سدرہ سحر عمران کی انتباہی شاعری

Dr Salahudin Dervish
ڈاکٹر صلاح الدین درویش

سدرہ سحر عمران کی انتباہی شاعری

از، ڈاکٹر صلا حُ الدِّین درویش

یہ سِنہ 1993 کی بات ہے جب میں نے پہلی مرتبہ اردو نثری نظم کا وکالت نامہ بَہ عنوان نثریa نظم، اکیسویں صدی کی شاعری داخلِ حلقۂِ اربابِ ذوق راول پنڈی کیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ وہاں موجود سینئر، جونیئر اور مہا جونیئر، شاعروں، ادیبوں اور ناقدین میں میرا ہم نوا ایک بھی نہ تھا۔ سچی بات تو یہ تھی کہ سِنہ 1993 تک جن بزرگوں اور نیم بزرگوں نے نثری نظم کے انار چھوڑے تھے ان کی چنگاریاں انتہائی مدھم اور بے جان تھیں۔

پابند اور آزاد نظم کی صوتی ریں ریں اور اس میں خیال کی بھرتی میں آنے والے الفاظ اور ان کی تراکیب سے ابھرنے والے اسالیب سے انحراف کی جن صورتوں کا ذکر میں نے اس مضمون میں کیا تھا، اور اس کے مقابلے میں نثری نظم کے اسلوب کو واضح کیا تھا، مضمون میں مذکور تمام شعراء اس معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔

بحر اور اوزان کی پابندی سے نجات نثری نظم میں کیسے ممکن ہے، ہمارے پیارے شعراء ابھی اس سے آگاہ نہیں تھے۔ سارہ شگفتہ کی نظموں کا مجموعہ آنکھیں بھی اس حوالے سے انتہائی مایوس کن حوالہ تھا۔ اس میں موجود نثری نظموں کی وجۂِ شہرت خود یہ نظمیں ہر گز نہیں تھیں، بَل کہ ان نظموں کے غُلغلے کا سبب ان کی داستانِ حیات تھی۔

غرض میرے مضمون میں نثری نظم کے جس اسلوب اور فکری طاقت اور اس کا اظہار درکار تھا، نثری نظم کی تاریخ اس حوالے سے بہت کم زور تھی۔

سِنہ 2010 میں ملتان کے محمد یاسر گوہر جو خود نثری نظم کے با کمال شاعر ہیں اور جن کا مجموعہ تا دمِ تحریر شائع ہونے سے قاصر رہا ہے، انھوں نے مجھے ایک نثری ساحر شفیق کہ نظموں کا مجموعہ پڑھنے کے لیے دیا۔ مجموعے کا عنوان تھا خود کُشی کا دعوت نامہ۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد مجھے نثری نظم کے مستقبل کا ٹھیک ٹھاک اندازہ کرنے میں بالکل دیر نہ لگی۔

ان کی نظموں میں محبت، جنس، سیاست، عصری حالات، تاریخی تناظرات، ثقافتی جبریت، تنہائی اور ہجوم میں فرد کی بے زاری جس طرح گھل مل کر آرٹ کی صورت میں ڈھلی یہ ایک بڑا کار نامہ تھا جو نثری نظم کی ہیئت میں منظرِ عام پر آیا۔

ان نظموں کا content اور اسلوب ایسا ہموار تھا جو اپنی پڑھت میں ایک قاری کو بحر اور اوزان کی اضافی گرفت سے آزاد کر دیتا ہے۔ ان کی ہر نظم ایک ایسے art piece کے طور پر سامنے آئی جو اپنے جواز کے لیے نظم ہونے کے مسلمہ اصول و قواعد سے آزاد تھی۔ یہ خالص نثری نظم تھی اپنی پوری طاقت، شدت اور جمالیات کی نئی حِس کو بیدار کرتی، اپنی صنف کی خصوصیات کو نمایاں کرتی اور قرات کا نیا حلقہ بناتی، آزاد اور خود مختار بنیادوں پر کھڑی تھی۔

آنے والے برسوں میں کچھ اور نو جوان شاعروں نے نثری نظم کے حوالے سے سر اٹھایا اور ان نظموں نے قارئین کا ایک بڑا حلقہ بھی پیدا کر لیا؛ ان قارئین کا جن کو نثری نظم کو پڑھتے ہوئے نہ کوئی تکلیف ہوتی تھی اور نہ ہی انھیں نثری نظم کی مصنوعی اور اسلوبیاتی پیش کاری سے کوئی شکایت ہوئی۔

