاملے میں حکام اور سرکاری رائے کو اسی طرح کی اہمیت حاصل ہے۔
جیسے کیتھولک کلیسا ابھی تک ٹامس ایکونس کے فلسفے کا علم بردار ہے اور سوویت یونین مارکس کا۔ناٹزیوں(ناژیوں) نے کانٹ سے کسی حد تک وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے جرمن مثالیت کو اپنایا۔ حتی کہ فختہ اور ہیگل بھی بالترتیب واضح طور پر ترک نہیں کیے گئے۔
کیتھولک، اشتراکی اور ناٹزی سمجھتے ہیں کہ ان کے عملی سیاست کے بارے میں خیالات ان کے نظریاتی فلسفے کے پابند ہیں ۔جمہوری جدیدیت کی ابتدائی کامیابی بھی لاک کے تجربہ پسند فلسفے سے منسلک کی جاتی ہے۔
میں فلسفوں اور سیاسی نظاموں میں موجود باہمی تعلق کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہوں۔فلسفہ ایک ایسا لفظ ہے جو کسی اعتبار سے ایک جامد تعریف کا حامل نہیں ہے۔مذہب کے لفظ کی طرح۔ جب اسے تاریخی ثقافتوں کے کچھ خاص خدوخال بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے معانی ان معانی سے مختلف ہوتے ہیں جب اسے دماغ کے مطالعے یا دماغ کے رویوں کی تفہیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فلسفے کو دماغی مطالعے کا سیاق و سباق موجودہ دور میں احسن سمجھا جاتا ہے۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ ان مختلف معانی میں مفید منطقی رشتہ ہے۔ اگر منطقی نہیں تو کسی حد تک ان میں نفسیاتی ہونی کی کوئی قسم پائی جاتی ہے۔ جس حد تک بھی سیاست اور فلسفے میں کوئی باہمی تعلق ہے اس حد تک ایک فرد کا فلسفہ بنی نوع انسان کی مسرت و بدحالی سے مربوط ہو سکتا ہے۔
مغربی جمہوری دنیا کے دانش کدوں میں فلسفہ کم ازکم نیت کے حوالے سے علم کی وہ تلاش ہے جس کا مقصد اس غیر جانبداری کا حصول ہے جو سائنس میں برتی جاتی ہے۔ یعنی فلسفہ حکام کا غلام نہیں ہے کہ وہ نتائج اخذ کرے جو سرکار کے لیے سہولت خیز ہوں۔
فلسفے کے اکثر اساتذہ نہ صرف اپنے طلبا کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی خواہش کی تردید کر دیں گے بلکہ وہ اس نظریے کو بھی مسترد کر دیں گے کہ فلسفے کو خیر کا درس دینا چاہیے۔ وہ کہیں گے کہ خیرو پارسائی کا فلسفی سے، ماہر طبیعات اور ماہر کیمیا کی طرح کم ہی ناتا بنتا ہے۔ وہ یہ بھی کہیں گے کہ دانش گاہ میں تعلیم کا واحد مقصد علم کا حصول ہے اور نیکی کو والدین، سکول ماسٹروں اور کلیساوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔
لیکن فلسفے کے بارے میں یہ نکتہ نظر جسے میں بھی پسند کرتا ہوں کافی جدید ہے۔ اتنا جدید کہ جدید دنیا میں کم ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔
فلسفے کے بارے میں ایک اور کافی مختلف نکتہ نظر بھی ہے جو ازمنہ قدیم سے رائج ہے۔ فلسفے کی سماجی اور سیاسی اہمیت اسی نکتہ نظر کے مرہون منت ہے۔