ان نو جوانوں میں زاہد امروز کی نثری نظموں کا مجمو عہ خود کشی کے موسم میں، فراق ہالیپوٹا کا مجموعہ دنیا گول نہیں ہے، وجیہ وارثی کا حیرت اور دریافت کا کھیل، روش ندیم کا دہشت کے موسم میں لکھی نظمیں، سید کاشف رضا کا مجموعہ ممنوعہ موسموں کی کتاب، اور حال ہی میں حفیظ تبسم کا مجمو عہ دشمنوں کے لیے نظمیں شامل ہے۔

نثری نظموں کی ان آوازوں میں ایک نسوانی آواز بھی شامل ہوئی کہ جس نے اپنی نظموں کے پہلے مجموعے ہم گناہ کا استعارہ ہیں کے ذریعے نثری نظم کی صنف میں ایک اور طرح کا اسلوب متعارف کروایا۔ اس کا نام سدرہ سحر عمران ہے۔


سدرہ سَحَر عمران کی شاعری میں سے چند نظموں کا ایک گُل دستہ یہاں دیکھیے:

ہمارے شناختی کارڈ میں ولدیت کا خانہ نہیں ہے از، سدرہ سَحَر عمران


شروع شروع میں جب اس گُم نام سی لڑکی کی نظمیں فیس بک کی زینت بنیں تو ہماری حوا بے زار اردو دنیا میں انھیں بھی کوئی مرد سمجھا گیا کہ جو عورت کے تین لفظی نام سے شہرت کے بازار میں بغیر کسی اجازت کے چلا آیا ہے، کیوں کہ ایسے جان دار اسلوب، متنوع معانی کی حامل نظموں کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ کوئی نہ کوئی مرد ہونا چا ہیے۔

خیر الزامات کا ایک طوفانِ بد تمیزی تھا جو اٹھا لیکن جلد ہی جھاگ کی طرح بیٹھتا بھی چلا گیا۔

جب سدرہ کی ایک کے بعد ایک نظمیں سامنے آنے لگیں تو ان کی نظموں کی پذیرائی بھی دردِ سر بننے لگی، لیکن ہم گناہ کا استعارہ ہیں آنے کے بعد اس لڑکی کی نظم، ان کے اسلوب اور فکری اظہار کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا۔ وہ شاعر، ادیب اور ناقدین جو سدرہ کی نثری نظم کے تجربے پر مُنھ میں گھنگھیاں ڈالے بیٹھے تھے، اب آہستہ آہستہ کھلنے لگے۔ انھوں نے اپنے آپ کو منوانے کے لیے کوئی زور نہ لگایا بَل کہ ان کی طبیعت اور مزاج کی شگفتگی، طنز اور کاٹ نے وہ سارا کام کر دکھایا جس کے لیے کسی بھی نمائشیت پسند شاعر کو عمریں درکار ہوتی ہیں۔

سدرہ سحر عمران کے جہانِ شعر کا تعلق اکبر الٰہ آبادی، علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کے قبیلے سے ہے۔

اکبر مسلمانانِ ہندوستان کو انگریز، انگریزی تعلیم اور ان کے شناختی اقدار سے بچانا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ نئی مغربی تہذیبی تقلید ان کے اصل یعنی مشرقی اور اسلامی اقدار کو سیدھا نگل جائے گی اور ہندی مسلمان دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کو بھی خراب کر بیٹھیں گے۔

اقبال بنیادی طور پر اکبر ہی کی فکر کے نمائندہ شاعر ہیں جو بات طنز اور مزاح کے پیرائے میں اکبر نے ہندوستانی مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی اسی بات کو اقبال نے موضوعاتی تنوع اور توسیع کے ساتھ اپنی اردو اور فارسی شاعری میں پیش کیا۔

فیض احمد فیض بھی مشرقی تہذیبی روایات کے شاعر ہیں، لیکن اپنی شعری تخلیقات میں انہوں نے اشتراکیت کے ترقی پسند نظریات کو جگہ دی۔ وہ طبقاتی تقسیم کے خلاف تھے۔ طبقاتی تفریق اور اس کی موجودگی میں تشکیل پانے والا یہ معاشرہ فیض کا ہدف بنا۔ انھوں نے مظلوم طبقات کی نمائندگی کرتے ہوئے حکمران اور بالا دست طبقات سے نجات کے لیے سرخ انقلاب کی نوید سنائی۔

سدرہ سحر عمران کی نثری نظمیں، بَل کہ بیش تر نثری نظمیں اپنی تخلیق میں اکبر، اقبال اور فیض کی طرح واضح اور دو ٹوک موقف اور مقصد رکھتی ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی مشرقی، ہندوستانی اور مسلمانوں کی ثقافتی اقدار کی قدامت پسند روایات کے احیاء کو ضروری سمجھتے تھے۔ علامہ اقبال نے جدید اسلامی فکری اساس پر اپنی شاعری کو استوار کیا۔ جس کا مقصد مغربی جدیدیت کے مقابلے میں اسلام کے جدت پسند ماڈل کو منظرِ عام پر لانا تھا۔ انھوں نے اپنی فکری تشکیل میں مسلمانوں کے شان دار ماضی اور اسلاف کے کارناموں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو جدید تمدن میں اپنی اسلامی شناخت کو زندہ رکھنے کا مشورہ دیا۔

فیض کی ترقی پسندی اور روشن خیالی کو مذہب سے کچھ علاقہ نہ تھا، لیکن اشتراکیت کی عالمی تحریک کے زیرِ اثر انھوں نے ہندوستانی اور پاکستانی مسلمانوں اور تمام مذاہب و اقوا م سے تعلق رکھنے والے افراد کو جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام کے زیرِ اثر محکوم بنائے جانے اور مسلسل رکھے جانے کے خلاف تاریخ کے مادی شعور کو اجاگر کیا۔

سدرہ سحر عمران کے لیے مذہب، ثقافت، اقدار، روایات، قدامت، جدت اور طبقاتی نظام کوئی زیادہ اہمیت کے حامل باتیں نہیں ہیں۔ ان کے لیے اہمیت اس بات کی ہے کہ جس مذہب، ثقافت، جدت، قدامت اور طبقاتی نظام میں انسان اور بالخصوص پاکستانی مسلمان بستے ہیں، اور ان سب کی بنیاد پر جس صالح معاشرے کے قیام کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کے اعمال کی دنیا ان سب سے قطعی مختلف ہے۔ مذہب کا نام لیتے ہیں لیکن مذہب لوگوں کے لیے ایک نمائشی لباس کے سوا کچھ نہیں۔ جس ثقافت پر نازاں ہیں وہ ثقافت ان کی درندگی کو انسانیت میں بدل دینے میں بری طرح نا کام ہے؛ جس جدت کو اپنا یا گیا ہے اس جدت کے پسِ پردہ فرسودہ اور بیمار ذہنیت قلانچیں بھرتی پھرتی ہے۔ جس قدامت کو اپنا بھرم قرار دیتے ہیں، اس قدامت کی انسانی قدریں انہیں چھو کر بھی نہیں گزریں۔ جن اقدار و روایات کے وہ امین بنے پھرتے ہیں وہ زورِ خطابت کو مہمیز دینے کے سوا کچھ نہیں اور جس طبقاتی نظام کو ختم کرنے کے دعوے اب غیر مارکسی بھی کرتے پھرتے ہیں وہ خود حکمران بالا دست طبقات میں شمولیت کے لیے بے چین و بے قرار ہیں۔

اقوال و افعال کے ان کھلے اور تلخ ترین تضادات کو سدرہ سحر عمران نے اپنی نظموں کا مو ضوع بنایا ہے۔ سدرہ نے اپنی کسی بھی نظم میں کوئی نیا بیانیہ دینے یا جاری کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ صرف یہ بتانا چاہتی ہیں کہ ارضی و سماوی بیانیوں کی یلغار میں انسان اپنے اپنے جن بیانیوں سے جڑے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی عملی زندگیاں ان بیانیوں کے علمی، فکری اور نظریا تی مقاصد کے حصول سے خالی ہیں۔

سدرہ سحر عمران کی شاعری کے لیے جو اصطلاح بنا کر استعمال کی جا سکتی ہے اسے انتباہی شاعری قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ شاعری انتباہ کرتی ہے کہ انسان نے اپنے گرد جو مادی وسائل سے ترقی کے بلند و بالا پہاڑ کھڑے کر دیے ہیں ان میں وہ خود کہیں بونا بن کر رہ گیا ہے اس کی انسانیت دفن ہوتی چلی جا رہی ہے۔ وہ اپنے مقاصد کی تلاش میں کہیں خود مرتکز ہو کر عالمِ انسان سے اپنے تعلق کو کھو چکا ہے۔ وہ خود اپنی ذات اور صفات کا دشمن بن چکا ہے۔ تاہم وہ اپنی بربادیوں کے ذمے داروں کو اپنے پورے اندھے پن کے ساتھ دوسروں میں ٹٹولتا پھر رہا ہے۔

سدرہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ وہ (انسان) اپنے وجود میں موجود درندے اور اس کی سفاک چالاکیوں سے آگاہ ہونے کی کوشش کریں وہ آگاہ کرتی ہیں کہ ہماری بے حسی کا وہ ڈرامہ کبھی play نہ ہو پائے گا جس میں ہماری پامالی اور اہانت کا قصہ بیاں ہوا ہے۔

سدرہ سحر عمران، گرامچی کی طرح دُہائی دے رہی ہیں کہ ہم پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی بنیاد غربت، نسلی کم تری، یا قومی و ثقافتی ابتری نہیں ہے، بَل کہ ہم خود ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگتے، ایک دوسرے کی عزت کو لوٹنے، ایک دوسرے کو رُسوا کرنے، ایک دوسرے کے گھروں پر ڈاکے ڈالنے، ایک دوسرے کے ایمان پر فتویٰ لگانے، ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالنے، آگے بڑھنے کے لیے ایک دوسرے کو دھوکا اور دھکا دینے کا الزام، غربت، نسل اور قوم کی خود ساختہ اور نمائشی وجوہات پر لگانے میں ماہر ہو چکے ہیں۔ جن قومی، ثقافتی، نسلی، لسانی، تہذیبی اور مذہبی بیانیوں کی عظمت کے ہم گُن گاتے ہیں ان سب کی علمی و عملی برکتیں ہمارے کمروں، گھروں، محلوں، چوک، چوراہوں، دیہاتوں اور شہروں سے اٹھ چکی ہیں۔ ہماری زبانیں ان بیانیوں کا ورد کرتی ہیں اور دماغ ٹھٹھے اڑاتے ہیں۔

سدرہ کی نظم ہمیں بتاتی ہے کہ خدا خاموش تماشائی نہیں ہے۔ اس کے خلاف جو دیدہ و نا دیدہ سازشیں کی جاتی ہیں وہ علیم و خبیر ہے، معاملات کی کوئی بھی صورت اس سے پوشیدہ نہیں ہے، لیکن ہر جرم کی وہ سزا جو اس نے انسان کے لیے تجویز کر رکھی ہے، انسان خود ہی اپنے لیے ایسا انتظام بھی کر لیتا ہے کہ وہ خود اپنی سزا کا شکار ہو جاتا ہے۔ خدا ان کو شر اور فساد سے بچانے کی تدبیر کرنا چاہتا ہے لیکن لوگ نیکی اور ہم دردی کے بَہ جائے اپنے حقِ انتخاب میں شر اور فساد لکھوا لیتے ہیں۔ لوگ نیکی انجانے میں کرتے ہیں اور گناہ اپنے پورے شعور اور رغبت کے ساتھ۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ خدا کی ڈھیل کب ختم ہوتی ہے اور پکڑ کا آغاز کب ہوتا ہے۔

سدرہ کی نظم ہمیں مطلع کرتی ہے کہ ڈھیل کا دورانیہ تھوڑا طویل کیا ہوا ہے۔ انسان سمجھ بیٹھا ہے جیسے اب اسے خدا کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے قہر اور انصاف میں خود کفیل ہو چکا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ کچھ چھینٹیں خدا کے دامن تک بھی پہنچ رہی ہیں لیکن ڈھیل کے دورانیے نے صاحبانِ علم و دانش کو دھوکے میں رکھا ہوا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قانون، حکومت اور ریاست خدا کے متوازی ایک بہترین انتظام ہے۔ سدرہ کی نظم انسانی نظام کی اس bracket پر بڑے بڑے سوال اٹھاتی ہے اور اس نظام کی سفاکی اور دیدہ دلیری اپنے قاری پر منکشف کرتی ہے۔

سدرہ کی نظم کا اسلوب، اس کے موضوعاتی تنوع اور اختصاص نے خود دریافت کیا ہے، سدرہ کی لفظیات ہر گز مستعار نہیں ہیں۔ وہ بیان جاری کرنے کے بَہ جائے لفظی پیکر تراشتی ہیں۔ ہر نظم کی دیوار پر آٹھ دس تصاویر ٹانک دیتی ہیں کہ جن کے معنی تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ ناظر معاصر تاریخ، سیاست، معاشرت، مذہب و ثقافت کی مختلف صورتوں اور مسائل پر گہری نظر بھی رکھتا ہو۔ سدرہ کے مصنوعی جہان سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن ان کی نظم کا آرٹ قاری کو آرٹ سے متعلق نظریاتی مباحث میں توسیع کا تقاضا ضرور کرتا ہے۔