اس تاریخی نکتہ نظر کے تناظر میں فلسفہ سائنس اور مذہب کا ایک آمیزہ تیار کرنے کی کوشش کی پیداوار ہے۔یا شاید یوں کہنا درست ہو گا کہ فلسفے کا مقصد ایک نظریے میں کائنات کی نوعیت اور اس میں انسان کے مقام کا امتزاج حاصل کرنا ہے۔ یہ امتزاج ایک قابل عمل اخلاقیات کا حامل بھی ہو جو زندگی کے بہترین اصول وضع کرے۔
فلسفہ اس حقیقت کے باعث مذہب سے مختلف تھا کہ کم از کم یہ رسمی طور پر حکومت اور روایات کو خاطر میں نہ لاتا تھا اور سائنس سے یہ اس حقیقت کے سبب مختلف تھا کہ اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگوں کو بتائے وہ زندگی کیسے گزاریں۔
اس کے کائناتی اور اخلاقی نظریات باہم مربوط تھے۔ کبھی اخلاقیاتی مقاصد فلسفی کے کائناتی نظریوں پر اثر انداز ہوتے تھے اور کبھی کائنات کے بارے میں اس کے افکار اخلاقیاتی نتائج حاصل کرنے میں اس کی رہنمائی کرتے تھے۔
اکثر فلسفیوں کے حساب میں اخلاقی آراء سیاسی اثرات کی حامل تھیں۔ کوئی جمہوریت کا حامی تھا تو کوئی اشرافیہ کا، کوئی آ زادی کا مدح خواں تھا تو کوئی نظم و ضبط کا۔
اسے بھی ملاحظہ کیجئے: آزادی اور انسانی معاشرہ از برٹرینڈ رسل ، ترجمہ قاضی جاوید
تقریبا ہر قسم کا فلسفہ یونانیوں کی ایجاد تھا۔ اور ہمارے دور کے تنازعے سقراط سے پہلے بھی پوری شدتوں کے ساتھ موجود تھے۔
سیاست اور اخلاقیات کا بنیادی مسئلہ سماجی زندگی اور فرد کی آرزوؤں کی تشفی کا کوئی راستہ ڈھونڈنا ہے اور یہ راستہ مختلف طریقہ ہائے کار سے تلاش کیا جاتا ہے۔ جہاں حکومت موجود ہوتی ہے وہاں کرمنل لاء ان کی سماج دشمن کاروائیاں روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو حکومت کا حصہ نہیں ہوتے۔ اور قانون کو مذہب کی کمک پہنچائی جاتی ہے کیونکہ مذہب کے مطابق نافرمانی بدکاری ہوتی ہے۔
جہاں ملاؤں کے گروہ کافی با اثر ہوتے ہیں وہاں کسی حد تک حاکم بھی قوانین کے ماتحت ہو جاتے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں عہد قدیم اور ازمنہ وسطی کی تواریخ میں مل جاتی ہیں۔ جو بادشاہ دل سے دنیا میں آسمانی حکومت اور آخرت میں سزاو جزا کے نظام پر یقین رکھتے ہیں وہ خود کو مطلق العنان نہیں سمجھتے۔ اور ضمیر کی خلش کے بغیر گناہ نہیں کر سکتے۔
اس احساس کا اظہار ہیملٹ میں بادشاہ نے کیا ہے جب وہ خدائی انصاف کے بے لچک ہونے کا موازنہ دربار شاہی سے منسلک منصفوں کی کاسہ لیسی سے کرتا ہے۔
فلسفیوں نے سماجی آہنگ کی سلامتی کے مسئلے سے نبرد آزما ہوتے ہوئے سرکاری مذہب کے پیش کردہ حل کی نسبت عقیدے پر کم از کم دارومدار کرتے حل ڈھونڈے ہیں۔ زیادہ تر فلسفہ تشکیک پسندی کے خلاف ایک رد عمل ہی رہا ہے۔ اس کا عروج انھی زمانوں میں ہوا جب حکومتیں معاشروں کے لیے ضروری عقائد مہیا کرنے کے لیے کافی نہیں رہیں۔ اور عقائد کی بابت یہی نتائج حاصل کرنے عقلی دلائل ایجاد کیے گئے۔یہ مقصد ایک سنگین منافقت کا سبب بنا جس نے فلسفے کو کھوکھلا کر دیا خواہ وہ قدیم فلسفہ ہو یا جدید۔
ایک خوف پایا جاتا رہا ہے، اکثر تحت االشعور میں کہ واضح سوچ انتشار پھیلا دے گی۔ اور اس خوف نے فلسفیوں کو دروغ اور دھند میں چھپنے پر مجبور کر دیا۔
بے شک کچھ استثنیات بھی پائی جاتی رہی ہیں، جیسے متقدمین میں فیثا غورث اور متاخرین میں ہیوم۔ دونوں اپنی اپنی تشکیک پسندی کے نتیجے میں قدامت پسند تھے۔ فیثا غورث کو علم ہی نہیں تھا کہ دیوتاؤں کا کوئی وجود ہے لیکن اس نے یہی پرچار کیا کہ بہرحال دیوتاؤں کو پوجنا چاہیے۔ اس کے مطابق فلسفے کا اخلاقی تعلیم سے کچھ مطلب نہیں۔ لیکن اخلاق کی بقا کے لیے ہمیں اکثریت کی بے علمی اور ان کی کچھ بھی بتائے گئے کو ماننے کی آمادگی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اور روایات کی مقبول قوت کو شکست دینے کے لیے کچھ بھی نہ کیا جائے۔
کچھ حد تک ہیوم کے معاملے میں بھی یہی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ اپنے خاص افکار پیش کرنے کے بعد ہیوم تسلیم کرتا ہے کہ انسان ان پر عمل نہیں کر سکتے۔ علاوہ ازیں وہ ایک عملی نصیحت کرتا ہے جس پر اگر عمل کیا جا ئے تو ہیوم کا کوئی بھی مطالعہ نہ کرے۔
وہ کہتا ہے کہ صرف بےپروائی اور عدم توجہی ہی ہمارا درمان ہیں اور اسی وجہ سے میں ان پر مکمل بھروسہ کرتا ہوں۔اس تناظر میں وہ اپنے ٹوری ہونے کے اسباب نہیں بتاتا۔ لیکن یہ واضح ہے کہ لاپرواہی اور عدم توجہی انسانوں کی رہنمائی نہیں کر سکتی۔
ہابس اگرچہ ہیوم سے ذرا کم تشکیک پسند تھا لیکن ہیوم کی طرح اس بات کا قائل تھا کہ حکومت کی کوئی الوہی اساس نہیں ہوتی اور بے یقینی کی سڑک پر ہیوم کے نقش قدم پر چلتا ہوا انتہائی قدامت پرستی کی وکالت کرنے لگا۔
پروتا غورث کا جواب افلاطون نے دیا تھا جبکہ ہیوم کا جواب کانٹ اور ہیگل نے دیا۔دونوں جوابوں کے سلسلے میں دنیائے فلسفہ نے پر طمانیت سانس بھری اور جوابوں کی دانشورانہ معقولیت پر ازراہ کرم غور کرنے سے گریز کیا حالانکہ ہر جواب سے فکری اور سیاسی نتائج وابستہ تھے۔ ہیوم کے جواب کے سلسلے میں لبرل کانٹ کی بجائے رجعت پسند ہیگل کی فکر کے سیاسی نتائج رونما ہوئے۔
اپنی گہری تشکیک پسندی کے باوجود ہیوم اور پروتاغورث اتنے زیادہ با اثر نہیں رہے بلکہ انھیں تو زیادہ تر رجعت پرستوں نے بے عقل عقیدہ پرستی کے فروغ کے لیے لوگوں کو ڈرانے کے لیے استعمال کیا۔ تشکیک پسند افلاطون اور ہیگل کے پر اثر مخالف نہ تھے ۔ در اصل یہ دیموقراطیس اور لاک جیسے تجربہ پسند تھے جنھوں نے افلاطون اور ہیگل کی پر اثر مخالفت کی۔دونوں صورتوں میں حواس پسندی جمہوریت سے وابستی تھی اور تھوڑی بہت افادی اخلاقیات سے متعلق۔
ہیگل اور افلاطون اپنے فلسفے کو لوگوں کے سامنے ایک اچھے اور گہرے فلسفے کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے جو راہ گیروں کی عمومی ذہانت سے بدرجہا بہتر تھا۔ دونوں صورتوں میں یہ نیا فلسفہ گہرائی کے نام پر بے انصافی، زیادتی، اور ترقی سے اختلاف کی مخالفت کا چیمپئین بن گیا۔ ہیگل کے سلسلے میں یہ ان حقائق کی کچھ نہ کچھ تفہیم موجود ہے لیکن افلاطون کے بارے میں ابھی کچھ غلط فہمی باقی ہے جسے دور کرنے ڈاکٹر کے آر پوپر نے اپنی نئی کتاب میں ایک عمدہ کوشش کی ہے۔
دیو جانس لائیریٹیز کے مطابق افلاطون نے اس نکتہ نظر کا اظہار کیا تھا کہ دیموقراطیس کی سب کتابیں جلا دینی چاہئیں اور اس کی خواہش اس اعتبار سے پوری بھی ہو گئی ہے کہ دیموقراطیس کی کی تحریریں محفوظ نہیں کی جا سکیں۔افلاطون نے تو اپنے مکالموں میں دیموقراطیس کا ذکر ہی نہیں کیا البتہ ارسطو نے اس کے خیالات کا ایک مختصر سے خلاصہ پیش کیا۔ ایپیکیورس نے دیموقراطیس کو کافی سطحی کردیا ۔ آخرکار لائیریٹیز نے دیموقراطیس کے خیالات منظوم کر کے محفوظ کر دیے۔
ارسطو کے تنازعے اور لائیریٹیز کی شاعری کے ذریعے دیموقراطیس کی بحالی آسان نہیں۔ یہ تو ایسے ہے جیسے لاک کی ارادہ ازلی کی تردید کے ذریعے افلاطون کے خیالات تک رسائی کی سعی کی جائے یا وان کے مصرعے ‘کل شب میں ابدیت کا تماشائی تھا’ کے ذریعے سے۔ بہرحال افلاطون کی دیموقراطیس کے لیے نفرت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
دیموقراطیس اور لاسی پس کی وجہ شہرت ایٹم پسندی ہے جس کی وکالت انھوں نے مابعدالطبیعاتیوں کے اعتراض کے باوجود کی۔اور یہ اعتراض مابعد الطبیعاتی بعد کے زمانوں میں بھی کرتے رہتے رہے جن میں لایبنز اور ڈیکارٹ بھی شامل ہیں۔ تاہم دیموقراطیس کی ایٹم پسندی اس کے عمومی فلسفے کا محض ایک حصہ تھی۔وہ ایک مادہ پسند، تقدیر پسند، آزاد خیال افادہ پسند تھا جو تند جذبات کو ناپسند کرتا تھا، اور فلکیاتی اور حیاتیاتی ارتقا پر یقین رکھتا تھا۔
اٹھارویں صدی میں اسی طرح کے خیالات کے حامل لوگوں کی طرح دیموقراطیس ایک مستند جمہوری تھا۔ وہ کہتا ہے کہ جمہوریت میں غربت کو آمریت کی خوشحالی پر وہی ترجیح حاصل ہے جو ترجیح آزادی کو غلامی پر حاصل ہے۔ وہ سقراط اور پروتا غورث کا ہمعصر تھا بلکہ پروتا غورث کا تو وہ گرائیں بھی تھا۔پیلیپونیزین جنگ کے ابتدائی سالوں میں اس نے بہت ترقی کی۔ اس کی موت شاید اس جنگ کے خاتمے سے کچھ عرصہ پہلے ہی ہوئی۔
یہ جنگ دنیائے یونان کی جمہوریت اور اشرافیہ کے درمیان جدوجہد کی آئینہ دار تھی۔ سپارٹا کی ریاست امراء کے لیے جنگ آزما تھی۔ ایتھنز میں افلاطون، اس کا خانوادہ اور ان کے دوست رئیسوں کی حکومت کے حامی تھے۔ ایک طرح سے وہ ناروے کے ناٹزی (ناژی) غدار کوزلنگ کی مانند تھے۔ان سب کی غداری نے ایتھنز کو اس جنگ میں شکست سے دوچار کرنے میں ایک کردار ادا کیا۔ اور شکست کے بعد افلاطون نے فاتحین کی خوشنودی کے لیے ایک ایسا مثالی سیاسی نظام وضع کرنے کا بیڑا اٹھایا جس کے بنیادی خدوخال اس نے سپارٹا کے سیاسی نظام سے نقل کیے تھے۔
لیکن افلاطون کی فنکارانہ صلاحیتیں شاندار تھیں جن کے باعث لبرلز نے اس وقت تک اس کے نظام کے رجعتی رجحانات کی طرف چنداں توجہ نہیں دی جس وقت تک لینن اور ہٹلر جیسے اس کے شاگردوں نے اس کے نظام کے عملی نمونے نہیں پیش کیے تھے۔
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.